منٹو وارث علوی کی نظر میں


سعادت حسن منٹو کی شخصیت میں دلچسپی کا آغاز ان کے نام ہی سے ہو جاتا ہے۔ شروع میں سب ہی کو حیرت ہوتی ہے کہ یہ منٹو کیا ہے۔ بلونت گارگی لکھتے ہیں۔ ”بہت عجیب نام تھا۔ منٹو جیسے لارڈ منٹو، پنٹو۔ یا ومٹو، بہت نقلی یا مضحکہ خیز! منٹو کے نام میں سعادت حسن کی پوری ادبی اور غیر ادبی شخصیت سمٹ آئی تھی۔ منٹو کو بھی اس کا احساس تھا چنانچہ لکھتے ہیں :

 ”اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے“ ۔

اردو میں منٹو مختلف تلفظ سے بولا جاتا ہے۔ کبھی اسے منٹو، کبھی منٹو اور کبھی منٹو بولا جاتا ہے۔ منٹو کی اصلیت کے بارے میں خود منٹو کا کہنا ہے۔

”کشمیر کی وادیوں میں بہت سی ذاتیں ہوتی ہیں جن کو آل کہتے ہیں جیسے نہرو، سپرو، کچلو وغیرہ۔ منٹ کشمیری زبان میں تولنے والے بٹے کو کہتے ہیں۔ ہمارے آبا و اجداد اتنے امیر تھے کے سونا اور چاندی بٹوں میں تول تول کر رکھتے تھے۔“

منٹو کی زندگی اور کارناموں پر پہلی تحقیقی اور جامع کتاب ڈاکٹر برج پریمی نے لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے منٹو کی وجہ تسمیہ کا سراغ ان کی اصل میں لگایا ہے۔ ان کے نزدیک منٹ کے معنی ڈیڑھ سیر ہوتے ہیں۔ منٹو کی رفیقہ حیات صفیہ بیگم نے برج پریمی کو بتایا کہ ”منٹو قبیلے کے مورث اعلیٰ چونکہ مالیہ کے طور پر ڈھائی سیر کا تقاضا کرتے تھے اس لیے منٹو کہلائے۔ لیکن صفیہ بیگم کے اس خیال کی تصدیق برج پریمی کسی دوسرے ماخذ سے نہ کر سکے۔ اس کے برعکس ایک اور سبب کا ذکر ڈاکٹر صاحب مشہور کشمیری مورخ محمد دین فوق کی تاریخ اقوام کشمیر کے حوالے سے اس طرح کرتے ہیں“ کہتے ہیں ان کا بزرگ ایک ہی وقت میں شرط باندھ کر ڈیڑھ سیر یا من وٹی چاول کھا گیا تھا۔ اس وقت سے اس کا نام منٹو پڑ گیا تھا۔

ڈاکٹر برج پریمی اپنی تحقیقی کاوشوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ منٹو اور من وٹی دونوں قسط باشی پنڈتوں کی ذاتیں ہیں۔ قسط باشی پنڈت کشمیر میں زمانہ قدیم کے اہل حرفہ لوگوں سے سرکاری ٹیکسوں کی وصول یابی کرنے والے سرکاری کارندے تھے۔ قسط باشیوں میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ منٹو کہلائے اور جو لوگ ہندو دھرم پر قائم رہے وہ من وٹی کہلانے لگے۔ عصر حاضر میں دونوں ضمنی قومیں کشمیر میں ملتی ہیں۔

منٹو کا آبائی خاندان اٹھارہویں صدی کے اواخر میں کشمیر سے ہجرت کر کے پنجاب آیا اور لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ اس سلسلے میں بیگم صفیہ منٹو نے ڈاکٹر برج پریمی کو جو تفصیلات بتائیں وہ یہ ہیں۔ ”اس خاندان کے پہلے بزرگ جو پنجاب کے دارالسلطنت لاہور میں آ کر مقیم ہوئے خواجہ رحمت اللہ تھے۔ پیشہ سوداگری تھا اہل اللہ سے گہری محبت رکھتے تھے۔ ان کے پوتے خواجہ جمال الدین نے کاروبار کو بہت فروغ دیا اور اسے لاہور، امرت سر اور بمبئی میں پھیلا دیا۔

امرت سر بوجہ دربار صاحب سکھوں کا مقدس مقام تھا۔ اس لیے خواجہ صاحب لاہور چھوڑ کر امرت سر میں مستقل طور پر مقیم ہو گئے۔ خواجہ جمال الدین منٹو کے دادا تھے۔ ان کے پانچ بیٹے تھے۔ سب سے چھوٹے بیٹے کا نام مولوی غلام حسن جو منٹو کے والد بزرگوار تھے۔ مولوی غلام حسن نے دو شادیاں کیں۔ ان کے بارہ بچے ہوئے جن میں سے چار لڑکے تھے اور آٹھ لڑکیاں۔ منٹو ان کی دوسری بیوی سے تھے۔ منٹو کے تین سوتیلے بھائی تھے جو عمر میں ان سے کافی بڑے تھے اور تعلیم یافتہ تھے۔

منٹو کی ایک ہی حقیقی بہن تھی جن کا نام اقبال بیگم تھا۔ وہ بھی عمر میں منٹو سے کافی بڑی تھیں اور منٹو اقبال بیگم سے ڈرتے بھی تھے۔ وہ بمبئی ( ماہم ) میں رہتی تھیں۔ صفیہ بیگم سے منٹو کی شادی انہی کی سعی کا نتیجہ تھی اور شادی کے سلسلے میں منٹو کی والدہ جب بمبئی آئیں تو ماہم میں اقبال بیگم کے گھر میں ہی قیام کیا تھا۔

منٹو کے والد مولوی غلام حسن تعلیم یافتہ تھے اور سمرالہ میں جو لدھیانہ سے بائیس میل دور چندی گڑھ جانے والی سڑک پر ایک گاؤں ہے کسی سرکاری عہدے پر متعین تھے۔ سمرالہ میں 11 مئی 1914 ء میں سعادت حسن منٹو کا جنم ہوا۔

منٹو کے والد بھی کشمیریوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ منٹو کو بھی اپنے کشمیری ہونے پر فخر تھا اور اگر انہیں کوئی کشمیری مل جاتا تو اپنے والد ہی کی مانند اس سے گرم جوشی سے ملتے اور اسے بتلاتے کہ میں بھی کشمیری ہوں ویسے امرت سری ہوں۔ کشمیر سے والہانہ محبت کے باوجود منٹو زندگی بھر کشمیر نہ جا سکے۔

ان کا سفر صرف بٹوت تک رہا جہاں تپ دق کے علاج کے لئے انہیں چند مہینے قیام کرنا پڑا تھا۔ یہیں انہیں ایک آوارہ کشمیری چرواہی لڑکی سے رومانی قسم کا انس ہو گیا تھا جو ان کا پہلا اور آخری اور انہی کے الفاظ میں نا پختہ معاشقہ تھا۔ اس کی یاد ان کے چند ابتدائی اور اتنے ہی نا پخت افسانوں میں محفوظ ہے۔ رومانی محبت پر منٹو کے یہاں ان افسانوں کے علاوہ کوئی دوسری اہم تحریر نظر نہیں آتی۔ زندگی میں کوچہ عشق اور وادی رومان سے وہ بہت جلد باہر نکل آئے۔

وارث علوی منٹو کی مکالمہ شناسی پر کچھ اس انداز سے رقمطراز ہیں :

 ”منٹو مکالمہ نویسی میں مشاق تھا۔ بات سے بات پیدا کرنا، بات کا بتنگڑ بنانا، بات چیت کو بحث میں، کاروباری گفتگو کو جھڑپ میں، میاں بیوی کی نوک جھوک کو جھگڑے میں اور جھگڑے کو دلچسپ ڈرامے میں بدلنے کے سبب گو اسے یاد تھے۔“ (منٹو ایک مطالعہ)

ڈرامے :

منٹو کے ابتدائی ڈرامے سے جو ”تین عورتیں“ اور ”آؤ“ نام کے مجموعوں میں شامل ہیں، مکالموں کے زور پر تحریر کیے گئے ہیں۔ ان کی ظرافت اور مزاحیہ صورت حال اور ظریف کرداروں کے باہمی عمل کا نتیجہ کم اور چمکدار اور بے تکلف مکالموں کی رہن منت زیادہ ہے۔ ”تین عورتیں“ کے ڈراموں میں تو ڈرامائی صورت حال کا فقدان ہے۔ سچوئیشن کامیڈی کا لطف اس بات میں ہے کہ ہمیں پتا نہ چلے کہ جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے اس میں کردار کیا کریں گے۔

لیکن ”تین عورتیں“ کے ڈراموں میں ہم جان لیتے ہیں کہ تین صلح پسند عورتیں جھگڑالو ثابت ہوں گی۔ اور تین خاموش عورتیں بہت باتونی۔ اور تین بیمار پرس عورتیں اپنے اوٹ پٹانگ مشوروں اور نسخوں سے مریضہ کی جان ضیق کر دیں گی۔ لہذا ان ڈراموں کے چند ہی مکالموں کے بعد ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ خاموش عورتوں کو باتونی بنانے کے لیے ڈرامہ نگار باتونی عورت کی بات کو دلچسپ بنائے بغیر اسے پھیلا رہا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں ہنسانے کے لیے وہ بیمار پرس عورتوں کے منہ سے ایسے الٹے سیدھے علاج اور ٹوٹکے بیان کر رہا ہے جو مزاحیہ صورت حال کے نفسیاتی تقاضوں کا احترام نہیں کرتے۔

اچھی کامیڈی میں دو باتیں ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ صورت حال اور مکالموں میں کوئی غیر متوقع بات کے ذریعے مزاح پیدا کیا جائے اور دوسری یہ کہ ایسی سچوئیشن پیدا کی جائے جس میں تماشائی تو یہ جانیں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن ڈرامے کے کرداروں کو پتا نہ ہو کہ وہ کون سی مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔ چونکہ ان ڈراموں کی اساس صورت حال سے زیادہ مکالموں پر قائم ہے تو سچوئیشن کامیڈی کے ان تقاضوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ وہی ڈرامے کچھ لطف دے جاتے ہیں جن میں مکالموں سے صورت حال کو تعمیر کرنے کا کام نہیں لیا گیا۔ بلکہ مکالمے فی نفسہ دلچسپ بن گئے ہیں۔

”تین خوبصورت عورتیں“ میں عورتوں کے بناؤ سنگھار سے متعلق بات چیت میں اس بے وقوفی کا عنصر کچھ لطف دے جاتا ہے جس سے سنگھار میں مشغول عورتیں احمق چوہیاں نظر آتی ہیں۔ ”تین صلح پسند عورتیں“ ڈرامہ پھر اس لیے دلچسپ بن جاتا ہے کہ عورتوں کی طعنہ زنی کے حوالے سے منٹو کا قلم خوب گل کھلاتا ہے۔

”آؤ“ میں گیارہ ڈرامے ہیں۔ کشور، اس کی بیوی لاجونتی اور ان کا دوست نرائن تمام ڈراموں کے مستقل کردار ہیں۔ بعض ڈراموں میں ایک دو دوسرے کردار بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ان ڈراموں کے موضوعات ایسے ہیں کہ اگر نرائن یا دوسرے کردار شامل نہ ہوتے تو ڈراما میاں بیوی کی نوک جھوک سے آگے نہ بڑھتا۔ لیکن نوک جھوک صورت حال میں اور صورت حال دلچسپ پلاٹ میں بدلتی ہے۔

”آؤ کہانی لکھیں“ نہایت دلچسپ ڈراما ہے۔ اس میں کشور لاجونتی اور نرائن مل کر کہانی لکھنے کا جو ڈاواں ڈالتے ہیں وہ ان کے خود کی سچوئیشن، عورت مرد کے تعلقات کے متعلق ان کے خیالات اور ایک دوسرے کی طرف ان کے جذباتی رویوں کا آئینہ بن جاتا ہے۔ میاں بیوی جس طرح کہانی لکھواتے ہیں اور ہر واقعہ پر ان کے درمیان جو جھگڑا ہوتا ہے وہ کہانی میں دلچسپی کے عنصر کو بڑھاتا رہتا ہے۔

”آؤ“ کے ڈراموں میں سب سے اچھا ڈراما ہے ”آؤ چوری کریں“ وجہ یہ ہے کہ اس میں کامک ڈرامے کی وہ الجھنیں پیدا ہو گئی ہیں جن میں پھنسے ہوئے کرداروں کی بوکھلاہٹ پر بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے۔ بیویوں نے شوہروں کو اور شوہروں نے بیویوں کو قابو کرنے کے منتر دلی کے کسی رام پوشاسن جی سے منگائے ہیں، اور لاجونتی، مسز نرائن کا پارسل کھول لیتی ہے اور خوب گڑ بڑ گھوٹالے پیدا ہو جاتے ہیں۔

”کروٹ“ اور ”منٹو کے ڈرامے“ کے کل 46 ڈراموں میں زیادہ تر سسپنس، تھرلر اور فنی کہانیوں کے اندر ڈرامے ہیں۔ ان میں انوکھے واقعات، تعجب خیز حادثات، غیر متوقع انجام، تھٹریکل مکالمات اور سنسنی خیزی سے کام لیا گیا ہے۔ یہ ڈرامے عام تفریح کی سطح سے بلند نہیں ہو پاتے۔ ان کے کرداروں میں کوئی نفسیاتی گہرائی یا فکر انگیز اخلاقی کشمکش نہیں ہے۔ یہ کردار اگر نقوش سے ابھر کر خدو خال پیدا کرتے ہیں تب بھی قلمی دنیا کے مانوس اور نمائندہ کرداروں کی سطح سے بلند نہیں ہو پاتے۔

ان ڈراموں کی تھیم میں بھی کوئی بصیرت کی بات نہیں۔ بے شک منٹو کی فنکارانہ چابک دستی سے ان میں ایک طرح کی سلاست پیدا ہوئی ہے۔ لیکن تفریحی ڈراموں کا کرافٹ اور فارمولا بہت تیزی سے بدلتا ہے۔ کہانی فرسودہ اور کردار ٹائپ بن جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے فارمولے اور نئے ٹائپ لے لیتے ہیں۔

”کروٹ“ کا پہلا ڈراما کروٹ ہے۔ شریفوں کے محلہ میں ایک طوائف رہتی ہے جس کے یہاں شرابی لوگ شراب پی کر ہلا گلا کرتے ہیں۔ محلہ کے صرف ایک آدمی کو اس عورت سے ہمدردی ہے۔ وہ اسے اپنے گھر اپنی بیوی اور لڑکی کے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت تک دیتا ہے۔ طوائف اس سے بہت اہانت آمیز طریقہ سے پیش آتی ہے لیکن یہ شریف آدمی اپنی توہین بھی برداشت کر لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کی ہر وقت اصلاح ہو سکتی ہے اس لیے کہ اس میں نیکی کا جوہر کبھی فنا نہیں ہوتا۔ خطر ناک سے خطر ناک مجرم کے سینے میں بھی کسی کونے کے اندر نور کا ایک ذرہ ہوتا ہے جسے اگر چھیڑا جائے تو اس کے سیاہ دل کو منور کرنے کا موجب ہو سکتا ہے۔

آخر طوائف پر اس کی خوش اخلاقی کا اثر پڑتا ہے اور وہ اپنے پیشے سے تائب ہو جاتی ہے۔ اب یہ نیک دل آدمی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور خود کو اس کے عاشق کے طور پر پیش کرتا ہے گویا اس کی شرافت محض ڈھونگ تھی اور آئیڈیلزم عیاری، ۔ آدمی جو کچھ نظر آتا تھا حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ طوائف غم و غصہ اور مایوسی کے عالم میں پھر سے اپنا پیشہ شروع کر دیتی ہے۔

یہ ڈراما اخلاقی تضاد کو پیش کرتا ہے لیکن ڈرامے میں منٹو نے طنز کو اپنا کھیل نہ تو طربیہ کی سطح پر نہ المیہ کی سطح پر کھیلنے دیا ہے اسی لیے نہ تو وہ کامیڈی تخلیق ہوتی ہے جو ترغیبات کے شکار تیز بیوی اور دیشیا کے بیچ شٹل کاک کی طرح پٹنے والے شوہر کے تماشے سے پیدا ہو سکتی تھی، نہ وہ ٹریجڈی جو ایک آدرش پسند آدمی کے طوائف کی اصلاح کرتے کرتے خود اس کا شکار بن جانے کا نتیجہ ہوتی ہے۔

تکنیکی کمزوری کی وجہ سے ڈرامہ سطحیت کا شکار ہو گیا ہے۔ ورنہ ڈرامے کے لیے یہ خیال برا نہیں تھا کہ آئیڈیل ازم کو گنہگار میں نور کا ذرہ نظر آتا ہے لیکن خود نیک آدمی میں رہے ہوئے شر کے عنصر کو دیکھ نہیں پاتا۔

Manto with Hamid jalal

”انتظار اور انتظار کا دوسرا رخ“ وہ ڈرامے ہیں کہ پہلے ڈرامے میں انتظار کرب، جذبات کا ہیجان، محبوبہ آئے گی یا نہیں آئے گی کا شش و پنج بہت ہی اثر آفریں طریقے پر پیش کیا گیا ہے۔ انتظار کی ذہنی کیفیات کی پیش کش کے لئے منٹو منتظر کے منطقی وجود سے کام نکالتا ہے۔ منطقی وجود محبوبہ کے آنے پر کامل یقین رکھتا ہے۔ اخبار والا اور منتظر کے دوست کی بے وقت آمد سے منتظر کی پریشانی اور بے صبری کو زیادہ شدید بنایا گیا ہے۔ آخر میں منتظر بے ہوش پڑا ہے۔ دوست جو ملنے آتا ہے ڈاکٹر کو بلانے جاتا ہے۔ محبوبہ آتی ہے۔ دیکھتی ہے کہ حضرت مزے سے سو رہے ہیں اور لوٹ جاتی ہے۔

”انتظار کا دوسرا رخ“ میں بلقیس کو آنے میں کیوں دیر ہوتی ہے اس کا دوسرا رخ دکھایا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس ڈرامے میں کردار زیادہ ہیں۔ بلقیس کی ماں، بلقیس کا باپ، بلقیس کا بھائی، اس کی چھوٹی بہن، سب کے سب کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی کام بتا کر اس کے جانے میں مانع ہوتے ہیں۔ اگر انتظار میں پورا عمل داخلی تھا تو اس ڈرامے میں پورا خیال خارجی ہے۔ بلقیس کے آنے میں پورا کا پورا گھر گویا حناں گیر تھا۔

اس حوالے سے وارث علوی لکھتے ہیں :

”اس نوع کے ڈراموں میں حناں گیری کا نقشہ اس قدر سوچا سمجھا ہوتا ہے کہ گفتگو برجستگی مجروح ہو جاتی ہے۔ یہ ڈرامہ اس سقم سے بچ گیا ہے جو منٹو کی فنکارانہ چابک دستی کا ثبوت ہے۔“ (منٹو ایک مطالعہ)

”ٹیڑھی لکیر“ منٹو کے اسی نام کے افسانے پر مبنی ہے۔ ڈراما افسانے سے زیادہ کامیاب ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ہر بات میں دوسروں سے الگ راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس کے دوستوں کو بہت تعجب ہوتا ہے جب وہ شادی کے لیے رضا مند ہوجاتا ہے کیونکہ شادی اور اس کی رسومات کا وہ ہمیشہ مذاق اڑایا کرتا تھا۔ بہر حال اس کی شادی تمام رسومات کے ساتھ ہی ہوتی ہے جس پر اس کے دوست خوب ہنستے ہیں۔

جاوید ان کے پاس آ کر اپنے ایک دوست سے سو روپے مانگتا ہے جو اس نے ادھار دیے تھے۔ وجہ یہ بتاتا ہے کہ لڑکی کو اغوا کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ اپنی بیوی کو اغوا کر جاتا ہے۔ لڑکی والے دس روز سے پریشان تھے کہ لڑکی کس کے ساتھ بھاگ گئی اور جاوید کو جواب کیا دیں گے۔ اب اس کا خط پڑھ کر مزید حیران ہوتے ہیں کہ نکاح ہو گیا تھا۔ بیوی اس کی۔ جب چاہتا لے جا سکتا تھا۔ لیکن جاوید اب اسے کیا کہا جائے۔ ٹیڑھی لکیر ہی تھا۔

میری نظر میں منٹو کے صرف دو ڈرامے ہی ایسے ہیں جو ادب میں ایک پائیدار مقام کے مستحق قرار پائیں گے۔ ان میں سے ایک تو خود ان کے افسانے ”ہتک“ کا ڈرامائی روپ ہے اور دوسرا ”جرنلسٹ“ ۔

”ہتک“ اور ”جرنلسٹ“ دونوں کی کامیابی کا سبب فارم کا وہ ڈراپ سین ہے جس کے مواقع یا تو دوسرے تفریحی ڈراموں میں منٹو کو ملے نہیں یا یہ ڈسپلن پیدا کرنے سے وہ خود قاصر رہا۔

خاکے :

منٹو اردو کا باکمال خاکہ نویس تھا۔ ”گنجے فرشتے“ اور ”لاؤڈ سپیکر“ اس کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔ ان میں کل ملا کر بائیس ایسی شخصیتوں پر خاکے ہیں جن کا تعلق فلم، ریڈیو صحافت اور ادب کی دنیاؤں سے تھا۔ ہماری تہذیبی زندگی کے ان شعبوں میں چوتھی اور پانچویں دہائیوں میں بڑی سرگرمیاں تھیں اور انہوں نے ان زمانوں میں بڑی دلچسپ اور ہنر مند شخصیات پیدا کیں۔

یہ خاکے سب کے سب دلچسپ ہیں۔ واقعات اور کرداروں کے بیان میں کہیں تکرار کا عیب پیدا نہیں ہوا حالانکہ ایک ہی شعبہ میں کام کرنے والوں کو یکساں واقعات کا سامنا ہوتا ہے اور بہت سے تجربات آپس میں مشترک ہوتے ہیں۔ سوائے دو تین خاکوں کے جن میں واقعات کی ترتیب میں تھوڑی بہت گنجلک پیدا ہو گئی ہے اور بیان میں جھول آ گیا ہے۔ تمام خاکے حسن ترتیب بیان اور سلیقہ مندانہ درویست کے لئے بے مثال نمونے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خاکے خاکے ہی رہتے ہیں افسانے نہیں بنتے لیکن فارم کی تکمیل میں وہ افسانہ کا فنکارانہ حسن پیدا کر لیتے ہیں۔

شاعروں میں آپ میر اجی۔ کا خاکہ نفسیاتی ژوف بینی کا نہایت عمدہ نمونہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خاکہ میں منٹو نے نفسیاتی مطالعہ کا حق ادا کر دیا ہے۔ پورا خاکہ ایک ماہر نفسیات کے قلم کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

اختر شیرانی کے خاکہ میں منٹو نے اختر کی رومانی نظموں کی کیفیت آفرینی کا نہایت ہی دل نشین بیان کیا ہے۔ وہ زمانہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ جب اختر شیرانی کی نظموں سے فضاؤں پر مدہوشی کا عالم طاری ہوتا تھا۔ اختر شیرانی کی شراب نوشی کا بیان ایک جونیئر شراب نوش کی زبانی عجب گل کھلاتا ہے۔

صحافیوں میں یاری علیگ، چراغ حسن حسرت اور دیوان سنگھ مفتوں کے خاکے کے لئے مثال ہیں۔ اس شخصیتوں کو ان کی بشری کمزوریوں کے ساتھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ نہ تو ان سے محبت کے جذبات میں کمی آتی ہے نہ ان کا قد کم ہو جاتا ہے۔ یاری انقلاب پسند بھی تھے اور پرلے درجہ کے بزدل بھی تھے۔ منٹو نے اس تضاد کو طنز و تمسخر کے ساتھ نہیں بلکہ ایک گہری محبت اور قلبی لگاؤ کے ساتھ پیش کیا۔

سب سے اچھے خاکے پری چہرہ نسیم، اشوک کمار اور پارو دیوی کے ہیں۔ نور جہاں کا خاکہ بھی دلچسپ ہے اور اس میں خود منٹو کی زندگی کے متعلق بعض دلچسپ معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ شیام کے خاکے کی ممتاز شیریں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تعریف کر بیٹھی ہیں۔ میری نظر میں تو یہ خاکہ بہت جذباتی ہے۔ عصمت چغتائی کا خاکہ بھی بہت ہی غیر اطمینان بخش ہے۔ البتہ آغا حشر پر منٹو کا خاکہ حشر کی شخصیت کا جیتا جاگتا مرقع پیش کرتا ہے۔ خاکہ نویسی میں منٹو کا طریقہ کار کیا رہا ہے اسے جاننے کے لئے میں اسی خاکے کا ذرا تفصیلی تعارف پیش کرنا چاہتا ہوں۔

آغا حشر سے دو ملاقاتیں۔ حسن ترتیب، حسن بیان، بذلہ سنجی، ظرافت اور مشاہدے کی ژوف نگاہی کے سبب مرقع نگاری کے اعلیٰ ترین نمونوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

یہاں بھی رفیق غزنوی کی طرح آغا حشر سے ملاقات کی تمنا کیسے بڑھتی رہی اور ملاقات کے مواقع کیسے ہاتھوں سے نکلتے رہے، یعنی نفسیاتی سطح پر خواہش تجسس محرومی اور پھر تکمیل آرزو کی کیفیتوں کے بیان میں صحیح فنکاری ظاہر ہو رہی ہے۔ حالانکہ ان تفاصیل کو غیر ضروری کہہ کر نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے۔

لیکن منٹو ایسا نہیں کرتا۔ منٹو کے مرقعوں کی ایک امتیازی صفت یہ بھی ہے کہ ان مرقعوں میں جس پر خاکہ لکھا جا رہا ہے وہی اہم نہیں ہوتا بلکہ خود خاکہ لکھنے والا بھی اہم ہوتا ہے۔ ہم مصنف کے نقطہ نظر سے دوسری شخصیت کو دیکھتے ہیں۔ لہذا مصنف کے ذہنی اور جذباتی رویے بھی ان مرقعوں میں خاصا اہم رول ادا کرتے ہیں۔ آغا حشر کے خاکے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں صرف دو ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ لیکن آغا حشر کی شخصیت کے تمام پہلو اس میں سما گئے ہیں۔

لیکن منٹو، منٹو ہے۔ اس کی حقیقت شناس نظریں ہر حقیقت کو اس کی اصلیت میں دیکھ لیتی ہیں۔ سب سے پہلے تو ملاقات کا حال دیکھیے :

”باہر صحن میں کرسیوں پر کچھ آدمی بیٹھے تھے۔ ایک کونے میں تخت پر پنڈت محسن بیٹھے گڑگڑی پی رہے تھے۔ سب سے پہلے ایک عجیب و غریب آدمی میری نگاہوں سے ٹکرایا۔ چیختے ہوئے لال رنگ کی چمکدار ساٹن کا لاچا، دو گھوڑے کی بوسکی کی کالر والی سفید قمیض کمر پر گہرے نیلے رنگ کا پھندقوں والا ازار بند، بڑی بڑی بے ہنگم آنکھیں، میں نے سوچا کڑہ گھنیاں کا کوئی پیر ہو گا۔ لیکن فوراً ہی اس کو کسی نے آغا صاحب کہہ کر مخاطب کیا، مجھے دھکا سا لگا۔

آگے چل کر منٹو لکھتا ہے :

میں کئی دنوں تک اس ملاقات پر غور کرتا رہا۔ آغا صاحب عجیب و غریب ہزار پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ میں نے ان کے چند ڈرامے پڑھے ہیں۔ جو اغلاط سے پر تھے اور نہایت ہی ادنیٰ کاغذ پر چھپے ہوئے تھے۔ جہاں جہاں کامیڈی آئی تھی وہاں پھکڑ پن ملتا تھا۔ ڈرامائی مقاموں پر مکالمہ بہت ہی زور دار تھا۔ بعض اشعار سوقیانہ تھے بعض نہایت لطیف۔ بات یہ ہے کہ ان ڈراموں کا موضوع طوائف تھا جن میں آغا صاحب نے اس کے وجود کو سوسائٹی کے حق میں زہر ثابت کیا تھا۔ اور آغا صاحب عمر کے اس آخری حصے میں شراب چھوڑ کر ایک طوائف سے بہت ہی پر جوش قسم کا عشق فرما رہے تھے۔

آغا صاحب پر دوسرے لوگوں نے بھی اسکیچ لکھے ہیں۔ لگتا ہے وہ ایک فوق الانسان کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ بلا توش بھی تھے اور صاف باطن بھی تھے۔ شاہد باز بھی تھے اور مذہب اسلام کے عاشق بھی تھے۔ مغلشات کے بادشاہ بھی تھے اور لسان العسر بھی تھے۔ منٹو کے خاکے کی خوبی یہ ہے کہ یہ متضاد صفات فوق الانسان کے خاکے میں رنگ نہیں بھرتیں بلکہ ان کی شخصیت ان کے جتنا قد ہے اس کے مطابق تواشتی ہیں۔ منٹو کے اسکیچ میں عقیدت مند کی پرستش نہیں بلکہ حق و بین حق شناسی نظر کی مانوسیت اور انسیت ہے۔

افسانے :
منٹو کی افسانہ نگاری کے حوالے سے وارث علوی کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں :

”منٹو کو کہانی کہنے کا گر آتا تھا۔ اس کا افسانہ اپنی نستعلیق ساخت سے فوراً پہچانا جاتا ہے۔ منٹو کی افسانہ نگاری کا آغاز سیاسی افسانوں سے ہوتا ہے۔“ (منٹو ایک مطالعہ)

اس کا پہلا افسانہ جو اس کے پہلے مجموعہ ”شرارے“ میں شامل ہے امرت سر میں انگریزوں کی گولی سے زخمی ہونے والے ایک نوجوان پر ہے۔ ”دیوانہ شاعر“ جلیان والا باغ پر ہے اور بہت ہی جذباتی افسانہ ہے۔ ان ابتدائی افسانوں کے علاوہ سیاسی موضوعات پر ”نیا قانون“ ، ”1919 ء کی ایک بات“ ، ”سورج کے لیے“ اور ”یزید“ منٹو کے زیادہ پختہ کار افسانے ہیں۔ ”یزید“ اچھے ڈھنگ سے لکھا گیا ہے لیکن اطمینان بخش ثابت نہیں ہوتا۔ دشمن نے نہروں کا پانی بند کر دیا ہے۔ کریم داد بیٹے کا نام یزید رکھتا ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ کیا حرکت ہے تو وہ کہتا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ بھی وہی یزید ہو۔ اس نے دریا کا پانی بند کیا تھا یہ کھولے گا، بات کچھ بنتی نہیں۔

”نیا قانون“ منٹو کا بہت ہی مشہور افسانہ ہے۔ یہ خیال کہ۔ نیا قانون کے آتے ہی ہندوستان آزاد ہو گا اور انگریزوں سے نجات ملے گی منگو کوچوان کے اعصاب پر سوار ہو جاتا ہے۔ منگو ایک سیدھا سادہ بے وقوف اور ان پڑھ آدمی ہے جو باتوں کا دھنی ہے۔ اس کے کردار کا یہ پہلو کہ وہ عجلت پسند ہے اور کوئی بھی خیال ہو اس پر خبط کی طرح چھا جاتا ہے۔ منٹو نے بڑی نفسیاتی دروں بینی سے ابھارا ہے۔

” 1919 ء کی بات“ بہت ہی اچھا افسانہ ہے۔ منٹو کے لئے یہ بات بہت ہی اہم تھی کہ انقلاب فرانس میں پہلی گولی ایک مکھیائی کو لگی تھی اور امرت سر میں گوروں کی گولی ہلاک ہونے والا ایک طوائف کا لڑکا تھا۔ اس کی دو بہنیں شہر کی مشہور طوائفیں تھیں۔ بھائی کے شہید ہونے کے دو روز بعد انہیں گوروں نے اپنے سامنے ناچنے پر مجبور کیا۔ افسانہ کا یہی وہ دلچسپ موڑ ہے جہاں اس واقعہ کا بیان کرنے والا ٹرین کا مسافر حب الوطنی کے جذبات کے تحت دروغ گوئی سے کام لیتا ہے اور بتاتا ہے ہے کہ دونوں بہنوں نے الف ننگے ہو کر انگریزوں کے منہ پر تھوکنا چاہا اور انگریزوں نے دونوں کو گولی سے داغ دیا۔ جب واحد متکلم کہتا ہے کہ یہ انجام خود ساختہ معلوم ہوتا ہے۔ تو مسافر اسٹیشن پر اترتے ہوئے بڑی تلخی سے کہتا ہے ”ہاں انہوں نے اپنے شہید بھائی کے نام پر بٹہ لگایا“ اور چلا جاتا ہے۔

”عشق حقیقی“ میں کہانی کی تعمیر اس ڈھنگ سے کی گئی ہے کہ لڑکا اور لڑکی دور دور رہیں اور ایک دوسرے کے قریب نہ آنے پائیں۔ چنانچہ لڑکا لڑکی کی پہلی ملاقات سنیما کے اندھیرے میں ہوتی ہے۔ لڑکا اپنے قریب بیٹھی لڑکی کو کن انکھیوں سے دیکھتا ہے اور اس کے حسن کا فریفتہ ہو جاتا ہے۔ وہ اس کا پیچھا کرتا ہے اور لڑکی اپنے مکان کی کھڑکی سے اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ نامہ و پیام ہوتا ہے اور آخرکار لڑکی اس کے ساتھ بھاگ جانے پر رضا مند ہوتی ہے۔

دونوں بھاگ کر ایک شہر میں جاتے ہیں۔ ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیتے ہیں۔ لڑکا لڑکی کے چہرے سے نقاب اٹھاتا ہے۔ اس کا خوبصورت چہرہ ہاتھ میں لے کر بالائی ہونٹ کے تل پر اپنا بوسہ ثبت کرتا ہے۔ لڑکی نہ نہ کرتی ہے۔ اس کے ہونٹ کھلتے ہیں۔ دانتوں میں گوشت خورہ ہے۔ مسوڑے گہرے نیلے رنگ کے ہیں۔ گلے ہوئے سڑانڈ کا بھبکا لڑکے کی ناک میں گھستا ہے۔ اسے ایک دھکا سا لگتا ہے۔ ”ابھی آیا“ کہہ کر وہ باہر جاتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ یہاں رومانی محبت کا جذبہ جسم کی حدود سے بلند نہیں ہو سکا۔ محبت کے جذبہ کی پیش کش میں منٹو پوری سچائی اور خلوص سے کام لیتا ہے اور کہیں یہ ثابت نہیں ہونے دیتا کہ یہ جذبہ محض ایک وقتی لگاؤ سے زیادہ معتبر نہیں۔

خوبصورتی خوردبین و خود آرا ہوتی ہے۔ ذات کے آئینہ خانہ اور پندار کے صنم کدے میں محبوس۔ نفسیاتی تناؤ اور کھیچاؤ میں قید روح کا پرندہ آزاد فضاؤں میں اونچی اڑان بھرنا چاہتا ہے۔ عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ منٹو کی طوائف میں عورت اور عورت میں ماں کا روپ ملتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن سب افسانوں کے لیے نہیں۔ مثلاً خولہ بالا کہانیوں میں اؤل الذکر پانچ کہانیوں میں منٹو طوائف میں عورت کو دیکھتا ہے لیکن لازمی طور پر اس کے ماں کے روپ کو نہیں۔

منٹو کی حقیقت نگاری طوائف کی تصویر کشی میں اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ ”کالی شلوار“ ، ”پہچان“ ، ”ہتک“ ، خوشیا ”اور“ دس روپے ”کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اپنی افسانہ نگاری کی ابتدائی منزلوں میں ہی اس نے وہ نظر پیدا کر لی تھی جو تنگ و تاریک کھولی میں بیٹھی مکھیائی کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ طوائف کو اتنی غیر جذباتی اور اتنی دردمندانہ نظر سے دیکھنے والا افسانہ نگار عالمی ادب میں شاید مشکل سے نظر آئے گا۔ عورت طوائف بنتی ہے تو اس کے اندر کی عورت مر نہیں جاتی بلکہ اپنے انسانی تقاضوں اور رویوں کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔ طوائف پر اپنے افسانوں میں منٹو کا سروکار یہی رہا ہے کہ قحبہ خانے کی گھنونی فضاء میں وہ ان نھلکیوں کو دیکھ لے جو طوائف کی بنیادی انسانیت اور عورت پن کی دلیل ہے۔

طوائف کی زندگی کے اکیلے پن کا جو احساس منٹو کے اس افسانے میں ابھرتا ہے وہ زیادہ شدید اور ہولناک صورت میں ”ہتک“ میں نظر آتا ہے۔ طوائف پر لکھے گئے افسانوں میں اس اکیلے پن کا بیان کسی اور افسانہ نگار کے یہاں مجھے نظر نہیں آتا۔ دن پہاڑ اور راتیں اجاڑ بن رہی ہیں۔ منٹو نے سلطانہ کی تنہائی اور کسم پرسی کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ قاری کے لبوں سے دعا نکل جاتی ہے کہ اے میرے معبود کچھ کر اس عورت کے لئے۔ گاہک بھیج بیچاری کے لیے!

قاری کے منہ سے دعا اس لئے نکلتی ہے کہ افسانہ کی پوری فضا اور اس کی مرکزی تھیم کا تعلق گہری مذہبیت سے ہے۔ سلطانہ کو کالی شلوار چاہیے محرم کے لے۔ سلطانہ کو گہری عقیدت ہے خواجہ نظام الدین سے۔ خدا بخش فوٹو گرافر جو اسے انبالہ سے دہلی لایا تھا فقیروں کا معتقد ہے۔ کچھ کرتا کراتا نہیں بس دلاسا دیتا رہتا ہے کہ اللہ نے چاہا تو سب اچھا ہو جائے گا۔

”ہتک“ طوائف کے موضوع پر منٹو کا سب سے مشہور افسانہ ہے۔ پھر افسانہ کی ساخت بھی بڑی فنکارانہ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک چھوٹے سے افسانے میں کتنا مواد بھر دیا گیا ہے۔ ہر چیز موقعہ محل کے مطابق اتنی آسانی سے وقوع پذیر ہوتی ہے کہ پلاٹ میں پیچیدگی اور مصنوعی پن کی بجائے کہانی میں سادگی پیدا ہو جاتی ہے۔

”خوشیا“ طوائف نہیں بلکہ طوائف کے ایک دلال کی کہانی ہے جس کا نام خوشیا ہے۔ یہ افسانہ نفسیاتی حقیقت نگاری کا بہت ہی اچھا نمونہ ہے۔ کالے تمباکو والا پان چباتے ہوئے خوشیا سلیگن چبوترے بیٹھا سوچ رہا تھا۔ ساچنے اور پان چبانے دونوں کا عمل ساتھ ساتھ چلتا ہے اور دونوں کو منٹو بڑے عمدہ طریقے سے بیان کرتا ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ خوشیا نے کانتا کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے آواز آتی ہے کہ کون ہے؟ جواب ملا ”میں خوشیا“ دروازہ کھلا، خوشیا اندر داخل ہوا۔ جب دروازہ اندر سے بند ہوا تو خوشیا نے مڑ کر دیکھا کانتا لگ بھک برہنہ تھی۔ وہ نہانے جا رہی تھی۔ خوشیا اسی واقعہ کے متعلق سوچ رہا تھا۔ کانتا کی اس حرکت سے خوشیا کے مردانہ وقار کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا جیسے اس کے ارمانوں کا خون ہوا ہے۔

”جانکی“ میں عورت کی مامتا کا روپ خدمت گزاری اور ایثار نفسی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ جانکی پیشہ ور طوائف نہیں۔ ممکن ہے پشاور میں رہی ہو لیکن وہاں بھی وہ عزیز صاحب کی منظور نظر تھی جنہوں نے اسے بمبئی فلموں میں کام تلاش کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ یہاں بھی وہ عزیز کی صحت کے لئے فکر مند رہتی ہے اور بے چینی سے اس کے خطوط کا انتظار کرتی ہے۔ لیکن عزیز سے لگاؤ اسے بمبئی میں سعید سے جسمانی تعلق سے جوڑنے سے روک نہیں پا رہا تھا۔

منٹو کے افسانوں کا ایک اہم موضوع دل کی فیاضی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ فیاض دل اخلاقی طور پر برگزیدہ اور سماجی طور پر برتر ہستیوں ہی میں ملے۔ ”نطفہ“ جو بہت ہی جامع اور دلچسپ افسانہ ہے کا صادق بھی بابو گوپی ناتھ کے قسم کا آدمی ہے گو دونوں میں بہت فرق ہے افسانہ کا آغاز ہی دونوں کے تقابل سے ہوتا ہے۔ ایک تھا وہ طوائف سے شادی کر لیتا ہے۔ اس طوائف کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ چھ مہینے بعد جانے صادق کے دل میں کیا آئی کہ اس نے طوائف کو طلاق دے دی اور اس سے کہا کہ تمہارا اصل مقام یہ گھر نہیں۔

ہیرا منڈی ہے۔ جاؤ اس لڑکی کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اس کو شریف بنا کر میں تم لوگوں کے کاروبار کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہتا۔ جاؤ! خدا میرے نطفے کے بھاگ اچھے کرے۔ لیکن دیکھو اسے نصیحت دیتی رہنا کہ کسی سے شادی کی غلطی نہ کرے۔ یہ غلط چیز ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ صادق خود کاروباری آدمی ہے اور وہ دوسروں کے کاروبار اجاڑ کر اپنی خوشی نہیں خریدنا چاہتا۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کہانی کی اور بابو گوپی ناتھ کی اخلاقیات الگ الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں ٹھیک ہیں۔

”خالی بوتلیں خالی ڈبے“ میں انشائیہ کا لطف زیادہ ہے۔ تجرد پسند لوگوں کی مختلف چیزوں کو جمع کرنے کی عادت کا ذکر منٹو نے بہت دلچسپ پیرایہ میں کیا ہے۔ جو افسانہ جنم لیتا ہے۔ اس کا یہ نفسیاتی پہلو بھی غور طلب ہے کہ بیوی کے انتخاب میں جذباتی رویے سے کام کرتے ہیں وہ غیر شعوری طور پر مردوں کی دوسری چیزوں کی پسند اور ان کی عادتوں میں جھلکتے ہیں۔ خالی بوتلیں اور خالی ڈبے جمع کرنے والا رام سروپ ایک ایسی دبلی پتلی عورت سے شادی کرتا ہے جو بنارسی ساڑھی میں کاغذ میں لپٹی ہوئی خالی بوتل ہی نظر آتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ دنیا میں ہماری ہی پسند کام کرتی تو نہ جانے کتنی عورتیں بن بیاہی رہ جاتیں۔ لیکن فطرت جیولوجیکل جوڑے بنانے میں بڑی فراغ ثابت ہوئی ہے۔

”لائسنس“ اس سماجی نظام پر بہت گہرا طنز ہے جو عورت کو پیشہ کرانے کا لائسنس دیتا ہے۔ لیکن تانگہ چلانے کا نہیں۔ افسانہ بہت خوبصورتی سے لکھا گیا ہے۔ لیکن طنز اپنی قیمت نفسیاتی حقیقت نگاری سے وصول کرتا ہے۔ دراصل ایک شریف عورت کے لئے پیشہ کرنے کا فیصلہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ بس افسانہ میں اس جانکاہی کا عکس نہیں ہے۔ اس کی جتنی جدوجہد ہے خارجی ہے۔ لوگ بے ایمانیاں کرتے ہیں۔ خود تانگہ چلاتی ہے تو ممانعت ہوتی ہے۔ مجبور ہو کر پیشہ کا لائسنس مانگتی ہے۔

”مجید کا ماضی“ افسانہ پڑھ کر لگتا ہے اس میں کیا ہے اس طرح کا افسانہ تو ہر کوئی لکھ سکتا ہے۔ لیکن لکھتا صرف منٹو ہی ہے۔ مجید جس نے خوب دولت کمائی ہے اور بڑی عیش و عشرت کی زندگی گزارتا ہے۔ ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب وہ قلاش تھا اور خوش۔ عام طور پر ایسے افسانے کردار کے احساسات کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن انہیں قاری تک پہنچا نہیں سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments