جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن


آج وہی حاجی شام کے جھٹپٹے میں اس کے سامنے خشک پتے کی طرح لرزیدہ کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس پر جھپٹا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کے شکنجے میں کس لیا۔ اس کے ہونٹ کپکپارہے تھے اور آنکھوں میں ویرانی تھی۔ اس نے بمشکل الفاظ جوڑ جوڑ اور لہجے میں التجا بھرتے ہوئے کہا:

”جوزف، میرے بھائی، میرے دو بچے، ایک پوتا اور ایک نواسا کھیلتے ہوئے۔ ۔ ۔ “
الفاظ اس کے رندھے ہوئے گلے میں بھیگ گئے تو کسی اور رندھے گلے والے نے اس کی بات کو مکمل کیا:
” وہ دونوں بچے افطاری کے وقت کھیل رہے تھے کہ ان کے پاؤں پھسلے اور وہ نالے میں جاگرے۔ “
”جوزف چاچا، صرف تم ہی انہیں نکال کر لاسکتے ہو۔ “ کسی اور نے اس سے التجا کی۔

جوزف نے ایک نظر نالے کی طرف دیکھا۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر سے بہت پہلے جب وہاں کھیت ہوا کرتے تھے تو ان کی آبیاری کے لیے اس نالے کو ایک قریبی نہر سے نکالا گیا تھا۔ جب پراپرٹی ڈیلروں نے کھیت نگل لیے تو کیچڑ اور تعفن سے بھرا یہ نالہ بھی اپنے جواز سے محروم ہوکر گندے پانی کے نکاس کا ذریعہ بن گیا تھا۔ بہت مدت سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اس نالے کو پاٹ کر سڑک بنادی جائے کیونکہ اس کی بدبو کی وجہ سے پوری سوسائٹی کی صحت سخت خطرات سے دوچار تھی۔

یہ سیدھے کناروں والا تنگ نالہ تھا اور اس قدر گہرا کہ خود رو پودوں اور سرکنڈوں کی بہتات کے باعث اس کی گہرائی میں جھانکنا مشکل تھا۔ لوگ اس نالے کی طرف آنے سے کتراتے تھے کیونکہ مشہور تھا کہ نالہ زہریلے سانپو ں اور طرح طرح کے موذی حشرات کی آماجگاہ ہے جو اکثر باہر نکل کر رینگتے پھرتے تھے۔ جوزف نے قریب ہوکر نالے میں جھانکا اور پھر گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ لمحہ لمحہ اترتی رات نے نالے کی گہرائی کو خوف سے بھردیا تھا۔ اس نے حاجی کو مخاطب کرکے لجاجت سے کہا:

”حاجی صاب، اب میری ہڈیوں میں ست کہاں؟ پکی ٹھٹھی میں آپ کو بہت سے جوان مل جائیں گے۔
”کوئی حرام خور نالے میں اترنے کو تیار نہیں ہے۔ سب کیچڑ اور سانپوں سے ڈرتے ہیں۔ “
” ون ون ٹو ٹو؟ “
”وہ گھنٹہ بھر سے پہلے نہیں آسکیں گے۔ اس وقت تک جانے کیا ہو جائے؟ “
”بچوں کی عمریں کتنی ہیں؟ “
حاجی کی بجائے کسی اور نے جواب دیا:

” ایک عدنان ہے آٹھ ساڑھے آٹھ سال کا اور دوسرا اس کا کزن ہے عدیل، وہ دس سال کا ہے۔ دونوں کھیلتے ہوئے جانے کیسے اس طرف آنکلے تھے۔ “

” ہائے میرے بچے۔ ۔ ۔ ہائے میرے نور عین! “ دور حاجی کی آواز آئی جو پچھاڑ کھا کر زمین پر ڈھے پڑا تھا۔
” اباجی، حوصلہ رکھیں، اللہ نے چاہا تو بچے خیریت سے آ جائیں گے۔ “

”مجھے تسلیاں نہ دو لڑکوں کو نکالو۔ “ حاجی نے دھاڑ کر کہا۔ پھر وہ اٹھا اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں جوزف کی طرف بڑھا۔

”دیکھو جوزف بھائی! “ اس نے اپنے لہجے میں جہاں بھر کی لجاجت بھرتے ہوئے کہا، ”بچے سب سے سانجھے ہوتے ہیں۔ تمہارا بیٹا ہوتا تو۔ ۔ ۔ “

حاجی نے چونک کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور مجرموں کی طرح سر جھکا دیا۔ جوزف نے کڑے تیوروں اس کی طرف دیکھا۔ اس بار بھی حاجی ہی تھا جس کے بلانے پر چھیما اپنے ساتھی کے ساتھ گٹر صاف کرنے گیا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو احتیاط کے تقاضے پورے کرکے گٹر کا ڈھکن کھلوا سکتا تھا اور اندر جمع شدہ گیس خارج ہونے تک انتظار کر سکتا تھا لیکن اسے جانے کیا جلدی تھی کہ اس نے دباؤ ڈال کر انہیں مجبور کر دیا تھا۔

جوزف بے دم سا زمین پر بیٹھ گیا۔ اتنی کڑی آزمائش کب اس پر آئی تھی۔

تب حاجی نے اچانک ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے جھک کر اس کے پاؤں پر اپنی ٹوپی رکھ دی اور نم آنکھوں سے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

”مجھے معلوم ہے جوزف بھائی، کہ بچے اب تک زندہ نہیں ہوں گے۔ چلو جو اللہ کی رضا۔ مجھے ان کی لاشیں ہی مل جائیں تو تسلی توہو کہ اپنے ہاتھوں انہیں دفن کیا ہے۔ “

جوزف نے گھوم کر دیکھا۔ اس کے گرد دس بارہ آدمی کھڑے تھے اور وہ ان کی التجا بھری نظروں کا محور تھا۔ اچانک ایک خیال نے اس کی الجھن ختم کردی اور وہ جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

خداوند نے اسے اپنے زندہ ہونے کو ثابت کرنے کا موقع فراہم کر دیا تھا۔

اس نے ایک سگریٹ سلگایا اور گہرے کش لے کر اپنی ہمتوں کو سمیٹنے لگا۔ سگریٹ کے آخری کش کے بعد معمول کی کھانسی کے بعد جب اس کا دھونکنی سا چلتا ہوا سینہ نارمل ہوا تو اس نے قمیض اتار دی اور شلوار کو رانوں تک چڑھالیا۔ اس کے کہنے پر ایک لمبا اور موٹا رسا منگوایا گیا جسے اس کی کمرکے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ماتھے پر کان کنوں والی ٹارچ باندھ دی گئی۔ اوروہ نعرہ ہائے تحسین کے جلو میں کمال سکون کے ساتھ خود رو گھاس کے سرکنڈوں کو تھام کر نیچے اترگیا۔

کئی فٹ گہری سطح کو محسوس کرنے پر اس نے کمر سے بندھی رسی کھول دی اورٹارچ کی روشنی گھماتے ہوئے یہاں سے وہاں تک نالے کا جائزہ لیا۔ اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے پہلوان اکھاڑے میں پنجہ لڑانے سے پہلے اپنے حریف کے تیور بھانپنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نالہ بھی ایک پہلوان تھا جسے پچھاڑنے وہ اس کی جوہ میں اتر آیا تھا۔ وہ کچھ دیر پانی کی سیاہ کثافت کے کنارے کھڑے سوچا کیا اور پھر سینے پر کراس بناتے ہوئے اس نے پانی میں پاؤں ڈال دیے۔

وہ کبھی اچھا تیراک ہوا کرتا تھا لیکن وہ جوانی کی بات تھی۔ اب تو جانے کتنی مدت سے اس کے تلوؤں نے پانی کو چھوا بھی نہ تھا۔ نالے میں پانی زیادہ نہیں تھا، مشکل سے گھٹنوں تک آ رہا تھا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی میں چمکتے ہوئے پانی کو جانچنے والی نگاہوں سے دیکھا۔ پانی کا بہاؤ اتنا ضرور تھا کہ آٹھ دس سال کے بچے کو ٹھہرنے نہ دے۔ خود اسے درپیش مسئلہ پانی کے بہاؤ کا نہیں کیچڑ کا تھا جو چلتے ہوئے اس کے پاؤں دبارہا تھا۔

اسے نالے کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا لہٰذا وہ محتاط ہوکر قدم قدم چل رہا تھا۔ جانے آگے دلدل آنی ہے یا پانی نے گہرا ہونا ہے اور پھر سانپوں کا دھڑکا الگ کہ کسی بھی وقت کوئی سانپ اس کی ٹانگوں سے لپٹ سکتا تھا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس پراسرار نالے میں اترنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا لیکن بائیو میٹرک مشین کو جھٹلانے کی دھن نے اسے وقتی طور پر خوف سے آزاد کر دیا تھا۔

اس نے ایک جگہ رک کر گھپ اندھیرے میں بچوں کو آواز دی لیکن جواب میں خاموشی نے اس کے خدشے کی تصدیق کردی۔ پانی کا بہاؤ انہیں کہیں آگے لے گیا تھایا شاید کہیں وہ کیچڑ میں دب گئے ہوں گے۔ وہ انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد پکارتا آگے بڑھنے لگا کہ یکایک پانی اس کی ٹھوڑی تک آ گیا۔ کوئی گہرا گڑھا تھا جہاں پانی کی گہرائی یک دم زیادہ ہوگئی تھی۔ اسے غوطہ لگا تو اس نے پانی میں ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردیے۔ پیراکی کی مشقت اس کی ہمت سے سوا تھی کہ اس عمر میں اس کا ماس ہڈیوں پر ڈھیلا پڑچکا تھا مگر اسے اپنی خفتہ قوتوں کو کام میں لانا تھا۔ ذرا آگے پانی کی گہرائی کم ہوئی تو اس نے رک کر سانس کو متوازن کیا اور ایک بار پھر ہانک لگائی:

”چھیمے۔ ۔ ۔ او چھیمے! “

وہ چونک گیا۔ اسے گمان گزرا کہ اس نے پہلے بھی بچوں کو اسی نام سے پکارا ہوگا۔ اس پکار کے بعد اس نے حیرت سے محسوس کیا کہ اس کے بازو ؤں اور پنڈلیوں کے گرد گوشت میں سختی آ رہی ہے اور تھکان کی جگہ توانائی نے لینا شروع کردی ہے۔ اسے برسوں سے ایک ہی قلق کھائے جا رہا تھا کہ کاش وہ چھیمے کے ساتھ گٹر میں اترتا اور اسے باہر دھکیل کر اس کی جگہ خود مرجاتا۔ اب اسے قدرت نے چھیمے کو بچانے کا ایک عجیب سا موقع فراہم کر دیا تھا۔

اس نے اس گھپ اندھیرے میں غیب سے کسی کو مدد کے لیے پکارنا چاہا تو بے اختیار اس کے منہ سے یسوع مسیح کی بجائے بالمیک کا نام نکلا۔ وہ بالمیکی نہیں تھا بلکہ وہ ٹھیک طرح سے مسیحی بھی نہیں تھاپھر بھی جانے کیسے اس کے منہ سے وہ نام نکلا جو کئی پشت پہلے اس کے بزرگوں کی دعاؤں اور مناجات کا محور ہوا کرتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments