دوسری شادی اور ہمارا معاشرہ(قسط دوم)


یہ بات سمجھنے کی ہے کہ نکاح ایک کنٹریکٹ ہے جو دو باشعور اور بالغ لوگوں کی مرضی سے بنتا اور اسی مرضی سے قائم رہتا ہے۔ اگر دو میں سے ایک کی مرضی نہ ہو تو یہ کنٹریکٹ نہیں بن سکتا اور اگر ایک اس معاہدے کو برقرار نہ رکھنا چاہے تو یہ کالعدم ہو جاتا ہے۔

اس معاہدے میں اپنی خوشی سے اپنی زندگی جب تک ممکن ہو سکے دوسرے فریق کے ساتھ بانٹنے کا وعدہ ضرور ہوتا ہے مگر گھر سے جنازہ نکلنے کی کوئی شرط نہیں ہوتی بلکہ اسی معاہدے میں وہ تمام شقیں موجود ہوتی ہیں کہ اگر دونوں میں سے کوئی فریق مستقبل میں کسی بھی وجہ سے اس تعلق کو برقرار نہ رکھنا چاہے تو اس کی شرائط کیا ہوں گی۔

ہم نے اس کنٹریکٹ کو اصل سے زیادہ سخت کر رکھا ہے۔ یہ معاہدہ زندگیوں کو ضوابط میں لانے کے لئے دیا گیا تھا، ہم نے اس میں اپنے رواجوں کی خاطر تحریفات کر لیں۔ نکاح اور طلاق کے ساتھ عزت، غیرت، وفا، بے وفائی، شہرت بدنامی کے ٹیگز جوڑ کر۔ بدقسمتی سے گھر سے جنازے نکالنے کے ہمارے عقیدے نے اس مذہب میں جسے یہ اپنا سرکاری مذہب مانتا ہے، میں تحریف کر رکھی ہے جس کی بناء پر ان تمام شرائط پر کراس لگا کر ایسے تمام تر حقوق کی نفی کر کے عورت کو عموماً تہی دامن کر دیا جاتا ہے۔

نتیجہ کار یہ ہوتا ہے کہ زندگی میں کبھی بھی ایسی صورتحال آ جائے تو یہ عورت سوائے اجڑنے کے کچھ کر نہیں سکتی۔ چونکہ شروع سے اسے پروان اسی سوچ کے ساتھ چڑھایا جاتا ہے کہ ایک شہزادہ آئے گا جو صرف اس کے ساری عمر خرچے اٹھائے گا، اور اس کے بدلے وہ ساری عمر اس کی خدمت گزار رہے گی، لڑکی کو تعلیم کی ضرورت ہے نہ ہنر کی، نہ روزگار و کاروبار کی، سوچ، خیال، اعتماد، شعور تو بھول ہی جائیں۔ چنانچہ عورت پر سارا بوجھ خدمت گزار بننے کا ڈال دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ کوئی صورتحال یہ معاشرہ سوچنا چاہتا ہے نہ قبول کرنا چاہتا ہے۔ مگر بعد میں کبھی چھوٹی یا بڑی وجہ سے اگر رشتہ توڑنا پڑے تو اس عورت کی زندگی عموماً برباد ہو کر رہ جاتی ہے کہ پہلے ہی دن آپ مرد کے سارے فرائض اور عورت کے حقوق پر، طلاق کے بعد کا خرچ، بچوں کی کفالت سب کو ختم کر چکے ہیں۔ اور ایسی عورتیں جو کبھی اپنے لیے روزگار بنا سکیں نہ اس بارے میں سوچ سکیں، ایک دو تین بچے لے کر واپس باپ اور بھائیوں کے در پر حقیقتاً بوجھ بن کر آ جاتی ہیں، اگرچہ یہ نقصان بہرحال باپ بھائیوں کے فیصلوں کی ہی مہربانی ہوتے ہیں۔

یہی بات ہے جو عورت سو جوتے کھاتی ہے ہر طرح کی اذیت سہتی ہے مگر اس ایک رشتے میں ہمیشہ بندھے رہنا چاہتی ہے جو نہ اسے عزت دے سکے نہ مان، نہ اعتماد، کبھی کبھار تو کمائی اور اولاد تک نہیں۔ پھر طلاق کو معاشرے میں کلنک کا ٹیکہ سمجھے جانے نے عورت کے اور بھی ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ اب ان عورتوں کے پاس دوبارہ گھر بسانے اور زندگی گزارنے کی اور کوئی بہتر آپشن موجود نہیں۔ کیونکہ معاشرے میں شریف مردوں کی دوسری شادی کا رجحان ہی نہیں جو دو چار ضرورتاً یا مجبوراً کرنا چاہتے ہیں وہ سولہ سال سے زیادہ پر مانتے ہی نہیں۔

دو نمبر مرد تو ہر حال میں سولہ سالہ دوشیزہ ڈھونڈ لیتا ہے، تین چار شادیاں کرتے بھی نہیں ڈرتا۔ مگر وہ شریف مرد جو ایسی طلاق یافتہ یا بیوہ عورتوں کے ساتھ شادی کر کے ان کا آسرا بن سکتا ہے، وہ دوسری شادی کرنے سے ڈرتا ہے چاہے گھر میں ہر وقت وہ ماں باپ کے فیصلوں کو کوستا ہو، گھر سے اور بیوی سے بھاگتا ہو۔ کیا ممکن نہیں جو مزاج آپ کا اس عورت یا مرد سے نہ مل سکے کسی اور سے مل جائے؟ ہو سکتا ہے یہ جو زندگی آپ کو آج اس مرد اور عورت کے ساتھ اجیرن لگتی ہے کسی اور کے ساتھ بہتر لگنے لگے۔

اگر ایک رشتہ چل نہیں پاتا تو اسے توڑ کر نیا بنانے میں کیا حرج ہے؟ طلاق مکروہ ہے مگر ہمارے نبی نے بھی دو بار دینی چاہی۔ چونکہ ایک ضرورت کا حل ہے۔ ایسے میں دوسری شادی کا رجحان ایسی عورتوں کو جو پہلی بار کے غلط انتخاب کو سہنے پر مجبور ہیں کے لئے امید کی نئی کرن ثابت ہو گا۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت چار فی صد زیادہ ہیں، وہاں ایک عورت کو دوسرا شوہر کہاں سے ملے گا جب تک شادی شدہ مرد دوسری شادی نہ کرے گا، کیونکہ پہلے ہی عورتوں کے لئے ناکافی مرد ہیں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جب طلاق اور دوسری شادی کی بات ہو تو ایسے جوڑوں کے لئے کی جاتی ہے جن کو ان کی کسی نہ کسی وجہ سے ضرورت ہو۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ بنے بنائے سجے سجائے رشتے کو ترغیب دی جا رہی ہے۔ طلاق اور دوسری شادی ہمیشہ اپنی ضرورت کی وجہ سے اپنائی جانے والی آپشن ہے چنانچہ وہیں آزمائی جائے گی جہاں اس کی ضرورت ہو گی۔ اور اگر ایک مرد یا عورت کا دل نکاح کے رشتے کو رکھنے پر راضی نہیں تو یہ الگ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

مگر یہ رستہ بھی تب ہی اپنایا جا سکے گا، جب ہمارا معاشرہ اسے قبول کرنے پر راضی ہو گا۔ کیا ہمارے منبر اور میڈیا، صرف اختلافات بڑھانے اور فرقہ واریت پھیلانے کے لئے ہیں؟ کیا ہمارے جرگے اور پنچایتیں صرف ریپ اور قتل کروانے کے لئے ہیں؟ کیوں ان پلیٹ فارمز کو معاشرے میں مثبت رجحانات فروغ دینے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا؟

بچوں کا کیا ہو گا؟ دوسری شادی سے بچوں کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ نفرت جس تعلق میں بھی آئے گی اپنا ہی دامن جلائے گی۔ اگر دونوں فریق افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کر کے عزت دے کر کوئی فیصلہ کریں تو یہ تو بچوں کے لئے بہترین تربیت کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ رشتہ ٹوٹنے یا جڑنے سے اہم یہ بات ہے کہ والدین کے بیچ میں موجود احترام، خیال اور عزت کا لیول کیا ہے۔

اگر دوسری شادی ایک طلاق کی صورت میں ہوتی ہے تو بہترین آپشن ہے کہ دلوں کو کھلا رکھیں۔ محبت کو ضرب کر دیں گے تو اپنا ہی فائدہ ہے تقسیم کریں گے تو صفر ہی حاصل ہو گا۔ اپنے فرائض سے کوتاہی کرنے والے باپوں کے لئے کیا سزا ہے یہ منبر پر بھی بتایا جانا چاہیے۔ قوانین بھی بننے چاہئیں۔ بچے ہمیشہ ریاست کی ذمہ داری ہونے چاہئیں۔ ماں اور باپ میں سے کوئی بھی ان کے حقوق سے روگردانی کرے اسے سزا ملنی چاہیے، معاشرے میں اسے ایک برا فعل سمجھا جانا چاہیے تاکہ لوگ اعمال بدلنے کی طرف متوجہ ہوں۔

مگر صورتحال یہ ہے کہ جو بات بری ہے اس کا تو پورے فسانے میں ذکر تک نہیں مگر طلاق، اور مرد و عورت کی دوسری شادی بری ہے۔ میں ایک ایسی عورت کو جانتی ہوں جو پچھلے پانچ سال سے طلاق لینا چاہتی ہے مگر میاں کی قید میں ہے چونکہ اس کے بچوں کی ماں ہے۔ ماں باپ بھی سمجھتے ہیں کہ روتی دھوتی عورت مرد کے پلے باندھ کر اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم سب گونگے بہرے ہیں؟ زندگی کے مشکل مرحلے دراصل بچوں کو برباد نہیں کرتے عموماً بنا دیتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments