ننھے ننھے ہاتھ


دوسرے دن صبح ہوتے ہی میں ہاشم کے گھر گیا۔ ہاشم کی ماں کو کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ پانچ دنوں سے ہاشم گھر نہیں آیا تھا۔ مگر یہ تو ایک طرح کی معمولی سی بات تھی۔ میں انہیں رات کا واقعہ نہیں بتانا چاہتا تھا مگر مجھے پتا تھا کہ اگر میں نہیں بتاؤں گا تو میری ماں سے انہیں پتا لگ جائے گا لہٰذا انہیں میں نے بتایا کہ رات کیا ہوا ہے۔ وہ بڑی پریشان ہو گئی تھیں۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ہاشم خود ہی کچھ بتائے گا اس وقت ہی ہم لوگ کچھ کریں گے مگر اپنے مشورے کے کھوکھلے پن کی شدت کا احساس مجھے تھا، لیکن اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں تھا میرے پاس۔ میں خود خوف زدہ تھا، سخت ٹینشن کا شکار اور نہ جانے کیا کیا باتیں میرے دماغ میں آ رہی تھیں۔ دن بھر آفس میں بھی میرا دل ایک بے قراری کی سی کیفیت میں رہا تھا۔ اس دن میں کسی بھی فیلڈ وزٹ پر نہیں گیا تھا۔ ہاشم نے نہ اپنے گھر اور نہ میرے گھر پر کوئی رابطہ کیا تھا۔

دوسرے دن میں سول ہسپتال میں داخل ہی ہوا تھا کہ ایک آدمی نے خاموشی سے ایک لفافہ مجھے دیا۔ اس سے پہلے کہ میں وہ لفافہ کھولتا وہ اسی خاموشی سے میرے سامنے سے کھو گیا۔ وہ ہاشم کی چھوٹی سی تحریر تھی۔ اس نے مجھے شام پانچ بجے کیماڑی پر جہاں سے منوڑا کی بوٹ جاتی ہے وہاں ایک پٹھان کا ڈیرا تھا، وہاں بلایا تھا۔

میں وقت پر وہاں پہنچ گیا اور اپنے لیے چائے منگوائی۔ تھوڑی دیر میں ہاشم بھی وہاں آ گیا۔ وہ اکیلا ہی تھا۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور اس نے کال شیشوں کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔

اس نے بتایا کہ کچھ شدید قسم کے مسئلے ہو گئے ہیں اور وہ اب کراچی تو کیا شاید پاکستان میں بھی نہیں رہ سکے گا، کسی وجہ سے اس کی موت کے حکم جاری ہوچکے ہیں۔ میرے پوچھنے کے باوجود اس نے وجہ نہیں بتائی تھی۔ فی الحال وہ کوششوں میں تھا کہ یہاں سے نکل جائے۔

میں نے اس سے کہا کہ وہ امریکا کیوں نہیں نکل جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ امریکا کا ویزا لگنا ناممکن ہے۔

میں نے اسے بتایا کہ میں کچھ ڈاؤ میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹس کو جانتا ہوں جو امریکن ویزا وغیرہ کی باتیں کرتے رہتے ہیں، اگر وہ کہے تو میں ان سے بات کر سکتا ہوں۔ اس نے مجھے تاکید کی تھی کہ ضرور کروں اور روپوں کی بالکل بھی فکر نہ کروں، جتنا بھی خرچ ہوگا وہ دینے کو تیار ہے۔ پھر اس نے کچھ روپے اپنی ماں کے لیے دیے اور مجھے تاکید کی تھی کہ ابھی جا کر ان سے نہ ملوں، کل صبح جب کام پر جاؤں تو اس کے گھر پر ہوتا ہوا جاؤں۔ اس نے گھڑی دیکھی اور کہا کہ چلنا چاہیے۔ وہ میرے ساتھ ساتھ باہر آیا۔ ایک لڑکا میرے اسکوٹر کے سامنے کھڑا تھا۔ ہاشم نے اس سے کہا تھا ٹھیک ہے، جبار پیچھے پیچھے آ جاؤ۔ زیرو پوائنٹ تک وہ میرے ہی اسکوٹر پر بیٹھ گیا اور کہا کہ کوئنز روڈ سے میٹروپول کی طرف لے لوں۔ میں اسکوٹر چلا رہا تھا اور ساتھ ہی اسے تلقین کر رہا تھا کہ وہ اس چکر سے نکل جائے اور وہ اپنی ہوں ہاں میں جوابات دے رہا تھا اور اپنی بات بھی کرتا جاتا تھا۔ اس طرح سے ہم لوگ میٹروپول ہوٹل پہنچ گئے۔ آواری ہوٹل کے سگنل سے گزر کر اس نے کہا کہ اسکوٹر آہستہ کرلوں۔ مہران ہوٹل کے سامنے ایک سفید رنگ کی سوزوکی کھڑی تھی۔ اس نے اسکوٹر اس کے پیچھے رکوا دی اور جا کراس میں بیٹھ گیا۔ جاتے جاتے اس نے ایک پرچی دی تھی کہ اس موبائل فون پر اسے فون کر کے بتاؤں کہ امریکا کا ویزا کتنے میں لگے گا۔

دوسرے دن صبح پہلے میں ہاشم کے گھر گیا، خاموشی سے اس کی ماں کو خیریت کی خبر دی اور کہا کہ کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آفس جا کر میں سول ہسپتال گیا جہاں تین وزٹ کرنے کے بعد ڈاؤ میڈیکل کالج کی کینٹین میں ساجد سے ملا۔ ساجد کئی سال سے میڈیکل کے آخری سال میں تھا۔ اپنے ایک دوست کے توسط سے میں اس سے ملا تھا۔ وہ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں ہی رہتا تھا اور دنیا جہان کے لوگوں سے اس کی دوستی تھی۔ اس کے کمرے میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔ چرس، حشیش، شراب اور عورتیں، ان سے ساجد کا کسی نہ کسی طرح سے تعلق تھا۔ وہ مجھے کمرے میں ہی مل گیا، مگر اکیلا نہیں تھا۔ دو اور عجیب قسم کے لوگ بیٹھے تھے اور کسی بات پر ساجد سے بحث کر رہے تھے۔ ساجد نے آدھ گھنٹے کے بعد مجھے کالج کینٹین میں ملنے کو کہا، میں جا کر کینٹین میں بیٹھ گیا اور اس کے انتظار میں چائے پی رہا تھا کہ وہ آ گیا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ جاپان کا سنگل وزٹ پی سی دو لاکھ میں ہوگا اور امریکا کا سنگل وزٹ پی سی ڈیڑھ لاکھ میں مل جائے گا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔

اس نے سمجھایا کہ پی سی کا مطلب ہے کہ کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر امریکا جاپان کا ویزا لگا ہوا ہے اس پر فوٹو چینج (Photo Change) کردی جائے گی، اس کے بعد جانے والے کی قسمت ہے اگر وہ نکل گیا تو پاسپورٹ ائرپورٹ پر ہی کوئی لے لے گا اور کام ختم، اگر نہیں نکل سکا اور پکڑا گیا تو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ پچاس ہزار روپے زیادہ دو گے تو ہماری ذمہ داری ہوگی، اگر پکڑے گئے اور واپس آ گئے تو دوسرا پی سی بنا دیں گے اور اس وقت تک بناتے رہیں گے جب تک ائرپورٹ سے نہ نکل جاؤ۔ اس نے بتایا تھا کہ اس سارے کام میں ہفتہ دس دن لگ جائے گا۔ پچاس ہزار روپے ایڈوانس اور دس تصویریں دینا ہوں گی۔ جب پاسپورٹ تیار ہو جائے گا تو ساری رقم اکٹھے دینی ہوگی۔ جانے کے بعد وقت ٹکٹ کا انتظام بھی ہم کر سکتے ہیں اگر ہم سے ٹکٹ نہ لو گے تو فلائٹ کا وقت بتا دیں گے اور اسی فلائٹ کا ٹکٹ تم کہیں سے بھی لے لینا۔

شام کو ہاشم کے موبائل فون پر جبار سے بات ہوئی تھی اور اس نے پیغام لے کر کہا تھا کہ ہاشم مجھ سے صبح 11 بجے میریٹ ہوٹل کے کیفے نادیہ میں ملے گا۔ وہ مجھے باہر ہی مل گیا، جہاں میں اپنی اسکوٹر کھڑی کر رہا تھا۔ وہ مجھ سے باتیں کرتا ہوا نادیہ کیفے کے بجائے میریٹ ہوٹل کے سامنے فریئر گارڈن میں لے گیا۔ اس نے مجھے ہزار ہزار روپوں کے ساٹھ نوٹ دیے اور اپنی داڑھی والی تصویر۔ ”جتنی جلد ہو سکے یہ کام کرا دو یار۔“ پھر اس نے پوچھا کہ، بندہ تو بھروسے کا ہے ناں۔

”بندہ تو بھروسے کا ہی لگتا ہے مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔“ میں نے پھر پوچھا کہ ”یار تم نے کیا کر دیا ہے جو یہ مصیبت آن پڑی ہے۔“ وہ مجھے دیکھتا رہا، پھر آہستہ سے میرے ہاتھ کو پکڑ کر بولا ”مجھ سے قتل ہو گیا ہے، انجانے میں، غلطی سے۔“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4