انتون چیخوف کا شاہکار افسانہ : وارڈ نمبر 6


جون کے آخری دنوں میں ایک بار ڈاکٹر خوبوتوف کسی کام سے اندریئی یفمیچ کے ہاں گیا۔ وہ گھر میں نہ ملا تو خوبوتوف اسے تلاش کرنے کے لئے احاطے میں نکلا جہاں اسے بتایا گیا کہ معمر ڈاکٹر دماغی امراض کے وارڈ میں ہے۔ وہاں پہنچ کے وہ گزرگاہ میں ٹھہر گیا اور کھڑے کھڑے مندرجہ ذیل بات چیت سنی۔

”ہم کبھی بھی متفق نہ ہوں گے اور آپ کبھی بھی مجھے اپنا ہم خیال نہ بنا سکیں گے“ ایوان دمیترچ چڑے چڑے پن کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ ”آپ کو معلوم ہی نہیں کہ حقیقت کیا ہوتی ہے، آپ نے کبھی بھی تکالیف نہیں برداشت کیں اور کسی جونک کی طرح دوسروں کا خون چوس چوس کر ہی پیٹ بھرا ہے جبکہ میں اپنی پیدائش کے دن سے آج تک صرف اذیتیں ہی جھیلتا رہا ہوں۔ اس لئے میں آپ سے صاف صاف کہہ دینا چاہتا ہوں، میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ سے برتر ہوں اور ہر لحاظ سے آپ سے زیادہ اہلیت رکھتا ہوں مجھے کچھ پڑھانا آپ کا کام نہیں۔ “

”آپ کو ہم خیال بنانے کی میں ذرا بھی خواہش نہیں رکھتا“ اندریئی یفمیچ نے دھیرے سے یوں اداسی کے ساتھ کہا جیسے اپنی بات کے غلط ڈھنگ سے سمجھے جانے سے دُکھی ہو اور اصل بات یہ ہے بھی نہیں میرے دوست اس حقیقت کا کہ میں نے تکالیف نہیں جھیلیں اور آپ نے جھیلی ہیں ہم انہیں نظرانداز کرسکتے ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اور میں سوچ سکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے میں ایسے افراد کو دیکھ رہے ہیں جو غور و فکر اور بحث مباحثے کی اہلیت رکھتے ہیں اور یہ چیز کہ ہمارے خیالات کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کو جنم دیتی ہے۔ کاش آپ کو معلوم ہوسکتا کہ میں ہبہ گیر مخبوط الحواسی، علمی سطحیت اور حماقت سے کتنا بیزار ہوں اور کتنی خوشی ہوتی ہے مجھے آپ سے باتیں کرکے میرے دوست! آپ ذہین ہیں اسی لئے آپ کی رفاقت سے میں لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ”

خوبوتوف نے دروازے کو ذرا سا کھول کے اندر جھانکا۔ ایوان دمیترچ اپنی رات کی ٹوپی پہنے پلنگ پر بیٹھا ہوا تھا اور بغل ہی میں ڈاکٹر بھی بیٹھا تھا۔ پاگل بار بار منہ بنا رہا تھاچونک پڑتا تھا اور کپکپاہٹ کے ساتھ لبادے کو جسم پرلپیٹنے لگتا تھا جبکہ ڈاکٹر سر جھکائے، تمتمائے ہوئے چہرے کے ساتھ بے حس و حرکت بیٹھا ہوا تھا بے بس اور سوگوار سا۔ خوبوتوف نے شانے اچکائے مسکرایا اور نیکیتا سے آنکھیں چار کیں۔ اس نے بھی اپنے شانے اچکائے۔

اگلے روز خوبوتوف طبی معاون کو اپنے ساتھ بلا لایا اور دونوں نے گزرگاہ میں ساتھ ساتھ کھڑے ہو کے بات چیت سنی۔

”لگتا ہے ہمارے بڑے میاں کا کچھ دماغ چل گیا! “ دونوں باہر نکل رہے تھے تو خوبوتوف نے کہا۔

”خدا ہم بدبخت گنہگاروں کو معاف کرے“ دین دار سرگیئی سرگیئچ نے احاطے میں گڑھوں سے احتیاط سے کتراتے ہوئے تاکہ اس کے پالش سے چمچماتے ہوئے لانگ بوٹوں پر کیچڑ نہ لگے ٹھنڈی سانس بھری۔ ”آپ سے سچ کہہ رہا ہوں محترمی یوگینی فیدورچ کہ میں تو عرصے سے اس کی توقع کر رہا تھا! “

خوبوتوف کے وارڈ نمبر 6 کے دروازے تک آنے کے چند ہی دنوں بعد اندریئی یفمیچ نے محسوس کیا کہ اس کے گرد کا ماحول کچھ عجیب پراسرار سا ہوگیا ہے۔ اسپتال کے خدمت گار، نرسیں اور مریض اس کا سامنا ہوتے ہی نظروں ہی نظروں میں اس کاجائزہ لینے لگتے اور وہ ان کے پاس سے ہو کے آگے بڑھ جاتا تو فوراً ہی کھسر پھسر شروع کر دیتے۔ سپرنٹنڈنٹ کی بچی ماشا سے وہ اسپتال کے باغ میں مل کے خوش ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کے بالوں کو سہلانے کے لئے مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھتا تو وہ بھاگ کھڑی ہوتی۔ پوسٹ ماسٹر میخائل آویریانچ اس کی پرجوش باتوں کے دوران اپنے معمول کے مطابق ”بالکل سچ ہے“ کہنے کے بجائے اب ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ سے ”یقینا یقینا“ کہتا اور اسے کھوئی کھوئی اداس نظروں سے دیکھنے لگتا تھا۔ جانے کیوں اس نے اب اپنے دوست کو مشورہ دینا شروع کیا کہ وہ بیئر اور واڈکا سے ناتا توڑ لے لیکن اس بات کو وہ اپنی شائستگی کی بنا پر ذرا گھما پھرا کر، اشاروں کنایوں میں کہتا تھا۔ وہ کبھی اپنے بٹالین کمانڈر کی بات چھیڑ دیتا اور کبھی رجمنٹ کے پادری کی اور اندریئی یفمیچ سے کہتا کہ دونوں ہی بڑے اچھے آدمی تھے جو شراب کی لت کے پیچھے اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اسے چھوڑتے ہی بالکل ٹھیک ہوگئے۔ دو ایک بار اس کا ساتھی خوبوتوف اس کے ہاں آیا تو اس نے بھی ترک مے کا مشورہ دیا اور باتوں ہی باتوں میں یہ بھی کہہ گیا کہ اندریئی یفمیچ کو پوٹاشیم برومائیڈ استعمال کرنا چاہیے جس کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی۔

اگست میں اندریئی یفمیچ کو میونسپل کونسل کے چیئرمین کا خط ملا جس میں اسے کسی بہت ضروری کام سے طلب کیا گیا تھا۔ وہ ٹاؤن ہال پہنچا تو وہاں اس نے علاقے کے فوجی سربراہ، ضلع اسکول انسپکٹر، میونسپلٹی کے ایک ممبر، ڈاکٹر خوبوتوف اور ایک اور لحیم شحیم، بھورے بالوں والے شخص کو جس کا اس سے ڈاکٹر کہہ کر تعارف کرایا گیا، اپنا منتظر پایا۔ دشوار پولستانی نام والا یہ ڈاکٹر تیس ورسٹ دور گھوڑوں کے ایک فارم پر رہتا تھا اور وہ قصبے سے صرف گزر ہی رہا تھا۔

”ہمیں ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس کا آپ سے بھی کچھ تعلق ہے“ صاحب سلامت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد سب لوگ میز کے گرد بیٹھ گئے تو میونسپل ممبر نے اندریئی یفمیچ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”درخواست میں یوگینی فیدورچ نے کہا ہے کہ دواخانے کے لئے خاص عمارت میں کافی جگہ نہیں ہے اس لئے اسے بازو والے حصے میں منتقل کر دیا جانا چاہیے۔ ہمارے لئے درد سر جگہ کی تبدیلی نہیں بلکہ یہ سوال ہے کہ نئی جگہ کی مرمت کرنی ہوگی۔ “

”جی ہاں، مرمت کی تو بے حد ضرورت ہے“ اندریئی یفمیچ نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔ ”مثال کے طور پر دواخانے کو اگر بالکل کونے والے حصے میں منتقل کیا جائے گا تو میرے خیال میں اس جگہ کی مرمت پر کچھ نہیں تو پانچ سو روبل تو خرچ ہوہی جائیں گے۔ بالکل بے ثمر اخراجات۔ “

ذرا دیر تک خاموشی چھائی رہی۔

”مجھے دس سال قبل بھی آپ سے یہ عرض کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ “ اندریئی یفمیچ نے دھیرے دھیرے اپنی بات جاری رکھی، ”کہ یہ اسپتال اپنی موجودہ حالت میں ایسے تعیش کی حیثیت رکھتا ہے جسے قصبے کے وسائل برداشت نہیں کرسکتے۔ اسے پانچویں دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ حالات بالکل مختلف تھے۔ میونسپل کونسل غیر ضروری عمارتوں اور فالتو تقرریوں پر بہت زیادہ رقوم صرف کرتی ہے۔ انتظامات مختلف ڈھنگ سےکیے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ اتنی ہی رقم سے دو بہت اچھے اسپتال چلائے جاسکتے ہیں۔ “

”تو پھر ہمیں مختلف ڈھنگ سے ہی انتظامات کرنے چاہئیں! “ میونسپل ممبرنے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

”مجھے اس مسئلے پر اس سے قبل بھی اپنی رائے ظاہر کرنے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ اسپتال چلانے کی ذمہ اری زیمستوو کے سپرد کر دی جانی چاہیے۔ “

”جی ہاں بے شک، بے شک، ہم اپنے سارے فنڈ زیمستوو کو دے دیں تاکہ وہ ان پر ہاتھ صاف کرسکے“ بھورے بالوں والے ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے کہا۔

”جی ہاں، جی ہاں“ میونسپل ممبر نے بھی ہنستے ہوئے اس سے اتفاق رائے کیا۔

اندریئی یفمیچ نے دھندلی دھندلی نظروں سے بھورے بالوں والے ڈاکٹر کو دیکھا اور کہا: ”ہمیں ذرا انصاف سے کام لینا چاہیے۔ “

ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اتنے میں چائے لگا دی گئی۔ فوجی سربراہ نے جو جانے کیوں بہت نادم سا نظر آ رہا تھا، اپنا ہاتھ پھیلا کے میز کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے اندریئی یفمیچ کا ہاتھ چھو لیا اور کہا:

”ارے ڈاکٹر صاحب، آپ تو لگتا ہے کہ ہم لوگوں کو بھول ہی گئے۔ ویسے تو میں جانتا ہوں کہ آپ نے تو ایک طرح سے سنیاس ہی لے رکھا ہے، نہ تاش کھیلتے ہیں نہ عورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کو ہماری صحبت بے کیف لگتی ہوگی۔ “

پھر ہر شخص کہنے لگا کہ اہلِ ذوق کو یہ قصبہ واقعی بڑا بے کیف لگتا ہوگا۔ نہ کوئی تھیٹر ہے نہ موسیقی اور حالت یہ ہے کہ کلب میں گزشتہ رقص کے موقعے پر عورتیں تو بیس آگئی تھیں پر ان کا ساتھ دینے کے لئے مرد بس دو ہی تھے۔ نوجوانوں کو رقص سے دلچسپی نہیں یاتو بار میں اکٹھا رہتے ہیں یا تاش کھیلتے رہتے ہیں۔ یہ سب سن کے اندریئی یفمیچ نے کسی کی طرف دیکھے بغیر اپنی پُرسکون، دھیمی آواز سے کہنا شروع کیا کہ افسوس، صد افسوس، قصبے کے لوگ اپنی توانائی کو، روحوں اور ذہنوں کو تاش اور گپ بازی میں ضائع کرتے ہیں، دلچسپ گفتگو میں وقت گزارنے کے نہ اہل ہیں نہ خواہاں اور ذہنی انبساط سے محفوظ ہونے کو تو جیسے کوئی تیار ہی نہ ہو۔ صرف ذہن ہی دلچسپ اور شاندار ہے، باقی سب کچھ ہیچ۔ ”خوبوتوف نے اپنے ساتھی ڈاکٹر کی یہ باتیں بڑے غور سے سنیں اور پھر اچانک قطع کلام کرتے ہوئے پوچھا:

”آج تاریخ کیا ہے، اندریئی یفمیچ؟ “

جواب پانے کے بعد اس نے اور بھورے بالوں والے ڈاکٹر نے اندریئی یفمیچ سے اور بھی سوالاتکیے مثلاً یہ کہ آج دن کون سا ہے، سال میں کتنے دن ہوتے ہیں اور کیا یہ سچ ہے کہ وارڈ نمبر 6 میں کوئی شاندار پیغمبر رہتا ہے۔ دونوں کا لہجہ ان ممتحنوں کے جیسا تھا جنہیں خود اپنی نا اہلی کا احساس ہو۔

آخری سوال کا جواب دیتے وقت اندریئی یفمیچ کا چہرہ کچھ تمتما سا اٹھا اور اس نے کہا:

”جی ہاں، وہ بیمار آدمی ہے لیکن ہے بہت دلچسپ۔ “

اس کے بعد اور سولات نہ پوچھے گئے۔

وہ برآمدے میں اوور کوٹ پہن رہا تھا تو فوجی سربراہ نے اس کے پاس پہنچ کے شانے کو تھپتھپایا، ٹھنڈی سانس بھری اور کہا:

”وقت آ گیا ہے کہ ہم بوڑھے لوگ سبکدوش ہونے کے متعلق سوچنا شروع کر دیں! “

ٹاؤن ہال سے نکلتے وقت اندریئی یفمیچ کی سمجھ میں آیا کہ دراصل اسے کمیشن کے سامنے طلب کیا گیا تھا جو اس کی ذہنی حالت کی جانچ کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اس سے جو سوالات پوچھے گئے تھے انہیں یاد کرکے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور زندگی میں پہلی بار علمِ طب کی زبوں حالی پر اسے افسوس سا ہوا۔

”اوہ خدا“ اس نے یہ یاد کرتے ہوئے کہ دونوں ڈاکٹروں نے اس کی جانچ کس ڈھنگ سے کی تھی، سوچا ”یہ لوگ تو ابھی حال ہی میں دماغی امراض کے علاج سے متعلق لیکچروں میں شریک ہوئے تھے اور امتحانات بھی دیے تھے تو پھر آخر یہ لاعلمی کیسی، اتنی جہالت کیوں؟ یہ تو اس میدان میں بالکل ہی کورے نکلے! “ اور اسے زندگی میں پہلی بار ذلیلکیے جانے کا احساس ہوا، وہ آگ کی طرح بھڑک اٹھا۔

اسی روز شام کو میخائل آویرایانچ اس سے ملنے آیا۔ اس نے رک کے صاحب سلامت تک نہ کی، سیدھا اندریئی یفمیچ کے سامنے پہنچا، اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا اور بڑی جذباتی آواز سے کہنے لگا۔

”عزیز ترین دوست، ثبوت دیجئے کہ آپ اپنے سلسلے میں میرے جذبات کے خلوص میں یقین رکھتے اور مجھے اپنا دوست تصور کرتے ہیں۔ عزیز ترین دوست! “ اور اس نے اندریئی یفمیچ کو زبان کھولنے کا موقع دیے بغیر ہیجانی انداز میں بات جاری رکھی:

”میں آپ کی علمیت اور شرافت نفس کی بنا پر آپ سے محبت کرتا ہوں۔ ذرا غور سے سنیئے، میرے دوست۔ ڈاکٹروں کے پیشہ ورانہ آداب انہیں آپ سے حقیقت کو راز میں رکھنے پر مجبور کر رہے ہیں لیکن میں ٹھہرا سپاہی، صاف گوئی سے کام لوں گا۔ آپ علیل ہیں! مجھے معاف کیجئے گا، عزیز دوست لیکن حقیقت یہی ہے اور یہ کافی دنوں سے آپ کے اردگرد کے لوگوں کی نگاہوں میں ہے۔ یوگینی فیدورچ مجھ سے ابھی ابھی کہہ رہے تھے کہ آپ کو اپنی صحت کا خیال کرکے کچھ آرام کرنا اور کام سے توجہ ہٹانا چاہیے۔ بالکل سچ! شاندار! چند دنوں بعد میں چھٹی لینے والا ہوں اور ہوا خوری کے لئے کہیں باہر جانے کا ارادہ ہے۔ مجھ سے اپنی دوستی کا ثبوت دیجئے، میرے ساتھ چلئے چلئے اور ہمیں اپنا کھویا ہوا شباب مل جائے گا! “

”لیکن میں تو بھلا چنگا ہوں“ اندریئی یفمیچ نے قدرے توقف سے کہا۔ ”اور میں آپ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ مجھ سے اپنی دوستی کا ثبوت اور کسی طرح لے لیجیے نا۔ “

کتابوں اور واریا کو چھوڑ کر، گزشتہ بیس برسوں کے اس سارے معمول کو توڑ کے بلاسبب ہی کہیں جانے کا خیال پہلے تو اسے انتہائی احمقانہ اور عجیب و غریب سا لگا۔ لیکن جب اس نے یاد کیا کہ ٹاؤن ہال میں کیا کہا گیا تھا، وہاں سے گھر لوٹتے وقت وہ کتنا دل شکستہ تھا تو قصبے کو جہاں عقل کے اندھے اسے پاگل سمجھ بیٹھے تھے، کچھ دنوں کے لئے چھوڑ دینے کی تجویز اچانک دل میں بیٹھ گئی۔

”آپ جائیں گے کہاں؟ “ اس نے پوچھا۔

”ماسکو، پیٹرس برگ، وارسا۔ وارسا میں تو میں پانچ سال گزار چکا ہوں اور یہ میری زندگی کے بہترین سال تھے۔ لاجواب شہر ہے! میرے ساتھ چلئے ضرور، عزیز دوست! “

ہفتے بھر بعد اندریئی یفمیچ سے کہا گیا کہ وہ آرام کرسکتا ہے، دوسرے الفاظ میں اس سے استعفا طلب کیا گیا جسے اس نے انتہائی بے فکری کے ساتھ دے دیا اور مزید ایک ہفتے بعد وہ میخائل آویریانچ کے پہلو میں ڈاک بگھی پر بیٹھا ہوا قریب ترین ریلوے اسٹیشن کو جا رہا تھا۔ موسم سرد لیکن خوشگوار تھا، آسمان نیلگوں اور فضائیں صاف و شفاف۔ ان لوگوں نے اسٹیشن تک دو سو ورسٹ کا فاصلہ دو دنوں میں طے کیا اور رات گزارنے کے لئے دو بار ٹھہرے۔

راستے میں ٹھہرنے کی جگہوں پرا نہیں اگر گندے گلاسوں میں چائے پیش کی جاتی یا ان کے گھوڑوں کو بگھی میں جوتنے میں زیادہ عجلت نہ برتی جاتی تومیخائل آویریانچ کا چہرہ لال بھبوکا ہو جاتا، سر سے پاؤں تک کانپنے لگتا اور زور سے چلاتا:

”خاموش! بحث کی اجازت نہیں! “ بگھی کے اندر اس کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی، قفقاز اور پولینڈ میں اس کے سفروں کے قصے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ کیسے کیسے سنسنی خیز واقعات پیش آئے تھے! کیسے کیسے لوگوں سے اس کی ملاقاتیں ہوئی تھیں! وہ جس طرح چیخ چیخ کے بول رہاتھا، اظہارِ حیرت کے لئے جس طرح آنکھیں مٹکا رہا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ساری ڈینگ سفید جھوٹ ہی ہے۔ اس سب پر طرہ یہ کہ وہ اپنی سانسیں اندریئی یفمیچ کے عین چہرے پر خارج کرتا اور اس کے کان میں ہنستا تھا جس سے ڈاکٹر بے چین ہو اٹھتا تھا اور اپنے خیالوں میں نہیں کھو پاتا تھا۔

ان لوگوں نے پیسے بچانے کے خیال سے تیسرے درجے میں سفر کیا اور غیر تمباکو نوشوں والے ڈبے میں بیٹھے۔ آدھی مسافر خودانہی کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میخائل آویرایانچ نے جلد ہی ان سبھوں سے دوستانہ روابط قائم کر لئے اورکبھی ایک بنچ پر اور کبھی دوسری پر بیٹھ کر بلند آواز سے انہیں قائل کرنے لگا کہ ایسے واہیات راستوں پر انہیں سفر کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ چاروں طرف بے ایمانی کا دور دورہ ہے! یہ سفر گھڑ سواری سے کتنا مختلف ہے۔ آپ دن بھر میں سو ورسٹ طے کرتے ہیں پھر بھی اس کے بعد تازگی محسوس کرتے ہیں۔ ہماری فصلیں جو خراب ہوتی ہیں تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ پسک دلدلی حلقوں کو پانی نکال کر خشک کر دیا گیا ہے۔ جدھر دیکھئے ادھر بدنظمی پھیلی ہوئی ہے۔ وہ جوش و خروش میں چلا چلا کر بولتا جا رہا تھا اورکسی دوسرے کو ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے کا موقع نہیں دیتا تھا۔ اس مسلسل بک بک سے جس کے دوران وہ اپنی باتوں پر زور دینے کے لئے ہاتھوں سے اشارے کر رہا تھا اور بار بار کان کے پردے پھاڑ دینے والے قہقہے بلند کرتا تھا، اندریئی یفمیچ کا دم ناک میں آگیا۔

”ہم دونوں میں پاگل کسے تصور کیا جانا چاہیے؟ “ اس نے جھلاہٹ کے ساتھ سوچا۔

”مجھ کو جو کوشاں ہے کہ اپنے ساتھی مسافروں پر بار نہ بنے یا اس خود پسند کو جس کا خیال ہے کہ پورے ڈبے میں ذہین اور دلچسپ شخص صرف وہی ہے اور کس کو پل بھر بھی چین نہیں لینے دے رہا ہے؟ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments