ننھے ننھے ہاتھ


ہاشم کا فون تھا امریکا سے۔ میں اس سے ہی بات کر رہا تھا۔ اس کی ماں کی طبیعت خراب تھی اور وہ چاہ رہا تھا کہ اگر میں کچھ کر سکوں تو ضرور کروں۔ میں نے وعدہ کر لیا تھا کہ کل ہی اس کی ماں کو سول ہسپتال میں پروفیسر صاحب کو دکھا دوں گا۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کا بھائی ماں کو لے کر صبح صبح میرے پاس آ جائے گا، پھر میں دونوں کو سول ہسپتال لے جاؤں گا۔ وہاں کے میڈیکل وارڈ میں ایک پروفیسر صاحب کے ساتھ ہی میرا دوست کام کر رہا تھا، اس سے ہی کہہ کر ان کا علاج ہو جائے گا۔

ہاشم اور میں گہرے دوست تھے۔ ساتھ ہی ہم نے لانڈھی گورنمنٹ اسکول سے میٹرک پاس کیا، پھر گورنمنٹ کالج لانڈھی سے انٹر بھی ساتھ کا تھا۔

اور ہم دونوں ہیں انٹر میں اچھے نمبر نہیں لا سکے تھے۔ میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور بائیولوجی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ایک دواؤں کی کمپنی کا میڈیکل ریپریزنٹیو ہو گیا تھا۔ طالب علمی کے دوران ہم دونوں کی دوستی قائم رہی۔ شام ساتھ گزرتی تھی۔ محلے کے ہوٹل میں دودھ پتی کی چائے پیتے اور سیاست بگھارتے تھے۔

ہاشم کی زندگی تھوڑی پیچیدہ ہو گئی تھی۔ انٹر کرنے کے بعد اس نے اسٹیل مل میں کام کرنا شروع کر دیا۔ کارخانے میں اسے اپرنٹس کے طور پر رکھا گیا تھا اور ٹریننگ کے بعد نوکری پکی ہوجاتی۔ دو سال کی ٹریننگ میں تنخواہ بھی اچھی تھی اور پکی نوکری کے بعد شاید اسے روس بھی ٹریننگ کے لیے بھیجتے۔

ہم دونوں روز شام کو ملتے تھے۔ میں اسے یونیورسٹی کے قصے سناتا، وہاں کی باتیں بتاتا اور وہ مجھے اسٹیل مل کے اور مزدور یونین کے قصے سناتا تھا۔ ہم دونوں ہی پر بڑی ذمہ داری تھی۔ میرے بھی گھر میں تین بہنیں تھیں اور دو چھوٹے بھائی اور اس کی بھی دو بہنیں تھیں اور دو چھوٹے بھائی۔ لانڈھی کے کوارٹروں میں ہم دونوں نے آنکھ کھولی تھی۔ ہماری نظروں کے سامنے ہی کوارٹر مکانوں میں بدلے، پھر مکان دو منزلہ مکان بن گئے، گھروں کے سامنے اسکوٹر کھڑے ہوئے اور اکا دکا اسکوٹروں کی جگہ پر پرانی کاریں کھڑی ہونے لگی تھیں، قائد آباد سے کراچی جانے والی سڑک پہلے صرف ایک سڑک تھی، پھر بڑھتی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے دو سڑکیں بنا دی گئی تھیں۔ لانڈھی کورنگی کی آبادی میری نظر کے سامنے بڑھتی چلی گئی تھی۔ علاقے میں ترقی ضرور ہوئی تھی مگر اس طرح سے نہیں جیسی ہونی چاہیے تھی۔

رہائشی علاقوں میں دکانیں، غیرقانونی کچی آبادیاں، پارکوں اور اسکولوں کی جگہوں پر قبضہ، آبادی کے بڑھنے کے باوجود گٹر لائنیں ویسی کی ویسی ہی تھیں اور پانی اتنا ہی آتا تھا جتنا 1960ء میں آتا تھا۔ آبادی بڑھتی جا رہی تھی اور مسائل بھی بڑھتے جا رہے تھے۔ بھٹو صاحب کی حکومت کو کراچی سے بڑے ووٹ ملے تھے اور انہوں نے کراچی کے لیے کیا بھی خوب، مگر ساتھ ہی کراچی کے لیے کوٹا لگا کر مہاجروں کی دشمنی بھی مول لی تھی۔ پھر ضیا الحق کی حکومت نے کراچی سے خوب مذاق کیا تھا۔ بے نظیر کی دشمنی میں آہستہ آہستہ ملک کا جو برا ہوا وہ تو ہوا ہی، مگر کراچی کا بہت ہی برا ہوا تھا۔ لانڈھی کورنگی میں ایک دنیا آباد تھی، مگر اسکول اتنے ہی تھے، کالج اتنے ہی تھے، بے روزگاری بڑھ گئی تھی اور آہستہ آہستہ سب کچھ بدل گیا تھا۔ بچے اسکول جانے کے بجائے ہوٹلوں میں ڈبو کھیلتے تھے جوان بھتے وصول کرتے تھے اور پڑھی لکھی آبادی آہستہ آہستہ جہالت کی گو میں چلی گئی تھی۔

ہاشم اسٹیل مل کی یونین میں بہت زیادہ مصروف ہو گیا تھا۔ وہ کارخانے کا ملازم تھا جہاں سے اسے تنخواہ ملتی تھی، مگر کام وہ آفس میں کرتا تھا۔ تنظیمی کام۔ مجھ سے اس کی ملاقاتیں کم ہو گئی تھیں، لیکن جب بھی ملاقات ہوئی تھی وہ اپنے کام کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔ اس کے کاموں کی نوعیت بدلتی رہتی تھی۔ علاقے کے لڑکوں کی ٹریننگ کے لیے پیسہ جمع کرنا ہے۔ حالات خراب ہونے والے ہیں۔ کورنگی کے کارخانوں سے بھتہ وصول کرنا ہے۔ اسٹیل مل میں الیکشن ہونے والے ہیں، بڑا کام ہے۔ اس کے پاس موبائل فون بھی ہوتا تھا۔ کبھی پیجر ہوتا تھا۔ کبھی کبھی وہ ہفتوں اور مہینوں کے لیے غائب بھی ہوجاتا تھا۔ میں اسے سمجھاتا تھا کہ اس کے کام کی نوعیت کچھ صحیح نہیں، وہ جو بھی کچھ کر رہا ہے وہ سیاست سے کچھ زیادہ ہی ہے۔

آہستہ آہستہ ہاشم کے گھ میں پیسوں کی فراوانی ہو گئی۔ وہ جب بھی آتا تھا تو کسی کے ساتھ ہوتا تھا، کبھی پیلی ٹیکسی میں، کبھی کالی سوزوکی میں تو کبھی سفید شیراڈ میں۔ میں اکثر اس کے گھر چلا جاتا تھا۔ اس کی ماں بہت پیار سے ملتی تھی۔ ایک عجیب طرح کی شفقت تھی ان میں، وہ بھی میری ماں کی طرح بہنوں کے رشتوں کے لیے پریشان رہتی تھیں اور اپنے مشورے مجھے دیتی رہتی تھیں۔ کبھی کبھار میری ماں ان کے گھر چلی جاتی تھیں یا وہ خود میرے گھر آجاتی تھیں۔ ہم سب کے مسائل ایک تھے اور ہم سب کے غم بھی ایک تھے۔ مگر اب وہ ہاشم کی وجہ سے پریشان رہتی تھیں۔ گو کہ گھر میں اتنی مالی پریشانی نہیں تھی اور ہر ماہ ہاشم ایک بڑی رقم گھر میں دیتا تھا اور گاہے بہ گاہے بھی کچھ نہ کچھ لاتا تھا۔ بیٹیوں کے جہیز بھی آہستہ آہستہ تیار ہو رہے تھے مگر نہ جانے کیوں انہیں بھی میری ہی طرح کے خدشے ہوتے رہتے تھے۔ ہاشم اسٹیل مل کے علاوہ بھی کچھ کر رہا ہے۔ صرف سیاست نہیں، سیاست سے آگے بھی بہت کچھ کر رہا ہے۔

وہ صرف سیاست نہیں کر رہا تھا، وہ سیاست سے آگے بھی بہت کچھ کر رہا تھا۔ ایک دن جب وہ میرے گھر آیا تھا تو میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ جس راستے پر وہ چل نکلا ہے وہ کہاں تک جائے گا۔ ”عوام“ ”قومی اخبار“ اور ”امن“ میں نہ جانے کیا کیا چھپ رہا تھا۔ نہ جانے کیا ہونے والا تھا۔ ایسے حالات میں چندہ جمع کرنا، بھتہ وصول کروانا، اسلحہ کی خریداری کرنا لڑکوں کو ٹریننگ دلوانا اور نہ جانے اس طرح کے کتنے کاموں کی ذمہ داری اس پر تھی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا تھا کہ ابھی بھی وقت ہے کہ صرف اسٹیل مل میں کام کرو اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو سب کچھ چھوڑ دو، یہ شہر ہی چھوڑ دو۔ تم محنتی آدمی ہو بہت کچھ کر لو گے۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے کچھ اس کی سمجھ میں آیا ہے، کچھ وہ نہیں سمجھا ہے اور کچھ وہ سمجھنا بھی نہیں چاہتا ہے۔

پھر ایک رات دو بجے میرے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ وہ تین آدمی تھے۔ میرے دروازہ کھولتے ہی اندر آ گئے تھے، وہ لوگ ہاشم کی تلاش میں تھے۔ ٹیکسی میں ڈرائیور بیٹھا ہوا تھا اور باہر ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ وہ سب کے سب مسلح تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہاشم میرے گھر پہ چھپا ہوا ہے۔ ان لوگوں نے نہ مجھے مارا تھا نہ گالی دی تھی نہ بدتمیزی کی۔ میری ماں کو درشتی سے خاموش رہنے کے لیے کہا اور ایک ایک کمرے کی تلاشی لی تھی اور مجھے سختی سے کہا تھا کہ ہاشم کو چھپانے کی کوشش نہ کروں۔ جتنی تیزی سے وہ لوگ آئے تھے اتنی ہی تیزی کے ساتھ چلے گئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4