انسانی نفسیات کے راز



کیا آپ انسانی دماغ میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
کیا آپ انسانی ذہن کے راز جاننا چاہتے ہیں؟
کیا آپ انسان شخصیت کو ایک پہیلی ’ایک بجھارت اور ایک معمہ سمجھتے ہیں؟
کیا آپ انسانی دماغ کو انسانی جسم کا بلیک باکس گردانتے ہیں؟
اگر ایسا ہے تو عین ممکن ہے آپ قسط وار کالموں کی اس سیریز سے کچھ استفادہ کرسکیں۔

انسانی نفسیات کی تفہیم میں پچھلی ایک صدی میں حیرت انگیز تبدیلیاں آئی ہیں کیونکہ ماہرین طب ’سائنس اور نفسیات نے اس علم میں گرانقدر اضافے کیے ہیں۔ میں ان ماہرین کے پیچیدہ خیالات اور گنجلک نظریات آپ کی خدمت میں عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ آپ کے کمنٹس اور سوال مجھے انہیں بہتر بنانے میں مدد کریں گے۔ پہلی قسط سگمنڈ فرائڈ اور لاشعور کے بارے میں ہے۔

انسانی نفسیات کی تاریخ میں نیا انقلاب اس دن شروع ہوا جب یورپ کے شہر وئینا میں ایک مریضہ نے اپنے ڈاکٹر جوزف برائر سے کہا کہ وہ نہ صرف حاملہ ہے بلکہ اس کے بچے کا باپ وہ ڈاکٹر ہے۔ یہ خبر سن کر اس ڈاکٹر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے اس مریضہ کے ساتھ کوئی رومانوی یا جنسی تعلقات نہیں تھے۔ وہ ڈاکٹر ایک شریف النفس انسان تھے اور اس شہر میں اپنی بیوی اور بچوں سے ایک عزت دار انسان کی زندگی گزارتے تھے۔ وہ بدنامی سے اتنے گھبرائے کہ اپنا کلینک بند کیا اور شہر چھوڑ کر چلے گئے لیکن جانے سے پہلے اس مریضہ کو ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ کے پاس بھیج دیا۔

فرائڈ نے اس مریضہ کا کامیاب علاج کیا اور ثابت کیا کہ وہ مریضہ (جو نفسیات کی تاریخ میں ANNA O کے فرضی نام سے جانی جاتی ہے ) حاملہ نہیں تھی بلکہ ہسٹیریا کی مریض تھی۔ ہسٹیریا کی مریضہ کا علاج کرتے ہوئے فرائڈ کا انسانی لاشعور سے تعارف ہوا اور انہوں نے یہ جانا کہ ہسٹیریا کاتعلق مریض کے لاشعور میں بسے ناآسودہ جنسی جذبات اور تضادات سے ہے۔

فرائڈ نے ہمیں بتایا کہ انسانوں کا ایک اہم بنیادی نفسیاتی مسئلہ anxietyاینزائٹی ہے اور اینزائٹی کا تعلق نفسیاتی تضادات سے ہے۔ انسانی نفسیات اور اس کے تضادات کو سمجھنے کے لیے فرائڈ نے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق انسانی ذہن کے تین حصے ہیں

اڈ۔ IDجس کا تعلق انسان کی جبلی خواہشات سے ہے
سپر ایگوSUPEREGO۔ جس کا تعلق انسان کی اخلاقی روایات سے ہے
ایگو۔ EGOجو۔ اڈ اور سپر ایگو۔ داخلی اور خارجی زندگی۔ میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

ایک صحتمند انسان میں ایگو۔ اس کی اڈ۔ اور۔ اس کی سپر ایگو میں توازن قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جبکہ ایک غیر صحتمند انسان میں ایگو سے وہ توازن قائم نہیں ہوتا اور وہ اپنے تضادات کو لاشعور میں دھکیل کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔

میں ایک مثال سے اس تضاد کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ایک عورت اپنی کار میں اپنے چھ سالہ بیٹے اور چھتیس سالہ شوہر کو لنچ پر لے جا رہی ہے۔ بیٹا جو شرارتی اور لاڈلا ہے کہتا ہے کہ اسے میکڈانلڈ جانا ہے تا کہ وہ بگ میک فرنچ فرائز اور کوک کا لنچ کرے جبکہ شوہر کہہ رہا ہے کہ بیٹے کے لیے جنک فوڈ کھانا اچھا نہیں۔ وہ ایسے رستورانٹ میں جانا چاہتا ہے جہاں انہیں تازہ سبزیاں پھل اور جوس ملے۔ وہ عورت نہ تو بیٹے کو اور نہ ہی شوہر کو ناراض کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ ایک تضاد کا شکار ہوجاتی ہے۔ انسانی نفسیات میں اڈ۔ خود سر بیٹا ہے۔ سپر ایگو۔ ایک ذمہ دار لیکن جابر باپ ہے۔ اور ایگو ایک ہمدرد ماں۔ جب ماں اس تضاد کو حل نہیں کر سکتی تو اینزائٹی کا شکار ہو جاتی ہے۔

سگمنڈ فرائڈ نے انسانی نفسیات کے علم کو بہت سے تحفے دیے۔ انہوں نے اپنے علاج سے ہمیں بتایا کہ جب انسان کا شعور کسی تکلیف دہ تجربے یا مشاہدے سے نبرد آزما نہیں ہو سکتا تو وہ اسے لاشعور میں دھکیل دیتا ہے۔ لاشعور میں جانے کے بعد وہ تجربہ یا تو خوابوں میں آتا ہے اور یا نفسیاتی بیماری پیدا کرتا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ تحلیل نفسی سے بہت سی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ کا تحلیل نفسی کا علاج بیسویں صدی میں یورپ اور شمالی امریکہ میں بہت مقبول ہوا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس طریقہ علاج میں اضافے ہوئے۔ فرائڈ کے کچھ نظریات غلط بھی ثابت ہوئے اور کچھ کی تصدیق ہوئی جو کسی بھی طبی ’سائنسی اورنفسیاتی روایت کا خاصہ ہے۔

سگمنڈ فرائڈ نے ہمیں بتایا کہ ہم انسانوں کی ذہنی صحت کو انسانی ذہن کی حفاظتی تدابیرDEFENCE MECHANISMS کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے ان حفاظتی تدابر کی ایک فہرست تیار کی اور انہیں صحتمند اور غیر صحتمند تدابیر میں تقسیم کیا۔ فرائڈ نے تو صرف دس حفاظتی تدبیر کی نشاندہی کی اور ان کے بعد ان کی بیٹی اینا فرائڈ ’دوست کارل ینگ‘ ہمعصر ایلفرڈ ایڈلر اور مداح وکٹر فرینکل نے اس فہرست میں اضافے کیے۔ اب تک تیس کے قریب حفاظتی تدابیر کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ ان سب حفاظتی تدابیر کا تعلق انسانی شعور اور لاشعور سے ہے۔

جب کوئی انسان نفسیاتی مسئلے یا ذہنی بیماری کا شکار ہوتا ہے تو جب وہ کسی روایتی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کا علاج ادویہ سے کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی غیر روایتی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ ادویہ کے ساتھ ساتھ اس کو تھراپی کا مشورہ بھی دیتا ہے۔

ایک تھیرپسٹ مریض کو ذہنی صحت کی تعلیم دیتا ہے اور اسے شعوری اور لاشعوری عوامل سے متعارف کرواتا ہے اور اسے سکھاتا ہے کہ وہ کس طرح ایک صحتمند اور پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میں اس کالم میں صرف تین غیر صحتمند اور دو صحتمند حفاظتی تدابیر کی نشاندہی کرناچاہتا ہوں تا کہ آپ انسانی نفسیات کے چند راز جان سکیں۔

ACTING OUTیہ حفاظتی تدبیر نفسیاتی مسائل کا شکار نوجوان کرتے ہیں۔ جب وہ کسی سے ناراض ہوتے ہیں یا غصے میں آتے ہیں تو بجائے اس غصے کا اظہار اس شخص سے کریں جس سے وہ ناراض ہوں اورمسئلے کا مکالمے سے تسلی بخش حل تلاش کریں وہ کہیں اور جا کر اپنی جا رہیت کا اظہار کرتے ہیں اور تخریب کاری کرتے ہیں۔ یہ طریقہ ان کے لیے بھی اور معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔

DENIALیہ حفاظتی تدبیر وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھ سکتے۔ وہ حقائق کو جھٹلاتے ہیں اور خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور جب ان کے اعمال کے منفی نتائج نکلتے ہیں تو یا وہ حیران ہوتے ہیں اور یا دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

MAGICAL THINKINGاس غیر صحتمند حفاظتی تدبیر میں انسان حقیقی مسائل کا جادوئی حل تلاش کرتے ہیں جن سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال وہ جوڑے ہیں جن کے ہاں شادی کے بعد بچے پیدا نہیں ہوتے۔ وہ کسی ڈاکٹر یا سپیشلسٹ سے رجوع کرنے کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس جاتے ہیں جو ان کا علاج گنڈا تعویز سے کرتے ہیں جس سے وہ خود فریبی کا شکار رہتے ہیں۔

میں نے یہاں صرف تین غیر صحتمند حفاظتی تدابہر کا ذکر کیا ہے اس طرح کی بہت سی اور بھی غیر صحتمند حفاظتی تدابیر ہیں جو انسانوں کی ذہنی صحت کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں دو صحتمند حافاظتی تدابیر مندرجہ ذیل ہیں :

HUMORمزاح ایک صحتمند حفاظتی تدبیر ہے۔ بہت سے لوگ مزاح سے اپنا کیتھارسس بھی کر لیتے ہیں اور اپنے مسائل کاحل بھی تلاش کرتے ہیں۔ اس لیے میں لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ابن انشا اور مشتاق احمد یوسفی جیسے مزاح نگاروں کی نگارشات پڑھا کریں تا کہ ان میں مزاح کی حس پنپے۔ یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کی بعض لوگ مزاح کی آڑ میں طنز بھی کرتے ہیں اور طعنے بھی دیتے ہیں جس سے دوست دکھی بھی ہو سکتے ہیں۔ مزاح اور طنز کا فرق نفسیاتی طور پر اہم ہے۔

SUBLIMATIONیہ بھی ایک صحتمند حفاظتی تدبیر ہے۔ اس کی ایک مثال وہ لوگ ہیں جن میں جارحیت حد سے زیادہ تھی اور وہ باکسر یا پہلوان بن گئے اب وہ جارحیت کا اظہار محمد علی کلے کی طرح باکسنگ رنگ یا گاما پہلوان کی طرح اکھاڑے میں کرتے ہیں۔

اس کی دوسری مثال وہ مرد ہیں جو تیز گاڑی چلانا چاہتے تھے اور وہ ایمبولنس ڈرائیور بن گئے۔ اب وہ اپنی تیز گاڑی چلانے کی خواہش بھی پوری کرتے ہیں اور ایدھی کے ایمبولنس ڈرائیورز کی طرح قوم کی خدمت بھی کرتے ہیں۔

اس کی تیسری مثال وہ ادیب اور شاعر ’جرنلسٹ اور دانشور ہیں جو اپنے مسائل کا حل شاعری ڈرامے کالم اور ناول میں کرتے ہیں۔ اس سے وہ خود بھی ذہنی طور پر صحتمند رہتے ہیں اور اپنی قوم کی مسیحائی بھی کرتے ہیں۔

میں یہاں اس حقیقت کا تزکرہ بھی کرتا چلوں کہ جب چند لوگ کسی قوم کے سماجی ’مذہبی یا سیاسی لیڈر بن جاتے ہیں تو ان کے اقوال و اعمال سے پوری قوم کے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ وہ لیڈر اور رہنما جو ذہنی طور پر نابالغ ہیں اور غیر صحتمند حفاظتی تدابیر کی وجہ سے ذہنی مسائل کا شکار ہوتے ہیں وہ قوم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور وہ لیڈر اوررہنما جو بالغ صحتمند اور دانا ہوتے ہیں وہ قوم کی صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ انسانوں کی طرح خاندان اور قومیں بھی غیرصحتمند اور صحتمند حفاظتی تدابیر استعمال کرتے ہیں جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کس حد تک ذہنی طور پر بالغ اور دانا ہیں۔

قوموں کے ارتقا میں دانا سماجی ’مذہبی اور سیاسی رہنما اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
نوٹ۔ اس سلسلے کی دوسری قسط فرائڈ کے طریقہ علاج تحلیل نفسی کے بارے میں ہوگی۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail