میں ایک عورت دشمن شاعر رہا ہوں


حالی نے انیسویں صدی کے آخر یا بیسویں صدی کی ابتدا میں اپنے دیوان میں غزلوں کو جدید اور قدیم جیسے دو حصوں میں بانٹا تھا۔ اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ شاعری میں ہونے والی تبدیلیوں کو وہ نمایاں کرسکیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ حالی نے ایسی شاعری کی مخالفت کی تھی، جس میں شاعری کے نام پر عورت یا محبوب کو لے کر ابتذال کی حد کردی گئی تھی۔ ان کی تنقید میں ایک قسم کی شدت سہی، مگر اردو شاعری کرنے، اسے پڑھنے یا پسند کرنے والوں کا معیار وہی پرانی قسم کی چھچھوری شاعری رہی۔ رشید حسن خاں نے ان پر مضمون لکھتے وقت ان کی جدید غزلوں میں بھی ان شعروں کی نشاندہی اور تعریف کی، جن پر قدیم رنگ چھایا ہوا تھا، جیسے کہ

گو جوانی میں تھی کجرائی بہت

پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت

حالی کی تمام احتیاط کے باوجود ان کی کچی کجرائیوں کی مخالفت میں اردو کے مشہور نقاد سلیم احمد نے لمبا چوڑا مضمون بھی لکھا تھا۔ جس میں حالی کی شاعری کو آدھے دھڑ کی شاعری بتایا گیا اور ایک جلال آور لہجے میں اردو شاعری پڑھنے والے پر یہ بات واضح کردی گئی کہ شاعری اور عورت پورا مرد مانگتے ہیں۔ گویا شاعری میں اگر سیکس کی بات نہ ہو، نیچے کے دھڑ کی بات نہ ہو تو وہ مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔ اس ذہنیت کو نوٹ کر کے رکھیے گا کہ سلیم احمد نے جو یہ بات کہی تھی، اس میں یہ تعصب پہلے سے موجود تھا کہ شاعری صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے، چونکہ جہاں پورا مرد مانگا جاتا ہو، وہاں عورتوں کے ہونے کی کوئی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے؟ (افسانوں کے حوالے سے بھی ایسی ہی بات غالباً محمد حسن عسکری نے محاورتا ہی سہی مگر اپنے افسانوی مجموعے جزیرے کے دیباچے میں لکھی ہے کہ کہانی لکھنا مردوں کا کام ہے۔ ) چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ جیسے پڑھنے والے جو سلیم احمد اور عسکری کے ناموں سے بہت مرعوب تھے، اسی ادب کو ادب اور اسی شاعری کو شاعری سمجھنے لگے، جو کسی پورے مرد نے کی ہو۔ پھر اس بات کی تصدیق اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار منٹو نے بھی میرا جی کی دامودر گپت کی  ’نٹنی متم‘  کے ترجمے پر رائے دیتے ہوئے کردی کہ  ’عورت خواہ بازاری ہو یا گھریلو، خود کو اتنا نہیں جانتی، جتنا کہ مرد اسے جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے بارے میں اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا۔‘  اس لیے ہمیں یہ سمجھ آیا کہ عورت پر لکھنے، اس کو بنانے سنوارنے، بگاڑنے یا اس کے بارے میں کچھ بھی بکنے کا حق ایک مرد فنکار کا پیدائشی حق ہے۔

پھر ہم مرزا غالب کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بھی ادب کے میدان میں خود کو بڑا شاعر بنانا چاہتے تھے کہ  ’مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہیں بنو‘  ۔ مگر ہم نے غور نہیں کیا کہ یہ جملہ کس طرح عورت دشمنی کی روایت کا بیج ہمارے ذہن میں بو رہا ہے۔ ہمیں لگا کہ ادب میں اعلیٰ قسم کا شاعر وہی ہوتا ہے، جو بدن کی شاعری کرتا ہو۔ مجھے یاد ہے قریب سات سال پہلے مجھے اردو کے ایک معاصر بزرگ شاعر نے بال لہراتے ہوئے تعریف کے یہ الفاظ تھمائے تھے کہ تم نے بدن کو بالکل نئی طرح سے اپنی شاعری میں دریافت کیا ہے۔ میں اس بات پر خوش ہوا تھا، یہ بھی مجھے یاد ہے۔ مگر میں نے اس بات پر غور کیا ہو، یہ مجھے یاد نہیں۔ عجیب بات ہے کہ ادب میں بگڑیل بننے کے لیے عورت کو فروخت کرنا ہم لوگوں کے لیے اتنا اہم کیوں ہو گیا، اس پر کبھی کسی ڈھنگ کے ادیب نے ہمیں ٹوکا نہیں۔ بلکہ ہماری تعریف ہوئی، کسی نے بھی نہیں کہا کہ تم ایک بے ڈھنگی راہ اختیار کر رہے ہو، یہ راہ تمہارے بعد آنے والی نسلوں کو بھی ایسا ہی عورت دشمن شاعر بنائے گی اور اس عورت دشمنی کو سبھی پڑھنے، سننے والے لوگ مل کر واہ واہ کے ذریعے گلوریفائی کریں گے اور سماج کے ہر طبقے میں کچلی جانے والی جنس عورت، ظلم کا شکار ہی نہیں ہوگی بلکہ اس اذیت اور تکلیف کے لیے اسے ہی ذمہ دار بھی ٹھہرایا جائے گا اور اس میں تمہارا بھی بہت اہم کردار ہوگا۔ غالب نے یہ بات انیسویں صدی میں کہی تھی، پھر اس نے ایک خط میں خود پر ایک ڈومنی کو مار رکھنے کی بات بھی اس طرح کہی تھی، جیسے کہ ایک ادیب کے لیے واقعی یہ اعزاز کی بات ہو کہ کوئی عورت اس کی محبت میں مر مٹے اور اسے اس کی پروا تک نہ ہو، تاکہ مرد شاعر بعد میں اپنی کارستانیوں میں کسی بے نام ڈومنی کے خود پر مر مٹنے کے ڈھول تاشے بجاتا گھومے اور اسے بھی اپنی فنکاری میں مزید چاند ٹانکنے کے لیے استعمال کرے۔ اب جب غور کرتا ہوں تو اس عورت دشمنی کو صرف غالب کے یہاں نہیں پاتا، چارلس بوکوسکی کے یہ مصرعے دیکھیے۔

You’ve got to fuck a great many women

Beautiful women

And write a few decent love poems.

(How to be a great writer)

عظیم مصنف بننے کا یہ نسخہ ہمیں ہماری کلاسیکی شاعری ہی سکھا چکی تھی۔ اس کے لیے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں تھی، مگر یہاں یہ دکھانا مقصود تھا کہ بہت سی عورتوں سے جنسی تعلق بنانے کی شرط یعنی وہی مصری کی مکھی بننے کی شرط چلتی چلی آ رہی ہے۔ غالب کے دماغ میں یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ مکھی، جو کہ ایک مونث جنس ہے، ان کی ہی بیوی بننے کی بات کر دیتی تو کیا وہ اسے یوں ہی اور اتنے ہی فخریہ انداز میں سب کے سامنے پیش کرتے اور اپنے دوست کو یہی مشورہ دیتے یا پھر ان کی بیوی نے جوانی میں ہی کسی کہار یا مراثی کو خود پر مار رکھا ہوتا تو کیا انہیں بھی اس بات کو کھل کر بیان کرنے کی اجازت ہمارا یہ عظیم شاعر دیتا۔ چلیے، غالب کے بارے میں تو ہم پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ زمانہ اور وہ روایت ہی عورت دشمنی کی نیو پر کھڑی کی گئی تھی، مگر بوکوسکی جب یہ نظم لکھ رہا تھا تو کیا وہ پہلے سے مان کر چل رہا تھا کہ مصنف بن پانا صرف مردوں کے ہی بس کی بات ہے؟ پہلے سے موجود اس تعصب کی اصل وجہ سوائے اس بات کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ مردوں کے لیے چاہے وہ کتنے ہی بڑے فنکار ہوں، زیادہ تر اپنی ذات سے باہر نکل کر عورت کے لیے سوچ پانا قریب قریب ناممکن ہے۔ میں نہیں کہتا کہ میں اس تعصب سے پاک ہوں، کہوں گا بھی تو دوست ہنسیں گے۔ وہ میری شاعری پڑھ چکے ہیں، مگر میں اب اپنی شاعری پڑھتے ہوئے کراہ اٹھتا ہوں، اس کو کسی سنجیدہ بحث کا موضوع بنانا میرے لیے ناممکن ہے، میری اور میرے ہم عصروں کی وہ شاعری جو عورت کا بدن بیچ بیچ کر کی گئی ہے، کوڑے کے ڈھیر میں اٹھا کر پھینک دینے لائق ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ جس کلاسیکی شاعری کی روایت نے ہمیں مذہب پر سوال قائم کرنا سکھایا، ہمیں دوسری روایتوں سے بغاوت کا حوصلہ بخشا، اسی نے ہمیں عورت دشمن بنایا اور ایسا ویسا نہیں بلکہ اس عورت دشمنی پر فخر کرنے والا شاعر اور فنکار بنا دیا۔ ورنہ ہم کب سوچ سکتے تھے کہ ایسے شعر پڑھ کر کسی سنجیدہ محفل میں داد حاصل کرسکیں گے، میں کسی اور کا ذکر نہ کر کے اپنی ہی تنقید کرنا بہتر سمجھوں گا۔

بدن کی ساری رگیں ہوکے رائگاں ٹوٹیں

مگر گلابی سیاہی کے درمیاں ٹوٹیں

وہ رات گندمی تاثیر لے کے پھرتی تھی

عجب نہیں جو کسی نے اچک کے کھا لی ہو

ذرا بھی فرق نہ آیا تمہارے جانے سے

ہم آج بھی ہیں وہی بے وفا پرانے سے

مری سرشت میں ہے بے وفائی برسوں سے

سو اپنا کام نکالا ہے اور نکل گیا ہوں

ترے بدن میں اتاریں نہ اپنی چیخیں تو

ہم اپنے جسم کی جھلاہٹیں کدھر لے جائیں

مجھ سے کہا گیا کہ میں نے اسلوب کے نئے راستے دریافت کرنے کی جانب قدم بڑھائے ہیں، مگر مجھ سے نہیں پوچھا گیا کہ اصل میں ان شعروں میں جو شخصیت ابھر کر سامنے آ رہی ہے، کیا کل کو تم آئینے میں خود کو اسی طرح دیکھ سکو گے؟ دوسرے شعر میں جس طرح کسی گندمی تاثیر لے کر پھرنے والی کو اچک کر کھا لینے کی بات کہی گئی ہے، وہ دراصل اسی روایت کا حصہ ہے جو بظاہر تصوف کی، عشق کی بات کرتی ہے، مگر بباطن ریپ جیسے عمل کو بھی جسٹفائی کرتی ہے۔ غالب کا شعر ہے

میں نامراد دل کی تسلی کو کیا کروں

مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے

یا پھر شاد عظیم آبادی کا یہ شعر

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

(جسے ہماری عام محفلوں میں بوڑھے حضرات کھی کھی کرتے ہوئے اکثر یوں بھی پڑھتے ہیں کہ جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کی ہے۔ )

امیر مینائی نے جوبن دکھانے کی جو بات کہی تھی، وہ کس سے چھپی ہے، ریاض خیر آبادی کو بجلی کی چمک مزا دیتی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے ان کی محبوبہ ڈر کر ان سے چپک جاتی تھی۔ نکالنے بیٹھیے تو میر، انشا، مصحفی، جرات سے لے کر ظفر اقبال اور بالکل تازہ نسل کے یہاں ایسے شعروں کے انبار مل جائیں گے۔ جون ایلیا تو محبوبہ کی فرقت بتانے کے لیے ٹکے کی ایک حسینہ کا استعمال کرتے ہیں اور اس کریہہ عمل کو شاعرانہ حسن کے پردے میں لاد کر فنکاری میں بدل دیتے ہیں۔ اردو شاعری کی پوری روایت اس عورت کی گنہگار ہے، جسے ہم نے ٹکے کی حسینہ سمجھ کر بغل میں لٹایا ہوا ہے، جس کی کوئی اوقات ہماری نظروں میں نہیں ہے۔ جس کو ہم نے بس کسی باندی کی طرح بازار فن میں بیچنے کے لیے تیار کیا ہے، جو ہماری نظروں میں بس کوئی دو ٹکے کی چیز ہے، جس کا نہ کوئی موقف ہے، نہ کوئی اقرار، نہ انکار۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں اردو شاعری میں کل کس طرح دیکھا پڑھا جاؤں گا، مگر میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ایک عدد ایسا مضمون لکھ دوں جس سے یہ بات ثابت ہو کہ میں ایسی تمام شاعری کو رد کرچکا ہوں، جس میں عورت کے بدن کی تعریف، اس کے انگوں کی، اس کی تراش کی، میں نے کی ہے اور اس سے میرا مقصد صرف اس خوبصورتی کو فروخت کر کے چند تعریفی کلمات لوٹنا تھا۔ میں ایسی تعریف پر اب لعنت بھیجتا ہوں۔ مجھے اب اس بات پر شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے کہ میں نے کبھی ایسے شعر کہے تھے، چنانچہ میں بدن پر لکھے ہوئے اپنے ہر شعر کو ایک طرح کی بے ہودہ اور پھوہڑ حرکت سے تعبیر کرتا ہوں۔ اسے مٹانا میرے ہاتھ میں اب شاید نہیں ہے، مگر اس کے بارے میں اپنے دوستوں اور اپنے لوگوں کے درمیان یہ سند چھوڑ جانا میرے لیے ضروری ہے۔ میں وہ اسرار الحق مجاز نہیں بننا چاہتا جو نرس کی مرضی جانے بغیر بستر علالت پر پڑے پڑے اس کا منہ چوم لے اور اصل میں چاہے نرس سے تھپڑ کھائے مگر شاعری میں یہ ڈینگ مارے کہ وہ میری اس جرات پر پھول کی طرح شرما گئی۔ میں ایسی شاعری کو معمولی اور بے حد غیر ضروری خیال کرتا ہوں۔ اسی شاعری نے میری وہ تربیت کی، جس نے مجھے عورت کے بارے میں بالکل جھوٹی باتیں بتائیں۔ مجھے کبھی اس کے بدن سے آگے، اس کے محسوسات، اس کے جذبات، اس کی ذہنیت اور اس کی وجودیت کو انسانی شکل میں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ عورت ہماری محفلوں میں لطف، لطائف اور بھدے مذاق کا موضوع تو بنی، مگر اسی سماج میں اس کو درپیش مسائل، اس کی صلاحیتوں کے بروئے کار آنے میں موجود رکاوٹوں اور اس کے ساتھ ہونے والی مہذب چھیڑ خانیوں سے ہمیں دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ کیا کوئی شاعر دل پر ہاتھ رکھ کر بتا سکتا ہے کہ ادبی محفلوں میں چوری چپکے کی جانے والی زٹل گوئی (جس میں مرد اپنے جنسی کارناموں اور عورت کے جسم کے حصوں پر بغیر جھجکے تبصرے کرتے ہیں ) کے مقابلے میں کبھی دو فیصدی بھی سنجیدگی سے عورت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے؟ بلکہ ہم نے تو نشستوں اور مشاعروں تک کا ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ کوئی سوچنے سمجھنے والی عورت وہاں دو منٹ نہیں ٹھہر سکتی۔ البتہ وہ عورتیں وہاں ضرور داد حاصل کر سکتی ہیں، جو لگاتار اپنی تذلیل کے باوجود اس طرح کے شعر لکھتی پڑھتی ہوں ؛

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

اور اسی عورت کو اردو شاعری میں شہرت کے تمغے بھی مل سکتے ہیں۔ اور جو عورت ہماری اس بے ہودگی کی مخالفت کرے، اسے منہ پھٹ، کور ذوق اور بے دماغ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے، کبھی گریبان نہ جھانکا جائے اور ہر طرح سے یہ کوشش کی جائے کہ عورت اول تو شاعری کرے نہیں اور اگر کرے تو بس اس کا ہماری طرح ایک ہی مسئلہ ہو، اسے بھی وصل کی تمنا ہو، ہجر کا غم ہو، جہاں نہ اس کے ذہن کی کوئی بات ہو اور نہ دل کی۔ اور اگر غلطی سے کوئی نئی لڑکی شاعری کی ابتدا کرتے ہوئے اپنی بات رکھنے میں عام الفاظ کا استعمال کرے، اس کا اسلوب انوکھا نہ ہو، اس کا لہجہ بھاری یا دبنگ نہ ہو اور اس کے یہاں بڑے علمی حوالے نہ ہوں، بحر و قافیہ نہ ہو تو اس کی کھل کر کھلی اڑائی جائے، اس پر میم بنائے جائیں اور اسے سرراہ ذلیل کیا جائے، اس کی ہمت کے منہ پر اتنے گھونسے برسائے جائیں کہ آگے جاکر کچھ کہنے کے لیے اس کے منہ میں ایک دانت بھی نہ بچے۔ اسے عدم اعتماد کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا جائے۔ بعض اوقات تو محض اس لیے کیونکہ وہ  ’سنو نا! جیسے عامیانہ فقرے سے اپنی نظم شروع کرنے کی جرات کیسے کر پائی۔‘  کیا وہ خود کو مرد سمجھ بیٹھی ہے، مرد، پورا مرد، جو بحریں بدل بدل کر، نت نئے قافیوں اور ردیفوں کی تھال میں اپنی جنسی بھوک کی جس قدر چاہے ویسی ہی باسی، بساند بھری مٹھائیاں بھر بھر کر کیوں نہ پیش کرتا رہے، اسے تو داد ملنی ہی ہے۔ منہ مت چھپائیے، یہی آپ کی، میری اور اردو شاعری کی حقیقت بھی ہے، اوقات بھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments