یوراگوئے کی سیکس ورکر کا خاندان چار نسلوں سے جسم فروش ہے مگر انھوں نے بیٹی کو تعلیم دلوائی


’بچپن میں، میں ہمیشہ ٹیچر بننے کا خواب دیکھا کرتی تھی مگر بڑی ہونے پر میں اپنی ماں، نانی اور پرنانی کی طرح سیکس ورکر بن گئی۔‘

کیرینہ نونیئز یوراگوئے میں سیکس ورکر خاندان کی چوتھی نسل سے تعلق رکھتی ہیں اور انھیں اپنا بچپن مشکلات سے بھرپور دور کی طرح یاد ہے۔

بی بی سی منڈو کو ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا: ’یہ یوراگوئے میں ملٹری ڈکٹیٹرشپ کے دوران ہوا اور جو شخص میری والدہ کو دلال کے پاس سے لے گیا تھا، اس نے مجھے اپنی بیٹی کی طرح پالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد وہ ایک سیاسی قیدی بن گئے اور ہماری زندگی مکمل طور پر بدل گئی۔ میری امی کو دوبارہ سیکس ورکر بننا پڑا۔‘

ویسے تو ان کا بچپن آسان نہیں تھا مگر وہ اسے مختصراً غربت، غیر یقینی اور بے انتہا جسم فروشی کا مجموعہ قرار دیتی ہیں۔ آج وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ’زنجیریں توڑ دی ہیں۔‘ اور واقعی انھوں نے زنجیریں توڑی ہیں۔ وہ یوراگوئے میں سب سے نمایاں یونین رہنماؤں میں سے ایک بن کر ابھری ہیں۔

خواتین اور سیکس ورکرز کے حقوق کے دفاع کے علاوہ کیرینہ بچوں اور بالغوں کے جنسی استحصال کے خلاف بھی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اسی طرح انھوں نے ’دیگر خواتین کی مدد سے‘ اپنی بیٹی ویلیسکا کو اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والی پہلا فرد بنایا اور اس بات پر انھیں بہت فخر ہے، مگر یہ سفر آسان نہیں تھا۔

’جب آپ جسم فروشی کے ماحول میں پیدا ہوتے ہیں تو وہاں سے باہر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

ذیل میں ان کی کہانی بیان کی گئی ہے۔


میرا روزگار جس بدنامی میں گھرا ہوا ہے، اس سے وہ باتیں جنم لیتی ہیں جنھوں نے میرے بڑھنے میں کوئی سازگار کردار ادا نہیں کیا۔ اور اس کی وجہ سے میں معاشرے کے بارے میں بھی تلخ ہو گئی۔

مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ آپ کو خود کے لیے کھڑا ہونا چاہیے اور اگر آپ کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ نے کچھ غلط کیا ہوتا ہے اور آپ کو اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ آپ نے کوئی غلط فیصلہ کیا ہوتا ہے تو اس پر صبر کریں۔

میں ایک طویل عرصے تک اپنا جنسی استحصال ہونے کو اپنی کمزوری نہیں سمجھتی تھی بلکہ میں اسے بہادری سمجھتی تھی۔کئی سال بعد سخت تکلیف کے بعد مجھے یہ سمجھ میں آئی کہ جنسی استحصال سہنا کوئی بہادری نہیں ہے۔

اب میں اسے اپنی زندگی کا ایک سانحہ سمجھتی ہوں، مگر مجھے لگتا ہے کہ مجھ میں آج جو ہمت ہے وہ بھی یہیں سے آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اکیلی خواتین کو جسم فروش کیوں سمجھا جاتا ہے؟

سونو پنجابن، جس نے جسم فروشی کو ’عوامی خدمت‘ قرار دیا

جسم فروشی: ایک ’روحانی‘ حلف ہے جو عورتوں کو اپنے سمگلروں کے نام لینے سے روکتا ہے

جب میں یہ بات سمجھ گئی تو اس سے مجھے متاثرہ فرد کے کردار سے باہر آنے میں مدد ملی اور اتنی ہمت ملی کہ میں اپنی دیگر ساتھیوں کو بھی خاموشی، غصے اور ہمت ہار دینے سے روک سکوں۔ ہر شخص اپنے لیے آسان حالات یا اپنی مشکلات کا مختلف انداز میں تجزیہ کرتا ہے۔

ہم میں سے جو لوگ ان علاقوں میں پلے بڑھے جہاں جنسی فروشی کی جاتی تھیں اور جہاں ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرنا فطری بات سمجھی جاتی، ان لوگوں کے لیے ظاہر ہے کہ اگر ہم اپنے حمل کا دور کسی تیز اور بلند آواز میں موسیقی والی جگہ پر گزاریں گے تو جب ہمارے بچے اس دنیا میں آئیں گے انھیں موزارٹ کی مدھر دھنیں لبھا نہیں سکیں گی، کیونکہ یہ وہ موسیقی نہیں جس سے وہ ہمارے پیٹ میں واقف ہوئے۔

جب کیرینہ نونیئز یہ سمجھ گئیں کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنے، اپنی نانی اور اپنی پرنانی کے راستے پر نہیں چلانا چاہتی ہیں انھیں اپنے ماضی کے تجربات سے یہ بات تو اچھی طرح معلوم تھی کہ سیکس ورکرز کن مشکل حالات سے گزرتے ہیں اور انھیں روزانہ کس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چنانچہ انھوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ جب میں دروازوں پر دستک دے رہی تھی اور اپنے ساتھیوں کے حقوق کا مطالبہ کر رہی تھی تو لوگ مجھے قابلِ اعتماد آواز تصور کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے مجھے یونینسٹ اور پتہ نہیں کیا کیا کہا، مگر میں صرف اپنا بہترین روپ بننا چاہتی تھی۔

سنہ 1999 میں، میں نے ایک انسانی ٹریفکنگ گروہ کے خلاف آواز بلند کی جس نے دو لڑکیوں کو اٹلی منتقل کر دیا تھا۔ اس وجہ سے مجھے نو دلالوں نے مارا پیٹا اور میں 11 دن تک آئی سی یو میں پڑی رہی۔ مجھے دوبارہ چلنے کے قابل ہونے میں تین ماہ لگے۔

میں جب میں دوبارہ بیساکھیوں کے سہارے چلنا شروع ہوئی تو میں نے اس گارڈ کے خلاف دوبارہ کارروائی شروع کروائی جس نے مجھے اس نیٹ ورک کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ مجھے اس کام میں سات سال لگے مگر آج میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ مجھے یہ کرنے میں فخر ہے۔

‘مقدس اور جسم فروش خواتین کے درمیان تفریق’

یوراگوئے میں سنہ 2002 سے جسم فروشی ایک منظم سرگرمی ہے اور یہ اس وقت لاطینی امریکہ کے ان ممالک میں سے ہے جہاں اس حوالے سے سب سے زیادہ آزادانہ قوانین موجود ہیں۔

اس خطے کے کئی ممالک میں اب بھی سیکس ورک کے قوانین میں کسی نہ کسی صورت میں راستہ نکل آتا ہے، مگر کئی ممالک میں تو یہ اب بھی غیر قانونی ہے۔

کیرینہ کہتی ہیں کہ اس کا بہت بڑا تعلق اخلاقی نظریات سے ہے ’جو ہم بائبل اور انجیل سے حاصل کرتے ہیں۔ مقدس خواتین اور جسم فروش خواتین کے درمیان اخلاقی تفریق موجود ہے۔‘

وہ خود کو ’مشہور فیمینیسٹ‘ تصور کرتی ہیں اور اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ انھیں خود کو یہاں تک پہنچانے میں بہت وقت لگا ہے۔

’اور ابھی بھی مجھے خود کو فیمینسٹ تسلیم کروانے میں مشکل ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ لاطینی امریکہ میں سیکس ورک اور اپنے جسم پر اپنے حق کے بارے میں کھلی بحث کا ہونا ضروری ہے۔‘

’اگر یہ بات سچ ہے کہ تمام خواتین کا اپنے جسم پر مکمل حق ہے، تو اپنی مرضی اور ہوش و حواس سے جنسی خدمات پیش کرنے والی خواتین کے جسموں پر ان کا حق تصور کیوں نہیں کیا جاتا؟ انھیں کیوں دیگر خواتین یا ریاست کی جانب سے لیکچر دیے جاتے رہتے ہیں؟‘

سیکس ورکر،

جسم فروشی کے تین مراحل

کیرینہ نونیئز کے مطابق زیادہ تر جسم فروش خواتین تین مرحلوں سے گزرتی ہیں اور انھوں نے یہ نتیجہ تقریباً دو ہزار خواتین کے انٹرویوز کر کے اخذ کیا ہے۔

انھوں نے ان خواتین سے ایک فارم پُر کروایا اور پھر اُن 313 فارمز پر توجہ دی جو سب سے زیادہ مکمل تھے۔ انھوں نے اپنے نتائج کو ایک کتاب کی صورت میں بھی شائع کروایا اور اب اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے۔

انھوں نے بی بی سی منڈو کے لیے اپنی کتاب کا خلاصہ پیش کیا ہے۔

پہلا مرحلہ جسم فروشی کا ہے۔ جب میں نے سنہ 2008 میں کتاب لکھی تھی تو میرے نزدیک جسم فروشی کا مطلب جنسی خدمات پیش کرنا تھا۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ اگر آپ یہ 18 سال کی عمر سے پہلے کریں تو یہ کام نہیں بلکہ جنسی استحصال ہے۔

یہ بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

دوسرے مرحلے میں جسم فروش خاتون بااختیار ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل لوگ آپ کے جسم کو جیسے دل چاہے ویسے استعمال کرتے ہیں اور آپ اس پر رضامند بھی ہوتے ہیں۔ مگر اس مرحلے پر آپ اس پر ایک قیمت مقرر کر دیتے ہیں اور اپنی فراہم کردہ خدمات کی حد بھی مقرر کر دیتے ہیں۔

اور یوراگوئے میں جہاں جسم فروشی پر حکومتی کنٹرول ہے، وہاں سیکس ورکر بننے کے لیے آپ کو سیکس ورکر کی قانونی حیثیت حاصل کرنی ہوتی ہے جس کے لیے ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے اور ہمارا طبی ریکارڈ بنتا ہے۔

پھر آتا ہے تیسرا مرحلہ۔ میں نے اپنی تحقیق میں جب اپنی ساتھیوں کے تعلیمی پس منظر پر نظر ڈالی تو پایا کہ وہ خواتین جنھوں نے پرائمری سکول وغیرہ مکمل نہیں کیا تھا، انھوں نے اپنی پوری زندگی ہی جسم فروش کے طور پر گزاری۔

ہاں وہ کسی شخص کو جنسی خدمات فراہم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتی تھیں مگر رہتیں وہ جسم فروش ہی ہیں۔ وہ جنسی خدمات کسی طبی توجہ اور صفائی ستھرائی کے خیال کے بغیر ہی فراہم کرتیں۔

جب کسی جسم فروش خاتون نے کسی ڈگری تک تعلیم حاصل کر رکھی ہوتی تو وہ 10 سے 15 سال تک جنسی خدمات فراہم کرنے کے شعبے میں رہتیں۔ ہماری غیر تعلیم یافتہ ساتھی ایسی بیٹیوں کو جنم دیتیں جو یا سیکس ورکر بنتیں یا جن کا جنسی استحصال کیا جاتا۔ اور ان کے بیٹے دلالی یا کسی صورت میں ٹریفکنگ میں ملوث ہو جاتے۔

اور ہماری وہ ساتھی جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر پاتیں، نہ ہی ان کے بیٹے اور نہ ہی بیٹیاں اس پیشے سے منسلک ہوتے ہیں۔

سیکس ورکر،

PA Media

کیرینہ کہتی ہیں کہ سیکس ورکر خواتین مشکل حالات سے لڑتی ہیں، ان میں بہت ہمت ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’مرد ہمیشہ خاتون کو بدلے میں کچھ دیے بغیر استعمال کر سکتا ہے، مگر سیکس ورکرز جو کام کرتی ہیں اس کے عوض ان کا پیسے وصول کرنا مجھے اس جدوجہد کی اہم نشانی لگتی ہے۔‘

‘ورنہ ہم پھر بھی عورتیں ہیں جنھیں کسی مرد کا انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اس کے بچوں کی ماں بنیں، اس کے لیے صفائی کریں، اس کی جنسی ضروریات پوری کریں اور جب وہ یا اس کے رشتے دار بوڑھے ہو جائیں تو ان کا خیال رکھیں۔ وہ بھی سب کچھ مفت میں۔’

کیرینہ کہتی ہیں کہ چونکہ وہ ایک غریب سیکس ورکر تھیں اس لیے انھوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو کالج میں داخل کروائیں گی۔ وہ کہتیں ہیں: ’اگر آپ غریب ہوں تو آپ ان باتوں کے بارے میں اپنی مرضی سے فیصلہ نہیں کر سکتے۔‘

’اصل میں مجھے ایسی خواتین کا ساتھ حاصل تھا جنھوں نے مجھے محبت سے ایک نیا زاویہ دیکھنے میں مدد دی۔ انھوں نے مجھے یہ دیکھنے میں مدد دی کہ سیکس ورکر بننے یا نہ بننے کا فیصلہ میری بیٹی کے ہاتھ میں ہے اور ہمیں انھیں سیکس ورکر کے طور پر پال کر بڑا نہیں کرنا چاہیے۔’

‘میرے فخر کی کوئی انتہا نہیں ہے’

وہ کہتی ہیں کہ اسے ممکن بنانے کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ ماں کے کردار کو ایک نئے روپ میں ڈھالیں۔

‘میں اپنی بیٹیوں کا خیال ایسے رکھتی کہ اپنے ساتھ انھیں گیسٹ ہاؤس میں رکھتی، خود ان کا خیال رکھتی، انھیں دیکھتی کہ ان کے تعلقات کس کے ساتھ ہیں، کون ان سے ملنے آتا ہے، وغیرہ۔’

‘اگر میں انھیں کسی اور کی نگرانی میں چھوڑ دیتی تو ان کے ساتھ وہی ہوتا جو میرے ساتھ ہوا۔ میری والدہ میرا خیال رکھنے کے لیے پیسے ادا کرتی تھیں مگر جب وہ چلی گئیں تو یہ ایک بالکل مختلف دنیا تھی۔’

کیرینہ کو یہ تسلی ہے کہ ان کی بیٹی ان کے ساتھ ہے اور وہ اس بات کا کریڈٹ لیتی ہیں کہ کیسے انھوں نے ‘اس کی ذہانت کو پروان چڑھایا اور استعمال’ کیا ہے۔ اور وہ خود کو حاصل ‘زبردست’ اطمینان کے احساس کو بھی نہیں چھپاتیں۔

‘میری بیٹی جسم فروش خواتین کی چار نسلوں میں یونیورسٹی جانے والی پہلی ہے اور مجھے اس پر بے انتہا فخر ہے۔’

ویسے تو زنجیریں توڑنے کے مرحلے کے دوران کیرینہ یوراگوئے میں ایک قابلِ احترام فیمینسٹ آواز اور کئی لوگوں کے لیے مثال بن گئیں مگر وہ کہتی ہیں کہ اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

سیکس ورکر،

نئی کتاب

فی الوقت وہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے متاثر ہونے والی جسم فروش خواتین کے لیے بنیادی آمدنی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

‘اس سے کم از کم یہ ہو گا کہ وہ اپنے گھروں کے کرائے ادا کر سکیں گی۔ ہماری کئی ساتھی ایسی ہیں جو کرایہ نہ دے پانے کی وجہ سے بے گھر ہو گئی ہیں۔’

‘ہم آپس میں مل کر 330 ساتھیوں کو مارچ سے لے کر اب تک ماہانہ اشیا پہنچا رہی ہیں۔ اس میں کپڑے، خشک دودھ، اور دوائیں وغیرہ شامل ہیں کیونکہ ان میں سے کئی کینسر یا ذیابیطس کی مریض ہیں۔’

وہ کہتی ہیں: ‘ہم نے یہ سب یوراگوئے کے عوام کی مدد سے کیا ہے کیونکہ حکام نے کوئی مدد نہیں کی ہے۔’

کیرینہ اپنی نئی کتاب پر کام کر رہی ہیں جس میں ان کے اپنے تجربوں کی کہانیاں ہیں۔ اس کی اشاعت اگلے سال متوقع ہے اور وہ اپنی کتاب کے ذریعے اپنی جدوجہد جاری رکھنا چاہتی ہیں۔

‘آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں کیوں لڑ رہی ہوں؟ کیا مجھے اس کے لیے پیسے ملتے ہیں؟ کیا مجھے کیمرے کے سامنے آنا پسند ہے؟’ یہ وہ سوالات ہیں جو یہ نئی مصنفہ اپنی نئی کتاب میں خود سے پوچھتی ہیں۔

پھر وہ خود کو ہی جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں: ‘ویسے، کیا آپ کو پتا ہے میں کیوں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہوں؟ کیونکہ اگر میں نہیں لڑوں گی تو کوئی اور لڑے گا۔ مگر میری ضروریات کے لیے نہیں، اپنی ضروریات کے لیے۔ میرے نظریے سے نہیں، بلکہ اپنے نظریے سے۔ میری عزت کی خاطر نہیں، بلکہ اپنی آسائش کی خاطر۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp