اور سر اچھلتے ہیں


کل شام میں یونہی خالی بیٹھی بے ترتیب سی سوچوں میں غلطاں تھی۔ میرے موبائل فون کی گھنٹی مسلسل بجے جا رہی تھی۔ میں چونکی فون اٹھایا تو اسلام آباد سے روٹری کلب کے چیئر مین ڈاکٹر ملک اشرف حمید صاحب کا فون تھا۔ ان سے ہمارا بہت دیرینہ تعلق ہے۔ وہ ایک ہمدرد اور نیک دل انسان ہیں۔ فلاح و بہبود کے بہت سے کاموں میں خود کو ہمہ وقت مصروف رکھتے ہیں۔ اس دن بھی اسی سلسلے میں فون کیا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ نور مقدم پر کالم لکھیں۔

میں کانپ اٹھی کیوں کہ مجھ سے وہ خبر دیکھی ہی نہ گئی تھی۔ جب بھی نیوز چینل پر وہ خبر آتی میں چینل ہی بدل دیتی۔ حالاں کہ میں جانتی تھی کہ وہ ڈاکٹر اشرف حمید صاحب کے دوست کی بیٹی ہے۔ وہ اس کے جنازے اور رسم قل پر بھی گئے تھے۔ لیکن میری جرات ہی نہ ہوئی کوئی تفصیل پوچھنے کی۔ وہ واقعہ ہے ہی اتنا اندوہناک اور دل کو چیر دینے والا کہ کوئی کس طرح برداشت کرے۔ حیرت ہے اس سوکھے سڑے سے ظاہر جعفر پر جس نے درندوں سے بھی بدتر حرکت اس معصوم کے ساتھ کی۔

کہتے ہیں چڑیل بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔ ظاہر جعفر اور نور مقدم کے خاندانوں کے تو آپس میں گھریلو تعلقات تھے۔ وہ دونوں عرصہ دراز سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ افسوس ہے تو اس بات کا کہ قریبی دوستوں اور دونوں کے والدین کو کیوں کر اس کا منفی اور مشتعل رویہ دکھائی نہیں دیا۔ افسوس ہے تو اس بات کا کہ کیا عورت کی اپنی کوئی مرضی نہیں؟ کیا وہ انکار نہیں کر سکتی؟ ظالم ظاہر جعفر کا کہنا ہے کہ اس نے مجھ سے شادی سے انکار کر دیا تو میں نے اسے مار ڈالا۔

جب نور مقدم نے بار بار اپنے دوستوں اور والدین کو رابطہ کیا تو کوئی بروقت اس کی امداد کو کیوں نہیں پہنچ سکے۔ اور جو وہاں موجود تھے یعنی اس کے ملازمین وغیرہ کیا وہ اتنے ہی بے حس ہوچکے تھے یا پیسے کے زور پر ڈرتے تھے۔ کیا دوسروں سے برتی گئی نا انصافی بد سلوکی، ذہنی و جسمانی تشدد اور بد زبانی دیکھ کر قریبی لوگوں کو آگے بڑھ کر روک تھام نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے ملک اشرف حمید صاحب نے مزید بتایا کہ نور مقدم کے والد روٹری کلب آف اسلام آباد میٹرو پولیٹن کے سابقہ صدر اور اسسٹنٹ گورنر کے علاوہ پاکستان کے کوریا میں سابقہ سفیر بھی رہ چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان کے روٹیرین دکھ کی اس نہ ختم ہونے والی گھڑی میں سب شوکت علی مقدم صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ظالم ظاہر جعفر کے اندر کہیں درندہ بستا ہے انسان نہیں۔ اس جانور نے جس طرح اس کا گلہ کاٹا ایسے بے دردی سے تو کوئی اپنے پالتو جانور کو بھی ذبح نہیں کرتا۔ نور مقدم کے قتل نے یقیناً فکر و سوچ کے بہت سے دروازے کھول دیے ہیں۔ سب سے پہلے تو عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ظاہر جعفر کو فوری کڑی سے کڑی سزا دے۔

خواتین کے خلاف ہر طرح کے تشدد کا بل پاس کیا جائے۔ گزشتہ چند برسوں سے خواتین کے خلاف اتنی تیزی سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے کہ ہر روز خواتین کے ریپ اور مارنے کے واقعات مسلسل خبروں میں ہیں۔ آخر اس دلخراش کیس کو اس حد تک لٹکایا کیوں جا رہا ہے جبکہ وہ اپنے جرم کا اقرار بھی کر چکا ہے۔ سوچ اور عمل کا ایک دروازہ ریاست کے لیے کھلتا ہے کہ موجودہ ریاست جو ریاست مدینہ کا نعرہ لے کر میدان میں اتری ہے وہ سب کے لیے یکساں حقوق کیوں نہیں بناتی۔

مدینہ کی ریاست میں تو عورت بے خوف و خطر سونے میں لدی پھندی ایک وادی سے دوسری وادی میں تن تنہا آ جا سکتی تھی۔ لیکن ہمارے ملک میں عورت ہرگز محفوظ نہیں۔ جب موٹر وے ریپ کیس ہوا تھا تو نور مقدم بھی پوسٹر اٹھائے احتجاج کرنے والوں میں کھڑی تھی۔ اس بدنصیب کو کیا معلوم تھا کہ مستقبل میں اس کا کتنا برا حال ہونے والا ہے۔ اب عوام نور مقدم کے معاملے میں فوری انصاف چاہتے ہیں۔ وہ تمام کردار جو اس بات سے واقف تھے کہ گھنٹوں ایک نہتی لڑکی بند کمرے میں تشدد کا شکار ہو رہی ہے اسے بچانے نہ پہنچے، ریاست ان کو بھی فوری کڑی سزا دے۔

لڑکی نے جب کمرے کی بالکونی سے چھلانگ لگا کر گارڈ کے کمرے پناہ لینا چاہی اور پھر گارڈ کا اسے واپس کر دینا اس بات کی علامت ہے کہ ایک مرد دوسرے ظالم مرد کو مضبوط کر رہا ہے۔ ریاست اس کو بھی کڑی سزا دے۔ لیکن ہم تو وہ لوگ ہیں جو زخم کھا کھا کر بھی سیکھتے نہیں۔ گھروں میں عورتوں کی تربیت کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ اپنے شوہروں میں صرف اچھائیوں پر نظر رکھو۔ بھلے وہ ذہنی و جسمانی تشدد سے یا تو تمہیں زندہ مار دے یا تمہاری روح کو ختم کر ڈالے اور تم زندہ لاش بنی اپنے ہی جسم میں چھبی سوئیاں نکالتی رہو۔

اچھائیوں کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی برائیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کیس کا انتہائی المیہ یہ ہے کہ والدین اپنے لڑکے کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی اس کا امریکہ پاسپورٹ دکھا کر کہا جاتا کہ یہ یہاں کا شہری ہی نہیں۔ ظالم درندہ صفت لڑکا مسلسل اپنے والدین سے رابطے میں تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے ماں باپ بروقت کیوں نہ پہنچے۔ کہنے کو لڑکا تھراپسٹ تھا۔ اسلام آباد کے ایلیٹ کلاس کے نجی سکولوں میں جا کر بچوں کو لیکچرز دیا کرتا تھا۔

ایسے اداروں کا اللہ ہی حافظ! جو ایسے نالائق لوگوں کو بلوا کر ناپختہ ذہنوں میں زہر گھولتے ہیں۔ ایسے لوگ قوم کے جسم اور ذہن پر زہریلے آبلوں کی طرح ہیں جنھیں ہر صورت کاٹ کر پھینک دینا چاہیے۔ دوسرے دولت و ثروت کے بہیمانہ نشے میں پلے یہ امیر زادے تکبر کے شربت پی پی کر جوان ہوتے ہیں تو دوسرے انسان انہیں کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ اس کیس میں ایک دروازہ کھلتا ہے والدین کی ذمہ داریوں کا۔ کیا والدین اپنی باقی سب ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کے ساتھ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کی تمام تر ذہنی و جسمانی سرگرمیوں کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہیں یا نہیں!

کیا والدین اتنے مجبور ہو چکے ہیں کہ خود ہی اپنے بچوں کو بے جا آزادی دے کر بے رحمانہ سلوک کے عادی بنا رہے ہیں۔ کہیں بے پناہ آسائشیں دے کر بھیانک قاتل تو نہیں بنا رہے؟ نور مقدم کا بھیانک قتل تو بس 46 گھنٹوں میں وقوع پذیر ہو گیا۔ لیکن اس کیس کو گھسٹتے ہوئے تقریباً دو ہفتے گزر چکے۔ کیا پھر سے اس معاملے کی سنگینی کسی طرح پس منظر میں تو نہیں چلی جائے گی۔ درندہ ظاہر جعفر نور مقدم کا گلہ کاٹنے کے بعد فٹ بال کی طرف اس کے سر کو اچھالتا رہا۔ یہ بات ہر زندہ ضمیر انسان کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔ آخر میں وطن عزیز کے معروف سینئر صحافی اور تجزیہ نگار محمود شام صاحب کا تازہ ترین کلام جو عین حسب حال ہے آپ سب کی بصارتوں کی نذر!

شہر ہیں کہ جنگل ہیں
خواب گاہیں مقتل ہیں
حرف ہیں کہ خنجر ہیں
ذہن ہیں کہ دلدل ہیں
رات گونگی بہری ہے
دن ہوس میں اندھے ہیں
کھڑکیوں میں چیخیں ہیں
گیسٹ روم پھندے ہیں
آدموں کی کھالوں میں
بھیڑیے نکلتے ہیں
بیٹیاں تڑپتی ہیں
اور سر اچھلتے ہیں
پالتی ہے اب ممتا
پیار سے درندوں کو
چومتی ہے پنجوں کو
تیز تیز دانتوں کو
باپ کا گھنا سایا
مل رہا ہے سانپوں کو

دودھ خون ملتے ہیں
زچہ بچہ ہنستے ہیں
مملکت کی رگ رگ کو
سارے مل کے ڈستے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments