ارتغرل نہیں، عبدالسلام ہمارا ہیرو ہے



زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ انہیں زبان، ذات، رنگ، نسل، مذہب و مسلک سے بالاتر ہوکر عزت بخشتی ہیں اور ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں کئی جنگجوؤں کو اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لوگوں کے دفاع اور ملکی سلامتی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قوم میں جذبہ محب وطنی سے سرشار لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے وقت آنے پر اپنی جان مال اور خاندان کی فکر کیے بغیر خود کو اپنے وطن پر نچھاور کر دیا۔ لیکن تاریخ انسانی میں جتنے بھی جنگجو یا مہم جو گزرے ہیں وہ ایک قوم کے لیے ضرور ہیرو تھے مگر دوسری قوم نے انہیں اپنا دشمن سمجھا۔ اس لیے چند جنگجوؤں کو ہی ان کی مہم جوئی کی بنا پر عالمی شہرت نصیب ہوئی۔

وقت بدلا دنیا بدلی اور انسان کی سوچ وسیع ہوئی عالمی شہرت یافتہ ہیروز وہ قرار پائے جنہوں نے سائنس، ٹیکنالوجی اور انسانی فلاح کے لیے بلا امتیاز کام کیا۔ جنگی ہتھیاروں کی روک تھام کرنے اور دنیا کو جنگ کے خطرے سے ہمیشہ کے لیے بچانے کے لیے عالمی تنظیمیں قائم کی گئیں اور اس طرح جنگ کی طرف پیش قدمی کرنے والے ولن سمجھے جانے لگے۔ دوسری طرف سائنسدانوں نے انسان کی زندگی کو آسان بنانے اور کائنات کے راز جاننے کے لیے اپنی تحقیق کو وسیع کیا اور دنیا نے ان کی خدمات اور کام کو نا صرف سراہا بلکہ بڑے عالمی اعزازوں سے بھی نوازا۔

پاکستان میں ملالہ یوسفزائی اور ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز جیسے عالمی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ملالہ یوسفزائی کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوششوں پر جبکہ ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنے شعبہ فزکس میں کمزور اور الیکٹرو میگنٹک پارٹیکل کے درمیان انٹر ایکشنز پر الیکٹرو ویک تھیوری پیش کرنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ یہ تھیوری ہگس بوسن ( 2012 ) یا گاڈ پارٹیکل تھیوری میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے جو کائنات کے وجود اور ابتدا کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو سائنس پر ان کی خدمات کے عوض ملکی و عالمی 33 ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں سے پاکستان کے پرائیڈ آف پرفارمنس ( 1958 ) ، ستارہ امتیاز ( 1959 ) اور نشان امتیاز ( 1979 ) شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبدالسلام جنہیں دنیا سلام کے نام سے بھی جانتی ہے جھنگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں چودھری محمد حسین اور حاجرہ حسین کے گھر 29 جنوری 1926 میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب جھنگ کے سندھو جاٹ جبکہ والدہ صاحبہ گورداسپور کے ککے زائی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے والد محکمہ تعلیم میں سرکاری ملازم تھے اور ایک انتہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میٹرک میں امتیازی نمبر حاصل کرنے پر گورنمنٹ کالج لاہور میں مکمل سکالرشپ پر داخلہ ملا جہاں انہوں نے اپنا سائنس کی دنیا میں متھیمٹکس کے ساتھ علم کا سفر شروع کیا۔ انہیں اردو اور انگریزی ادب سے بھی خاص لگاؤ تھا اور ان کی انگریزی ادب میں دلچسپی دیکھتے ہوئے ان کے استاد انہیں انگلش ٹیچر بنانا چاہتے تھے۔ مگر عبدالسلام کو میتھ میں دلچسپی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد عبدالسلام کے والد انہیں انڈین سول سروس میں مقابلے کا امتحان دلوانا چاہتے تھے۔

ٰ 1944 میں گریجویشن کرنے کے بعد عبدالسلام کو محکمہ ریلوے میں نوکری اس لیے نا دی گئی کیونکہ وہ عینک لگاتے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے ریلوے کمشن میں مکینکل انجینئر کا امتحان بھی دیا جس میں وہ کامیاب نا ہو سکے۔ عبدالسلام نے نوکری نا ملنے پر تعلیم جاری رکھی اور 1946 میں گورنمنٹ کالج میں میتھیمٹکس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال انہیں کیمبریج یونیورسٹی سے میتھ اور فزکس میں گریجویشن کی سکالرشپ ملی اور پھر PhD تک کیمبریج میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد عبدالسلام 1951 میں واپس لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج میں بطور پروفیسر میتھیمٹکس تعلیمی خدمات شروع کیں۔ 1953 کے لاہور میں مذہبی فسادات کے باعث وہ واپس کیمبریج چلے گئے جہاں انہوں 1954 میں سینٹ جان کالج لندن میں بطور پروفیسر تعلیمی خدمات دیں۔

عبدالسلام کی 1960 میں وطن واپسی پر انہیں صدر ایوب خان کی طرف سے شعبہ سائنس کی ترقی و تحقیق کا چارج دیا گیا۔ ایک ایسا ملک جہاں سائنس کی ترقی کے لیے کل آمدنی کا ایک فیصد بھی خرچ نہیں ہوتا تھا اور جس ملک کا اٹامک انرجی کمیشن کا دفتر محض ایک چھوٹے سے کمرے پر محیط تھا اور اس کے تحت دس سے بھی کم سائنسدان کام کر رہے تھے، عبدالسلام کے لیے سائنس کی ترقی کے لیے کام کرنا بڑا چیلنج تھا لیکن دھرتی کے اس بیٹے نے صدر پاکستان کو بریفینگ دینے کے بعد 1961 میں پاکستان کی پہلی خلائی ایجنسی (سپارکو) قائم کی۔

فوری طور پر پانچ سو سے زائد سائنسدانوں کو اپنے علم کا دائرہ وسیع کرنے اور تحقیق کے لیے بیرون ملک بھجوایا۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ پاکستان میں سائنس کی دنیا میں ترقی کا ایک بڑا اور مرکزی کردار بن گیا۔ جو سائنسدان ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے عبدالسلام نے انہیں واپس آنے کی دعوت دی اور سوئیٹزرلینڈ میں رہائش پذیر نیوکلیئر سائنسدان اشفاق احمد جیسے کئی سائنسدان وطن واپس آئے اور ملک میں سائنس کی ترقی کے لیے کام شروع کیا۔

عبدالسلام کو پاکستان سے عشق تھا۔ وہ پاکستان میں سائنس کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا اور اس نے کیا بھی، سلام سے پہلے سائنس کا پاکستان میں وجود نا ہونے کے برابر تھا اور اس کے بعد پاکستان دنیا کے ان ممالک کی لسٹ میں تھا جو نیوکلیئر پروگرام پر کام کر رہے تھے۔ سلام پارٹیکل فزیسٹ تھا جو نیوکلیئر کے قریب ترین شعبہ ہے۔ اس نے ملک بھر میں سائنس کی ترقی کے لیے تحقیقی ادارے قائم کیے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو چھوٹے سے کمرے سے نکال کر ایک بڑی اور عالیشان بلڈنگ میں منتقل کر کہ ملکی سلامتی و دفاع کو عزت بخشی۔

سلام 1961 میں دنیا کے سب سے بڑے امریکی خلائی ادارے (ناسا) کے ساتھ معاہدہ کرنے گیا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر باہمی خلائی مشن کرے۔ دنیا اس کی عزت کرتی تھی اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ ناسا نے سلام کی بات سنی اور ایک مہینے کے اندر بلوچستان کے ساحلی علاقے سونمیانی پر اپنا فلائٹ ٹیسٹ سنٹر تعمیر کرنا شروع کیا جس کا ٹیکنکل ڈائریکٹر عبدالسلام کو ہی بنایا گیا۔ عبدالسلام کی کاوشوں سے کینیڈا اور پاکستان نے نیوکلیر فیلڈ میں باہمی تعاون کا معاہدہ طے کیا اور بے حد تنقید کے باوجود اس نے کراچی میں پہلا نیوکلیئر پاور پلانٹ لگوایا جس نے بعد ازاں پاکستان کے دفاع کو مضبوط تر بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس نے ناسا کے ساتھ پاکستانی سائنسدانوں اور انجنیئرز کی تربیت اور تعاون کا ایک اور معاہدہ کیا۔ دنیا کا پہلا ادارہ انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس قائم کرنے کا اسی کا آئیڈیا تھا جسے اٹلی میں قائم کیا گیا اور سلام کو اس کا پہلا ڈائریکٹر بنایا گیا۔

سلام دن رات اپنے ملک میں سائنس کی ترقی و ترویج کے لیے کام کر رہا تھا۔ وہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کو سائنس کی طرف مائل کر رہا تھا۔ دنیا اسے سائنس میں ایک عظیم دماغ کا مالک انسان سمجھ رہی تھی۔ وہ پاکستان میں کئی سائنسی و تحقیقی ادارے قائم کر رہا تھا۔ مگر وہ اس بات سے نا آشنا تھا کہ جس ملک میں سائنس کی ترقی کے لیے وہ دن رات کام کر رہا تھا اس ملک کی آبادی کی اکثریت اس کے بنیادی مذہبی نظریات کے خلاف محاذ کھڑا کر رہی تھی۔ جہاں ایک طرف عبدالسلام پاکستانی نوجوانوں کے دماغ سائنسی علم و تحقیق سے روشن کر رہا تھا وہیں دوسری طرف فرقہ پرست لوگ اس کے مذہبی عقیدے کے خلاف نوجوانوں اور عوام کے دماغوں میں نفرت بھر رہے تھے۔

سلام مذہب کو علم کی بنیاد سمجھتا تھا۔ وہ احمدی جماعت سے تعلق رکھتا تھا جو دن بدن پاکستان میں متنازع بن رہی تھی۔ اور 1974 میں اس عقیدے کے ماننے والے لوگوں کو آئینی طور پہ دائرہ اسلام سے خارج کرکہ غیر مسلم قرار دیا گیا جن میں سے ڈاکٹر عبدالسلام بھی ایک تھا۔ اس بات نے عبدالسلام کو گہرا صدمہ پہنچایا مگر اس کی پاکستان اور لوگوں سے محبت کم نا ہوئی۔ برطانیہ اور اٹلی کی شہریت کی پیشکش اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ وہ اپنی جیب میں پاکستانی پاسپورٹ بہت فخر سے رکھتا ہے۔

یونیسکو کے ڈایئریکٹر جنرل کے لیے حکومت کی طرف سے عبدالسلام کا نام پیش نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اسے انتہائی مایوسی ہوئی۔ اس نے بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی کو دیکھ کر اپنی زندگی کے آخری آیام اٹلی میں گزارے لیکن پاکستان سے اس کی محبت کبھی کم نا ہوئی۔ وہ کہتا تھا مجھ سے بھلے میری شناخت چھین لیں لیکن یہ عشق جو مجھے اپنے وطن سے ہے کوئی نہیں چھین سکتا۔ بستر مرگ پر اس کے آنسو ایسے سوال چھوڑ گئے جو آج بھی جواب کے متلاشی ہیں۔ 21 نومبر 1996 کو عبدالسلام سائنس اور وطن سے محبت اپنے سینہ میں دبائے اس جہاں سے رخصت ہوا اور اس کی خواہش کے مطابق اسے آبائی شہر دفن کیا گیا جہاں 30 ہزار سے زائد لوگوں نے اس کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

چار سالہ گریجویشن پروگرام کے تحت بی ایس فزکس کی ایک کلاس میں سامنے بیٹھے سٹوڈنٹس سے جب پوچھا کہ آپ لوگوں کی فیلڈ میں ایک پاکستانی کو نوبل انعام بھی ملا ہے اس کا نام بتائیں۔ بغیر کسی مبالغہ آرائی کہ پوری کلاس میں سے صرف ایک لڑکے نے صحیح نام بتایا۔ لیکن کس بنا پر اسے نوبل انعام دیا گیا وہ اس پر مکمل بات نا کر سکا۔ اس دن احساس ہوا کہ ہم نے کتابوں سے عبدالسلام کو نکال کر فراموش نہیں کیا بلکہ ہم نے اپنے نوجوانوں کے دماغوں کو سائنس کے علم سے روشن نہیں ہونے دیا۔

انہی نوجوانوں کی اکثریت آج کل متنازع تاریخ پہ بنا ڈرامہ ارطغرل غازی بڑے جذباتی انداز میں دیکھ رہی ہے۔ اس ڈرامے سے تہذیب و اقدار اور مذہبی روایات سیکھ رہی ہے۔ کرداروں کے ڈرامائی ناموں کے ساتھ انہیں اصل نام بھی معلوم ہیں اور سوشل میڈیا خاص طور پہ انسٹاگرام پر ان کو روزانہ کی بنیادوں پر فالو بھی کر رہے ہیں اور اداکاروں کی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر پر تعریفوں کے پل بھی باندھ رہے ہیں۔ اس ڈرامے میں آج کے نوجوانوں کی بے انتہا دلچسپی اور عبدالسلام سے ناآشنائی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم نے علم، سائنس و تحقیق جو اسلام جیسے خوبصورت مذہب کا بنیادی فلسفہ ہے سے محبت کرنے والے نہیں بلکہ جنگجو دماغ پیدا کیے ہیں۔

سائنس ہندو، مسلمان، احمدی، سکھ یا عیسائی نہیں ہوتی سائنس کا تعلق کسی مذہب، مسلک، رنگ، زبان یا علاقے سے نہیں ہوتا۔ اس کی ایجادات تمام انسانیت کے لیے ہوتیں ہیں۔ اور سائنسدان تمام انسانوں کے لیے کام کر رہا ہوتا ہے اور مہذب قومیں انہیں اصل ہیرو سمجھتی ہیں۔ جو قومیں اپنے اصل ہیرو فراموش کر دیتی ہیں وہ پھر اپنے دائیں بائیں موجود قوموں کے جنگجوؤں کو آئیڈیلائز کرتی ہیں۔ ہم نے بھی یہی کیا۔ ہم نے کبھی ترکوں، کبھی افغانیوں، کبھی عربوں اور ایرانیوں کو اپنا ہیرو بنایا اور خود اپنی پہچان بنانے میں ناکام رہے کیونکہ ہم نے اپنی سرزمین پر پیدا ہونے والے ہیروز کو فراموش کیا ہے۔ ہمارا قومی ہیرو کائی قبیلے کا ارطغرل غازی نہیں بلکہ جھنگ کا سندھو جاٹ قبیلے سے تعلق رکھنے والا عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments