جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن


اسے ایک روز اپنے ایک ساتھی کے ساتھ برسوں سے بند گٹر میں اترنا تھا۔ وہ دونوں اس میں اترے بھی لیکن زندہ باہر نہ نکل سکے۔ ٹی وی چینلوں پر چلنے والی خبروں اور سرکاری فائلوں میں درج رپورٹ کے مطابق گٹر میں برسوں سے بند قاتل گیس نے لمحہ بھر میں ہی ان کے زندہ رہنے کا حق سلب کر لیا تھا۔

چند روز کے رونے پیٹنے کے بعد زندگی معمول پر آ گئی۔ روزی کے بارے میں بھی کچھ اور سوچا جانے لگا اور جوزف نے بھی کام میں خود کو کھپالیا لیکن بھاگاں مہینوں طویل بیماری کے بعد جب بستر سے اتری تو پتا چلا کہ وہ کبھی اپنے قدموں پر نہیں چل سکے گی۔ اس کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ نے اس کا جسمانی توازن بھی بگاڑ دیا تھا۔ وہ بظاہر اپنے کام سے لگی چلتی پھرتی رہتی لیکن کسی بھی لمحے اس کا سر چکراتا اور وہ کھڑے کھڑے شہتیر جیسی ڈھے جاتی۔ کئی بار تو وہ اس بری طرح گری کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ اب جوزف کو تاعمر سایہ سا اس کے ساتھ جڑے رہنا تھا۔ سو اس نے موٹر وائنڈنگ کے ساتھ ساتھ گھر گرہستی میں بھی مہارت حاصل کرلی تھی۔

رات بھر سے ایک تار برستی بارش کا دم ٹوٹنے لگا تھا۔

کھڑکی سے لگی بھاگاں نے اب کے غور سے دیکھا تو بادلوں میں چکراتا کبوتر سرمئی سفیدی میں تحلیل ہوچکا تھا۔

اب کی بار بجلی کا کوندا لپکا تو بادلوں کی گرج نے انہیں پاؤں کے تلوؤں تک لرزا دیا۔ بھاگاں نے سینے پر کراس بنایا اور اپنے گرد کھیس کس کر لپیٹ لیا۔

اپنی چارپائی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا جوزف بھی اس گھن گرج سے سوچ میں پڑگیا تھا۔ جب تک وہ سگریٹ کا آخری کش لے کر فیصلہ کن انداز میں کھڑا ہوتا کھانسی کے ایک مختصر سے دورے نے اسے دہرا کر دیا۔

” میں تو کہتی ہوں رک جاؤ۔ اس موسم میں چھتری بھی کام نہیں آتی۔ اگر بارش پھر تیز ہوگئی تو؟ “
”تمہیں پتا ہے سرکاری لوگوں کا۔ اگر بلایا ہے تو جانا ہی پڑے گا ورنہ پھر بھوک تو ہے ای۔ “

بھاگاں بھی جانتی تھی کہ جوزف کو جانا ہی ہوگا سو اس نے نیم رضامندی میں کندھے اچکادیے۔ پھر بھی وہ فکرمندی کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکی۔

”اور تمہاری کھانسی؟ “
” ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میری بے بے نہ بناکرو۔ “

جوزف کو اپنی قدیمی کھانسی کی جانب ہلکا سا اشارہ بھی گوارا نہیں تھا کیونکہ اس کا الزام وہ اپنے سوائے کسی اور کے سر نہیں دھر سکتا تھا۔ اس نے دورے سے سنبھل کر جھنجھلاہٹ کے عالم میں آنکھیں پونچھیں اور چھتری ٹانگ کے ساتھ ٹکا کر سر پر صافہ لپیٹتے ہوئے بڑبڑایا:

” اگر یہ منحوس لاک ڈاؤن نہ ہوتا، میرا کام چلتا رہتا اور لوگ میرے پیسے نہ مارتے تو میں کیوں جاتا وہاں؟ “

”ماسک! “ بھاگاں نے اسے تنبیہ کی۔

جوزف نے اس بیکار کی فکر مندی سے جھنجھلا کر دروازے کے ہینڈل سے لٹکا کالے کپڑے کا ماسک نوچ کر منہ پر باندھ لیا۔

”کپڑے تو بدل لو، لوگ کیا کہیں گے۔ “ بھاگاں تھی کہ بے بے بنے بغیررہ نہ سکتی تھی۔

جوزف نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور جیب سے موبائل نکال کر کل رات کو بھیجا گیا میسج پھر سے اٹک اٹک کر پڑھنے لگا۔

”ایکسپو کی طرف جانا پڑے گا۔ وہیں کہیں امدادی مرکز ہے۔ “ جوزف نے خود کو مخاطب کرکے کہا، ”وہاں تو چنگ چی بھی نہیں جاتی، چار پانچ میل پیدل چلنا پڑے گا۔ “

”وبا کے دنوں میں چنگ چی کہاں؟ ۔ ۔ سب کچھ تو بند پڑا ہے۔ “

جوزف نے اس کی طرف پر خیال نظروں سے دیکھا، ”اور سنو، میرے جاتے ہی کام کاج میں نہ لگ جانا کہیں گرگرا گئی تو کوئی تمہیں اٹھانے والا بھی نہیں ہوگا۔ “

وہ کئی دنوں بعد گھر سے نکلا تھا۔ باہر وہی سب کچھ تھا البتہ لوگ اور کوڑے کے ڈھیر کم ہوگئے تھے لیکن بے فکروں کی موج مستی پر وبا کا سایہ بھی نہیں پڑا تھا۔ موسلادھار بارش اب معصوم سی کن من میں بدل گئی تھی۔ یوں چھتری سر پر سے اتر کر ہاتھ میں آ گئی تھی اور وہ اس سے کیچڑ میں پھسلاؤ سے بچنے کا کام لینے لگا تھا۔ میلوں چل کر وہ جب امدادی مرکز پہنچا تو سورج ایک طویل قیلولے کے بعد بادلوں میں چھید کرکے چمکنے لگا تھا۔

وہاں پہنچ کر وہ پریشان ہوگیا کہ بارش کے باوجود وہاں میلہ سا لگا تھا۔ چھوٹی سی جگہ تھی اور بندے پر بندہ چڑھا ہوا تھا۔ احتیاط کا عالم یہ تھا کہ چند ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے چہرے ڈھانپ رکھے ہوں۔ اسے بھی لگا کہ وبا ایک افواہ ہی ہوگی جو عورتیں بھی اور مرد بھی بے فکرے کھڑے بھوک اور بیروزگاری سے جڑا اپنا رونا رو رہے تھے اور لاک ڈاؤن پر حکومت کو کوس رہے تھے۔

وہاں امداد لینے والوں کے ہجوم کے علاوہ چند اونگھتے ہوئے پولیس والے اور بہت سے جلے تلوؤں والے ٹی وی رپورٹر بھی تھے جو اپنا اپنا ویڈیو پیکج بنانے کے لیے تاڑی لگائے بیٹھے تھے کہ کس کے منہ میں مائیک ٹھونسا جائے تو اس سے کام کی بات نکلوائی جاسکتی ہے۔ وہ خاص طور پر امدادی لفافہ لے کر نکلنے والوں کی طرف لپکتے تھے تاکہ اس کی جانب سے شکرانے کے اظہار کو پھیلاکر مقتدر لوگوں سے داد سمیٹی جاسکے۔

وہ بھاگاں کی گھورتی آنکھوں کا تصور کرکے اپنے چہرے کو نقاب سے آزاد کرنے سے بازرہا اور چپ چاپ لائن میں لگ گیا۔ قطار شیطان کی آنت جیسی تھی اور اس عمر میں انتظار کی مشقت اس کی ہمت سے سوا تھی، سو وہ کبھی بیٹھتا اور کبھی کھڑا ہوتا رہا۔ انتظار کی کوفت کو بہلانے کی واحد صورت یہ تھی کہ وہ اپنے گرد جمع لوگوں کو اپنی دید اور شنید کا محور بنالے۔ اس نے اردگرد نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ وہاں موجود سب لوگ ٹین کے بنے ہوئے تھے، کہیں سے ٹوٹے ہوئے اور کہیں سے پچکے ہوئے۔

یہ سب وہ تھے جن کی پہلے سے شکستہ کمروں کو وبا نے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے پاؤں کیچڑ میں لت پت تھے اور آنکھوں میں آس تھی کہ سرکاری لوگ ان کی طرف دم بہ دم بڑھتی بھوک کو کچھ دے دلا کر چند روز کے لیے ٹال دیں گے۔ اس نے دیکھا کہ مردوں نے اپنے حالات کی گمبھیرتا کو بڑھا کر دکھانے کے لیے اپنے حلیوں کو خستہ تر اور اپنے چہروں پر چھائی مسکینی کو فزوں تر کر رکھا تھا جبکہ عورتیں خاص اسی مقصد کے لیے گھر سے نیم برہنہ اور لاغر بچوں کو اٹھا کر لائی تھیں کہ انہیں دکھا کر حکومتی اہلکاروں میں ممتا کو کچھ زیادہ جگایا جاسکے۔ جوزف نے اندازہ لگایا کہ گو امداد کے سب مستحق تھے لیکن ان میں وہ نہیں تھے جو اپنا بھرم کھلنے سے ڈرتے ہیں۔ جوزف خود ایسے کئی لوگوں کو جانتا تھا جو وبا کے بعد اپنی ملازمتوں یا چھوٹے موٹے کاموں سے محروم ہوئے تھے اور اپنے گھروں میں یوں چھپ گئے تھے کہ کسی کو ان کے حال کی خبر نہ ہوپائے۔

ٹین سے بنے لوگوں میں سے جب کوئی اندر سے ہو آتا تو وہ خدا ترسی کی ایک فاتحانہ چمک لیے قطاروں میں لگے لوگوں کو دیکھتا اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر تیز قدموں وہاں سے چل پڑتا۔ کچھ لوگ تھے جو برافروختہ لوٹتے جب انہیں پتا چلتا کہ ان کا امدادی سنٹر دراصل کوئی اور تھا اور اب انہیں التوا شدہ امید کے ساتھ کہیں اور جاکر آس اور انتظار کا کھیل کھیلنا ہوگا۔

جب تک اس کی باری آتی سائے دراز ہوچکے تھے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے اس کے ہاتھوں پر محلول ملا گیا اور اور پھر ایک میز کے گرد جمع چند ماسک پہنے اہلکاروں میں سے ایک نے رجسٹر کے ایک خانے پر بال پوائنٹ کی نوک رکھی:

”نام؟ “
”جوزف جی۔ ۔ ۔ جوزف اقبال مسیح۔ “
”ولدیت؟ “
”بوٹا مسیح“
” ہوں! شناختی کارڈ؟ “
جوزف نے جیب سے شناختی کارڈ نکال کر میز پر رکھ دیا۔

اہلکار نے شناختی کارڈ لے کر الٹ پلٹ دیکھا اور رجسٹر پر کچھ درج کرکے بائیو میٹرک مشین اس کی طرف بڑھادی۔ اس نے ہدایت کے مطابق مشین کی ننھی سی سکرین پر دائیاں انگوٹھا رکھ کر دبایا اورپھر انگشت شہادت کے ساتھ یہی عمل کیا۔ اہلکار مطمئن نہ ہوا تو اس نے دوبارہ اسے انگوٹھا رکھنے کا کہا۔ اس بار اس نے دیر تک سکرین پر انگوٹھے کو چپکائے رکھا۔ اہلکار کے عدم اطمینان پر یہی عمل تیسری بار بھی دہرایا گیا مگرنتیجہ وہی پہلے جیسا۔ کمپیوٹر سکرین پر نظریں جمائے اہلکار نے بے یقینی کے عالم میں سر کو کھجایا اور پھر اٹھ کر ایک اور کمرے میں چلاگیا۔ واپس آیا تو اس نے ایک بار پھر اسے وہی عمل دہرانے کا کہا۔ اس بار اس نے دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں کو باری باری سکرین پر دیر تک دبائے رکھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments