انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


ماسکو پہنچ کے میخائل آویریانچ نے فوجی کوٹ جس کے شانوں میں جھبے نہیں لگے تھے اور پتلون جس کے پائینچوں کی سیونوں پر اوپر سے نیچے سرخ فیتے سلے ہوئے تھے، پہن لیا۔ وہ فوجی ٹوپی اور اوورکوٹ پہن کر باہر نکلتا تھا اور سڑکوں پر سپاہی اسے سلامی دیتے تھے۔ اندریئی یفمیچ کو اب وہ ایک ایسا شخص نظر آیا جس نے دیہی شرفا کی تمام اچھائیاں اڑا دی ہوں اور اس کے پاس صرف برائیاں ہی باقی بچی ہوں۔ ضرورت نہ ہو تب بھی اسے دوسروں سے خدمت لینے کا بڑا شوق تھا۔ ماچس کی ڈبیا سامنے میز پر رکھی ہوتی، اسے دیکھتا پھر بھی چلا کے نوکر کو پکارتا اور کہتا کہ ماچس اٹھا دو، خادمہ کی موجودگی میں بھی صرف اندرونی کپڑے پہنے پہنے اِدھر اُدھر آنے جانے میں عار نہیں کرتا تھا، نوکروں کو خواہ وہ سن رسیدہ ہی کیوں نہ ہوں ”توں“ کہہ کر ہی مخاطب کرتا اور غصے میں ہوتا تو انہیں بے وقوف اور بدمعاش بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ اندریئی یفمیچ جانتا تھا کہ دیہی شرفا کا وطیرہ ہی یہی ہے پر اسے ان حرکتوں پر سخت تنفر محسوس ہوتا۔

میخائل آویریانچ نے سرگرمیوں کا آغاز اپنے دوست کو ایویرسکایا خانقاہ میں عبادت کے لئے لے جا کر کیا۔ خود اس نے سر کو زمین تک جھکا کر، ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بڑے خضوع و خشوع سے عبادت کی جس کے بعد گہری ٹھنڈی سانس لی اور کہا:

”آدمی دین دار نہ ہو تب بھی عبادت سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ شبیہ کا بوسہ لیجیے، میرے دوست۔ “

اندریئی یفمیچ نے بھونڈے پن سے جھک کر ہدایت پر عمل کیا لیکن اس اثناءمیں میخائل آویریانچ نے اپنے ہونٹ سکوڑے، چپکے چپکے پھر دُعا مانگی اور اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو تیرنے لگے۔ اس کے بعد وہ دونوں کریملن گئے، شاہی توپ اور گھنٹے کو دیکھا اور انہیں اپنی انگلیوں کی نوکوں سے چھوا بھی۔ دریا کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد وہ دونوں حضرت عیسیٰ کے گرجے میں گئے اور رومیانسیف میوزیم دیکھا۔

کھانا تیستوف ریستوران میں کھایا گیا۔ میخائل آویریانچ اپنے گل مچھوں کو تھپتھپا تھپتھپا کے فہرست طعام کو دیر تک پڑھتا رہا پھر کھانوں اور شرابوں کے کسی ماہر کے لہجے میں جو ریستوران آنے کا عادی ہو، ویٹر سے کہا:

”دیکھتے ہیں کہ آج آپ کاہے سے ہماری ضیافت کرتے ہیں! “

ڈاکٹر ہر جگہ جاتا، سب کچھ دیکھتا، کھاتا پیتا لیکن میخائل آویریانچ سے شدید الجھن کے سوا اور کوئی کیفیت اس کے ذہن پر نہ طاری ہوتی۔ وہ اپنے دوست کی مسلسل موجودگی سے تنگ آچکا تھا، اس سے جان چھڑانے اور کہیں چھپ جانے کو بے تاب ہو رہا تھا پر میخائل آویریانچ تو سائے کی طرح ساتھ لگے رہنے اور حتیٰ الامکان اس کا دل بہلانے کو اپنا فرض تصور کر رہا تھا۔ کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ہوتی تھی تو وہ اپنی باتوں سے تفریح کا سامان فراہم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اندریئی یفمیچ نے یہ سب دو دنوں تک تو جوں توں جھیلا لیکن تیسرے روز طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرکے کہا کہ وہ تمام دن باہر نہ نکلے گا۔ اس کے دوست نے کہا کہ اس صورت میں وہ بھی کہیں نہ جائے گا نیز یہ کہ واقعی آرام کی ضرورت ہے ورنہ پیدل چلتے چلتے ان لوگوں کے پاؤں جواب دے جائیں گے۔ اندریئی یفمیچ نے صوفے پر لیٹ کے منہ دیوار کی طرف موڑلیا اور بھنچے ہوئے دانتوں کے ساتھ اپنے دوست کی باتیں سننے لگا جو بڑے جوش و خروش کے ساتھ اسے یقین دلا رہا تھا کہ فرانس دیر سویر جرمنی کے پرخچے اڑا دے گا اور یہ کہ ماسکو ٹھگوں سے بھرا پڑا ہے اور جہاں تک گھوڑوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ان کی صرف خوبیوں کی بنیاد پر قطعی رائے نہ قائم کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر کو اختلاج قلب اور اپنے کانوں میں مسلسل بھن بھناہٹ کا احساس تھا لیکن اپنی شائستگی کی بناءپر دوست سے یہ نہ کہہ سکا کہ اسے یا تو تنہا چھوڑ دے یا خاموش ہو جائے۔ خوش قسمتی سے کمرے میں بیٹھے بیٹھے میخائل آویریانچ کا جی اوب گیا اور دوپہر کے کھانے کے بعد وہ ٹہلنے نکل کھڑا ہوا۔

تنہائی نصیب ہوتے ہی اندریئی یفمیچ بے حد پُرسکون ہوگیا۔ کمرے میں تنہا ہونے کے احساس کے ساتھ صوفے پر بے حس و حرکت لیٹے رہنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ اس نے سوچا کہ دراصل تنہائی کے بغیر حقیقی مسرت کا تصورتک نہیں کیا جاسکتا۔ معتوب فرشتے نے خدا کی حکم عدولی شاید اسی لئے کی تھی کہ وہ تنہائی کی شدید خواہش رکھتا تھا جو فرشتوں کو میسر نہیں ہوتی۔ اندریئی یفمیچ نے گزشتہ دنوں میں جو کچھ دیکھا سنا تھا اس کے متعلق سوچنا چاہتا تھا لیکن میخائل آویریانچ کا خیال اب بھی اس کے سر پر سوار تھا۔

”اور یہ صاحب خالص دوستی اور فیاضی کے جذبے سے رخصت لے کر میرے ساتھ گھومنے پھرنے نکلے ہیں! “ ڈاکٹر نے جھلاہٹ کے ساتھ سوچا۔ ”کتنی واہیات ہوتی ہے اس قسم کی دوستانہ سرپرستی بھی! نیک ہیں، فیاض ہیں، زندہ دل ہیں پر اس سب کے باوجود ہیں انتہائی عذاب جان۔ یہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ اچھی سوجھ بوجھ کی باتیں کرتے ہیں پھر بھی احساس دلاتے ہیں کہ نرے احمق ہی ہیں۔ “

بعد کے دنوں میں اندریئی یفمیچ نے اسے اپنا معمول سا بنا لیا، طبیعت کی خرابی کا عذر کرتا اور کمرے سے باہر نہ نکلتا۔ اس کا دوست اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کرتا تو وہ دیوار کی طرف منہ موڑے ہوئے لیٹے لیٹے کڑھتا رہتا اور اس کی عدم موجودگی میں آرام کرتا تھا۔ اسے اپنے اوپر بھی غصہ آتا تھا اور اپنے دوست کے اوپر بھی، اپنے دوست پر اس لئے کہ اس کے باتونی پن اور بے تکلفی میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا جس کے نتیجے میں اندریئی یفمیچ اپنے سنجیدہ اور بلند خیالات پر توجہ نہیں مبذول کر پاتا تھا۔

”مجھے شاید اسی حقیقت نے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے جس کا تذکرہ ایوان دمیترچ نے کیا تھا“ اس نے خود کو اس خیال کی بناءپر کوستے ہوئے سوچا کہ وہ حقیر باتوں سے بلند ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ ”لیکن یہ سب بکواس ہے۔ گھر واپس پہنچوں گا تو زندگی پھر اپنے پُرانے ڈھرے پر چلنے لگے گی۔ “

پیٹرس برگ میں بھی یہی حالت رہی۔ وہ کئی کئی دنوں تک ہوٹل کے کمرے سے باہر نہ نکلتا، ہر وقت صوفے پر لیٹا رہتا تھا اور اٹھتا تو صرف بیئر پینے کے لئے۔

میخائل آویریانچ روزکہتا رہتا تھا کہ وارسا چلنے میں جلدی کرنی چاہیے۔

”میرے عزیز دوست، آخرمیں وارسا جا کے کیا کروں گا؟ “ اندریئی یفمیچ نے منت سماجت کے لہجے میں کہا۔ ”آپ خود چلے جائیے اور مجھے گھر واپس لوٹ جانے دیجئے۔ بڑی عنایت ہوگی۔ “

”بھلا اس کاکیا سوال! “ میخائل آویریانچ نے احتجاج کیا۔ ”بڑا شاندار شہر ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے پانچ بہترین سال وہیں گزارے ہیں! “

اندریئی یفمیچ کو اپنی بات پر اڑ جانا آتا ہی نہ تھا اس لئے مجبوراً اپنے دوست کے ساتھ وارسا چلا گیا۔ یہاں اس نے خود کو اپنے کمرے ہی تک محدود رکھا اور خود اپنے آپ سے، اپنے دوست سے اور روسی سمجھنے سے قطعاً انکار کرنے والے ہوٹل کے ملازمین سے بُری طرح بھنایا ہوا صوفے پر لیٹا رہتا۔ اس کے برعکس میخائل آویریانچ ہمیشہ کی طرح صحت و توانائی کا پیکر بنا ہوا صبح سے رات تک شہر میں گھومتا اور اپنے پرانے دوستوں کو تلاش کیا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو وہ ساری ساری رات بھی غائب رہتا تھا۔ ایک بار کسی نامعلوم جگہ پر رات گزارنے کے بعد صبح کو وہ لوٹا تو عجیب ہیجانی کیفیت طاری تھی، چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور بال الجھے الجھے سے۔ وہ کمرے میں دیر تک ٹہلتا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا رہا پھر ٹھہر کر بولا:

”آن بان کے آگے سب کچھ ہیچ! “

کمرے میں اور ذرا دیر تک ٹہلنے کے بعد اس نے سر پکڑ کر بڑے اداس لہجے میں کہا:

”ہاں، آن بان کے آگے سب کچھ ہیچ! لعنت ہو اس لمحے پر جب اس بابل میں آنے کا خیال میرے دل میں آیا تھا! عزیز ترین دوست“ اس نے ڈاکٹر سے مخاطب ہو کر کہا، ”جی چاہے تو مجھ سے نفرت کیجئے، اپنی رقم جوئے میں گنوا بیٹھا! مجھے پانچ سو روبل دے دیجئے! “

اندریئی یفمیچ نے پانچ سو روبل گن کے خاموشی سے دوست کو تھما دیے۔ آخر الذکر نے جس کا چہرہ شرم اور غصے سے اب بھی سرخ ہو رہا تھا، بے ربطی سے قسم کھا کے غیر ضروری عہد کیا، ٹوپی پہنی اور باہر نکل گیا۔ دو گھنٹے کے بعد واپس لوٹ کے اس نے خود کو آرام کرسی پر گرا دیا، زور سے ٹھنڈی سانس لی اور کہا:

”میری آن بچ گئی! ہمیں یہاں سے چل دینا چاہیے، میرے دوست! اس کمبخت شہر میں اب پل بھر بھی نہیں ٹھہرنا چاہتا۔ ٹھگ کہیں کے! آسٹریائی جاسوس! “

وہ دونوں اپنی سیاحت سے واپس لوٹے تو نومبر کا مہینہ تھا اور سڑکوں پر برف کی موٹی موٹی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر خوبوتوف جو اندریئی یفمیچ کی جگہ پر مامور ہوچکا تھا، اب بھی اپنے پرانے کمروں میں ہی مقیم اور منتظر تھا کہ اندریئی یفمیچ واپس لوٹ کر اسپتال کے فلیٹ کو خالی کرے اور وہ بدصورت عورت جسے وہ اپنی باورچن بتایا کرتا تھا، اسپتال کی عمارت کے ایک کنارے والے حصے میں منتقل ہوچکی تھی۔

قصبے میں اسپتال کے متعلق نئی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ کہا جا رہا تھا کہ وہ بدصورت عورت انسپکٹر سے کسی بات پر جھگڑ بیٹھی تھی اور انسپکٹر معافی مانگنے کے لئے اس کے قدموں پر گر پڑا تھا۔

اندریئی یفمیچ کو اپنی واپسی کے دن ہی اپنے لئے نئی جائے رہائش کی تلاش میں نکلنا پڑا۔

”عزیز ترین دوست“ پوسٹ ماسٹر نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ”آپ میری ناشائستگی کو معاف کیجئے گا لیکن مہربانی کرکے بتائیے کہ آپ کے پاس کتنی رقم موجود ہے؟ “

اندریئی یفمیچ نے گننے کے بعد کہا:

”چھیاسی روبل۔ “

”میرا یہ مطلب نہیں تھا“ میخائل آویریانچ نے ڈاکٹر کے جواب سے متحیر ہو کے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”میں تو یہ جاننا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس کل رقم کتنی ہے؟ “

”میں عرض تو کر رہا ہوں، چھیاسی روبل۔ کل کائنات یہی ہے۔ “

میخائل آویریانچ ڈاکٹر کو ایماندار اور عالی ظرف آدمی تصورکرتا تھا پھر بھی اسے یقین تھا کہ کچھ نہیں تو بیس ہزار روبل تو بچا کے کہیں رکھ ہی چھوڑے ہوں گے۔ اب جو اسے پتا چلا کہ اندریئی یفمیچ بالکل کنگال ہے گزر بسر کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتا تو وہ اچانک رو پڑا اور اپنے دوست کو لپٹالیا۔

اندریئی یفمیچ نے نچلے متوسط طبقے کی ایک عورت بیلووا کے ہاں رہائش اختیار کر لی۔ اس چھوٹے سے گھر میں باورچی خانے کو چھوڑ کے کل تین ہی کمرے تھے۔ دو کمرے جن کا رخ سڑک کی طرف تھا، ڈاکٹر اور واریا کے پاس مکان مالکن اور اس کے تینوں بچے تیسرے کمرے اور باورچی خانے میں رہتے تھے۔ کبھی کبھی مالکن کا نشے باز، غصیلا آشنا رات بسر کرنے کے لئے آتا تھا اور واریا اور بچے بُری طرح خوف زدہ ہو جاتے تھے۔ وہ باورچی خانے میں کرسی پر بیٹھ کر واڈکا طلب کرنے لگتا تھا تو گھر اچانک بہت زیادہ تنگ نظر آنے لگتا اور ڈاکٹر روتے ہوئے بچوں پر ترس کھاکے اپنے کمرے میں بلا لے جاتا، فرش پر ان کے بستر بچھا دیتا اور اس طرح اسے بہت زیادہ اطمینان حاصل ہوتا۔ وہ اپنے معمول کے مطابق اب بھی سو کے آٹھ بجے ہی اٹھتا تھا اور چائے پینے کے بعد پرانی کتابیں اور رسالے پڑھنے لگتا۔ نئی کتابوں کی خریداری کا اب سوال ہی نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن اب مطالعے میں یا تو کتابیں پرانی ہونے کی وجہ سے یا پھر شاید بدلے ہوئے ماحول کے باعث وہ پہلے کی طرح کھوکے نہیں رہ جاتا تھا اب تو مطالعہ اسے ہلکان کر دیتا تھا۔ اس لئے خود کو مصروف رکھنے کی خاطر اس نے اپنی کتابوں کی تفصیلی فہرست مرتب کی۔ ہرکتاب کے پیچھے لیبل چپکائے اور یہ میکانکی کام اس کے لئے مطالعے سے زیادہ جاذب توجہ ثابت ہوا۔ یہ غیر دلچسپ، محنت طلب کام، کسی عجیب و غریب انداز سے اس کے خیالات کو تھپکیاں دے کے سلاتا معلوم ہوتا تھا، وہ بالکل خالی الذہن ہو کے کام کرتا رہتا تھا اوروقت تیزی سے گزر جاتا تھا۔ اسے تو باورچی خانے میں آلو چھیلنے یا واریا کے ساتھ اناج کو چن کر صاف کرنے میں بھی لطف آتا تھا۔ سنیچر اتوار کو وہ گرجا جایا کرتا تھا جہاں دیوارکی ٹیک لگا کر آنکھیں بندکیے کیے مختلف مذاہب کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ گرجے میں اسے بڑا سکون ملتا، اس پر اداسی طاری ہو جاتی اور واپس لوٹتے وقت افسوس ہوتا کہ عبادت اتنی جلدی ختم ہوگئی۔

دو بار وہ ایوان دمیترچ سے ملنے اور باتیں کرنے کے لئے اسپتال گیا لیکن دونوں بار اسے سخت ہیجان اور غصے میں مبتلا پایا۔ ایوان دمیترچ نے التجا کی کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہنے لگا میں خالی خولی لفاظی سے تنگ آچکا ہوں جتنی اذیتیں جھیل چکا ہوں ان کا لعنت زدہ، کمینے لوگوں سے صرف ایک ہی ہرجانہ مانگ رہا ہوں۔ قید تنہائی۔ کیا مجھے اس سے بھی محروم رکھا جائے گا؟ دونوں بار اندریئی یفمیچ نے اس سے رخصت ہوتے وقت شب بخیر کہا تو ایوان دمیترچ غصے سے چلایا۔

”دفان ہو جاؤ! “

اندریئی یفمیچ فیصلہ نہ کرسکا کہ تیسری بار بھی جائے حالانکہ جی بہت چاہتا تھا۔

اگلے وقتوں میں وہ دن کے کھانے کے بعد اپنے گھر کے اندر ٹہل ٹہل کر سوچتا رہتا تھا لیکن اب وہ شام کی چائے کے وقت تک دیوار کی طرف منہکیے ہوئے صوفے پر لیٹے لیٹے چھوٹی چھوٹی فکروں میں الجھا رہتا اور ان سے نجات نہ حاصل پاتا۔ اس کے جذبات کو سخت ٹھیس لگی تھی کہ بیس برسوں سے زائد عرصے تک ملازمت کرنے کے بعد نہ کوئی پنشن ملی تھی نہ عطیہ۔ وہ یہ تو نہیں سمجھتا تھا کہ اس نے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیے تھے پر بار بار سوچتا کہ ملازمت کرنے والے ایماندار ہوں یا بے ایمان پنشن کے مستحق تو بہرحال ہوتے ہی ہیں۔ انصاف کا جدید تصور ہی اسی حقیقت پر مبنی ہے کہ مرتبے، تمغے اور پنشن اخلاقی صفات یا اہلیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ خدمات کی وجہ سے خواہ وہ کیسی بھی کیوں نہ رہی ہوں، دیے جاتے ہیں۔ تو پھر آخر ایک اسی کو کیوں محروم رکھا گیا؟ وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو رہا تھا۔ دوکان کے سامنے سے گزرتے اور دوکاندار سے آنکھیں چار کرتے وقت اسے شرم آتی تھی۔ بیئر کی قیمت کے سلسلے میں اس پر بتیس روبل چڑھ چکے تھے۔ مکان مالکن میلووا کا حساب بھی چکایا نہیں جاسکا تھا۔ واریا نے اندریئی یفمیچ کے پرانے کپڑوں اور کتابوں کو چوری چھپے فروخت کر دیا تھا اور مالکن سے کہا تھا کہ ڈاکٹر کو جلد ہی ڈھیروں پیسے ملنے والے ہیں۔

وہ اپنے اوپر رہ رہ کے جھنجلاتا کہ سفر پر ایک ہزار روبل اڑا دیے۔ جوکچھ پس انداز کیا تھا سب کا سب! ان بُرے وقتوں میں وہ ہزار روبل کتنے کام آتے! سب سے زیادہ پریشانی اسے تنہائی نہ میسر ہونے سے تھی۔ خوبوتوف اپنے بیمار رفیق کو جلدی جلدی دیکھنے آنے کو اپنا فرض تصورکیے ہوئے تھا۔ اس کا چکنا چپڑا چہرہ ناشائستہ سر پرستانہ لب و لہجہ اس کے ”رفیق“ کہنے کا انداز اس کے لانگ بوٹ۔ ساری چیزوں سے اندریئی یفمیچ کو سخت گھن محسوس ہوتی تھی۔ سب سے گھناؤنی بات خوبوتوف کا یہ خیال تھا کہ وہ اندریئی یفمیچ کی دیکھ بھال اور علاج کر رہا ہے۔ وہ اپنے ساتھ پوٹاشیم برومائیڈ کی ایک شیشی اور کچھ خاکستری سفوف لانا کبھی بھی نہیں بولتا تھا۔

میخائل آویزیانچ بھی اپنے دوست سے ملاقات کے لئے آتے رہنے اور اس کا دل بہلانے کی کوشش کرنے کو اپنا فرض تصور کر رہا تھا۔ وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ، خود کو زبردستی بہت مسرور ظاہر کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا اور فوراً ہی اندریئی یفمیچ کو یقین دلانے لگتا کہ وہ بھلا چنگا نظر آ رہا ہے، خدا کا شکر ہے کہ روبہ صحت ہے جس کا مطلب صرف یہ ہوتا تھاکہ دوست کی حالت کو لاعلاج تصور کرتا ہے۔ وارسا میں اس نے جو رقم ادھار لی تھی اسے اب تک ادا نہیں کیا تھا جس سے اس کو سخت ندامت محسوس ہوتی تھی۔ اس شرم پر پردہ ڈالنے کے لئے وہ کچھ اور بھی زور زور سے قہقہے لگانے اور کچھ اور بھی مضحکہ خیز قصے بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ الٹے سیدھے قصے اور اس کی باتیں شیطان کی آنت کی طرح طول کھینچتی رہتیں اور ان سے اندریئی یفمیچ کو بھی کوفت محسوس ہوتی اور خود اس کو بھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments