خلائی مخلوق بمقابلہ ضیائی مخلوق


یورپ امریکہ میں رہنے والے لوگ ذہنی ارتقا کے لحاظ سے پاکستان میں رہنے والوں لوگوں سے کہیں آگے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیا خلائی مخلوق کا کوئی وجود ہے تو وہ نا صرف آپ کو اپنے اس مخلوق پہ یقین ہونے کی سائنسی دلیلیں دیں گے بلکہ خلائی مخلوق کا حلیہ کچھ اس طرح پیش کریں گے کہ خلائی مخلوق کی بڑی بڑی سیاہ بیضوی آنکھیں اور بیضوی سر کے ساتھ پتلا باریک سینہ اور ٹانگیں بھی سینے کے جسامت کے حساب سے بتائیں گے۔

اب آتے ہیں پاکستان کی طرف۔ پاکستان میں خلائی مخلوق کا نقشہ دنیا کے نقشوں سے مختلف ہے۔ پاکستان میں خلائی مخلوق کا تعارف اس وقت منظر عام پر آیا جب تین دفع کے سابقہ اور جرم کی پاداش میں نا اہل ہونے والے وزیراعظم نواز شریف نے اپنی ایک تقریر میں یہ کہا کہ ”ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہی بلکہ ایک خلائی مخلوق سے ہے“ ۔

پینتیس سال کی حکمرانی کے بعد نواز شریف کی وجہ شہرت ”مجھے کیوں نکالا“ کرپشن اور ”خلائی مخلوق“ بنی۔

پاکستان کے عوام خلائی مخلوق کا تصور 2017 میں سمجھے اور اگر آج کسی پاکستانی سے خلائی مخلوق کا حلیہ پوچھا جائے تو وہ برملا کہے گا پیروں میں کالے بوٹ، تن پہ کیمو فلاج وردی، آنکھوں پہ رے بین کے چشمے گویا کوئی خلائی مخلوق نہی فلم کا کردار ہو۔

نواز شریف کو ”خلائی مخلوق“ کا تعارف کروانے میں کم و بیش 35 سال کا عرصہ لگا۔

میاں نواز شریف کی سیاست میں آمد غیر متوقع اور حادثاتی تھی لیکن سیاست سے ان کی رخصتی متوقع تھی، جیسے کہ سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نا اہل قرار دے دیا ہے، یہ ان کے خاندان اور جماعت کے لئے بڑا دھچکا تھا۔ نواز شریف کا خاندان غیرسیاسی تھا ان کے والد میاں شریف نے ابتدائی طور پر سیاست میں حصہ لینے کی جنرل ضیا الحق کی جنرل جیلانی کی وساطت سے درخواست کو نظرانداز کر دیا بعد ازاں انہوں نے یہ کہہ کر کہ وہ خود تو سیاست میں حصہ نہیں لیں گے تاہم انہوں نے اپنے دونوں بیٹے جنرل جیلانی کے حوالے کر دیے، ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ نواز شریف اور شہباز شریف کو سیاسی میدان میں اتارنے سے پہلے ان کی سیاسی تربیت بھی کی جائے۔

جنرل ضیا الحق کو پیپلز پارٹی اور بھٹو کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لئے پنجاب سے کسی کی ضرورت تھی کیونکہ بھٹو کی سندھ سے زیادہ پنجاب میں مقبولیت تھی۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی نے ایک بار نواز شریف کی سیاست میں آمد اور میاں شریف کی رضامندی کے بارے میں بتایا۔ میاں شریف غیر سیاسی تاجر تھے، تاہم بھٹو کی طرف سے صنعتوں کو قومیانے کے فیصلے کے بعد وہ بھٹو مخالف ہو گئے۔ جنرل جیلانی نے میاں شریف کو یقین دلایا کہ نواز شریف کے سیاست میں آنے سے نہ صرف انہیں قومیائے گئے کارخانے اور فیکٹریاں واپس مل جائیں گی بلکہ سیاست میں ہونے کی وجہ سے ان کو کاروباری تحفظ بھی ملے گا۔

میاں شریف صرف اپنے کاروبار پر توجہ دینا چاہتے تھے تاہم جنرل جیلانی کے دباؤ کے زیراثر انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں نواز شریف اور شہباز شریف کو مارشل لا حکام کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت دے دی۔ 70 کی دہائی کے اواخر میں شریف برادران سیاست میں وارد ہوئے، 80 اور 90 کی دہائی کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل اور اس وقت شریف برادران کے قریبی ساتھی اور سابق سیکرٹری اطلاعات اور امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی دو افراد نے ان کی سیاسی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔

1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیا اور ان کے اتحادی پیپلز پارٹی کو سیاست سے دور رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے کنگز پارٹی کے طور پر پاکستان مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ کیا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران سے نمٹنے کے لئے سندھ کے ایک غیر معروف سیاستدان محمد خان جونیجو کو مسلم لیگ کا سربراہ اور وزیراعظم بنا دیا تاہم محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا کی مرضی کے بغیر تمام جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہوئے صحافتی آزادی کا اعلان کر دیا۔

جنرل ضیا کے لئے مزید خطرہ بنتے ہوئے محمد خان جونیجو نے ایک حکم جاری کیا کہ سول، فوجی اور بیوروکریسی سمیت تمام اہم شخصیات چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں گے، اس کے ساتھ انہوں نے بے نظیر بھٹو پر سے پابندی ہٹاتے ہوئے انہیں وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ جنیوا اکارڈ پر دستخط کرنے اور تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے اوجڑی کیمپ سانحے کی تحقیقات کرانے کے فیصلے، محمد خان جونیجو کی رخصتی کا باعث بنے۔ ایک انٹرویو میں جنرل حمید گل نے اعتراف کیا کہ جنیوا اکارڈ پر دستخط کے فیصلے سے ناراض فوجی قیادت نے جونیجو کی برطرفی کا فیصلہ کیا۔

1985 کے انتخابات کے بعد پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب بننے والے نواز شریف نے جونیجو سے جان چھڑانے میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی جس کے بعد جنرل ضیاء نے 28 مئی 1988 کو جو اس وقت صدر بھی تھے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت جونیجو کو ہٹا دیا۔ 10 اپریل 1986 کو 5 سالہ جلاوطنی کے بعد بینظیر کی وطن واپسی پر عوام کی بھرپور پذیرائی نے جنرل ضیاء اور اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ کر دیا۔ جنرل حمید گل نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد نامی جماعت پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت کو روکنے کے لئے بنائی گئی تھی کیونکہ شدید خدشہ تھا کہ بینظیر بھٹو اپنے والد کی حکومت ختم کرنے اور انہیں پھانسی دینے والوں سے انتقام لیں گی۔

اسٹیبلشمنٹ جانتی تھی کہ بینظیر بھٹو بہت زیادہ طاقتور حکمران ہوں گی اس لئے وہ نواز شریف کو ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پر سامنے لائے۔ اس طرح انتخابات میں آئی جی آئی اور پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں کے ذریعے پیپلز پارٹی کامیاب تو ہو گئی تاہم دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکی اور آئی جی آئی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی۔ گیم پلان کامیاب رہا کیونکہ پیپلز پارٹی پنجاب میں نہیں جیت سکی۔ بینظیر بھٹو کے لئے کام کرنا مشکل ہو گیا اور صرف ایک سال کے بعد وزیراعظم بینظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس میں پیسے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔

تحریک عدم اعتماد تو منظور نہ ہو سکی تاہم بینظیر بھٹو کی حکومت مزید کمزور ہو گئی اور 6 اگست 1990 ء میں 58 ٹو بی کے ذریعے ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 1990 ء کے انتخابات کی تاریخ بہت دلچسپ ہے، ابتدائی طور پر مرحوم غلام مصطفیٰ جتوئی کو جو کہ نگران وزیراعظم تھے انہیں متبادل کے طور پر لیا گیا۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت نواز شریف کو اس وقت وزیراعظم نہیں بنایا گیا۔ اس بات پر مفاہمت تھی کو جتوئی کو وزیراعظم بنایا جائے گا تاہم بعد میں انہیں دھوکہ دیا گیا۔

اب یہ بات کھلی حقیقت ہے کہ 1990 ء کے انتخابات میں نہ صرف وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی، مہران بینک اور اصغر خان کیس میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں میں 9 کروڑ روپے سے زائد رقم تقسیم کی گئی۔ 1990 ء میں جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے اسی وقت سے فوجی سربراہوں سب سے پہلے مرحوم جنرل آصف نواز اور پھر جنرل اسلم بیگ کے ساتھ اختلافات سامنے آئے۔ اسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ نواز شریف پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

1993 ء میں نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی اور سپریم کورٹ سے حکومت کی بحالی کے فیصلے کے باوجود انہیں حکومت نہیں دی گئی اور پہلی بار اسٹیبلشمنٹ نے بینظیر بھٹو کے ساتھ رابطے شروع کیے۔ اس کے بعد نواز شریف کی مسلم لیگ الیکشن ہار گئی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بن گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو بینظیر بھٹو سے کوئی شکایت نہیں تھی لیکن ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کی شکایات پر تحفظات تھے۔ پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ صدر سردار فاروق لغاری نے بھی بینظیربھٹو کو ان رپورٹس کے بارے میں آگاہ کیا جو آصف زرداری اور فاروق لغاری کے درمیان اختلافات کی وجہ بنا۔

1986 میں بینظیربھٹو کے مشورے کے برعکس مرتضیٰ بھٹو نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور 1996 میں مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت بینظیربھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمہ کی وجہ بنی۔ اس کے بعد نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئے نواز شریف نے سوچا کہ وہ اب کافی مضبوط ہوچکے ہیں اس لئے انہوں نے ایسے اقدامات کرنے شروع کیے تاکہ وہ ناقابل گرفت بن سکیں۔ انہوں نے عدلیہ کو بھی اپنا تابع بنانے کی کوشش کی 1998 میں سپریم کورٹ میں کیا ہوا سب کو یاد ہے اس موضوع پر سپریم کورٹ بھی تقسیم نظر آئی نواز شریف نے فوج کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔

سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ کیا ہوا، نواز شریف نے بعد میں اس پر پچھتاوے کا اظہار کیا کیونکہ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بنے جنہیں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان پسند تھے۔ جنہیں جنرل علی قلی خان پر سبقت دی گئی تھی ایک سال کے بعد بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دورہ لاہور کے دوران مشورے نظرانداز کرنے پر نواز شریف کے آرمی چیف جنرل مشرف سے بھی اختلافات پیدا ہو گئے۔ 12 اکتوبر 1999 ء میں نواز شریف نے مشرف کو برطرف کرنے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا جبکہ وہ کولمبو میں تھے، تاہم یہ بھی سچ ہے کہ سری لنکا جانے سے قبل مشرف نے جنرل محمود، جنرل عزیز اور اپنے قریبی جرنیلوں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر نواز شریف کوئی ایسا فیصلہ کریں تو اسے قبول کرنے کی بجائے ان کی حکومت ختم کر دی جائے۔

مارشل لاء کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی، تاہم سعودی شاہی خاندان کی مداخلت پر نواز شریف ذوالفقار علی بھٹو کے جیسے انجام سے بچ گئے اور انہیں ایک معاہدے کے تحت 10 سال کے لئے جلاوطن کر دیا گیا۔ پہلی بار نواز شریف نے اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کیا اور بے نظیر بھٹو سے اپنے اختلافات ختم کیے ۔ سیاسی اور غیرسیاسی عناصر کا شکار بے نظیر بھٹو نے بھی نواز شریف سے ہاتھ ملا لیا۔ 2006 ء میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے لیکن بے نظر بھٹو کی مشرف سے این آر او کے ذریعے ڈیل پر نواز شریف ناراض اور مایوس ہو گئے۔

تاہم بے نظیر بھٹو نے انہیں قائل کیا کہ پاکستان کی سیاست میں واپسی اور جنرل مشرف سے جان چھڑانے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں وطن واپس آئے لیکن 27 دسمبر 2007 ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے میثاق جمہوریت پر کبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بے نظر بھٹو اور نواز شریف کو کرپشن کے شدید ترین الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور دو بار ان کی حکومتیں ان الزامات کی وجہ سے ختم کر دی گئیں۔ تاہم فوجی عدالتوں کے باوجود ان الزامات کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔

بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی مسلم لیگ کی حکومت آئندہ عام انتخابات میں اپنی مدت پوری کرنے والی ہے۔ تاہم دونوں جماعتوں کی قیادت اپنے آپ کو کرپشن کے الزامات سے نجات نہ دلا سکی۔ دونوں جماعتوں کی قیادت کا کہنا ہے کہ کرپشن کے الزامات ان کی حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے گھڑے گئے تھے۔ 2013 ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت مسائل کا شکار رہی اور 2016 ء میں جب پانامہ لیکس کے بعد نواز شریف کو سیاست سے ایک بار پھر باہر کر دیا گیا۔ 2016 ء سے اب تک جو ہوا وہ نواز شریف کی سیاست ختم کرنے کے بعد ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے تمام امکانات ختم ہو گئے ہیں۔ آج نواز شریف جو خود ”ضیائی مخلوق“ تھے عوام کو جاتے جاتے اس ”خلائی مخلوق“ کا تصور دینے میں کامیاب رہے جن کی وجہ سے نواز شریف کی سیاسی ولادت ہوئی۔

رانا آصف محبوب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا آصف محبوب

Rana Asif Mahboob is a Freelance content writer,blogger and social Media Activist.To find out More about him please Check His Twitter Account :@RAsifViews

rana-asif-mahboob has 8 posts and counting.See all posts by rana-asif-mahboob

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments