عشق وہ کار مسلسل ہے… راشد رحمن کی جدوجہد


دسمبر کے آغاز میں سیالکوٹ میں پریانتھا کمارا کے ہجوم کے ہاتھوں قتل نے پوری قوم کو ہلا کے رکھ دیا اور دسمبر کے اواخر میں راشد رحمن کے بارے میں توصیف احمد خان کی لکھی ہوئی کتاب میرے سامنے آئی تو مجھے یوں لگا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب توہین مذہب کے نام پر جھوٹے الزامات لگانے اور اور اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ مجھے نہیں معلوم آج کتنے لوگوں کو یاد ہے کہ راشد رحمن کی جان کیوں گئی؟

اسے جنید حفیظ کا مقدمہ لڑنے کی سزا دی گئی۔ راشد رحمن کے تعارف کے بعد اس کتاب کا دوسرا باب جنید حفیظ کے بارے میں ہے۔ ”جنید حفیظ ایک غیر معمولی ذہین انسان ہے۔ وہ پنجاب کے پسماندہ علاقے ڈیرہ غازی خان کے شہر راجن پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان ایک نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ جنید نے ابتدائی تعلیم راجن پور میں حاصل کی۔ میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑ کے انہوں نے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا۔ پھر امریکہ میں طالبعلموں کے تبادلہ کے ایک اعلیٰ سطحی پروگرام میں امریکہ کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی میں تھیٹر فوٹو گرافی اور امریکی لٹریچر کی تعلیم حاصل کی اور فیمنزم، سینما، اور سرائیکی ادب کے موضوعات پر مقالے تحریر کیے ۔ 2011 ء میں اسے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں اعانتی استاد کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ رجعت پسند اساتذہ اور دائیں بازو کے طلبہ جنید کی تدریس اور تحقیقی مقالوں میں کوئی خرابی نہیں نکال سکے تو اس کو توہین رسالت کے ایسے مقدمے میں ملوث کیا گیا جس میں اس کا کوئی قصور ہی نہیں تھا“ ۔

جنوبی پنجاب کی غربت اور مسائل کا ذکر بارہا سنا تھا لیکن جو تصویر توصیف احمد خان کے قلم سے راشد رحمن کی جدوجہد پڑھ کر سامنے آئی، اس نے تو مانو دل کو مسل کر رکھ دیا۔ عاصمہ جہانگیر اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو لاکھوں سلام۔ راشد رحمن کی جدوجہد کی کہانی پڑھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے سرائیکی وسیب کے مسائل حل کرنے کے لئے اللہ میاں نے کوئی فرشتہ بھیجا تھا۔ میری نسل جو بائیں بازو کے رومانس میں مبتلا تھی اور جس نے بھٹو کی کرشمہ سازیاں دیکھی تھیں کو وہ جلسہ یاد ہے جس میں بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد اشفاق احمد خان سے پوچھا تھا ”تم ویت نام میں سفیر بنو گے“ ۔

اور ہم مدتوں سرشار رہے کہ اگر بھٹو اور پیپلز پارٹی نہ ہوتے تو ایک مڈل کلاس کا بندہ کبھی بھی سفیر نہیں بن سکتا تھا۔ یہ اور بات کہ یہ طلسم آہستہ آہستہ ٹوٹتا چلا گیا۔ اب یہ کتاب پڑھ کر پتہ چلا کہ راشد رحمن ان ہی اشفاق صاحب کے بیٹے تھے۔ ان کے دادا عبدالرحمن، والد اور چچا نے ملتان میں وکالت کی تھی اور راشد نے بھی ان ہی کا راستہ اپنایا۔

جان گریشم کا ناول ’اسٹریٹ لائیر‘ میرا پسندیدہ ناول ہے۔ راشد بھی اسی ناول کے ہیرو کی طرح تھے۔ ایچ آر سی پی میں شمولیت نے انہیں غریبوں اور مظلوموں کا وکیل بنا دیا حالانکہ ان کا بنیادی کام انسانی حقوق کے تصور کے بارے میں آگہی پیدا کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں حقائق جمع کرنا تھا لیکن انہوں نے مظلوم لوگوں کے مقدمات لڑنے کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیا۔ اور ایک مظلوم کا مقدمہ لڑتے ہوئے ہی انتہا پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔

جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع خانیوال، پاک پتن، شجاع آباد، ویہاڑی، لودھراں، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، بہاول نگر اور رحیم یار خان جہاں سے بھی تھانے میں بہیمانہ تشدد، کسی لڑکی کے ریپ ہونے، کسی مزارعے کی بے دخلی، کسی مذہبی عبادت گاہ کی بے حرمتی، پسند کی شادی پر کسی جوڑے کا قتل، یا کسی مظلوم پر توہین رسالت کے جھوٹا الزام، کی اطلاع ملتی تو وہ اپنی ٹیم کے ساتھ فوراً تحقیقات کے لئے پہنچ جاتے۔ 90 کی دہائی سے 2014ء تک راشد نے ایسے سینکڑوں واقعات کے بارے میں تحقیق کی۔

پاکستان کی ترقی کا خواہشمند ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان کو ہر شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن ان میں سر فہرست زرعی اصلاحات ہیں۔ راشد رحمن نے جنوبی پنجاب میں زمینوں کی بندر بانٹ کے موضوع پر ایک کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں سرائیکی وسیب میں زمینوں کی لوٹ مار کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ راشد رحمن نے غریب مزارعوں کی بہبود کے لئے سفارشات مرتب کیں۔

اس کتاب میں راشد کے بہت سے مقدمات، واقعات اور خدمات درج کی گئی ہیں جن کے بارے میں جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ یہاں ہم صرف چند مقدمات کا ذکر کریں گے۔ جب 2002ء میں ملتان میں ایک شخص نے شیری رحمن کے خلاف توہین مذہب کی عرضداشت دائر کی تو راشد رحمن نے یہ مقدمہ لڑا اور عدالت نے مقدمہ درج کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

راشد نے ملتان کی نواحی بستی تھانہ ملوک کی حدود میں گیارہ خاندانوں کو جاگیرداروں کی قید سے نجات دلائی۔ 2006ء میں جلالپور پیر والا ڈکیتی اور ریپ کیس کے واقعے میں راشد نے سارے حقائق جمع کیے اور مطالبہ کیا کہ پولیس متاثرہ عورتوں کی جانب سے عاید کیے گئے زیادتی کے الزامات کو کسی ٹھوس شہادت یا غیر جانبدارانہ تفتیش کے بغیر مسترد کرنے کی روش کو ترک کر دے۔ اس کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نو دس سال کی عمر کی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں لیکن خاندان والے بدنامی کے خوف سے ان واقعات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر بات باہر نکل ہی جاتی ہے۔

اس طرح مدرسوں میں بعض اساتذہ بری طرح بچوں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بعض دفعہ بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی عملیات کا کاروبار کرنے والے بھی لوگوں کو مار دیتے ہیں۔ راشد رحمن کا کہنا تھا کہ مذہب اور عقیدہ کی تشریح کر کے عام لوگوں، خاص طور پر خواتین کا استحصال کرنے کی کارروائیاں جنوبی پنجاب میں گہری جڑیں پکڑ چکی ہیں جنہیں انتظامی ادارے کھلے بندوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ ملتان میں رہائش پذیر مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہری بھی کسی دوسری جگہ پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے خوف و ہراس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آخر میں ایک بار پھر عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمان اور راشد رحمن کو سلام جنہوں نے مظلوموں کی حمایت میں کبھی اپنی جان کی پروا نہ کی۔ یہ تینوں جسمانی طور پر ہم میں نہیں رہے مگر نظریاتی طور پر ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔

( ایچ آر سی پی کراچی میں کتاب ”عشق وہ کار مسلسل ہے“ کی تقریب رونمائی کے لئے لکھا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments