جوزف مسیح کی زندگی کا ایک دن


جوزف کا دل انجانے خدشے سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا:
” سر جی، کوئی مسئلہ ہے کیا؟ “
” بزرگوارم! “ اہلکار نے سپاٹ لہجے میں کہا، ”آپ کو امداد نہیں مل سکتی۔ “

جوزف نے بے یقینی سے اسے دیکھا تو اس نے وضاحت کی کہ اس کی انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں، جب تک مشین اس کے ہونے کی تصدیق نہ کردے اس وقت تک اسے زندہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔

وہ ہونق سا کچھ دیر اپنے ہاتھوں کو اور اہلکاروں کے چہروں کو دیکھتا رہا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے عین سامنے اس کے ہونے سے انکار کر دیا جائے گا۔

اس نے بے یقینی کی ابتدائی کیفیت سے سنبھلنے کے بعد التجا تک کرکے دیکھ لی، جو منہ میں آیا کہا لیکن سب بیکار۔ البتہ اسے یہ تسلی ضرور تھمادی گئی کہ اس کے اور اس جیسے دو چار اور کیسوں اوپر بھیج دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا حل بھی نکال لیاجائے۔

وہ چھتری بغل میں دبائے بوجھل قدموں نکلا تو ایک کیمرہ پارٹی اس کی جانب لپکی۔ وہ کہ تب تک اپنی جھنجھلاہٹ اور طیش کو منت سماجت کے بوجھ تلے دبائے ہوئے تھا، اچانک پھٹ پڑا۔ اور پھر ترنت ہی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگ ایک مجہول وضع کے اور طیش سے کپکپاتے ہوئے بڈھے کو کلپتے دیکھ کر کئی روز تک چچ چچ کرتے اور آنسو والا ایموجی بناتے رہے۔

”میں اٹھہتر سال سے اس دنیا میں ہوں۔ ان تمام برسوں میں مجھے ہنسایا گیا، رلایا گیا اور ٹھوکروں میں رکھا گیا لیکن کبھی کسی نے میرے ہونے سے انکار نہیں کیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ میری انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں لہٰذا میرا وجود بھی مٹ چکا ہے؟ “

” جوزف! ۔ ۔ وے جوزفا! “

جوزف دیر سے چپ چاپ زمین پر لکیریں کھینچے جا رہا تھا۔ اس نے چونک کر سراٹھایا اور کچھ کہے بغیر اپنا کام جاری رکھا۔ بھاگاں بستر سے اٹھ کر چھڑی ٹیکتی اس کے پاس آبیٹھی تھی۔

”پریشان کیوں ہوتے ہو، خداوند تو ہے نا۔ “
” خداوند؟ کون خداوند؟ “
” تم نے پھر منکروں جیسی باتیں شروع کردیں۔ تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے۔ ۔ ۔ “
وہ زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے بڑبڑایا:
”میں خود کو ایویں ای زندہ سمجھتا رہا اب تک، لعنت ہے میری بے وقوفی پر۔ “
” اچھا زیادہ نہ سوچو، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ “
” کیا ہو جائے گا اور کون کرے گا؟ تمہارا خداوند؟ “
”جوزفا! نہ کیا کر پہلے ہی ہم پکڑ میں آئے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ اچھا چھوڑ یہ بتا اب کیا کرنا ہے؟ “

”اچھا بھلا کام چل رہا تھا۔ “ جوزف خود سے مخاطب ہوا۔ ”جانے کہاں سے یہ منحوس وبا آ گئی۔ اخے بند کردو، سب کچھ بند کردو اور جب بند کرکے گھر میں بیٹھ گئے تو بولے تمہارے ہاتھ کی لکیریں گھس گئی ہیں، مشین نے تمہیں زندوں میں شمار کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ کوئی پوچھے، بہن کے دینو، بندہ تمہارے سامنے کھڑا ہے، اٹھہتر سال سے تمہاری ماں کے خصیے کہ جا رہا ہے، اپنے حصے کے عذاب بھگت رہا ہے اور تم کہتے ہو کہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرو۔ لا ؤ اپنی ماں کو میں پیش کرتا ہوں ثبوت اپنے زندہ ہونے کا۔ “

بھاگاں کا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس نے جوزف کے ہاتھ کی پشت پر ابھری ہوئی رگوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر ہوا کی زد میں آئے پتے کی طرح چکراتے ہوئی اپنی چارپائی پر ڈھیر ہوگیا۔ بہت دیر بعد اس کی آواز ابھری:

”بھاگاں، کیا تم زندہ ہو؟ “

بھاگاں جوسیرو کا سہارا لیتے ہوئے اپنی چارپائی پر دراز ہوچکی تھی یونہی تکیے میں منہ دیے اسے بھگوتی رہی۔

بہت دیر بعد جوزف اپنی چارپائی سے اٹھا اور بھاگاں کے ساتھ لیٹ گیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ بھینچے دیر تک اس کی بند آنکھوں پر انگلیاں پھیرتا رہا۔ بھاگاں اسی کروٹ پڑے دھیرج سے بولی:

” تو تو ایک بار مرا ہے جوزف! میرا اجڑا ہوا شہر جانے کب کب اجڑا اورجانے کب کب آباد ہوا۔ “
” میں جانتا ہوں کہ تو چھیمے کے ساتھ ہی مرگئی تھی۔ “

” نہیں جوزف، میں چھیمے کے ساتھ نہیں مری تھی۔ میں تو اس وقت مری تھی جب تم چھیمے کی موت کے پیسے کھرے کرکے لائے تھے اور پھر تم نے ان پیسوں سے اس گھر کو خرید ا تھا۔ “

جوزف کچھ کہے بغیر اس کے بالوں کو سہلاتا رہا۔

”یہ تمہارے لیے گھرہوگا، میرے لیے تو یہ قبر ہے جس میں میں چھیمے کے ساتھ رہتی ہوں۔ جو پہلے سے قبر میں ہو اسے کیا فرق پڑتا ہے جینے اور مرنے سے؟ “

”ٹھیک ہے بھاگاں، میں بھی تمہارے ساتھ اسی قبر میں دفن ہو جاؤں گا۔ “
اچانک بھاگاں جیسے جاگ گئی ہو۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اپنی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے مسکرا دی۔
”نہیں جوزف، تو نہیں مرے گا۔ تم نے ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ “

جوزف نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا کہ اچانک دروازے کے باہر ایک موٹر سائیکل رکا اور پھر دروازہ دھڑدھڑایا جانے لگا۔ اس نے سرہانے سے سر اٹھا کر تعجب سے دروازے کو دیکھا۔ کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا تھا۔ شام ڈھلے کون ان سے ملنے آ سکتا تھا؟ پوری پکی ٹھٹھی میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس سے ملنے کو بے قرار رہتا ہو اور پھر یہ آواز بھی ان سنی سی تھی۔ جوزف نے بیوی کی طرف الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ پھر بیوی کے اشارہ کرنے پر وہ اٹھا اور ذرا سا دروازہ کھول دیا۔ باہر موٹر سائیکل پر ایک نوجوان بیٹھا بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ جوزف نے باہر نکل کر سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے پچھلی سیٹ کی طرف اشارہ کر دیا۔

”لیکن کہاں، اور تم کون ہو؟ “

”سوال جواب کا وقت نہیں ہے۔ سخت ایمرجنسی ہے۔ ہم ایک مشکل میں پھنس گئے ہیں اور صرف تم ہی ہماری مدد کر سکتے ہو۔ “

”خیر تو ہے نا؟ “
”پتا نہیں۔ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔ “
جوزف کو خاموش دیکھ کر نوجوان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے :
”چاچا جوزف! میرا اعتبار کرو تھوڑی دیر بعد میں تمہیں واپس چھوڑ جاؤں گا۔ “

جوزف کچھ دیر اس نوجوان کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھتا رہا اور پھر کچھ سوچ کر بھاگاں کو بتانے کے بعد اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔

موٹر سائیکل تیز ہوا کے ساتھ ساتھ اڑتا ہاؤسنگ سوسائٹی کے پیچھے ایک گندے نالے کے کنارے رک گیا۔ وہاں ایک ہجوم جمع تھا اور سب کے چہرے فق تھے اور سب گنگ تھے۔ جوزف کی دھڑکن بھی تیز ہوگئی۔ پہلا خیال جو اس کے دماغ میں آیا یہ تھا کہ کسی کو قتل کرکے گندے نالے میں پھینک دیا گیا ہے اور یہاں موجود لوگ مقتول کے لواحقین ہیں جو لاش کو نالے سے نکالنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن اسے کیوں بلایا گیا ہے؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب تھا۔

تب ایک سفید چمکیلی داڑھی والا شخص اس کی طرف بڑھا۔ جوزف نے تعجب سے دیکھا کہ وہ حاجی تھا، ایک دولت مند تاجر جو ہاؤسنگ سوسائٹی کے سب سے قیمتی مکان میں رہتا تھا۔ اس کی نیکی، دینداری اور سخاوت مقامی آبادی میں ضرب المثل کے طور پر مشہور تھی۔ جب وبا کی مصیبت شروع ہوئی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں بند ہونا پڑا تو وہی تھا جس نے اسلامی جماعت کی فلاحی تنظیم کے بینر تلے غریب خاندانوں کو راشن کی تقسیم شروع کی تھی۔

جوزف بھی ایک روز جاکر چپ چاپ امداد لینے والوں کی قطار میں جابیٹھا۔ وہاں راشن کے تھیلوں سے بھرا ایک ٹرک کھڑا تھا اور لاؤڈ سپیکر سے نشر ہوتی نعتوں سے گدرائے ہوئے ماحول میں حاجی کے کارندے سامان تقسیم کرنے میں حاجی کی مدد کر رہے تھے۔ جب بہت دیر بعد جوزف کی باری آئی تو کسی نے حاجی کے کان میں کچھ کہا جس پر حاجی کے چہرے سے چپکی مربیانہ مسکراہٹ غائب ہوگئی اور اس کی بجائے ماتھے پر سلوٹیں ابھر آئیں۔

”تمہارا نام جوزف مسیح ہے؟ “
”جی حاجی صاب، پکی ٹھٹھی میں رہتا ہوں۔ “
”ہوں! دیکھو یہ امداد مسلمانوں کے لیے ہے۔ تمہارا ذمہ دار چرچ ہے، اس سے مانگو۔ “
حاجی یہ کہہ کر اگلے مستحق کی طرف متوجہ ہوگیا اور جوزف اپنی دھوتی سنبھالتا وہاں سے چلدیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments