ایک عام سا شخص


اب وہ کبھی کبھی میرے ساتھ کھانا کھا لیتا اور باہر سے آتے ہوئے کبھی کبھار کہیں سبزی یا کوئی پھل لیتا آتا۔ جن دنوں اس کے امتحان ہو رہے تھے تب وہ میری ہی طرف کھانا کھاتا، مگر عفت رحیم کا لولی ووڈ ٹاپ 10 پھر بھی مس نہ کرتا تھا۔

ایک دن دروازے پر دستک دے کر اندر آیا اور کہنے لگا کہ اس کے امتحان ختم ہو گئے ہیں اور وہ ویک اینڈ پر پشاور جا رہا ہے۔ جاتے ہوئے اپنے کمرے کی چابی وہ کچن کاؤنٹر پر رکھ گیا۔

میں بھی اپنے والدین سے ملنے لاہور آ گیا۔ جب واپس پنڈی آیا تو اس کے کمرے کی بتی جل رہی تھی اور کچن کا ویکیوم فین بھی چل رہا تھا۔ میں اپنے کمرے میں آیا، بیگ رکھا اور اسٹیریو کو اون کر کے واش روم میں منہ ہاتھ دھونے چلا گیا۔ رونا لیلی گا رہی تھی ’تمہیں ہو نہ ہو مجھ کو تو اتنا یقیں ہے مجھے پیار تم سے نہیں ہے نہیں ہے‘ ۔ میرا دروازہ بجا اور وہ اندر آ گیا۔ میں واش روم سے آیا تو وہ بولا ”بڑا اچھا گانا تھا، شاعری بھی منفرد ہے، مجھے پیار تم سے نہیں ہے نہیں ہے“۔

”ہاں، گلزار کی شاعری بڑی منفرد اور جدا سی ہوتی ہے، میں نے کہا۔“ فلم کون سی ہے؟ ”اس نے پوچھا۔“ گھروندہ ”، میں نے نام بتایا۔“ گلزار کی ہی ہے؟ ”اس نے پھر پوچھا۔“ نہیں، بھیم سین کی ”میں نے بتایا۔“ تمہیں ان چیزوں کی کتنی معلومات ہیں، میرے لالہ سے اگر تم ملتے تو ان کی تم سے فوراً دوستی ہو جاتی۔ وہ بھی تمھاری طرح کتابوں، فلموں اور گانوں کے بڑے شوقین ہیں۔ مگر وہ تمھارا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ میں جب چھوٹا تھا تو وہ مجھے دادا صاحب پھالکے پکار کر چڑایا کرتے تھے۔

”وہ بولتا رہا اسٹیریو پر ’دو دیوانے شہر میں رات میں یا دوپہر میں‘ بج رہا تھا۔“ کہاں ہوتے ہیں تمھارے لالہ؟ ”میں نے چائے کا پانی چولہے پر رکھتے ہوئے پوچھا۔“ نوشہرہ میں ایک چھوٹی سی پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتے ہیں، کیسا رہا لاہور کا ٹرپ؟ ”“ اچھا رہا ”اس نے کبھی میری فیملی کے بارے میں نہیں پوچھا۔“ ہم لوگ اگلے منڈے تمھارے بینک کے آڈٹ پر آ رہے ہیں، تمھارے کنزیومر ڈویژن کی باری بھی آئے گی، تیار رہنا اس بار ہم تمہیں فرائی کریں گے ”، وہ مسکرا کر بولا۔“ تمھیں میرے ڈویژن کے بارے میں کیسے پتہ چلا؟ ”میں نے چائے مگوں میں ڈالتے پوچھا۔“ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں قربان، اکاؤنٹنٹ کو سب پتہ ہوتا ہے کون کہاں ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے ”۔ میں نے اپنی چائے لی اور اس نے دوسرا مگ اٹھا لیا۔

ایک شام میں کچھ سودا سلف کی خریداری کے لئے کمرے کو تالا لگا کر جا ہی رہا تھا کہ وہ سامنے سے چلتا ہوا آیا ”کہاں جا رہے ہو قربان؟“ ”کچھ کچن کے سودا سلف کی خریداری کرنے۔“ میں نے کہا ”چلو میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔“ راستے میں اس نے پوچھا ”تمھیں راجہ گدھ کیوں سب سے زیادہ پسند ہے؟ تم نے کہا تھا کہ تم نے اسے ایک سے زیادہ بار پڑھا ہے؟“ آج وہ کسی ادب شناس کی طرح بات کرنے کے موڈ میں تھا۔ ”میں اپنے آپ کو اس سے آسانی سے ریلیٹ کر لیتا ہوں، شاید یہ وجہ ہے“۔

”چلو مجھے تھوڑا سا سناؤ، میں سننا چاہتا ہوں۔“ ہم دونوں اب مین روڈ کے ساتھ فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔ میں نے ایک گہرا ٹھنڈا سانس اندر کھینچ کر کہانی سنانی شروع کی۔ ”امتل کہنے لگی کہ اگر میری عمر بیالیس سال ہو گئی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ سچی سرجی جب مجھ سے کوئی میری عمر کے بارے میں پوچھتا ہے تو مجھے لگتا ہے جیسے کہ میں جی تھانے میں بیٹھی ہوں۔ اب اگر میں اتنے برس کی ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے جی؟

”۔ وہ ہنسنے لگا۔“ مگر قربان وہ بیالیس سال کی نہیں تھی ”۔“ کیا مطلب؟ ”میں نے پوچھا،“ وہ لیپ ائر میں پیدا ہوئی تھی اس لحاظ سے وہ 29 سال کی تھی ”، وہ ہنسا۔“ تو تم نے کہانی پہلے سے سن رکھی ہے؟ ”میں نے ایک حیرت بھری نظر سے اس کی طرف دیکھا۔“ نہیں قربان، اس بار جو میں پشاور جا رہا تھا تو ڈائیوو کے اڈے پر جو بک اسٹال ہے وہاں کتاب نظر آئی تو خرید کر پڑھ لی تھی ”۔ میں اسے دیکھتا رہا تھا اور وہ ہنستا رہا۔

اگلے ہفتے وہ پھر آئی سی آئی کے آڈٹ پر کھیوڑا چلا گیا اور چابیاں میرے کچن کاؤنٹر پر چھوڑ گیا۔ جس رات وہ واپس آیا تو میں بتی بجھائے لیٹا ہوا اسٹیریو پر فریدہ خانم کی ’شام فراق اب نہ پوچھ‘ سن رہا تھا۔ دروازہ کھٹکھٹا کے وہ بولا ”قربان سونا مت، میں سگریٹ ختم کر کے آتا ہوں“۔

میں لیٹے ہوا پلنگ کے بالکل برابر رکھے فریج کے دروازے کو اپنے پاؤں سے کھول بند کر رہا تھا۔ اس نے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا ”آج بہت تھک گیا ہوں، بڑی ذلالت ہوئی ہے کھیوڑا سے پنڈی آتے ہوئے“۔ میں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ”جاؤ جا کر نہا لو نیند اچھی آ جائے گی“۔ ”اس وقت تو نلکے میں پانی بھی نہیں آ رہا ہو گا، اب تو صبح ہی غسل ہو گا“۔ وہ بولا ”شٹ دھونے کے لئے پانی ہے تمھارے باتھ روم میں؟“ میں نے پوچھا۔

”او شٹ، جاتے ہوئے ایک لوٹا پانی ادھار لیتا جاؤں گا تمھارے باتھ روم سے“۔ فریدہ خانم بدستور گا رہی تھی۔ ”ذرا سائیڈ پہ تو ہو جاؤ، تھوڑی دیر کمر سیدھی کر لوں“ وہ بولا۔ میں نے پائنتی کی طرف سرک لیا۔ اب میرا منہ فریج کی طرف تھا اور اس کا سر میرے پیروں کی جانب۔ سنگل سائز بیڈ کو شیئر کرنا میرا معمول نہیں تھا جلد ہی مجھے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ ”ذرا کروٹ تو دوسری طرف لو“ میں نے کہا۔ وہ ذرا سا مڑا اور میں نے اپنا سر اس کے کولہوں پر رکھ دیا اب میری ٹانگیں دیوار کے ساتھ اوپر کی طرف نوے ڈگری کے زاویے پر لگ گئیں۔

میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے فریج کو کھولتا بند کرتا۔ اس سے نہ رہا گیا ”یہ تم کیا کر رہے ہو فریج کے ساتھ؟“ ”ائر کنڈیشنر ایفکٹ لے رہا ہوں جب وقفے وقفے سے اس میں سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے، کافی حبس ہے آج“ میں نے کہا۔ فریج کے بلب کی کھلتی بند ہوتی روشنی کمرے میں بڑا کول ایفیکٹ دے رہی تھی۔ وہ دبا دبا سا ہنسا ”ایک دفعہ میری بڑی بہن اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھی ہمارے گھر، اس کا بڑا لڑکا بڑا حرامی ہے“ یہ کہتے ہوئے اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اس کے یوں ہنسنے سے اس کے کولہے یوں ہلنے لگے جیسے کہ ویگن فری وے پر چلتے چلتے کسی کچے پر اتر آئے اور جیسے اس میں سواریاں ہچکولے کھا رہی ہوں اس کے کولہوں پہ دھرا میرا سر ویسے ہچکولے کھانے لگا، ایسی سچویشن میں میں بھی ہنسنے لگا۔

اب ہم دونوں پہلی مرتبہ ایک ساتھ ہنسے جا رہے تھے۔ وہ رکا اور کہنے لگا ”تمہیں بتاؤں کیا ہوا؟“ وہ ذرا سا ہنسا پھر بولا میرا ”بھانجا الٹی سیدھی شرارت کر رہا تھا، خولہ اس کو منع کرتی پر وہ باز نہیں آ رہا تھا، جب وہ تنگ آ گئی تو اپنے لڑکے پر چلائی،“ او بدتمیز کے بچے کتنی دفعہ تجھے کہا ہے کہ آرام سے بیٹھ جا مگر جب تک مار نہ کھائے کیونکر تجھے آرام آئے گا ”۔“ کیونکر تجھے آرام آئے گا؟ خاصی عمدہ اردو بولتی ہے تمہاری بہن”۔

آگے سنو وہ بولا ”میرے بہنوئی اسی وقت کمرے میں آئے اور خولہ کے چلانے پر بولے کہ اسے بد تمیز کا بچہ کہہ کر آپ دراصل مجھے گالی دے رہی ہیں۔ اب ہم دونوں زور زور سے ہنس رہے تھے۔ میرا جسم تیزی سے ہل رہا تھا میرے ٹانگیں اور پاؤں دیوار سے لگے تھے پولی گراف کی سوئیوں کی طرح اوپر نیچے ہو کر جیسے دیوار پر خط بنانے لگے۔ اس نے تھوڑا سا سانس لیا اور بولا“ خولہ نے کہا ہائے خدا نہ کرے جو میں آپ کو گالی دوں۔ بہنوئی نے کہا تو پھر یہ بدتمیز کا بچہ کسے کہہ رہی تھیں، کوئی سنے وہ تو مجھے ہی بدتمیز سمجھے گا؟ ”

”خولہ نے کہا دیکھئیے فراز، آپ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس سے مراد آپ ہرگز نہیں تھے بلکہ یہ تو ایک ایسی جامع اور مکمل گالی ہے جس کا اطلاق مرد و زن دونوں پر بلا تخصیص ہو سکتا ہے۔“ ہم دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔ اچانک وہ جیسے درد سے بلبلا اٹھا ”اوئے، یہ میری پشت ہے“۔ ”آئی ایم سوری میں اسے بے خیالی میں اپنا تکیہ سمجھ کر دوہرا کرنے لگا تھا“۔ اتنا کہنے پر ہم دونوں پر جیسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور ہم دیر تک ہنستے رہے۔

ایک شام کام ختم کر کے میں آفس سے باہر نکل رہا تھا تو پارکنگ ایریا میں اسے ایک کار میں بیٹھتے ہوئے دیکھا۔ کار میں اس کے اور ساتھی بھی تھے، یہ لوگ کسی آڈٹ پہ آئے ہوئے تھے۔ میں بچ کے نکل جانا چاہتا تھا اس امید پہ کہ اس نے مجھے نہیں دیکھا ہوگا۔ گاڑی میرے برابر سے ہو کر گزری تو اندر سے اس کی بچوں کی طرح سے رکو رکو کہنے کی آواز آئی۔ گاڑی میرے پاس رکی وہ پچھلی سیٹ پر اپنے دو ساتھیوں کے درمیان میں بیٹھا تھا۔

اس نے کھڑکی سے سر نکال کر مجھے دیکھا اور گاڑی میں بیٹھنے کی آفر کی۔ اس کے ساتھیوں نے بھی اصرار کیا کہ بہت جگہ ہے میرے لئے جگہ آرام سے بن جائے گی۔ میں اتنے اجنبی لوگوں کو ایک ساتھ اپنی طرف دیکھ کر ذرا گھبرا گیا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ گھر دس پندرہ منٹ کی واک پر ہے میں کسی دقت کے بغیر پہنچ جاؤں گا۔ اس کے مزید اصرار کرنے پر، میں نے کہا کہ وہ گھر پہنچے تھوڑی دیر میں میں اسے وہاں ملوں گا۔

مجھ سے مایوس ہو کر وہ گاڑی سے اتر آیا، وہ مجھ سے اس وقت شدید خفا تھا۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ”میں نے تمھیں پارکنگ میں کار میں بیٹھتے دیکھا تھا“ میں نے اسے بتایا۔ وہ چلتے چلتے رکا اور بولا ”تم نے مجھے کار میں سوار ہوتے دیکھا اور مجھے آواز نہیں دی؟“ میں بھی اپنی جگہ رک گیا، ”تم اپنے دوستوں کے ساتھ تھے مجھے مناسب نہیں لگا“۔ ”اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو تمھارا بازو پکڑ کر زبردستی کار سے کھینچ کر اتار لیتا“۔ وہ بولا، میں مسکرا دیا اور ہم دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔

اگلی شام میں جب میں کام سے آیا تو اس کے کمرے کی بتی جل رہی تھی، میں اپنے کمرے کا تالا کھولتے کھولتے رک گیا، میں اس کے کمرے کی طرف مڑا، کھڑکی کھلی تھی، پنکھا چل رہا تھا اور وہ کمرے میں نہیں تھا، دروازے پر تالا نہیں تھا۔ میں نے دستک دی تو باتھ روم سے کون ہے کی آواز آئی۔ میں دروازہ کھول کر اندر آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر نکلا اور مجھے دیکھ کر مسکرایا۔ ”آج تم کیسے راستہ بھول بیٹھے، بیٹھو“ ، میں کرسی پر بیٹھ گیا۔

”مصروف لگ رہے ہو؟“ میں نے پوچھا۔ وہ الماری سے ایک شلوار قمیض نکال کر اسے ایک ہینڈ بیگ میں پیک کرنے لگا۔ ”یار اسلام آباد جا رہا ہوں دو تین دنوں کے لئے، قاضی صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے“۔ ”قاضی صاحب؟“ میں نے پوچھا۔ ”میرے بابا کے دوست ہیں، ان کے بیٹے امریکہ میں ہیں، ایک بیٹی ہے اور اس کا دماغ ہلا ہوا ہے، اس لئے کچھ دنوں کے لئے میں ان کی دیکھ بھال کے فرائض انجام دینے جا رہا ہوں، جب تک کوئی پکا بندوبست نہیں ہوتا۔“ میں اٹھ کھڑا ہوا اور باہر جانے کو مڑا تو اس نے آواز دی، میں نے پلٹ کے دیکھا تو اس کے چہرے پر وہی شناسا سی مسکراہٹ تھی۔ ”اپنا خیال رکھنا قربان“۔ میں بھی خفیف سا مسکرا دیا۔

وہ دو تین دن کے بجائے ایک ہفتہ گزر گیا لیکن وہ نہیں آیا۔ ایک دن آفس میں میرے فون کی گھنٹی بجی، میں نے اٹھایا تو دوسری جانب وہ تھا۔ ”ہائے قربان، تمہیں ایک خبر دینی تھی۔ میرا ریزلٹ نکل آیا ہے اور میں فیل ہو گیا ہوں“۔ میں خاموش رہا لیکن تھوڑی دیر کے لئے میرے دل کو اس کے فیل ہونے کی خبر سن کر بہت راحت محسوس ہوئی، یہ اس بات کے ردعمل میں تھا جب اس نے میرے ایم بی اے کا مذاق اڑایا تھا۔ ”اوہ مجھے بہت افسوس ہوا۔” میں نے کہا۔“ مجھے معلوم تھا کہ تمہیں ضرور افسوس ہوگا ”اس نے کہا۔“ اور تمھارے دوست؟ ”میں نے دریافت کیا۔“ وہ کنجر سارے پاس ہو گئے ہیں ”۔ اس کی آواز میں دبی دبی سی شرارتی ہنسی تھی اور جیسے تھوڑا سا ملال بھی تھا، مجھے اس کی اسپورٹس مین اسپرٹ پر فخر ہوا۔ اب میرے دل میں اس کے لئے درد کی ذرا سی ٹیس اٹھی۔“ تم شام کمرے میں ہو گے؟ ”اس نے پوچھا۔“ ہاں، میں وہیں ہوں گا ”میں نے کہا۔ اس شام ہم دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔

”ریزلٹ کب آیا تھا؟“ میں نے خالی برتن سمیٹتے ہوئے پوچھا۔ ”پچھلے منڈے کو“۔ ”اگلا امتحان کب ہے؟“ میں نے پوچھا۔ ”پانچ مہینے کے بعد“۔ ”تو اس بار تمھیں ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہیے۔“ میں نے گھسی پٹی رائے دی۔ ”ابھی تو اس ناکامی کا چہلم بھی نہیں ہوا ہے اور تم مجھے اگلے امتحانوں کی تیاری کا مشورہ دے رہے ہو۔“۔ میں ہلکا سا مسکرایا۔ ”ایک بات پوچھوں؟“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”تمھارا ایپٹیٹوڈ ہے اکائونٹنگ کی طرف؟

” میں نے پوچھا۔“ کچھ چیزوں کے لئے بنانا پڑتا ہے، پاکستان میں رہتے ہوئے ہم سب وہ کرنے پر مجبور ہیں جن کو کرنے کے لئے ہمارے اندر کوئی ٹیلنٹ نہیں ہے۔ ”میں کچن سنک میں برتن دھونے لگا۔ اس نے زور زور سے“ کم بخت عشق ہے ”گانا شروع کر دیا۔ میں برتن دھو کر فارغ ہوا تو اس نے کہا“ میرا کزن سینیئر آڈیٹر ہے جس کی وجہ سے مجھے کے پی ایم جی میں پاؤں رکھنے کی جگہ ملی ہے۔ میرے پاس تین چانس اور ہیں، میں بی اے میں دو دفعہ سپلی کھا چکا ہوں۔

” وہ چپ ہو گیا۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے اس نے الٹ پلٹ کر کے اپنے ہاتھ دیکھنے شروع کر دیے۔“ تمھیں میوزیشن بننا چایے تھا میرے خیال میں، تمھاری انگلیاں پیانسٹ کی طرح سے لمبی اور نازک ہیں۔ ”میں نے اسے کہا۔ اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔“ چلتا ہوں قربان، تائی اماں کی طرف ”۔“ آج جمعرات بھی تو ہے میں نے اس کچھ یاد دلایا۔ ”اوہ ہاں اس غم میں تو میں بھول ہی گیا تھا کہ آج رات تو عفت رحیم کا ٹی وی شو بھی ہے۔“

30 اگست کی شام میں جاب سے آیا تو ہمارے کمروں کی جانب کار پارکنگ میں ایک پرانے ماڈل کی لینڈ کروزر کھڑی تھی۔ میں کمرے میں آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ بجا اور وہ اندر آ گیا۔ اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا ”کیسے ہو قربان؟“۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ”آج میں تمہیں خدا حافظ کہنے آیا ہوں۔“ میں جس جگہ کھڑا تھا وہیں کھڑے رہا۔ ”کیا مطلب؟“ میں یہاں سے اسلام آباد قاضی صاحب کی طرف جا رہا ہوں۔ ”میں خاموش کھڑا رہا، میرا وجود جیسے ایک دم سرد پڑ گیا۔

” یہ جگہ اب میں افورڈ نہیں کر سکتا ہوں۔ دو ہزار روپیہ مہینہ کا کرایہ بابا کے لئے ادا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔“ باہر قاضی صاحب کی گاڑی میں اپنا سارا سامان رکھ چکا ہوں بس تمھارا انتظار کرر ہا تھا۔ دروازہ کھلا ہے کمرے کا، کچن میں کچھ غیر استعمال شدہ سامان پڑا ہے پلیز لے لینا۔ اب اجازت دو باہر ڈرائیور کھڑا ہے اس نے واپس جا کر گھر کے کافی سارے کام بھی کرنے ہیں۔ ”میرے کانوں میں جیسے بہت دور سے اس کی آواز آ رہی ہو، خون پوری شدت کے ساتھ مجھے سر اور کانوں میں سائیں سائیں کرتا سنائی دینے لگا۔

اس نے ہاتھ ملانے کو آگے بڑھایا، میں گم سم کھڑا اس کے اپنی جانب بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھتا رہا، پھر میں نے اپنا ٹھنڈا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ مجھے اس کی وہ خفیف سی آخری مسکراہٹ یاد رہ گئی۔ وہ پلٹا اور کمرے سا چلا کیا۔ گاڑی کا پرانا انجن ایک زوردار گھڑگھڑاہٹ سے اسٹارٹ ہوا اور میرے کچن کے پاس سے شور کرتا ہوا گزر گیا۔

کام سے واپسی پر میری نظر غیر ارادی طور پر اس کے کمرے کی طرف اٹھتی اس امید پہ کہ شاید بتی جل رہی ہو، شاید کچن ویکیوم فین چل رہا ہو۔ رات کو میں اس کے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہو کر جالی سے اندھیرے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کرتا۔ اس کی خوشبو اب بھی اس کمرے سے آتی۔ مجھے لگتا جیسے وہ ابھی کہیں سے نکل آئے گا اور ہنستے ہوئے کہے گا ”اور سناؤ قربان کیسا چل رہا ہے سب۔“

آج اس کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی، باہر تالا پڑا تھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں کے اوٹ سے کھڑکی سے اندر جھانکا۔ میں نے اس کا نام لے کر اسے آواز دی اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ آج اس کی خوشبو بھی کمرے سے چلی گئی۔ مجھے لگا کہ اب وہ یہاں سے ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے۔ کمرے کا فرش دھلا ہوا تھا۔ صبح شہزاد ملا تھا کہہ رہا تھا کہ میرے ساتھ والے کمرے میں کوئی نیا کرایہ دار آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2