انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


وارڈ نمبر 6 پر 2009ء میں بننے والی فلم کا ایک منظر

”بھئی واریا، کچھ بیئر پی جائے تو کیسا رہے گا؟ “ ڈاکٹر پوچھتا ہے۔

پہلی بوتل اسی خاموشی کے عالم میں خالی کر دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر اداس اور کھویا کھویا سا نظر آتا ہے جبکہ میخائل آویریانچ انتہائی خوش و خرم، بالکل اس شخص کے جیسا جو ہنسنے ہنسانے والی بات کہنے جا رہا ہو۔ گفتگو کا آغاز عموماً ڈاکٹر ہی کرتا ہے۔

”ہے نا افسوس کی بات“ وہ سر کی ہلکی سی جنبش کے ساتھ اور اپنے دوست کے چہرے کی طرف دیکھے بغیر (کسی کے چہرے کی طرف وہ کبھی دیکھتا ہی نہیں ) نیچی آواز میں دھیرے دھیرے کہنا شروع کرتا ہے، ”میں کہتا ہوں، عزیز دوست میخائل آویریانچ ہے نا افسوس کی بات کہ ہمارے قصبے میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جسے دلچسپ اور دانش ورانہ گفتگو کی ذرا بھی فکر ہو یا جو اس کی اہلیت رکھتا ہو؟ یہ ہماری بہت بڑی محرومی ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقات بھی حقیر چیزوں سے بلند نہیں ہو پاتے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کا ذہنی ارتقاءبھی کسی لحاظ سے نچلے طبقات سے بہتر نہیں۔ “

”سچ ہے۔ میں سو فیصدی متفق ہوں۔ “

”یقینا آپ جانتے ہی ہیں“ ڈاکٹر اسی انداز سے دھیرے دھیرے بات جاری رکھتا ہے۔ ”کہ ذہن انسانی کے اعلیٰ و ارفع روحانی اظہارات کے سوا دنیا کی ہر شے غیر اہم اور غیر دلچسپ ہے۔ یہ ذہن ہی تو ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان حد بندی لکیر کھینچتا ہے، اول الذکر کی مقدس فطرت کی جھلک دکھاتا اور ایک لحاظ سے غیر موجود حیات ابدی کی جگہ بھی لے لیتا ہے۔ اس تمہید سے آگے بڑھئے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ذہن ہی مسرت کا واحد وسیلہ ہے۔ ہم اپنے ماحول میں ذہن جیسی کسی شے کو نہ دیکھتے اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ سنتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم مسرتوں سے محروم ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ کتابیں ہماری رفیق ہیں لیکن کتابیں گفتگو اور نجی رابطے کی جگہ تو نہیں لے سکتیں۔ اگر مجھے آپ ایک استعارہ استعمال کرنے کی اجازت دیں اور مجھے ڈر ہے کہ یہ زیادہ خوشگوار نہیں۔ تو میں عرض کروں گا کہ کتابیں مطبوعہ موسیقی ہیں اور گفتگو۔ گانا۔ “

”بالکل سچ ہے۔ “

خاموشی چھا جاتی ہے۔ واریا چہرے پر بے زبان غم کے تاثر کے ساتھ باورچی خانے سے نکل کے دروازے میں آ کھڑی ہوتی ہے اور رخسار کو مٹھی پر ٹکا کر سننے لگتی ہے۔

”آہ“ میخائل آویریانچ ٹھنڈی سانس بھرتاہے۔ ”اور آپ کا خیال ہے کہ ان دنوں لوگوں کی کھوپڑی میں ذہن بھی ہوتے ہیں! “

اور وہ اگلے وقتوں کا ذکر چھیڑ دیتا ہے جب زندگی صحت مند، پرمسرت اور دلچسپ تھی، قدیم روس کے تعلیم یافتہ طبقات کی باتیں کرنے لگتا ہے جو آن بان اور دوستی پر جان دیتے تھے۔ لوگ کسی لکھا پڑھی کے بغیر ہی رقمیں ادھار دے دیا کرتے تھے اور کسی دوست کی پریشانی میں کام نہ آنے کو انتہائی شرمناک بات تصور کیا جاتا تھا۔ فوجی معرکے، مہمیں، جھڑپیں، دوستیاں، عورتیں! اور قفقاز۔ کیا شاندار سرزمین تھی! ایک بٹالین کمانڈر کی بیوی بھی کیسی سنکی تھی، افسروں کی یونیفارم پہن کر ہر شام کو تن تنہا گھوڑا دوڑاتی پہاڑوں میں نکل جاتی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے کسی کوہستانی گاؤں میں ایک کنیاز سے آشنائی کر رکھی ہے۔

”اوہ، مقدس ماں! ۔ “ واریا ٹھنڈی سانس بھرتی ہے۔

”اور کیسی کیسی مے نوشیاں ہوتی تھیں! کیسی کیسی ضیافتیں! اور کتنے جانباز آزاد خیال تھے ہم لوگ! “

اندریئی یفمیچ اس کی باتیں نہ سننے کی طرح سنتا رہتا ہے۔ وہ تو بیئر کی چُسکیاں لے لے کر کچھ اور ہی سوچا کرتا ہے۔

”میں اکثر ذہین لوگوں کے خوابوں میں کھویا رہتا ہوں، ان سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔ “ اچانک وہ بیچ میں بول پڑتاہے۔

”میرے والد نے مجھے بڑی شاندار تعلیم دلائی تھی لیکن ساتویں دہائی کے خیالوں سے متاثر ہوکر انہوں نے مجھے ڈاکٹری پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ان دنوں میں نے والد کی مرضی کے سامنے سر نہ جھکا دیا ہوتا تو آج کسی دانش ورانہ تحریک میں پیش پیش ہوتا۔ شاید میں اس وقت کسی یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں شامل ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ذہن جاوداں نہیں، دوسری تمام چیزوں ہی کی طرح ذہن بھی فانی ہے لیکن میں آپ سے وضاحت کرچکا ہوں کہ اسے اتنی زیادہ اہمیت کیوں دیتا ہوں۔ زندگی ایک مصیبت انگیز کھٹکے دار پنجرے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ جیسے ہی کوئی دانش ور ذہنی بلوغ کی منزل پر پہنچ کر شعوری غور و فکر کے قابل ہو جاتا ہے ویسے ہی یہ محسوسکیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک کھٹکے دار پنجرے کے اندر بند ہوگیا ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں۔ اگر آپ غور کریں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اسے اس کی مرضی کے خلاف اور محض اتفاقی اسباب کی بناءپر عدم وجود سے وجود میں لایا گیا ہے۔ کاہے کے لئے؟ اگر وہ اپنے وجود کا مفہوم و مقصد معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یا تو اسے کوئی جواب نہیں ملتا یا پھر طرح طرح کی لغو باتیں بتاتی جاتی ہیں۔ وہ بار بار کھٹکھٹاتا ہے لیکن پنجرے کے دروازے کو کوئی بھی نہیں کھولتا اور اسے موت آجاتی ہے۔ وہ بھی اس کی مرضی کے خلاف ہی اور جس طرح مشترکہ بدبختی سے متحد قیدی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا موقع پا کر ذرا خوش ہو جاتے ہیں اسی طرح تجزیہ و تفہیم کا رجحان رکھنے والے افراد ایک دوسرے کی طرف کھینچتے ہیں اور کھٹکے دار پنجرے میں اپنے بند ہونے کا احساسکیے بغیر بلند اور غیر مفید خیالات کا تبادلہ کرکے وقت کاٹتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ذہن لاثانی اطمینان کا وسیلہ ہے۔ “

”بالکل سچ ہے۔ “

اندریئی یفمیچ اپنے ہم کلام سے آنکھیں نہ چار کرتے ہوئے یوں ہی دھیمے، ہچکچاتے ہوئے لہجے میں ذہین لوگوں اور ان سے گفتگو کرکے حاصل ہونے والی مسرت کے متعلق باتیں کرتا رہتا ہے۔ میخائل آویریانچ غور سے سنتا اور کبھی کبھی اپنے ”بالکل سچ ہے“ کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔

”لیکن آپ روح کے جاوداں ہونے میں یقین نہیں رکھتے کیا؟ “ پوسٹ ماسٹر اچانک پوچھ بیٹھتا ہے۔

”نہیں، میرے پیارے میخائل آویریانچ، نہ میں یقین رکھتا ہوں اور نہ ہی اس یقین کے لئے میرے پاس کوئی وجہ ہے۔ “

”سچ پوچھئے تو خود مجھے بھی اس کے بارے میں شک ہے۔ اس کے برعکس مجھے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ میں کبھی مروں گا ہی نہیں۔ کبھی کبھی میں اپنے آپ سے کہتا ہوں۔ “

”بڑے میاں، اب تو مرنے کی گھڑی قریب آچلی! لیکن کوئی ذرا سی آواز سرگوشی کرتی ہے۔ “

”اس پر یقین نہ کرو، تم کبھی نہ مرو گے! ۔ “

نو بجے کے کچھ ہی دیر بعد میخائل آویریانچ اس سے رخصت ہوتا ہے۔ وہ بڑے کمرے میں کھڑے کھڑے اپنے بھاری بھرکم کوٹ کو پہنتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھر کے کہتا ہے :

”ذرا سوچیے نا، قسمت نے ہمیں بھی یہ کس جہنم میں لا پھینکا! اس سے بھی بُری بات یہ کہ ہمیں مرنا بھی یہیں ہوگا! ہونہہ! ۔ “

دوست کو دروازے تک رخصت کرنے کے بعد اندریئی یفمیچ دوبارہ اپنی میز کے پاس بیٹھ کر پڑھنے لگتا ہے۔ اب شب کے سناٹے میں کوئی بھی آواز مخل نہیں ہو رہی ہے، لگتا ہے خود وقت بھی ٹھہر گیا ہے۔ ڈاکٹر اور اس کی کتاب کو دیکھ رہا ہے جیسے دنیا میں اس کتاب اور سبز شیڈ والے اس لیمپ کے سوا اور کسی شے کا وجود ہی نہ ہو۔ ڈاکٹر کا کھردرا، دہقانی چہرہ دھیرے دھیرے مسکراہٹ سے جو ذہن انسانی کے اظہارات سے اس کی محبت اور احترام کی آئینہ دار ہے، چمک اٹھتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ آخر انسان جاوداں کیوں نہیں ہے؟ آخر کیوں؟ آخر ذہن کے ان سب مراکز اور تہوں کا، بصارت، گویائی، خود آگاہی اور غیر معمولی دیانت کا وجود ہی کیوں اگر ان سب کو ایک نہ ایک روز خاک میں مل جانا اور آخر کار قشر ارض کے ساتھ سرد ہوکر کسی مقصد اور سبب کے بغیر ہی اربوں سال تک آفتاب کے گرد گردش کرتے رہنا ہے؟ یقینا یہ ضروری نہ تھا کہ یوں ہی محض سرد ہونے اور گردش کرتے رہنے کے لئے انسان کو اس کے شاندار تقریباً ملکوتی ذہن کے ساتھ وجود میں لایا جاتا اور پھر اسے جیسے کسی تلخ مسخرے پن کے ساتھ خاک میں تبدیل کر دیا جاتا!

تغیر کامل! کسی بزدل کے سوا اور کسی کو اس بات سے سکون و اطمینان حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ جاوداں ہونے کے بجائے خاک میں تبدیل ہو جائے؟ قدرت میں غیر شعوری طور پر جو عمل جاری رہتے ہیں وہ تو انسانی حماقت کے عمل سے بھی پست سطح کے ہوتے ہیں کیونکہ حماقت میں بھی کسی حد تک شعور اور مرضی کا دخل ہوتا ہے جبکہ قدرت کے عمل اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں رکھتے۔ صرف کوئی بزدل ہی جس کا موت کا خوف اس کی خود داری سے بڑا ہو، خود کو اس خیال سے تسکین دے سکتا ہے کہ اس کا جسم گھاس کے کسی تنکے میں، کسی پتھر میں، کسی مینڈک میں زندہ رہے گا۔ اس تغیر کامل کو حیات ابدی سمجھ بیٹھنا اتنا ہی مضحکہ خیز ہوگا جتنا کہ کسی وائیلن کے ٹوٹنے اور بیکار ہو جانے کے بعد اسے رکھنے کے خول کے شاندار مستقبل کی پیش گوئی کرنا ہے۔

دیواری گھڑی جب بھی وقت کا اعلان کرتی ہے، اندریئی یفمیچ آرام کرسی سے پیٹھ ٹکا کر اپنے خیالوں پر غور کرنے کے لئے پل بھر کو آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ابھی ابھی جو کتاب اس کے زیر مطالعہ تھی اس کے بلند خیالات سے متاثر ہو کر وہ اپنی گزشتہ اور موجودہ زندگی کا تجزیہ کرنے لگتا ہے۔ ماضی سے اسے نفرت محسوس ہوتی ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہ سوچنے ہی کو ترجیح دیتا ہے۔ رہا حال سو وہ بھی ماضی ہی جیسا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس وقت جبکہ اس کے خیالات سرد قشر ارض کے ساتھ آفتاب کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ وسیع عمارت میں اس کے کمروں سے چند ہی قدموں کے فاصلے پر لوگ بیماری اور غلاظت سے نڈھال ہوئے جا رہے ہیں۔ شاید ٹھیک اسی لمحے کوئی شخص جاگ رہا ہے خود کو کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کو کوشاں ہے۔ کسی دوسرے کو ابھی ابھی حمرہ مرض لگ گیا ہے یا زخم پر بہت زیادہ کس کر باندھی جانے والی پٹی کی وجہ سے درد سے کراہ رہا ہے اور شاید کچھ مریض نرسوں کے ساتھ تاش کھیل رہے ہیں اور واڈکا پی رہے ہیں۔ گزشتہ سال 12000 مردوں اور عورتوں کو فریب دیا گیا۔ سارے اسپتال کی زندگی بیس سال قبل کی طرح آج بھی چوری دھینگا مشتی گپ بازی جانب داری اور شرمناک عطائی پن پر مبنی ہے، اسپتال آج بھی بدمعاشی کا اڈا اور قصبے کے لوگوں کی صحت کے لئے سخت مضر ہے۔ اندریئی یفمیچ کو معلوم ہے کہ وارڈ نمبر 6 میں آہنی سلاخوں کے پیچھے نیکیتا مریضوں کو زدوکوب کرتا ہے اور موئے سیئکا ہر روز گداگری کے لئے سڑکوں پر نکلتا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران علم طب کو حیرت انگیز طور پر فروغ حاصل ہوا ہے۔ یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران اسے لگتا تھا کہ علم طب کا بھی جلد ہی الکیمیا اور مافوق الطبیعیات جیسا ہی حشر ہوگا لیکن اب شبینہ مطالعات کے دوران وہی علم طب اسے بے حد متاثر کرتا ہے۔ اور اس کے اندر استعجاب پیدا کرتا ہے جو وجد کے مترادف ہے۔ واقعی کیسی غیر متوقع ذکاوت کیسا شاندار انقلاب ہے! مانع عفونت ادویات کی بدولت آج ایسے آپریشنکیے جار ہے ہیں جنہیں خود عظیم پیروگوف تک نے ناممکن تصور کیا تھا معمولی زیمستوو ڈاکٹروں تک کو گھٹنے کے جوڑ کا آپریشن کرنے میں ڈر نہیں محسوس ہوتا پیٹ کے آپریشنوں کے بعد سو مریضوں میں سے صرف ایک کی موت واقع ہوتی ہے اور پتھری کو تو ایسی معمولی چیز تصور کیا جاتاہے کہ کسی مطبوعہ مضمون میں ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ آتشک کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہوگیا ہے اور پھر نظریہ توارث ہے، ہپناٹزم ہے پامتیر اور کاخ کی دریافتیں ہیں، ہائی جین، اعداد و شمار اور ہماری روسی زیمستوو طبی تنظیمیں ہیں! مرض کی جدید درجہ بندی کے ساتھ دماغی امراض کا علاج، تشخیص اور معالجے کے طریقے۔ یہ سب کچھ ماضی کے مقابلے میں ایلبروس پہاڑ جیسا بلند ہے۔ دماغی مریضوں کو اب نہ سرد پانی سے بھگویا جاتاہے اور نہ ہی انہیں اتنے زیادہ کسے ہوئے کوٹ پہنائے جاتے ہیں کہ ہاتھ جکڑ جائیں۔ ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ ان کی تفریح کے لئے تھیٹر کے پروگرام اور رقص منظمکیے جاتے ہیں۔ اندریئی یفمیچ جانتا ہے کہ جدید خیالات اور ذوق کی بنا پر وارڈ نمبر 6 جیسی لعنت زدہ جگہوں کا وجود اب صرف کسی ایسے قصبے ہی میں ممکن رہ گیا ہے جہاں سے قریب ترین ریلوے اسٹیشن بھی دو سوٹ ورسٹ کے فاصلے پر ہے جہاں میونسپلٹی کا چیئرمین اور ممبران بس برائے نام ہی تعلیم یافتہ ہیں جو ڈاکٹر کو کوئی بڑا بشپ تصور کرتے ہیں جس کی ہر بات پر آمناً و صدقتاً کہنا چاہیے خواہ وہ مریض کے حلق میں پگھلا ہوا سیسا کیوں نہ انڈیل رہا ہو۔ کوئی دوسری جگہ ہوتی تو شہریوں اور اخباروں نے اس چھوٹے باستیل کو کبھی کا مسمار کر دیا ہوتا۔

”لیکن فائدہ کیا ہوا؟ “ اندریئی یفمیچ آنکھوں کو پوری طرح کھولتے ہوئے خود سے سوال کرتا ہے۔ آخر اس سب سے حاصل کیا ہوا؟ مانع عفونت ادویات، کاخ اور پامتیر کوئی بنیادی تبدیلی نہیں پیدا کرسکے۔ اموات اور امراض کا سلسلہ پہلے ہی کی طرح آج بھی جاری ہے۔ تھیٹر پروگراموں اور ناچوں کا دماغی مریضوں کے لئے انتظام ضرور کیا جاتا ہے مگر وہ جہاں بند ہوتے ہیں وہاں سے رہا نہیںکیے جاتے۔ اس لئے یہ سب کچھ مہمل اور ہیچ ہے اور ویانا کے بہترین کلینک اور میرے اسپتال میں کوئی بنیادی فرق نہیں پایا جاتا۔

پھر بھی غم اور ایک جذبہ جو رشک سے ملتا جلتا ہے، اسے اس معاملے میں غیرجانبدار رہنے سے روک دیتے ہیں۔ مگر شاید یہ جذبہ تھکن سے نڈھال ہو جانے کا نتیجہ ہے۔ وہ اپنے بوجھل سر کو کتاب کے صفحے پر رکھ دیتا ہے اور کچھ آرام کے خیال سے ہاتھوں کو رخسار کے نیچے رکھ کر دوبارہ سوچنے لگتا ہے :

”میں ایک بڑے مقصد کی خدمت کر رہا ہوں، جنہیں فریب دیتا ہوں انہی سے تنخواہ وصول کرتا ہوں، میں تو بے ایمان ہوں لیکن میری وقعت ہی کیا ہے، میں تو ایک ضروری معاشرتی بدی میں بس ایک حقیر ذرہ ہوں۔ ضلعے کے سارے کے سارے افسران نکمے ہیں اور اس لئے اپنی بے ایمانی کے لئے قصور وار میں نہیں بلکہ میرا یہ دور ہے۔ اگرمیں دو سو برس بعد پیدا ہو ا ہوتا تو بالکل مختلف فرد ہوتا۔ “

گھڑی تین بجاتی ہے تو وہ لیمپ گل کرکے اپنی خواب گاہ کو چلا جاتا ہے۔ رہی نیند تو وہ اب بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی ہے۔

دو سال قبل زیمستوو پر فیاضی کا دورہ پڑا، اس نے اسپتال کے طبی عملے میں اضافے کے سلسلے میں تین سو روبل سالانہ کی منظوری اس وقت تک کے لئے دے دی جب تک خود زیمستوو اپنا اسپتال نہ کھولے اور میونسپلٹی نے ضلع میڈیکل افسر یوگینی فیدورچ خوبوتوف کی خدمات حاصل کر لیں تاکہ وہ اندریئی یفمیچ کی مدد کرسکے۔ نیا ڈاکٹر نوجوان آدمی ہے۔ عمر تیس سے بھی کم ہی ہے۔ لمبا سا قد، سانولی رنگت، رخساروں کی ہڈیاں چوڑی اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی۔ دیکھنے میں روسی نژاد نہیں معلوم ہوتا ہے۔ وہ قصبے میں بالکل خالی جیب، ایک چھوٹے سے صندوق اور ایک بدصورت سی نوجوان عورت کے ساتھ آیا جس کی گود میں بچہ تھا اور جسے اس نے اپنی باورچن بتایا۔ یوگینی فیدورچ چھجے دار ٹوپی، لانگ بوٹ اور سردیوں میں بھیڑ کی کھال کا پوستین پہنتا ہے۔ طبی معاون سرگیئی سرگیئچ اور خزانچی سے تو اس نے آنے کے کچھ ہی دنوں بعد دوستی کر لی تھی لیکن اسپتال کے باقی افسروں کو جانے کیوں وہ طبقہ امراءکے ارکان کہتا اور ان سے دور ہی دور رہتا ہے۔ اس کے گھر میں صرف ایک کتاب ہے۔ ”ویاناکے کلینک کے تازہ ترین نسخے برائے 1881“ جسے ساتھ لئے بغیر کبھی بھی کسی مریض کو دیکھنے نہیں جاتا ہے۔ شاموں کو وہ کلب میں بلیئرڈ کھیلتا ہے لیکن تاش کھیلنے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسے ”یہ تو بڑا بے ڈھب معاملہ ہے! “ ”ارے آؤ بھی، انسان تو بنا ہی تھا خود ہونے کے لئے! “ اور ایسے ہی دوسرے جملے اور فقرے استعمال کرنے کا بڑا شوق ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments