ایم آرڈی سے پی ڈی ایم تک: سیاسی اتحاد اور پیپلز پارٹی کا کردار


اس پوری تحریک سے پیپلز پارٹی نے کئی اسباق سیکھے اور نتیجہ اخذ کیا کہ ”جب تک سیاسی طاقتیں اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوتیں تب تک ہمیں اس میں رہ کر نہایت آہستگی اور تسلسل کے ساتھ حقیقی جمہوریت کے لئے کام کرنا ہوگا اور یہ کہ سیاسی کھیل صرف اسی فریم ورک اندر کھیلا جا سکتا ہے جو رجیم کی طرف سے طے شدہ ہے“ ۔

ایم آر ڈی میں شامل دیگر پارٹیاں بے نظیر بھٹو کے ان خیالات سے متفق نہیں تھیں۔ انہوں نے اس پورے آئیڈیا کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس گروہ کی کوئی عوامی وقعت نہیں لہٰذا ان کا الیکٹورل نظام میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ 1987میں جونیجو سرکار نے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ انتخابات میں حصہ لینے کا مطلب اس غیر آئینی سرکار کو تسلیم کے مترادف ہوگا لیکن پیپلز پارٹی نے ایم آر ڈی پارٹیوں کے اعتراضات کے برعکس انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر نے منطق پیش کی کہ طویل مارشل لا کے سخت ترین حالات سے مقابلہ کرنے کے بعد پارٹی کارکنان کو انتخابات کی تیاری کے لئے تجربے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا یہ تیاری موجودہ ملکی سیاسی ماحول اور آئندہ عام انتخابات میں جان ڈال دے گی۔

انتخابات میں حصہ لینے کے اس فیصلے کے پیچھے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا وہ فیصلہ تھا جس کے باعث ملکی سیاست کا چہرہ مسخ ہو گیا اور ملکی سیاست کی باگ ڈور غیر سیاسی اور موقع پرست لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو 85کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کو اپنی سیاسی زندگی کی فاش غلطی تصور کرتی تھی اور اب وہی فاش غلطی دوبارہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اس دوران جونیجو حکومت اور ضیاء الحق کے مابین اختلافات اس نہج کو پہنچ چکے تھے کہ کرپشن سمیت دیگر الزامات کے تحت ضیا الحق نے اپنی ہی لائی ہوئی جونیجو سرکار کا خاتمہ کر دیا۔ ایک بار مرتبہ پھر ملک کے سیاسی حلقوں میں بے یقینی پھیل گئی مگر غیر متوقع طور پر ضیا الحق نے پھر سے غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اس مرتبہ بے نظیر بھٹو اور دیگر جماعتیں عدالت چلی گئی اور عدالت نے سیاسی پارٹیوں کو انتخابات سے باہر رکھنے کو غیر آئینی قرار دے کر پارٹی بنیادوں پر عام انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔

جونیجو حکومت کے خاتمے اور سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایم آر ڈی کے مردہ گھوڑے میں ایک بار پھر جان ڈال دی تھی۔ چونکہ ایم آر ڈی کی سب سے بڑی پارٹی پیپلز پارٹی تھی اور اسی نے تحریک کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی تھی لہٰذا پچھلے تلخ تجربات کی روشنی میں نئی حکمت عملی کے تحت ایم آر ڈی نے ”براہ راست ٹکراؤ“ کی بجائے ضیاء الحق پر اخلاقی دباؤ بنانے کا لائحہ عمل اختیار کیا تا کہ کہیں اس ٹکراؤ کے نتیجے میں حالات خراب نہ ہو جائیں اور کسی طرح انتخابات مؤخر یا منسوخ کرنے کا اعلان نہ ہو جائے۔

اب مرحلہ تھا انتخابات میں جانے کا لہٰذا ایم آر ڈی میں شامل چھوٹی جماعتیں پیپلز پارٹی کا کندھا استعمال کر کے ایوان تک پہنچنا چاہتی تھیں لیکن بے نظیر نے ان پر واضح کر دیا کہ ایم آر ڈی اپوزیشن کی ایک سیاسی تحریک تھی یہ کوئی الیکشن اتحاد نہیں تھا لہٰذا پیپلز پارٹی اپنے امیدوار لائے گی تاہم بے نظیر نے یہ نرمی ضرور دکھائی کہ ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں کے سربراہان جن نشستوں پر الیکشن لڑیں گے ان کے مقابل پیپلز پارٹی اپنے امیدوار نامزد نہیں کرے گی۔ اس طرح 19 اکتوبر 1988 کو ایم آر ڈی ختم کر دی گئی۔

ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں کی جانب سے تحریک کے خاتمے کا الزام پیپلز پارٹی پر ڈالا گیا۔ اس کے باوجود بھی بے نظیر اپنے اعلان پر قائم رہی کہ ایم آر ڈی کے ٹاپ لیڈرز کے مدمقابل اپنے امیدوار نہیں لائیں گی اور اگر وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں تو انہیں اپنی کابینہ کا حصہ بھی بنائیں گی۔

جونیجو سرکار کے خاتمے کے ساتھ مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک دھڑے نے محمد خان جونیجو کو اپنا صدر منتخب کر لیا جبکہ دوسرے یعنی ضیاء الحق کی خاص عنایت یافتہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نوز شریف کے زیر دست دھڑے نے فدا محمد خان کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔ مسلم لیگ میں دھڑا بندیوں کے باعث پیپلز پارٹی کافی مضبوط پوزیشن میں نظر آ رہی تھی اور اسے ٹکر دینے کے لئے دو سیاسی اتحاد بنے یا بنوائے گئے۔

محمد خان جونیجو کے مسلم لیگی دھڑے نے اینٹی پی پی پی جماعت علماء پاکستان اور تحریک استقلال کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز اتحاد جبکہ فدا محمد خان یعنی نواز شریف والے دھڑے نے جماعت اسلامی سمیت 9 اینٹی پی پی پی جماعتوں کو ملا کر اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کی بنیاد رکھی۔ آئی جے آئی بالکل اسی طرح کا اتحاد تھا جیسا اتحاد پاکستان نیشنل الائنس کی صورت جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے بنایا گیا تھا۔

17 اگست 1988کو بہاولپور کے قریب فضائی حادثے میں جنرل ضیاء الحق کے جان بحق ہونے کے تین ماہ بعد ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی روکنے کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی 92 نشستیں جیت کر پارلیمان کی بڑی جماعت کے طور پر تو کامیاب ہو گئی مگر حکومت بنانے کے لئے سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے سامنے بڑے بڑے نام چھوٹے پڑ گئے۔

آئی جے آئی سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی اور پیر پگاڑا سمیت محمد خان جونیجو بھی اپنے آبائی حلقے سے ہار گئے۔ اگلے مرحلے میں صوبائی انتخابات ہوئے اور اینٹی پی پی عناصر حرکت میں آئے اور اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے پنجاب میں صوبائیت کا نعرہ لگا کر چھوٹے بڑے شہروں کی دیواریں ”جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ“ جیسے نعروں سے رنگ دی گئی۔ مساجد سے اعلانات ہوئے اور ہوائی جہازوں سے پمفلٹ گرائے گئے جن میں بے نظیر بھٹو کو بیرونی ایجنٹ اور ملک دشمن قرار دیا گیا۔

بحیثیت خاتون ان کی کردار کشی کی گئی۔ پی پی پی مخالف دھڑے کی یہ ترکیب رنگ لائی اور پنجاب میں پیپلز پارٹی صرف 88 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو پائی جبکہ کا آئی جے آئی اتحاد 91 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح یہ اتحاد جو پیپلز پارٹی کی مخالفت کے لئے بنا تھا اس نے سیاست کے ڈگر ہی بدل کر رکھ دی۔ غداری کے الزامات تو فاطمہ جناح پر لگنے سے کافی پہلے ہی شروع ہوچکے تھے لیکن اب بداخلاقی اور کردار کشی بھی پاکستانی سیاست کا حصہ بن گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments