درندوں کو انسان بنائیں


آئے روز معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، خواتین کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ جنسی درندگی کا شکار ہونے والی اکثر خواتین اس وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، اور کچھ ذہنی مریض بن جاتی ہیں۔ جنسی درندگی کا شکار ہونے والے بچے عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں، اور شدید قسم کے منفی احساسات سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں۔ جبکہ جنسی درندگی کرنے والے جگہ جگہ دندناتے پھرتے ہیں۔

انسان نما یہ درندے اپنے شکار پر گھات لگائے ہوتے ہیں، موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جونہی موقع ملے یہ جھپٹ پڑتے ہیں۔ ان درندہ صفت لوگوں نے آٹھ ماہ کی معصوم کلی کو بھی مسلا ہے اور اسی سالہ بوڑھی عورت کو بھی نہیں چھوڑا۔ ان درندوں نے قبر سے لاشوں کو نکال کر مردوں سے اپنی ہوس کی آگ بجھائی ہے، تو کہیں درندگی کا مظاہرہ کر کے زندہ انسانوں کو چلتی پھرتی لاشیں بنا دیا ہے۔ ان ظالموں نے رات کے سناٹے میں بیچ سڑک پر معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں کی عزت تار تار کی ہے تو کہیں دن کے اجالے میں کسی کی بیٹی کی زندگی تاریک کر دی ہے۔

درندوں نے مسجد کی حرمت بھی پامال کی ہے اور یونیورسٹی کی فضا کو بھی آلودہ کیا ہے۔ ان وحشی درندوں نے خون کے رشتوں کو بھی نہیں بخشا۔ درندگی کے اس مظاہرے پر درندے بھی چیخ اٹھے ہیں کہ انسان نما ان درندوں نے درندوں کو بھی تو نہیں بخشا۔ لیکن جنسی زیادتی کرنے والوں کو کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں ہوتی۔ اس قبیح فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن افسوس کہ جنسی درندگی کا جن قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں سے ریپ کی خبر سننے کو ملتی ہے۔ گو کہ بہت کم ریپ کے کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ لوگ عزت کے ڈر، بدنامی کے خوف سے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن جو کیس سامنے آرہے ہیں وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کیسز میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

کچھ لوگ جنسی درندگی کی وجہ مخلوط تعلیم کو سمجھتے ہیں۔ ایک مخصوص ذہنیت کا ماننا ہے کہ عورت کا چست لباس مرد کو جنسی درندگی پہ اکساتا ہے۔ یہ سب سن کے ان کی عقل پہ ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ چلیں تھوڑی دیر کو مان لیتے ہیں کہ اس زیادتی کا شکار ہونے کے لیے عورت خود مرد کو دعوت گناہ دیتی ہے۔ لیکن جہاں بچوں کے ساتھ درندگی کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے اس کے لیے وہ ذہین لوگ کیا منطق پیش کریں گے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ریپ کی وجہ جنسی گھٹن ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں جنسی آزادی نہیں، اس لیے ریپ کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کس کو جھٹلائیں ہم، مخلوط تعلیم کے مخالفین کو یا پھر جنسی گھٹن کی شکایت کرنے والوں کو۔

ایسے تمام لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ سراسر دروغ گوئی ہے۔ کیونکہ یہاں اس خطے میں صدیوں سے جنسی گھٹن نہیں رہی۔ یہاں سیکس ورکرز کے مخصوص بازار کل بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ بلکہ اب تو ملک کے ہر شہر ہر علاقے میں سیکس ورکرز موجود ہیں۔ اس پیشے سے وابستہ خواتین رات گئے مخصوص سڑکوں پر بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ آپ کو بظاہر واک کرتی، کسی گاڑی یا موٹرسائیکل والے سے لفٹ مانگتی بھی نظر آئیں گی، لیکن حقیقت میں وہ سیکس ورکرز ہوتی ہیں۔ یہ سیکس ورکرز آپ کو دو سو روپے میں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ گو کہ یہ سب غیر قانونی کام کرتی ہیں۔ لیکن قانون نے ان کی راہ میں کبھی روڑے نہیں اٹکائے اور نہ ہی ان کے رزق کو بند کرنے کی کبھی کوشش کی ہے۔ ان کے لیے قانون نے ہمیشہ صحیح معنوں میں اندھا بن کر دکھایا ہے۔

جنسی زیادتی کرنے کی اصل وجہ کوئی بیرونی عنصر نہیں، اس کی وجہ مرد کی سوچ کا زاویہ ہے۔ یہ مرد کے اندر کی کمزوری ہے۔ معصوم بچوں اور کمزور عورتوں کا ریپ کرنے والے خود کو ان کے سامنے طاقتور سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں جنسی درندگی کرنے والے کمزور ترین انسان ہوتے ہیں، ان کا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ان کا انسانیت سے کوئی واسطہ۔ یہ انتہائی شقی القلب ہوتے ہیں۔ یہ بے حس لوگ ہوتے ہیں، اپنے شکار کو اذیت میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ بیمار ذہنیت کے لوگ ہیں، جن کی سوچ کا زاویہ کبھی مثبت سمت جاتا ہی نہیں۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس بیمار ذہنیت کی ایک وجہ لوگوں کے پاس صحت مند سرگرمیوں کا فقدان ہے۔ دوسرا اس کی وجہ ان کی درندگی کا شکار بننے والوں کی خاموشی ہے جو ایسے مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

جی تو اب آتے ہیں اس کے تدارک کی طرف، کہ اس کو روکا کیسے جائے۔ تو جناب ریپ کیس کے پتہ چلنے پر تھوڑی دیر میڈیا پر اس کی خبر چلانے، ایک آدھ دن جلوس نکالنے اور صرف زبانی تقریریں کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔

سب سے پہلے تو ماں باپ کو اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی تربیت اس طرح ہونی چاہیے کہ ان کے اندر انسان دوستی پروان چڑھے۔ وہ اچھے اور برے فعل کی تمیز کرنا سیکھیں۔ دوسرا بچوں کو اعتماد دینا ہو گا کہ وہ کوئی بھی بات بنا ڈرے بنا جھجکے اپنے والدین کو بتا سکیں۔ پھر والدین کو بچوں کے حوالے سے کسی بھی دوست یا رشتے دار پہ ہرگز ہرگز اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

اگر آپ درندوں کو انسان بنانا چاہتے ہیں تو بچوں سے پہلے بڑوں کی ذہنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ ماہانہ بنیادوں پر اصلاحی پروگرام رکھیں جائیں، اور یہ پروگرام بڑے بڑے ہوٹلز میں سیمینارز کی صورت نہ ہوں، کہ وہاں ہر کسی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ تربیتی ورکشاپس ٹی وی، اخبارات و رسائل کے ذریعے ہوں۔ ہر عمر کے افراد کے لیے آؤٹ ڈور تفریح کے مواقع ہونے چاہیے۔ جو لوگوں کو صحت مند ماحول مہیا کریں۔ پارکس، اور سیر گاہیں ہونی چاہیے۔ کھیلوں کے میدان آباد ہونے چاہیے، جس میں مختلف عمر کے لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی سرگرمی ہو۔ تاکہ وہ اکیلے بیٹھ کر غیر صحت مندانہ سوچوں میں غلطاں نہ رہیں۔ لوگوں کے پاس روزگار کے بہتر مواقع ہونا چاہیے۔

جنسی درندگی کی روک تھام کے لیے الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ریپسٹ سے بچنے کے طریقوں پر ڈاکومینٹریز بنانا ہوں گی۔ ”ریپسٹ کو پہچانیں، اور ان سے بچیں“ جیسے اشتہار چلانے ہوں گے۔ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے عوام میں شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ اگر خدانخواستہ کسی کے ساتھ ریپ ہوتا ہے تو وہ ندامت سے سر نہ جھکائے۔ بلکہ فوری طوری پہ اس کی ایف آئی آر کٹوائے۔

پولیس کو ایسی رپورٹس پر ہر قسم کے دباؤ کو بالائے طاق رکھ کر فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔

معاملہ رپورٹ ہو جائے تو مقدمے کے تمام اخراجات سرکار ادا کرے۔ تاکہ مقدمے کی مد میں آنے والے اخراجات سے گھبرا کر متاثرین اپنا مقدمہ واپس نہ لیں۔ متاثرہ خاتون، بچی یا بچے کے ورثا اگر کسی دباؤ میں آ کر مجرم کو معاف کر دیں، تب بھی عدالت مجرم کو سزا دے۔

اور پھر ان جنسی درندوں کو عبرتناک سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ سزا کے طور پر انھیں جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دینا کافی نہیں۔ اگر ہم معاشرے میں موجود جنسی درندوں کا سچ میں خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر سخت فیصلے لینا ہوں گے۔ جنسی درندگی کرنے والے مجرموں کی جائیداد ضبط ہونی چاہیے، ان کی سزا بیچ چوراہے پر پھانسی ہونی چاہیے۔ تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments