لکھنے والی کا آخری سفر


کسی نے کہا تھا کہ ”ایک افسانہ نگار اپنے قارئین کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائے تو وہ بہترین افسانہ نگار کہلانے کا حقدار ہوتا ہے“ ۔ مگر وہ تو چھوٹی چھوٹی حقیقتوں پر کہانیاں لکھتی تھی اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ قاری کیا سوچے گا؟ اس کی اپنی منطق اور فلسفہ تھا وہ اپنی کہانیوں کا اپنی مرضی سے اختتا م کرتی تھی۔ پچھلی دہائیوں میں اکثر افسانوں کی آخری لائنیں یا انجام مدیر کے ہاتھو ں تبدیل ہوجایا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ دو بار ایسا ہوا تو اس نے تیسری باراس رسالے میں کہانی بھیجنی چھوڑ دی۔

ابتدائی کہانیوں سے ایسی مقبولیت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ اس کے ناول تیزی سے مقبول ہورہے تھے۔ لوگ اسے مختلف علمی اور ادبی تقریبات میں مدعو کرنے لگے تھے اور اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دینے لگے تھے۔ اس کے لکھے ہوئے ناولوں کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا جانے لگا۔ خود اسے ان کہانیوں کی ڈرامائی تشکیل سے لاکھوں کی آمدنی ہونے لگی تھی۔ وہ ملک جہاں شاعر، ادیب، اور آرٹسٹ کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو۔ جہاں نامور فن کار بڑھاپے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں۔

وہاں اس کے ناولوں اور ڈراموں کی مقبولیت اس کے اپنے لیے اچنبھے کی بات تھی۔ مگر ایک سفر تھا جو مسلسل جاری تھا۔ مغربی ادب کے حوالے سے اس کا مطالعہ وسیع تھا۔ اور اس وسعت کا احساس اس کے ناولوں اورڈراموں سے کیا جاسکتا تھا۔ اس کے کئی کردار عوام میں بہت مقبول ہوگئے تھے۔ کچھ کردار عام زندگی کے باسی تھے۔ مگر کچھ ایسے خاص تھے کہ جنھیں اس دنیا میں تلاش کرنا ناممکن تھا۔

اس کے مشہور ہونے سے قبل اس کا خاندان متوسط طبقے کا عام سا گھرانہ تھا۔ جہاں لڑکیوں کو مناسب تعلیم و تربیت کے بعد ان کی شادیاں کر دینا ہی زندگی کا مقصد تھا۔ مگر اس کے معاملے میں اماں ابا خاموش تھے۔ کچھ اسے بھی اپنے خوابو ں کا شہزادہ اردگرد نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہر نئے ڈرامے کے چیک جب لاکھوں میں آنے لگے تو اماں ابا کو رہائش تبدیل کرنے کا خیا ل آیا۔ اور انھوں نے شہر کے بہترین علاقے میں کوٹھی خرید لی۔ اس کے ڈراموں اور ناولوں کی مقبولیت کا وہ ہی عالم تھا۔

وہ رات رات بھر بیٹھ کر ڈرامے لکھتی اور دن میں نیند پوری کرتی۔ اپنی مرضی سے زندگی گزارنا، اپنی شخصیت کو مزید نکھارنا، مطالعے میں وسعت پیدا کرنا ہی اس کی زندگی کے مقاصد تھے۔ پہلا دھچکا اس کے دل کو اس وقت لگا جب کام کرنے والی ماسی نے پوچھا کہ باجی تمھارے کتنے بچے ہیں؟ تمھارا شوہر کیا کرتا ہے؟ پھر تواتر سے مختلف کلینک اور لیبارٹریز میں اس کے نام کے ساتھ بنا پوچھے مسز لکھا جانا اس کے دل پر قیامت ڈھا گیا۔ جس معاشرے میں لڑکیوں کی

شادی کی آئیڈیل عمر اٹھارہ بیس سال ہو وہاں پینتیس سال کی کنواری کو لوگ کنوارا تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اب تک اس نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا مگر پھر اسے امی ابا سے کہنا ہی پڑا کہ ”آپ کوئی مناسب رشتہ دیکھ لیں میرے لیے“ ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اماں ابا کے دل سے بھی اس کی شادی کا خیال محو ہوگیا تھا۔ وہ گھروالوں کی خواہشات پوری کرنے کی مشین تھی اس کی شادی کی وجہ سے بہن بھائی اور امی ابو کو اپنی خواہشات سے دستبردار ہونا پڑتا۔ جس کے لیے اب وہ تیار نہیں تھے۔ اسی لیے ہر آنے والے رشتے میں کیڑے نکالنے لگے۔ بعض ایسے رشتے بھی آئے جو ہر لحاظ سے مناسب تھے اور ایک مشہور ڈرامہ رائٹر سے شادی وہ اپنی خوش نصیبی سمجھتے تھے۔ مگر دونوں چھوٹے بھائی تیار نہیں ہوئے۔

اس کا حالیہ ڈرامہ سیریل بہت کامیاب جا رہا تھا۔ اس ڈرامے کا ڈائریکٹر ایک متوازن شخصیت کا حامل شخص تھا۔ گفتگو، نشست و برخاست، معقول تھی۔ اس نے جب اپنا پر پوزل ہیش کیا تو ابیہا فاروقی نے کسی سے مشورے کے بغیر ہی وہ رشتہ قبول کر لیا۔ ایسے رشتے روز روز تو نہیں آتے۔ انڈسٹری کی کئی فنکارائیں اس سے شادی کی خواہش مند تھیں۔ امی ابا اور بھائیوں کو اس کا فیصلہ پسند نہیں آیا مگر خاموش تھے۔ اپنی شادی عالی شان طریقے سے کرنے کے لیے اس نے اپنی پوری جمع پونجی ختم کرڈالی۔

اس کی شادی کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں تو عوام میں اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ شادی سے قبل اس کے بھائیوں کا مطالبہ تھا کہ وہ اپنی کوٹھی ان کے نام کردے مگر وہ رضامند نہیں ہوئی۔ اس کے دل میں یہ خیال تھا کہ یہ کوٹھی اس کے بچوں کے کام آئے گی۔ اس نے خضر کو بھی نہیں بتا یا تھا کہ جس گھر میں اس کی رہائش ہے وہ اس کے ذاتی پیسوں سے خریدا گیا ہے۔ امی ابا کو اس نے صاف منع کر دیا تھا کہ یہ گھر میں کسی کے نام نہیں کروں گی۔

گھروالوں کی نیت کو دیکھتے ہوئے اس نے گھر کے کاغذات لاکر میں رکھوادیے تھے۔ انسان کے پاس دولت کے ساتھ آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ وہ شادی کے بعد بہن بھائیوں اور ماں باپ کے بدلتے ہوئے رویوں کا سامنا کر رہی تھی۔ بہن بھائیوں کویہ اختلاف تھا کہ وہ اماں ابا کے اکاونٹ میں چند لاکھ چھوڑجاتی تاکہ وہ پیسہ ان کی آسائشات پر کام آسکتا۔ اس کا دل ہی نہیں چاہا کہ وہ ایک پیسہ بھی اس گھر میں چھوڑ کر جائے جس کی اہمیت گھروالوں کی نظر میں اس سے زیادہ تھی۔

خضر سے شادی کرکے وہ بہت مطمئن زندگی گزار رہی تھی۔ اللہ تعالی نے اسے دو بچے دے دیے تھے جن کی پرورش وہ احسن طریقے سے کر رہی تھی۔ دل میں یہ خواہش بھی تھی کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی خوشیاں دیکھے۔ دولت اور شہرت آج بھی اس کے تعاقب میں تھی۔ جتنی مقبولیت کسی شخص کو ستر اسی سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہے وہ اسے چالیس سال کی عمر میں مل چکی تھی۔ اس کا بیٹا چار سال کا اور بیٹی تین سال کی تھی۔ سفر اس کے روزمرہ میں شامل تھا۔ بچے دادی اور پھپو کے پاس رہ جاتے تھے۔ اسے کہیں آنے جانے میں بچوں کے حوالے سے پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ کبھی خضر کے ساتھ اور کبھی اکیلے اسے مختلف ڈراموں کی شوٹنگ کے دوران ڈائریکٹر کی خواہش کے مطابق اور اضافی معاوضے کے لیے جانا پڑتا۔

اپنا گھر وہ پچھلے دنوں اپنے بچوں کے نام کرچکی تھی۔ اپنے تمام اکاونٹس اور اثاثوں کا ذمے دار شوہر کو قانونی طور پر قرار دے کر اس کے کا غذات لاکر میں رکھوا چکی تھی۔ چھوٹی بہن کو ایک متوسط درجے کے علاقے میں فلیٹ خرید کر تحفتا دے دیا تھا۔ چھوٹے بے روزگار بھائی کو سرمایہ کاری کرکے ایک چھوٹا بزنس کروادیا تھا۔ والد کے اکاونٹ میں ان کے اور امی کے اخراجات کے لیے دس لاکھ روپے ٹرانسفر کردیے تھے۔ امی ابا کے پاس وہ تواتر سے جایا کرتی ان کی ضروریات کی بابت سوال کرتی اور پوچھتی کہ ”آپ کو مجھ سے کوئی شکایت تو نہیں“ ۔

امی اکثر کہتیں ”بیٹا ہمیں تم سے کوئی شکایت نہیں، تمھارے بھائیوں کو ہے وہ چاہتے ہیں کہ یہ کروڑوں کی کوٹھی اپنے ابا کے نام کردو“ ۔ ”امی یہ گھر میں اپنے بچوں کے نام کرچکی ہوں۔ خضر کو علم نہیں ہے کہ یہ گھر میرا ہے۔ اگر مجھے کچھ ہوگیا تو کاغذات لاکر میں ہیں۔ یہ میرے بچوں کے کام آئے گا“ ۔ وہ حتمی لہجے میں کہتی ہوئی اٹھی۔ اماں ابا کو اللہ حافظ کہتے ہوئے باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ آپا آپ گھر نہ سہی اپنی نیو برانڈ گاڑی میرے نام کردیں۔

اگر گھر میں کوئی اسٹامپ پیپر ہے تو میں ابھی لکھ دیتی ہوں۔ امریکہ سے آنے کے بعد نئی گاڑی لوں گی تو میں یہ گاڑی تمھیں دے جاؤں گی اس نے چھوٹے بھائی سے کہا۔ اس کے چھوٹے بھائی نے کاغذات پہلے سے بنوا رکھے تھے جس پر محض اس کے سائن کی ضرورت تھی اس نے بلا پس و پیش سائن کردیے۔ اپنے این آئی سی کی فوٹو کاپی بھی چھوٹے بھائی کو دے دی۔ وہ بائی روڈ خضر کے ساتھ لاہور گئی تھی۔ ڈرامے کی شوٹنگ مکمل ہونے پر خضر نے اسے ہوائی جہاز کا ٹکٹ کروادیا تھا۔

خود خضر کو ایک ہفتے بعد کراچی آنا تھا۔ ہوائی سفر کافی عرصے سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند تھا۔ بچے بھی کرونا جیسے وبائی مرض کی وجہ سے گھر پر تھے اس کی اپنی کیفیت کچھ عجیب و غریب تھی۔ دنیا کی ہر چیز اسے کچھ عجیب انوکھی اور نئی معلوم ہو رہی تھی۔ اس دفعہ رمضان میں چلتے پھرتے کثرت سے استغفار کیا تھا۔ اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی گڑ گڑا کر معافی مانگی تھی۔ فلائٹ سے قبل امی ابا کو فون کرکے اپنے کراچی پہنچنے کی اطلاع دی تھی۔

امی نے اس کے آنے کا سن کر ساتھ خیریت کے ساتھ آنے کی دعا دی تھی۔ ائر پورٹ پر خضر کو الوداع کہتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اب وہ کبھی خضر کو نہیں دیکھ پائے گی۔ چالیس سال کی عمر میں پوری دنیا میں اپنے ناولوں اور ڈراموں کے ذریعے شناخت بنانے والی ابیہا فاروقی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ اس کا آخری سفر ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے اس مختصر سفر کا اختتام ایئر پورٹ کی قریبی آبادی پر ائر کریش کی صورت میں ہوا۔

اس کے استغفار کی برکت تھی یا ماں کے ساتھ خیریت کے آنے کی دعا، کہ اس کی میت جھلسنے سے بچ گئی۔ وہ ان خوش نصیب مردوں میں سے تھی جو مرنے کے بعد بھی صحیح حالت میں تھے اور جھلسنے سے بچ گئے تھے۔ میت اس کے ورثا کے حوالے کردی گئی تھی۔ خضر کی آمد دوسرے دن شام میں متوقع تھی۔ اس لیے میت ایدھی سینٹر میں رکھوادی گئی۔ اس کی میت میں شامل ہونے والے تمام لوگوں کے پاس اس کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات یا کہانی موجود تھی۔

چالیس سال کی عمر میں وہ خاموشی سے بے شمار لوگوں کے گھر چلا رہی تھی۔ جس میں قرابت دار زیادہ تھے۔ وہ اپنی کی ہوئی نیکیوں کی دوسروں کو خبر نہیں ہونے دیتی تھی۔ اس کی تدفین کے بعد اثاثوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو خضر لاکر سے تمام چیزیں نکال لایا جس میں اس کا قانونی وصیت نامہ موجود تھا۔ نئی اور پرانی گاڑی اس نے اپنے بہن بھائیوں کو دینے کی وصیت کی تھی۔ والدین کو بیس لاکھ روپے دینے کی کی وصیت کی تھی۔ خضر اور بچوں کے نام کئی فلیٹس، مکان، دکانیں اور امی ابا والا گھر کیا تھا۔

وصیت کے آخر میں تمام عزیزوں رشتے داروں سے درخواست کی تھی کہ مجھ سے اگر کوئی بھول چوک ہوگئی ہو تو اسے معاف کر دیا جائے۔ اس کی موت کئی دن میڈیا کا موضوع بنی رہی۔ آج بھی اس کے ڈرامے شوق سے دیکھے جاتے ہیں اورناول دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ مگر وہ خود کسی ناول، افسانے، یاڈرامے کا کردار بن کر ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments