لکھنوٴ سے آئی نظمیں


امی۔ امی ذرا دیکھیں تو اس بچی کا معصوم چہرہ۔ کتنی پیاری ہے۔ بالکل گڑیا جیسی۔ اور اس کو۔ اس کو دیکھیں۔ گھوڑی، اتنی بڑی گھوڑی۔ اس معصوم پہ ہاتھ اٹھاتی ہے، دھمکاتی ہے۔ شرم بھی نہیں آتی اس کو۔ حسن بھائی نے مارے غصے کے تسلیم کی پیٹھ پر دھپ دے مارا۔

جھلنگا چارپائی کے داون پر بیٹھی زارا نے سہم کر تسلیم کی طرف دیکھا اور حسن بھائی کے جلال کی تاب نہ لا کر سر جھکا لیا۔ اسے اچانک تسلیم سے ہمدردی ہونے لگی اور اس بات پر افسوس کہ اس نے حسن بھائی سے اس کی شکایت کیوں لگائی؟ کیا ضرورت تھی۔ ٹھیک ہے تسلیم تنگ تو کرتی تھی اسے۔ کلاس میں ساتھ بیٹھنے کی ضد کرتی تھی اور ساتھ نہ بٹھانے پر کبھی کبھار چٹکی بھی کاٹ لیا کرتی تھی زور کی۔ اس کے لنچ باکس کو ہاف ٹائم سے پہلے کھا کر خالی کر دیتی تھی مگر پھر بھی۔ ایسے سلوک کی مستحق تو نہ تھی۔

دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے روتی تسلیم کو دیکھ کر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ تسلیم کے سخت گیر نانا جان سے تو ہرگز اس کی شکایت نہ کرے گی۔ نانا جان تو تھے بھی بہت اکھڑ مزاج۔ چار کمروں کے چھوٹے سے اسکول میں لاٹھی ٹیکتے آ پہنچتے تھے۔ اور اپنی گرج دار آواز میں کہتے تھے۔ ”ماسٹر جی! یہ دونوں بچے اگر نافرمانی کریں یا پڑھائی میں کوتاہی۔ دونوں صورتوں میں ان کی کھال ادھیڑ دیں۔ بس یہ یاد رکھیں، گوشت آپ کا۔ ہڈیاں ہماری۔“

اس سمے تسلیم اور اس کے بڑے بھائی سمیر کی شکل دیکھنے لائق ہوتی تھی۔ اس کے بعد نانا جان ان کی کلاس میں آ کر دو، تین بار لاٹھی کو زور سے زمین پر مارتے۔ سارے بچے گھبرا جاتے تھے۔ اساتذہ خود نانا جان کے لحیم شحیم وجود اور رعب و دبدبے کو دیکھ کر اٹھ کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ نانا جان کے دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی میں چاندنی میں جڑے فیروزے پر سب کی نگاہیں یوں بھی جم جاتی تھیں کہ انگوٹھی کا نچلا حصہ لاٹھی کے منقش معکوسی حصے سے جب ٹکراتا تو ٹن ٹن کی مدھم مگر مرتعش آواز سے نانا جان کی شخصیت مزید رعب دار ہو جایا کرتی تھی۔ نانا جان چند لمحے بچوں کو گھور گھور کر دیکھنے کے بعد پرخیال انداز میں ”ہوں ہوں“ کرتے گردن ہلاتے اور لاٹھی ٹیکتے باہر نکل جاتے۔

نانا جان گلیوں یا راستوں پہ شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے۔ سفید لٹھے کا چوڑی موری کا پائجامہ اور ایسا ہی براق کرتا، جس کے بٹن سنہری تھے، پہنے ہوئے ہوتے۔ اپنی سنہری کمانی والی عینک کے موٹے موٹے عدسوں کی اوٹ سے جھانکتی آنکھوں کی وجہ سے نہایت منفرد نظر آتے۔ سلام کرنے والا انہیں سلام کرنے کو اپنی شان سمجھتا جب کہ نانا جان نظر کے چشمے کی اوٹ سے سلام کرنے والے کی ذہنی، جسمانی و مالی حیثیت کا لمحہ بھر میں تعین کر کے، اسی نسبت سے سلام کا جواب دیا کرتے تھے۔

اپنے گھر میں بھی وہ زیادہ دیر بیٹھک میں ہی بیٹھا کرتے تھے۔ گھر کے آنگن میں زیادہ تر اماں، شمائلہ باجی اور چھ بھائی دھمکتے نظر آیا کرتے تھے۔ آنگن میں ہر سو کام پھیلا نظر آتا تھا۔ تسلیم کی امی کپڑے بہت دھویا کرتی تھیں۔ سفید لٹھے کا غرارہ قمیض پہنے، ململ کی لمبی چوڑی اوڑھنی سے خود کو مکمل ڈھکے، جست کی بڑی سی پرات میں کپڑے دھوتیں۔ یہ پرات کسی ٹب یا تغاری کے درمیان کی کوئی چیز تھی۔ اللہ جانے ایسا بھاری غرارہ کیونکر میلا یا گیلا ہونے سے بچ جاتا تھا۔ خود ہی کپڑے دھوتی تھیں۔ خود ہی کنگھالتیں اور خود ہی الگنی پر ڈالتی تھیں۔

اسی آنگن کے ایک طرف چھپر ڈلے حصے میں شمائلہ باجی کا چولہا گڑا تھا۔ جو ہمہ وقت روشن رہتا تھا اور جس پر ڈھیروں ڈھیر روٹیاں پکا کرتی تھیں۔ گہرے کتھئی رنگ کی مٹی کی ہانڈی، جس کے کناروں اور درمیانہ حصے پر شوخ پیلے اور ہرے رنگ کے پھول اور پتے نمایاں ہوتے تھے، چولہے پر چڑھی رہتی تھی۔ سالن میں پانی زیادہ ہوتا تھا۔ گوشت، مٹر، آلو اور پیاز کم کم ہوتے۔ مگر خالہ جب بھی سٹیل کی کٹوری میں دال یا شوربہ ڈال کر گرماگرم روٹی کھانے بیٹھتی تھیں پورا آنگن کھانے کی خوشبو سے مہک جاتا تھا۔

باقی سارے گھر والے چولہے کے برابر بچھی، جگہ جگہ سے نچی چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ماسوائے ابا اور نانا جان کے، جن کا کھانا طشتری میں ڈھک کر بیٹھک میں لے جایا جاتا۔ چاولوں کی دیگچی ہوتی یا سالن کی ہانڈی۔ شمائلہ باجی آخری دانے اور شوربے کے آخری قطرے تک دیگچی میں ڈوئی پھیر کر، بہن بھائیوں کے پیالوں میں انڈیلتی رہتیں۔ زارا نے کئی بار شمائلہ باجی کو انگلیوں سے دیگچی اور ہانڈی چاٹتے دیکھا تھا۔ وہ روٹی کو سالن والی ہانڈی میں پھیر کر اسے اچھی طرح چپیڑ لیتیں اور اس کا رول بنا کر تین چار بڑے بڑے نوالے ٹھونس کر پوری چپاتی منٹوں میں نگل جاتیں اور اسی دوران میں سارے برتن جو ادھر ادھر لڑھکتے نظر آتے انھیں سمیٹ کر ایک طرف کرتی جاتیں۔

چولہے کے دائیں جانب برتنوں کا ڈھیر جمع ہو جاتا تو شمائلہ باجی آستینیں چڑھا کر، بڑی جانفشانی سے ان برتنوں کو مانجھنے لگ جاتیں۔ سامنے رکھے بڑے سے دیگچے میں رکھے پانی سے انہیں دھوتیں اور پھر نلکے کے سامنے جست کی ٹوٹے کنڈے والی درمیانی سائز کی بالٹی رکھ کے، ہاتھ سے نلکا چلانے لگ جاتیں۔ تھوڑی دیر میں جب بالٹی بھر جاتی تو اس پانی سے دھلے برتنوں کو کنگھال کر جالی کے برتن میں سلیقے سے ٹکاتی جاتیں۔ جیسے ہی برتنوں سے فارغ ہوتیں، جھاڑو اٹھا لیتیں یا پھر دوبارہ سے چولہے میں دبی آگ کو جلانے کی کوشش کرتیں، کبھی آٹا گوندھتی نظر آتیں تو کبھی سبزی کاٹتی۔ گویا کہ شمائلہ باجی کام کرنے کی مشین تھیں۔ نہایت مستعد۔

زارا کو اماں اور شمائلہ باجی کو کام کرتے دیکھنا، اچھا لگتا تھا یا حیرت ناک۔ مگر اسے جب بھی موقع ملتا تھا وہ بڑے انہماک میں انھیں تکتی رہتی تھیں۔ زارا محلے کے واحد زمیندار صاحب کے گھر کی بیٹی تھی، جن کی محلے بھر میں بہت عزت تھی۔ یوں تو ان کے تمام بچے ہی اچھے نین نقش والے اور خوبصورت سمجھے جاتے تھے مگر زارا بالخصوص سب کو ہی پسند تھی۔ شاید چھوٹی ہونے کی وجہ سے۔ زارا گول مول، سرخ و سپید رنگت کی جاذب نظر بچی تھی۔

نہایت با اخلاق اور کم گو۔ اسکول کی نیلی فراک اور سفید شلوار پہنے، لمبی لمبی دو چوٹیوں میں سرخ ربن باندھے کاندھے پہ اسکول کا بیگ لٹکائے صاف ستھری بچی سب ہی کو بہت اچھی لگتی تھی۔ خود سے دو تین سال بڑے بھائی کے ساتھ اسکول آتی جاتی جو اسی کی طرح کا خوش شکل اور تمیزدار بچہ تھا۔ وقتاً فوقتاً زارا کے والد صاحب بھی بچوں کی خبر گیری کے لیے اسکول آتے تھے۔ جب بھی اسکول آتے۔ ماسٹر صاحب کے لیے کبھی آم، کبھی امرود و تو کبھی جامن کے تحفے بھی لیتے آتے۔

بچوں کے پسندیدہ استاد کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ لسی، پانی یا چائے وغیرہ ان کے گھر سے منگوا سکتے تھے۔ چونکہ ماسٹر صاحب نہایت خوددار، مروت شناس اور باوفا انسان تھے لہٰذا انہوں نے کبھی ان سہولیات کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ماسٹر صاحب انتہائی اخلاق سے زمیندار صاحب سے پیش آتے اور انھیں تسلی دیتے کہ ان کے بچے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور وہ انھیں لگن سے پڑھا رہے ہیں۔ بجائے بچوں کی شکایت کرنے کے وہ الٹا انہیں یہ بتاتے کہ ان کے بچے دیگر تمام بچوں سے زیادہ ذہین اور علم دوست ہیں۔ اور ہاف ٹائم میں ادھر ادھر آوارہ گردی کرنے کے بجائے کلاس ہی میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں تو اس دوران بھی وہ انہیں کوئی مناسب کتاب پڑھنے کے لیے دے دیتے ہیں۔ تاکہ ان کا دل اسکول میں ہی لگا رہے۔ زمیندار صاحب اسکول اور ماسٹر صاحب کے رویے سے مطمئن تھے۔

تسلیم، زارا کے مقابلے میں چند ایک سال بڑی تھی۔ تھی تو نہایت اچھے گھر کی لڑکی مگر اس کی حرکتیں بڑی عجیب سی تھیں۔ نہ تو پڑھائی توجہ سے کرتی نہ ہی ماسٹر صاحب کا کہا مانتی۔ ماسٹر صاحب اسے جتنا زارا سے دور کرنے کی کوشش کرتے وہ اتنا ہی اس کے قریب ہونے کی کوشش میں رہتی۔ زارا پریشان ہو جاتی ایک دن زارا نے تقریباً روہانسی ہو کر ماسٹر صاحب سے تسلیم کی شکایت کی کہ ”سر تسلیم کہتی ہے کہ اگر تم کلاس میں میرے ساتھ نہیں بیٹھو گی تو تمہاری امی سے شکایت لگا دوں گی کہ تم گندے بچوں کے ساتھ بیٹھتی ہو۔“ حالانکہ نہ تو اسے ”گندے بچوں“ کی کٹیگری کا علم تھا، نہ ہی وہ شکایت کے نتیجے پہ غور کر سکتی تھی مگر اسے بہت ڈر لگا۔

ماسٹر صاحب نے تو آوٴ دیکھا نہ تاوٴ۔ تسلیم کو سامنے بلایا اور دو تین چھڑیاں اس کے دائیں بائیں بازو پہ جڑ دیں۔ اور غصے میں بولے، ”گندی بچی۔ ایک ایک بال میں دس دس جوئیں ہیں تمہارے۔ پہلے وہ تو نکلواؤ پھر اس بچی کے قریب بیٹھنا اور خبردار جو آئندہ زارا کو ڈرانے کی کوشش کی، ورنہ تمہارے نانا جان سے شکایت کروں گا پھر دیکھنا کیا حشر کریں گے وہ تمہارا۔“ تسلیم نے کینہ پرور نظروں سے اس کو دیکھا۔ ماسٹر صاحب نے پیار سے زارا کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولے۔ ”اب ہم خود اپنی بیٹی کو روزانہ چھٹی میں گھر تک چھوڑ کر آئیں گے تاکہ یہ تسلیم پگلی ہماری بیٹی کو تنگ نہ کر سکے۔“

زارا کا ڈر ذرا کم ہوا تو بولی، ”سر یہ روزانہ میرا لنچ بھی کھا جاتی ہے۔“ اب تو ماسٹر صاحب کو اور زیادہ غصہ آیا۔ ”اب نہیں کھاوٴں گی۔“ تسلیم آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔ ”قسم لے لیں اللہ پاک کی سرجی، جو میں نے کبھی اکیلے میں کھایا ہو۔ یہ گلاب کا لڑکا کاسوڑا بھی میرے ساتھ کھاتا ہے۔“ ماسٹر صاحب نے قاسم کو، جسے محلہ بھر کاسوڑا کہا کرتا تھا، فوراً مرغا بننے کا حکم دیا اور تسلیم کو ڈپٹ کر اپنی کرسی اور بنچ کے درمیانی خالی جگہ پر پورا پیریڈ کھڑا رہنے کی سزا دی۔ ماسٹر صاحب نے تو اپنے تئیں تسلیم کو ڈرا دیا تھا مگر وہ بھلا کہاں قابو میں آنے والی چیز تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی امی زارا کے گھر جاتی ہیں اور اسی بہانے وہ بھی ان کے گھر جب چاہے آ جا سکتی ہے اور جو جی چاہے شکایت لگا سکتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4