ایم آرڈی سے پی ڈی ایم تک: سیاسی اتحاد اور پیپلز پارٹی کا کردار


آگے چل کر جنرل پرویز مشرف کے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد 3 دسمبر 2000 کو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان نے بحالیٔ جمہوریت کے لئے الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یعنی اے آر ڈی کے نام سے سیاسی پارٹیوں کا اتحاد بنایا اور سیاسی حریف اور ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) بھی اس سیاسی اتحاد کا حصہ بنیں۔

نوابزادہ نصر اللہ خان کی کوششوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کی دوریاں کچھ کم ہوئی اور بے نظیر بھی ماضی کے تلخ سیاسی تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکی تھی لہٰذا نواز شریف یا مسلم لیگ کے ساتھ اختلافات کو ذاتی اختلاف سمجھنے کے بجائے سیاسی اختلاف جان کر 2005 میں جدہ میں مقیم نواز شریف سے ملاقات کے لئے پہنچی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنما ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے 1973کے آئین کی بحالی، صوبائی خودمختاری اور خودمختار الیکشن کمیشن جیسے تین بنیادی نکات پر متفق ہوئے۔

بے نظیر بھٹو نے ایم آر ڈی سے سیکھا تھا کہ ”معاملات کو تیزی سے نہیں نمٹائیں گے اور جب تک سیاسی طاقتیں اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوجاتی تب تک اس نظام میں رہ کر آہستگی کے ساتھ لیکن حقیقی جمہوریت کے لئے مستقل کام کرنا ہوگا اور یہ سیاسی کھیل صرف اسی فریم ورک کے اندر ہی کھیلا جا سکتا ہے جو رجیم کی طرف سے طے شدہ ہو“ ۔ لہٰذا بے نظیر بھٹو نے اے آر ڈی کے چلتے ایک طرف جہاں اپنے سخت سیاسی حریف جماعت مسلم لیگ (نواز) کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی یعنی میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو وہیں مشرف کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے۔ یہ مذاکرات اے آر ڈی کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان بڑھتے روابط میں تشکیک کا باعث بنے اور روابط کا بڑھتا سلسلہ رک گیا۔

بعد ازاں نواز شریف نے لندن میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کے نام سے نیا سیاسی اتحاد معرض وجود میں آیا۔ چوں کہ نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کرنے کے بعد بے نظیر بھٹو پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات کے فیز میں چلی گئی تھیں شاید اس لئے پیپلز پارٹی اس اتحاد کا حصہ نہیں بنی یا بنائی گئی۔ اے پی ڈی ایم نے پرویز مشرف کی حکومت کے تحت ہونے والے 2007 کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

لیکن پیپلز پارٹی سیاستدانوں کی جانب سے ایک بار پھر 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ جیسی، ٹکراؤ کی سیاست کے نقصانات یا 2002 میں مشرف کی صدارتی نامزدگی کی منظوری کے بعد اپوزیشن کے استعفوں جیسی غلطیوں کو دہرا کر سیاسی قوتوں کو ایک بار پھر اس مقام پر لا کھڑا کرنے کے حق میں بالکل بھی نہیں تھی جہاں سیاسی کارکنان کے آنکھوں میں پنپتے جمہوریت کے روشن خیال کال کوٹھریوں کے اندھیروں کی نذر ہو جائیں یا ان کی آنکھوں میں پلتے خوبصورت مستقبل کے خواب آنسو گیس کے شیل لگنے سے آنسوؤں کی صورت ضائع ہو جائیں۔ لہٰذا بے نظیر بھٹو نے کسی طرح نواز شریف کو قائل کر لیا اور مسلم لیگ (نواز) نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے کر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔

مسلم لیگ (نواز) کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے کر الیکشن لڑنے کے اعلان پر عمران خان سمیت اے پی ڈی ایم میں شامل دیگر پارٹیاں نواز شریف سے سخت ناراض ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو، مشرف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وطن واپس آ گئی اور نواز شریف کی واپسی کی بھی راہیں ہموار کرنے لگی۔ ججز بحالی تحریک، توانائی بحران اور مہنگائی اوپر سے اپوزیشن کی ایسی طاقت نے پرویز مشرف کے اقتدار کو کمزور کر دیا تھا لہٰذا اب بے نظیر کے لئے ایم آر ڈی کریک ڈاؤن سے سیکھے ہوئے سبق یعنی ”مارشل لائی بحران ختم ہونے کے بعد سیاسی طاقت کے درست استعمال کا وقت“ آ چکا تھا۔ بے نظیر بھٹو واپس پہنچتے ہی بھرپور عوامی مہم شروع کر چکی تھی۔ اور اسی مہم کے ایک کڑی یعنی راولپنڈی جلسے میں انہیں قتل کر کے ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹا دیا گیا۔

اب ملک میں ایک نیا بحران کھڑا ہو گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے سوئم تک ریاست پاکستان بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ پورے ملک میں ہو کا عالم تھا۔ تب پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری نے سنبھالی اور سیکھے ہوئے تمام اسباق دہراتے ہوئے براہ راست ٹکراؤ کے بجائے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگا کر تین دن ریاست پر طاری بے یقینی کی کیفیت کو ختم کیا۔

براہ راست ٹکراؤ کا راستہ اختیار نہ کر کے ججز بحالی تحریک، اپوزیشن کے دباؤ، جسٹس چودھری کے جوڈیشل ایکٹوزم، توانائی بحران، مہنگائی جیسے عفریتوں سے لڑنے کے باوجود بھی آصف علی زرداری، جدہ میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیاں ہوئے تین نکاتی معاہدے میں سے ایک یعنی صوبائی خودمختاری کو 18 ویں آئینی ترمیم کی صورت قابل عمل بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اسی آئینی ترمیم کے ذریعے 1973کے آئین کی بحالی کی طرف پیشرفت کرتے ہوئے 58 ٹو بی کے خاتمے کے علاوہ کسی مہم جو جرنیل کی طرف سے آئین شکنی کو غداری قرار دے کر آئندہ مارشل لا کی راہ میں ایک دیوار کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

یہی نہیں ملک میں وسائل کی تقسیم پر صوبوں کے درمیان روز اول سے جاری کشمکش کا خاتمہ کرنے کے لئے اسی 18 ویں آئینی ترمیم میں نیشنل فنانشل ایوارڈ میں اصلاحات کے ساتھ ملکی معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کے لئے چاروں صوبوں اور وفاق کے نمائندہ ادارے کونسل آف کامن انٹریسٹ میں بھی اصلاحات کیں۔ یہی زرداری، جوڈیشل ایکٹوزم کو اپنے ایک وزیر اعظم کی قربانی دے کر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی پارٹی کی پانچ سالا مدت مکمل کرنے والی پہلی سویلین حکومت بنانے میں کامیاب رہا اور پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسی زرداری نے بطور صدر اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا۔ (جاری ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments