جھوٹا خواب اور حقیقت: ذوالفقار علی بھٹو کی بہترین تقریر


بلاشبہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر ان کی بہترین تقریروں میں سب سے بہترین تھی۔ جذبوں سے بھری ہوئی، محبتوں سے کہی ہوئی اور حوصلوں میں گندھی ہوئی!

بھٹو کی گرفتاری اور گرفتاری کے 17 دن کے بعد ضیاء الحق نے راولپنڈی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بٹو اور ان تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک پیشہ ور مسلمان فوجی ہیں جو صرف پیشہ ورانہ کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ بہ حیثیت مسلمان کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے ہیں اور نہ ہی بولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت سپاہی وہ پاکستان کے آئین کو کاغذ کا پرزہ نہیں سمجھتے بلکہ اس آئین کے تابع ہیں جس کی حفاظت کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔

وہ اس آئین کی پاسداری کریں گے حالات جیسے بھی ہوں وہ اپنا نوے دن میں الیکشن کا وعدہ پورا کریں گے اور اپنے ساتھیوں سمیت بیرکوں میں واپس چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، سیاستدانوں اور ائر مارشل اصغر خان کی اپیل پر انہوں نے آئین معطل کیا تھا تاکہ ملک میں پھیلے ہوئے انتشار پر قابو پایا جائے۔ شہریوں کے جان و مکان کو محفوظ کیا جائے اور سرکاری املاک کو بچایا جائے۔ اب ان اہداف کو حاصل کرنے کے بعد آئین و دستور کو 90 دن میں مکمل طور پر بحال کر دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کو احکامات دے دیے گئے ہیں کہ 70 دنوں میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے اور الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کو ملک کا اقتدار سونپ دیا جائے گا۔ اللہ میرے ساتھ ہو او ر میں کامیابی سے یہ کام کرسکوں۔

آج کے بعد تمام سیاسی سرگرمیاں بحال کردی گئی ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن آزاد ہیں۔ فوج امن و امان بحال رکھے گی اورالیکشن کمیشن سے تعاون کرے گی تاکہ ملک میں مکمل طور پر شفاف الیکشن کرایا جاسکے۔ ایک پیشہ ور فوجی اور سچے مسلمان کی حیثیت سے میں یہ اعلان کر رہا ہوں اور میرے ساتھی اس اعلان کے پابند ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق وزیراعظم اور سابق وزرائے اعلیٰ کو وہ تمام سہولتیں اور پروٹوکول دیا جائے گا جو ان کا آئینی حق ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کے بعد فوج اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر کے بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔ وہ خود فوج سے ریٹائر ہو کر اپنے آپ کو عوامی نمائندوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیں گے۔ میری نیت صاف تھی اور ابھی بھی صاف ہے۔ مجھے اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے میں اللہ کا سپاہی اور پاکستان کا بھلا چاہتا ہوں۔

انہوں نے آخر میں پھر سے دہرایا تھا کہ وہ پیشہ ور سپاہی ہیں اور ایک مسلمان فوجی ہونے کے حوالے سے نہ جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی اپنے حلف کی پاسداری سے منکر ہیں۔ انہوں نے ہنگامی حالات میں مجبور ہو کر آئین معطل کیا تھا اور اب ان کی ذمہ داری ہے کہ آئین بحال کیا جائے۔

رہائی کے سات دنوں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے سے خطاب کیا تھا۔ انہوں نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی، جس کے گریبان کے اوپر کے دو بٹن کھلے ہوئے تھے اور انہوں نے سر پر ماؤ کیپ لگایا ہوا تھا اور اپنے کھلے آستینوں کے ساتھ خطاب کیا تھا۔ لاکھوں لوگوں کے اجتماع میں انہوں نے تقریر کے آغاز میں کہا تھا کہ وہ معراج محمد خان، جے اے رحیم، مختار رانا، مبشر حسن، محمود قصوری، محمود نواز بابر اور ان ان گنت پیپلز پارٹی کے ارکان سے معافی مانگتے ہیں جنہیں ان کے دور اقتدار میں قید کیا گیا، ان پر ایف ایس ایف کے ذریعے تشدد کیا گیا، ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور ان کے خاندان والوں کو ہراساں کیا گیا۔ انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے اور وہ چاہتے ہیں پیپلز پارٹی کے بچھڑے ہوئے لوگ پارٹی میں واپس آجائیں۔ طلبا، مزدور اور کسان ہمیں معاف کردیں، ہم سے غلطی ہوئی اب یہ غلطی نہیں ہوگی۔

ان کی تقریر کے دوران معراج محمدخان مجمعے سے اٹھ کر اسٹیج پر چلے آئے تھے، جہاں بھٹو صاحب نے انہیں گلے سے لگا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لیا تھا۔

بھٹو صاحب نے مجمعے کے بے انتہا شور اور نعروں کے درمیان ولی خان، مفتی محمود اور غوث بخش بزنجو سے معافی کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ان کی تاریخی غلطی تھی کہ انہوں نے سرحد اور بلوچستان میں منتخب سیاسی حکومتوں کا خاتمہ کیا تھا اور جعلی اکثریت کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کی، یہ ان کی بڑی غلطی تھی۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہیں نہ تو آئین کے انسانی حقوق سے متعلق بنیادی نکات کو معطل کرنا چاہیے تھا اور نہ ہی طاقت کے زور پر ملک کے دو صوبوں میں عوامی نمائندوں کی حکومت کا خاتمہ کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کو دعوت دی تھی کہ وہ آزادانہ الیکشن میں حصہ لیں اور الیکشن کے نتائج کے مطابق پاکستان میں مل جل کر کام کریں، ملک کے چاروں صوبوں میں عوام کو غربت سے نجات دلائیں۔ انہیں روٹی کپڑا اور مکان دیں، انہیں عزت دیں اور یہ سمجھیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

ان کے اس اعلان کے بعد لاہور کے عوام کئی منٹ تک نعرے لگاتے رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے اپنا ماؤ کیپ معراج محمد خان کے حوالے کیا تھا اور نصرت بھٹو سے رومال لے کر اپنے سر سے پسینہ پونچھا تھا۔ ان کا چہرہ سرخ تھا، ان کے آنکھوں میں آنسو تھے، وہ بے قابو عوام کو بیٹھنے کے اشارے کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب کی رہائی کے بعد یہ ایک عجیب منظر تھا۔ جلسے گاہ میں پی پی کے نمائندے، امریکی یورپین اخبار کے رپورٹر، فوٹوگرافروں کے ساتھ موجود تھے۔ بلاشبہ یہ جلسہ بڑا جلسہ تھا جس پر تمام دنیا کے ملکوں کی نظر تھی۔

انہوں نے دوبارہ تقریر شروع کی اور جماعت اسلامی کے امیر میاں محمد طفیل سے معافی کی درخواست کی تھی، ان کے دور حکومت میں پولیس والوں نے انہیں پکڑ کر لاک اپ میں بند کر دیا تھا۔ جہاں ان کے ساتھ ہیرامنڈی کی طوائفوں کو بھی رکھا گیا تھا جنہوں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ انہوں نے انڈا، ڈنڈا اور گنڈہ کے حوالے سے بھی معافی مانگی تھی اور کہا تھا کہ اب جب بھی وہ الیکشن جیتیں گے اور حکومت بنائیں گے تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار پولیس والوں اور نوکرشاہی کے افسروں کو اختیار سے محروم کردیں گے۔

ان کا کام عوام کی خدمت ہے ناکہ سیاستدانوں کی سہولت کاری ہے۔ انہوں نے ان تمام سیاسی قیدیوں سے معافی مانگی تھی جنہیں پولیس والوں نے ایف ایس ایف کے اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کے بچوں کو اغوا کیا تھا اور ان کے ماں باپ کو ہراساں کیا تھا۔ ان کے خاندان کی لڑکیوں کو اغوا کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔

بھٹو صاحب تقریر کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے تھے۔ انہوں نے تقریباً روتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے دور حکومت میں سندھ کے ہاریوں کو کچھ نہیں ملا، پنجاب کے کسانوں پرظلم بند نہیں ہوا۔ ان کے دور حکومت میں وڈیروں، جاگیرداروں، خانوں اور سرداروں کو مزید طاقت مل گئی۔ کارخانوں میں مزدوروں پر ظلم ڈھائے گئے۔ کئی مزدور قید کیے گئے، کارخانے بند کر کے انہیں بے روزگار کیا گیا۔ یہ غلطی ہم سے ہوئی ہے۔ وہ اب جب بھی برسراقتدار آئیں گے صحیح معنوں میں کسانوں، مزدوروں، ہاریوں اور روزمرہ کے مزدوروں کو ان کے حقوق دیں گے، ان کے لیے سہولتیں ہوں گی، ان کو صاف پانی ملے گا، ان کومکان دیا جائے گا۔ ان کی عزت کی جائے گی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ان سے بڑی غلطی ہو گئی ہے، وہ اپنے منشور پر عمل نہیں کرسکے۔ انہوں نے ان تمام لوگوں کو دھتکار دیا جنہوں نے پیپلز پارٹی کے منشور پر عمل کرنے کی صلاح دی۔ وہ عوام کے کاندھوں پر سوار ہو کر آئے مگر وہ عوام کے دشمنوں وڈیروں، جاگیرداروں، خانوں، سرداروں کے ساتھ مل گئے۔ انہوں نے دو نمبر زمینی اصلاحات کیں، عوام دشمنوں سے مل گئے۔ انہوں نے تین دفعہ زور زور سے پوچھا میرے بھائیو! مجھے معاف کرتے ہو، مجھے معاف کرتے ہو، معاف کرتے ہو۔ اپنے بھائی کو اپنے بیٹے کو اپنے بھٹو کو معاف کرتے ہو!

لاہور کا مجمع بے قابو ہو گیا۔ زور زور سے نعرے لگنے لگے ”معافی ہے۔ معافی ہے۔ بھٹو ہمارا ساتھی ہے۔ ساتھی ہے۔“

اسٹیج پر کھرے ہوئے نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بھٹو کے پرانے ساتھی زار و قطار رورہے تھے۔ بھٹو صاحب نے پھر تقریر شروع کردی تھی۔

انہوں نے کہا تھا ان سے بڑی غلطی ہو گئی۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کو قومیا کر تباہ کر دیا، کراچی کے علاقے ملیر میں ڈاکٹر محمود حسین کا جامعہ ملیہ تباہ ہو گیا، اردو کالج میں تباہی آ گئی۔ عیسائیوں کے کئی تعلیمی ادارے ختم ہو گئے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ کوٹہ سسٹم بنا کر انہوں نے قابلیت کا خاتمہ کر دیا۔ سارے ملک میں دو نمبر اور تین نمبر نا اہل لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز کردیے گئے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں ممتاز بھٹو، جام صادق، طالب المولیٰ، کوثر نیازی، مصطفی کھر، حفیظ پیرزادہ سے شکوہ کیا کہ انہوں نے انہیں روکا کیوں نہیں، انہیں ٹوکا کیوں نہیں۔

انہوں نے اسٹیج پر کھڑے ہوئے اپنی حکومت کے وزیروں اور مشیروں سے پوچھا اگر میں الیکشن جیت گیا تو مجھے غلط کاموں سے روکو گے، مجھے ٹوکو گے، عوام کے لیے کام کرو گے۔

عوام کے فلک شگاف نعروں کے درمیان ان کے وزیروں نے باآواز بلند کہا تھا کہ وہ انہیں روکیں گے۔ عوام کی بھلائی کے لیے روکیں گے، ضرور روکیں گے۔

بھٹو صاحب نے اپنی تقریر دوبارہ شروع کی اور کہا مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی، میں نے پنجاب میں سائیکل بنانے والی بیکو کی فیکٹری کو قومیالیا، اتفاق فونڈری کو قومیا لیا، سندھ میں جننگ کے کارخانوں کو قومیا لیا، بینکوں کو قومیا لیا اور قومیا کر ایسے نااہلوں کے حوالے کر دیا جن کو نہ عوام سے مطلب تھا اور نہ ہی ملک سے محبت تھی۔ وہ یہ غلطی دوبارہ نہیں کریں گے، کبھی نہیں کریں گے۔

تعلیمی ادارے واپس کردیے جائیں گے، سرکار اسکول اور کالج کھول کر ملک کے سارے بچوں کو تعلیم دے گی۔ کارخانے واپس کردیے جائیں گے۔ ہم اپنے عوام کو خوشحال بنائیں گے، اپنی عورتوں کو تعلیم دیں گے، ان کو اتنی ہی آزادی دیں گے جتنی آزادی نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو ہے۔ بچوں کو وہی تعلیم ملے گی جو مرتضیٰ اور شاہنواز کو مل رہی ہے۔ یہ میرا وعدہ ہے ایک دفعہ اور مجھ پر بھروسا کرو لوگو، بولو! بولو! بھروسا کرو گے، کرو گے، کرو گے۔ انہوں نے تین دفعہ پوچھا تھا۔

عوام کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ ’بھٹوآ گیا میدان میں‘ کے نعروں سے جلسہ گاہ میں آگ سی لگ گئی تھی۔ لوگوں کے نعروں کی آواز سے پورا لاہور دھمک رہا تھا۔

بھٹو صاحب نے دوبارہ تقریر شروع کی اور کہا کہ یہ میری غلطی تھی کہ میں نے ایف ایس ایف کی تنظیم بنائی جنہوں نے میری مرضی کے بغیر بہت سے کام کیے۔ میں نے پی آئی اے سے نور خان کی چھٹی کردی، میں نے اردشیرکاؤس جی کو جیل میں ڈال دیا، شیرباز مزاری کو تنگ کیا، عزیز اللہ شیخ کے خاندان کو پریشان کیا میں نے، جے اے رحیم سے بدتمیزی کی، محمود قصوری کی نہیں سنی، حنیف رامے کی نہیں سنی میں نے جنرل گل حسن سے زیادتی کی، اس کی بے عزتی کی، اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

میں ان سب سے ان کے خاندان سے معافی مانگتا ہوں۔ میں نے کراچی جام صادق کے حوالے کر دیا۔ جام صادق نے کراچی بیچ دیا، میں کراچی والوں سے معافی مانگتا ہوں۔ اس دفعہ جب میں جیتوں گا تو کراچی کو کراچی بنادوں گا۔ یہاں کی یونیورسٹی کو ایسی یونیورسٹی بناؤں گا کہ کراچی والے فخر کریں گے۔ مجھے آپ سب کی مدد چاہیے۔ میں ملتان کے کالونی ملز کے مزدوروں کے ساتھ کھڑا ہوں گا، کراچی میں لانڈھی اور سائٹ کے مزدوروں کے ساتھ ہوں گا، سرحد اور پنجاب کے کسانوں کے ساتھ ہوں گا، میں آپ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔

میں عوام کا آدمی ہوں، ملاؤں کا آدمی نہیں ہوں۔ میں پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بناؤں گا جہاں ہر مذہب، ہر نسل کے لوگوں کو آزادی ہوگی اور بچے اسکول جائیں گے۔ ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی، سب کو ان کے حقوق ملیں گے، یہ میرا وعدہ ہے۔ پکا وعدہ ہے۔ میں نے سیکھ لیا ہے، سمجھ لیا ہے، عوام ہی سب کچھ ہیں، وہ طاقت کا سرچشمہ ہیں، میں ان کے لیے سب کچھ کروں گا، جان دے دوں گا۔

لوگوں نے پھر تالیاں بجانی شروع کردیں تھیں۔ بھٹو صاحب نے کہا۔ سنو سنو سنو لوگو! میری بات سنو، میری آخری بات سنو، مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی، میں نے کہا تھا ہم گھانس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔

یہ میرا غلط فیصلہ تھا۔ اگر ہندوستان ایٹم بم بنارہا ہے، اگر اسرائیل ایٹم بم بنارہا ہے تو وہ غلط کر رہے ہیں، وہ اچھا نہیں کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے عوام کو خوشحال بنانا ہے، ہمیں پاکستان کے ہر گھر میں پانی پہنچانا ہے۔ ہر بچے کو اسکول جانا ہے۔ ہر لڑکی کو پڑھانا ہے۔ ہر گاؤں میں سڑک پہنچانی ہے۔ ہر شہر میں سیوریج سسٹم بنانا ہے۔ ایٹم بم سے کیا ہوگا۔ ایٹم بم سے ہمیں کشمیر نہیں ملے گا۔ کشمیر ہمیں اس وقت ملے گا جب ہم خوشحال ہوں گے، جب ہم ہندوستان سے اچھے ہوں گے، جب ہمارے دیہات گاؤ ں قصبے میں آزادی ہوگی۔

تھرپارکر میں چولستان میں، چارسدہ میں اور چمن میں مائیں زچگی میں نہیں مریں گی۔ صحت ہر ایک کو ملے گی، ہر ایک کو ملے گی۔ جب ہماری کرنسی ہندوستان سے زیادہ قیمتی ہوگی۔ اگر ہم نے ایٹم بم کی ریس کی تو پاکستان ہندوستان دونوں جگہوں پر عوام گھاس کھارہے ہوں گے اور ہمارے پاس ایٹم بم ہوگا۔ میں غلطی مانتا ہوں۔ میں غلط راستے پر چلا گیا۔ ایٹم بم سے نہ عوام خوشحال ہوں گے، نہ کشمیری ہمارے ساتھ آئیں گے۔ ہم خوشحال ہوں گے تو ہرایک ہمارے ساتھ آئے گا۔

بولو تم سب بولو، میری سنو گے، میری مانو گے، آؤ میرے ساتھ بڑھو، ہم پاکستان کو جدید بنائیں گے، ایسا بنائیں گے کہ ایک دن بنگلہ دیش دوبارہ ہم سے ملے گا۔ ہم سے کنفیڈریشن کرے گا ہندوستان کا پنجاب، بنگال ہم سے ملے گا، خود بھارت ہم سے ملے گا کیونکہ ہمارے عوام مضبوط ہوں گے، خوشحال ہوں گے ہم دونوں ملکوں کو خوشحال ہونا ہے، ترقی کرنی ہے، ایٹم بم نہیں بنانا ہے، اسی وقت ہم اس قابل ہوں گے، ہم خوشحال ہوں گے، مضبوط ہوں گے۔ لوگوں نے دوبارہ سے نعرے مارنے شروع کردیے تھے۔

اچھا اب بالکل آخری بات بالکل آخری بات، آج میں لاہور میں اعلان کرتا ہوں کہ ہماری اسمبلی ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کو آئین توڑنے پر معاف کر دے گی۔ ہم سب مل جل کر ایک نیا پاکستان بنائیں گے جہاں سب کی عزت ہوگی، سب کو حق ملے گا۔

جلسہ گاہ کے لوگ ”بھٹو زندہ باد۔ ہمیشہ زندہ باد زندہ رہے گا بھٹو، پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں کی طرف روانہ ہونا شروع ہو گئے تھے، اسٹیج پر بھٹو صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ دیر تک کھڑے رہے تھے اور ہاتھ لہرا لہرا کر عوام کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر جوش تھا، عوام ان کے ساتھ تھے۔

بھٹو صاحب کے جلسہ کے دوسرے دن جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت اسلام اور اصغر خان نے پریس کانفرنس کر کے بھٹو صاحب کی معافیوں کو قبول کرنے کا اعلان کیا اور مطالبہ کیا کہ ضیاء الحق وعدے کے مطابق نوے دنوں میں آزادانہ الیکشن کرائیں ا ور فوج کے ساتھ بیرکس میں واپس چلے جائیں۔

ملک میں بائیں بازو کی طلبا تنظیموں نے دوبارہ سے بھٹو صاحب کی حمایت کا اعلان کیا اور امید ظاہر کی کہ الیکشن جیتنے کے بعد بھٹو صاحب اپنے وعدے پورے کریں گے۔

سندھ کی ہاری کمیٹی اور پنجاب کے کسان کانفرنس نے بھی آزادانہ الیکشن کا مطالبہ کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ عوام کو بنیادی حقوق دیے جائیں، انہیں عزت سے زندہ رہنے دیا جائے۔

اور حقیقت۔

ضیاء الحق مسلسل جھوٹ بولتے ہوئے دس سال سے زائد عرصے تک حکمرانی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے غیرپیشہ ور فوجی ساتھیوں کے ساتھ لقمہ اجل بن کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو ایف ایس ایف کے سربراہ کی گواہی کے بعد عدالتی حکم سے قتل کر دیا گیا۔

جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور دیگر دینی جماعتوں نے ضیاء الحق کی آمرانہ غیر اخلاقی، غیر آئینی، غیرقانونی حکومت کی حمایت کی اور ملک کو قائداعظم کے بنائے ہوئے بنیادی اصول کے خلاف تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ اور ضیاء الحق کی باقیات نے جمہوریت کے نام پر عوام دشمن گھناؤنے کھیل کھیلے اورپاکستان میں بدعنوانی کے دروازے کھل گئے۔

پاکستان ایک ایسی جنگ میں شریک ہو گیا جس نے پاکستان میں بدعنوانی، بے ایمانی اور مذہبی انتہاپسندی کی انتہا کردی اورہزاروں شہری موت کا شکار ہوئے۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے باری باری حکومتیں سنبھالیں اور ماضی کی وہی غلطیاں دہرائیں جن کی بناء پر عوام نے وقت پڑنے پر ان کا ساتھ نہیں دیا۔

پاکستان نے بھارت کے بعد ایٹمی دھماکہ کر کے اس کی پیروی کی۔ دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزاررہی ہے اور ان بنیادی سہولتوں سے محروم ہے جو ان کا بنیادی حق ہے۔ دونوں ملکوں کی افواج دنیا کی بہترین اور مہنگے ترین اسلحہ سے مسلح ہیں اور دونوں ملک مذہبی منافرت اور انتہا پسندی میں یکتا ہیں۔ دونوں ایٹمی ممالک کے عوام گھاس ہی کھارہے ہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments