آخر ہندو لڑکیاں ہی کیوں مسلمان ہوتی ہیں؟


سندھ کا دانشور طبقہ اس بات کو سچ سمجھتا ہے کہ سندھ میں میاں مٹھو اور پیر سرہندی اور ان جیسے اور ملاؤں کو ریاستی اداروں نے خود ہی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے کہ وہ ہندو عورتوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی فیکٹری چلاتے رہیں، ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دوسری طرف دارالامان کے اندر ان ہندو لڑکیوں کی نہ صرف برین واشنگ کی جاتی ہے مگر ان کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے کہ وہ نہ اپنی مان باپ کے گھر واپس جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کو وہ لڑکا قبول کرتا ہے جس کے لئے اس لڑکی نے گھر چھوڑا تھا۔

سرکاری اداروں میں کام کرنے والے اور ایسے واقعات پر کڑی نظر رکھنے والے ہندو افسر، وکیل، ڈاکٹر اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ جس طرح پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی شہری 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور بینک اکاؤنٹ حاصل نہیں کر سکتا، اب تو شادی کی عمر بھی سندھ میں 18 سال متعین کی گئی ہے۔ جبکہ مذہب تبدیل کرنا ڈرائیونگ لائسنس بنوانے سے کمتر یا غیر اہم عمل تو ہو نہیں سکتا۔

مذہب چونکہ انسان کا بنیادی حق ہے اس لئے اگر وہ چاہتا ہے تو اسے تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ مگر مذہب تبدیلی کے عمل کی شفافیت کے لئے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ روایتی درگاہی طریقے کے بجائے، سائنسی / جدید طریقہ مذہبی اقلیتوں کو مطمئن کر کے جلد از جلد رائج کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہے تو اس کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ قانونی راستہ اختیار کرتے عدالت/ مجسٹریٹ کو درخواست دے کہ وہ مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

اگر اس کے والدین کو اس معاملے پر اختلاف ہو تو بھی عدالت اس کا موقف سنے، بہرحال فرد کو اپنی مرضی اور پسند کا مذہب یا مسلک رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر سرکار اور قانون اس سلسلے میں کوئی خاص طریقہ کار وضع نہیں کریں گے تو ہر درگاہ اور پنڈت ملاں اپنی حکومتیں قائم کردیں گے۔ سندھ کے ہندو، مذہب تبدیلی سے متعلق بل سندھ اسمبلی میں دوبارہ پیش کیے جانے کے منتظر ہیں اور مذہب تبدیلی اور جبری مذہب تبدیلی سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی سے واپس اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنے کے لئے ایم این اے لال مالہی کوشاں ہیں۔ سندھ اور وفاق میں اس متوقع قانون سازی سے پاکستانی مذہبی اقلیتوں کو بھی اطمینان ہو گا۔ اس قانون کی جبری خلاف ورزی کو قابل سزا بنانے سے مذہبی اقلیتوں کو تحفظ اور برابری کا احساس بھی ہو گا۔

ہندو لڑکیوں کے اغوا پر ان کا خیال تھا کہ ”چونکہ اغوا کے تقریباً 100 فیصد واقعات میں ہندو لڑکیوں کو پہلے ہی پانچ دس دن غائب کیا جاتا ہے، ایسی مبہم / مشکوک حرکت کو اغوا سے کم جرم نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایک ہفتہ بعد لڑکی گم ہونے کی ایف آئی آر داخل ہوتے ہی کسی مدرسے یا درگاہ کی سند یا فتویٰ سامنے لاکر کہا جاتا ہے کہ لڑکی اپنی مرضی سے نکلی ہے۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ اکثر لڑکیوں کے نام بھی اسلام کی عظیم پاکباز عورت شخصیات حضرت خدیجہ، عائشہ، فاطمہ، زینب وغیرہ کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں، جس سے معاملہ قانونی سے بدل کر جذباتی بھی بن جاتا ہے۔

ہندو اہل دانش کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس معاملے پر کھل کر بحث کی جائے، اور قانون میں ’زبردستی مذہب تبدیلی‘ کی وصف بھی شامل کی جائے۔ اور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے اور خارج کرنے کا طریقہ کار اور اختیار ریاست اپنے پاس رکھے تا کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو ہر کسی کی دادرسی بھی آسان ہو سکے اور دنیا میں پاکستان کا قومی وقار بھی مجروح نہ ہو پائے۔

”آخر ہندو لڑکیاں ہی مسلمان کیوں ہو رہی ہیں؟“ اس سوال کا سب سے جذباتی جواب سندھ کے شہر غوث پور کے ڈاکٹر جگدیش کمار کا تھا جس کا کہنا ہے کہ ”ہندو لڑکیوں کا اغوا اور زبردستی مذہبی تبدیلی اصل میں سندھ کی تاریخی حیثیت اور وحدت پر حملہ ہے، پوری دنیا میں یہ ظلم صرف پاکستان میں ہی ہو رہا ہے، ورنہ ترکی، مصر، لبنان انڈونیشیا، ملائیشیا حتیٰ کہ فلسطین اور سعودی عرب میں بھی عیسائی اور باقی غیر مسلم لڑکیاں مسلم سماج میں رہتی ہیں آخر وہ کیوں مسلمان نہیں ہو رہیں۔ ان کو مسلمان لڑکوں کا حسن اور کردار کیوں نہیں گرماتا۔“

بچپن سے مذہبی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھنے والے ڈاکٹر جگدیش کمار کو اس بات پر غصہ ہے کہ کچھ نیم دانشور اس عمل کو ہندو سماج کے اندر کی توڑ پھوڑ اور ہندو روایات کے ساتھ نتھی کرنے کی سازش کر رہے ہیں، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہندو ازم پوری دنیا میں کا سب سے آسان اور سستا ترین مذہب ہے، جس میں روزانہ کی عبادت معاف بھی ہے، حتیٰ کہ عبادت کے لیے کوئی وقت بھی مقرر نہیں، جب بھی جہاں بھی بھگوان یاد آ جائے بس دل مین یاد کرو، آواز سے جے جے کار کرلو یا پھر ایک دیا جلا کر جہاں چاہے ماتھا ٹیک دو، سمجھ لو عبادت قبول ہو گئی اور مکتی مل گئی۔

ہندو ازم میں تو ویدوں کا حفظ کرنا، تیرتھ یاترا کا مہنگا خرچہ کرنا، مندر بنوانے سے سورگ کا مل جانا، لمبے روزے رکھنا حتیٰ کہ کاشی کا طواف اور کمبھ میلے میں جانا بھی کوئی لازم اور فرض نہیں، یہ سب فرد کی مرضی پر مبنی ہے، اتنے آسان، سستے اور انسانی مزاج اور ماحولیات سے قریب تر مذہب سے کوئی کیسے بغاوت کر سکتا ہے۔ اگر واقعی ہندو لڑکیاں ہندو مذہب سے باغی ہو کر یا اسلام سے متاثر ہو کر گھر سے بھاگتی ہیں اور مذہب تبدیل کرتی ہیں تو 1300 سال سندھ پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی ہے اس دوران کتنی ہندو لڑکیوں نے گھر سے بھاگ کر مذہب تبدیل کیا یا کتنے مسلمانوں سے شادیاں کی؟ ہندو بھی مانتے ہیں کہ اسلام امن، شانتی اور رواداری کا مذہب ہے بس آج کل کے مسلمانوں نے اس عظیم مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

ڈاکٹر جگدیش کمار ہندو سماج میں اک سماجی برائی کا اعتراف کرتے دکھی دل سے کہتے ہیں ”ہندو دھرم میں عورت کو نہ صرف لکشمی سمجھا جاتا ہے مگر درگا، اردھانگنی، ہنگلاج اور دیگر دیویوں کے روپ میں پوجا بھی جاتا ہے۔ مگر سندھ کے ہندو سماج کے اندر ایک بڑی سماجی برائی ہے کہ اگر ہندو لڑکی گھر سے نکلی تو پھر واپس نہیں آ سکتی۔ بھلے اس لڑکی نے کسی اور ہندو لڑکے سے بھاگ کر پسند کی شادی کی ہو یا پھر اس کو کوئی ہندو یا مسلمان لڑکا زبردستی اغوا کر کے لے گیا ہو، یا پھر وہ مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو گئی ہو۔ ہندو سماج میں لڑکی ایک بار ہی گھر سے باہر جا سکتی ہے، جو کسی بھی صورت گھر سے نکلی اس کی واپسی کے تمام راستے بند ہو گئے۔ ڈاکٹر کا خیال ہے کہ ہندو سماج کو اس معاملے پر سوچنا اور اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔

ننکانہ صاحب میں دنیا بھر سے آنے والے یاتریوں کی طبی خدمت کرنے والے تھرپارکر کے ڈاکٹر سنیل کمار کافی وقت سے ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے والے معاملے پر کام کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ”ہندو برادری کے لیے لڑکیوں کے مسلمان ہونے سے زیادہ ہندو لڑکیاں مستقل طور پر گم ہونے کا مسئلہ درپیش ہے، آخر ایسا کیوں ہے کہ درگاہوں پر ہندو لڑکیاں مسلمان ہونے کے بعد گم ہی ہوجاتی ہیں، ہمیں خدشہ ہے کہ شاید ان کو مار دیا جاتا ہے یا بعد میں کہیں بیچ دیا جاتا ہے، کیونکہ کہ ہم کئی سال گزرنے کے بعد بھی ان لڑکیوں کو سماج میں کہیں آزاد دیکھ نہیں پاتے نہ ان کے بچوں کو۔ یہ سراسر ظلم ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی قانون۔“

اس وقت لاڑکانہ کی ہندو لڑکی آرتی بائی بھی دارالامان میں موجود ہے، اس کے والدین روزانہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آتی۔ قانون کا خاموش رہنا انصاف نہ دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ سندھ کی سول سوسائٹی اس وقت ہندو بھائیوں کے ساتھ ہر ممکن طور پر ہم آواز بنی ہوئی ہے مگر سرکار کی جانب سے کوئی قانونی قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے معاملات اور پریشان کن ہوتے جا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کی سول سوسائٹی، سرکار اور ریاست ایک قوم ہونے کے ناتے ہندوؤں کو اقلیت سمجھنے کے بجائے پورا اور مکمل پاکستانی سمجھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق دے، ان کو اپنے عبادت گاہوں کو بنانے، آباد رکھنے اور ان میں جانے کی مکمل اجازت دی جائے۔ ہندو بچوں کو اسکولز میں اسلامی مذہبی کتابیں پڑھانے کے بجائے ان کے اپنے دھرمی یا اخلاقیات پر مبنی کتابیں پڑھائے، ایسا نہ ہو کہ نصابی کتابیں بنانے والے کاریگر پھر بھی اپنے مذہب کو ہی اخلاقیات کو مرکز اور منبع سمجھ کر ہندو بچوں کو پھر سے دینیات پڑھا دیں۔ شہروں میں دینی مدارس کے طرح ہندو ازم کی درسگاہیں بنانے کی اجازت دی جائے۔ زبردستی مذہبی تبدیلی کو طاقت کے زور پر روکا جائے، یہ اختیار درگاہوں سے چھین کر سرکاری عدالتوں کو دیا جائے۔
کیونکہ اسلام کی رو سے تو دنیا اور آخرت میں عزت کمانے کا سب سے اچھا اور پروقار طریقہ بھی یہ ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments