خرم بھائی، مولانا رومی اور مرغ گویم


مجھے پتا لگا تھا کہ خرم بھائی بھی کچھ اور طالب علم لیڈروں کے ساتھ گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ اس رات مجھے نیند نہیں آئی تھی۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہُوا تھا کہ ان سے دوستی ایک طرح سے ان کی محبت میں بدل چکی ہے۔ ہم دونوں میں بہت فرق تھا۔ ہر لحاظ سے، میں سوشلسٹ تھا اور نہ ہی نظام کی طرح اسلام پسند بلکہ سیدھا سادا مسلمان تھا نماز پڑھتا تھا اور روزہ بھی رکھتا تھا اور اپنے معاملات عقل کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ میں ان کی طرح تندہی کے ساتھ سیاسی کام تو نہیں کرتا تھا مگر کالج میں پروگریسو کے پینل کی حمایت ضرور کرتا تھا۔ مجھے ان کی گرفتاری سے شدید صدمہ پہنچا تھا۔
دوسرے دن مجھے پتا لگا تھا کہ طلبہ کی گرفتاری کے خلاف ڈاﺅ میڈیکل کالج کی کینٹین میں ایک احتجاجی جلسہ کیا جا رہا ہے۔ میں اپنے دوستوں کو لے کر وہاں چلا گیا تھا۔ ایوب خان کی فوجی حکومت اور آمریت کے خلاف خوب نعرے لگے تھے، اس کے بعد لڑکے جلوس کی شکل میں کالج سے باہر نکلے تھے۔ بندر روڈ پر ایک بس کو آگ لگادی گئی تھی اور این ای ڈی کالج کے پاس برٹش کونسل پر حملہ کردیا گیا تھا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کی تھی، آنسو گیس پھینکی تھی اور ہَوائی گولیاں چلائی تھیں۔۔ ہم لوگوں نے بھاگ کر کالج میں پناہ لی تھی۔
شام گئے گھر پہنچا تو نظام سے ملاقات ہوئی تھی۔نظام ناراض تھا کہ بیوقوفی کے جلسے میں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ خرم بھائی کی گرفتاری کا اسے افسوس تھا مگر اس کا خیال تھا کہ اب خرم بھائی نے ایم ایس سی کر لیا ہے انہیں سیاست ویاست کا چکر چھوڑ کر کام وغیرہ کرنا چاہیے۔ اگر یونیورسٹی میں کام نہیں مل رہا ہے اور انہیں مقابلے کے امتحان میں نہیں بیٹھنا ہے تو کسی کالج میں لیکچرار بن جانا چاہیے۔ ہم لوگ محلے کے ایرانی ہوٹل میں چائے پیتے رہے اور اس دن کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس ہفتے اسلامی جمعیت طلبہ، اسلامی نظام تعلیم کا ہفتہ منا رہی ہے اور پورے مُلک میں یہ ہفتہ منایا جائے گا، مگر کراچی میں جمعیت بہت منظم ہے۔ یہ بات صحیح بھی تھی کراچی میں تو جمعیت کافی منظم تھی۔ شہر کی دیواروں پر ان کے ہی نعرے لکھے ہوئے تھے اور ناظم آباد میں تو لگتا تھا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت کے علاوہ کسی اور کے بینر تو لگ ہی نہیں سکتے ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے پورا کراچی جمعیت کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے بے شمار کارکن دل و جان کے ساتھ کام کرتے تھے بغیر کسی معاوضے کے۔
میں خرم بھائی سے کراچی سینٹرل جیل ملنے بھی گیا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جیل کے باہر کس قدر ہجوم تھا۔ اپنے لوگ بہت سارے رشتے داروں سے ملنے آئے ہوئے تھے، جنگلے کے پیچھے سے ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بہت حوصلہ مند اور خوش نظر آتے تھے۔ میری گھبرائی ہوئی شکل دیکھ کر انہوں نے کہا تھا کہ یار کچھ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے یہ سب وقتی بات ہے تھوڑے دنوں میں ہی ایوب خان کا تختہ ہو جائے گا پھر ہم سب چھوٹ جائیں گے۔ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں اپنے گھر والوں کی طرف سے تھوڑی فکر تھی۔ ان کے ابا جان کافی ناراض تھے۔ ناراض تو بڑے بھائی بھی تھے مگر انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
گرفتاری وقتی ثابت ہوئی تھی۔ تھوڑے دنوں میں ہی ایوب خان کو حکومت چھوڑنی پڑ گئی تھی اور یحییٰ خان کا مارشل لا لگ گیا تھا۔ پورے مُلک میں جیسے طوفان سا آ گیا۔ خرم بھائی بھی جیل سے رہا ہو گئے تھے۔ میں ان سے ملا تھا وہ بڑے پُرجوش تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اب الیکشن ہوں گے اور مُلک بھر میں سوشلسٹوں کی فتح ہوگی، انصاف کا بول بالا ہوگا، مزدوروں کسانوں کی حکومت ہوگی، سرمایہ داری جاگیرداری کا خاتمہ ہوگا اور امریکا برطانیہ کی غلامی سے نجات مل جائے گی۔ ان کا خیال تھا آزادی کے باوجود ہمارا مُلک ابھی تک بڑی طاقتوں کی غلامی ہی کر رہا ہے کبھی بھی اس مُلک میں عوام کی حکومت نہیں آئی اور اب وہ خواب پورے ہونے والے ہیں۔
مُلک میں سب کچھ ہُوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کفر و اسلام کی جنگ چھڑ گئی ہے، ایک طرف تین سو تیرہ عالموں کا فتویٰ تھا کہ سوشلزم کو ماننے والے کافر ہیں اور دوسری طرف مجیب الرحمن، بھاشانی، بھٹو، ولی خان کی سیاسی جماعتیں تھیں جو اسلامی سوشلزم کے نعرے لگا رہی تھیں۔ مُلک میں ٹریڈ یونینوں کے جلسے ہو رہے تھے۔ کسان کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ ٹوبہ ٹیکس کسان کانفرنس کا تو بڑا غلغلہ اُٹھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگ اب آزادی چھین لیں گے، انقلاب آ جائے گا، صبح ہو جائے گی۔ جدوجہد یا مصلحت، انتخاب یا انقلاب ہر طرح کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔
میں انجینئر بن کر نوکری تلاش کر رہا تھا۔ خرم بھائی سے مشکل ہی ملاقات ہوتی تھی کیوں کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں میں اُلجھ کر رہ گئے تھے۔ اس وقت کا کراچی مجھے یاد ہے، ایک طرف لانڈھی اور سائٹ کے مزدوروں کا جلسہ ہوتا تھا۔ طلبہ مزدور اور کسان، مل کے بچائیں گے پاکستان کے نعرے لگ رہے تھے۔ کالجوں میں سوشلسٹوں اور اسلام پسند طلبہ میں زبردست انتخابی جنگ ہو رہی تھی۔ شہر بھر میں جماعت اسلامی کا غلبہ سا لگ رہا تھا۔ لوگ انتظار کر رہے تھے کہ جمہوریت آئے گی اور فوجی حکومت کا خاتمہ ہوگا۔ کراچی میں تو جماعت اسلامی جیتے گی مگر مُلک بھر میں سوشلسٹ ہی جیتیں گے، پھر زمینیں کسانوں کو ملیں گی، فیکٹریاں مزدوروں کے لیے بھی کمائیں گی، یہ ذلتوں کے مارے لوگ پورے پاکستان میں اچھے دن بھی دیکھیں گے۔
پھر الیکشن ہوئے اور پاکستان ٹوٹ گیا، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، فوجی حکومت چلی گئی اور جمہوریت بھی آ گئی تھی۔ بھٹو صاحب کی حکومت عوامی حکومت تو تھی مگر عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہُوا تھا۔ مجھے پی آئی اے میں نوکری مل گئی تھی۔ نظام ڈاکٹر بن کر امریکا جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اسلم کمیونسٹ پارٹی روس نواز کے ساتھ کام کر رہا تھا اور خرم بھائی کالج میں لیکچرار تو ہو گئے تھے مگر ترمیم پسندوں کے خلاف، جاگیرداروں کے خلاف، سرمایہ داروں کے خلاف، امریکا کے خلاف ان کی جنگ جاری تھی۔ ایک جنگ جو کبھی ختم نہیں ہوئی۔
ایک دام دیر تک ان سے باتیں ہوتی رہی تھیں۔ انہوں نے تو نہیں بتایا تھا مگر ان کی باتوں سے اندازہ ہُوا تھا کہ شاید وہ کسی خفیہ کمیونسٹ پارٹی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مزدور، کسان، ہاری سب متحد ہو رہے ہیں۔ طلبہ بھی جاگ چکے ہیں۔ بھٹو حکومت کو ہمارے مطالبے ماننے ہوں گے اور باقی ساری ان ہی پرانے خوابوں کی باتیں تھیں۔
پھر یکایک وہ غائب ہو گئے۔ ملتان کی کالونی ٹیکسٹائل مل میں ہڑتال ہوئی تھی، لاہور میں ریلوے کے مزدور حق مانگ رہے تھے، پشاور میں کسانوں نے متحد ہونا شروع کردیا تھا اور بلوچستان کی پہاڑیوں میں گولیاں چل رہی تھیں۔ لانڈھی میں مزدوروں نے بغاوت کردی تھی، سائٹ میں ہنگامہ ہُوا تھا اور عوامی حکومت سبھوں کو دباتی چلی گئی تھی۔ اسی بیدردی کے ساتھ جو پچھلی حکومتوں کا وتیرہ رہا تھا، اسی بے رحمی کے ساتھ جس کی عوامی حکومت سے تو اُمید نہیں تھی۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ خرم بھائی بھی غائب ہو گئے؟ انڈر گراﺅنڈ ہو گئے تھے وہ۔ کسی کو پتا نہیں تھا کہاں ہیں وہ، کیا کر رہے ہیں؟ گھر والے بھی لاعلم تھے۔ اور نہ ہی انہوں نے کسی سے کوئی رابطہ کیا تھا۔
اخباروں سے پتا لگا تھا کہ پولیس گرفتاریاں کر رہی ہے۔ سندھ میں ہاری لیڈر گرفتار ہوئے تھے، لاہور میں مزدوروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ خرم بھائی کا کچھ پتا نہیں تھا۔ ان کے گھر والوں نے بھی پریشان ہو ہو کر اب ان کے بارے میں فکر کرنا ترک کردیا تھا۔ ایک طرح سے عاق کردیا تھا انہوں نے۔ وہ پڑھ لکھ کر بھی گھر والوں کے کسی کام نہیں آ سکے تھے۔ گھر والوں کو ان کے کام آنے سے غرض نہیں تھی۔ وہ تو یہی چاہتے تھے کہ وہ بھی ایک عام زندگی گزاریں، ان کی بھی شادی ہو، ان کے بھی بچے ہوں، ان کا بھی گھر ہو، مگر خرم بھائی انقلابی تھے۔ ان کا سونا جاگنا، چلنا پھرنا سب کچھ انقلاب تھا۔
ایک رات وہ یکایک ہمارے گھر آئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ پولیس ان کے پیچھے ہے۔ وہ کراچی آئے تھے کسی میٹنگ کے سلسلے میں اور اب کراچی سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے سوچا کہ مجھ سے ملتے چلیں۔ صبح کی ٹرین سے ان کو جانا تھا۔ وہ رات انہوں نے ہمارے گھر میں ہی بسر کی تھی۔ ہم دونوں رات گئے تک باتیں کرتے رہے تھے۔ میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا تھا۔ پی آئی اے کی نوکری کے بارے میں بتایا تھا۔ بتایا تھا کہ کس طرح سے وہاں پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے، کس بیدردی سے افسران مراعات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں اور کس طرح سے ایمپلائز یونینوں نے لڑ لڑ کر ملازمین اور ادارے کو نقصان پہنچایا ہے۔ افسروں کو اپنی مراعات سے مطلب تھا اور ایمپلائز یونینوں کو ایمپلائز سے زیادہ ان سیاسی جماعتوں کی فکر تھی جن کے لیے وہ کام کرتے تھے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ پورے مُلک کا یہی حال ہے، ہر کوئی صرف اپنا مفاد چاہتا ہے، مُلک سے اور عوام سے کوئی غرض نہیں ہے ان کو۔ مجھے ڈر سا لگ رہا تھا کہ کس طرح سے یہ مُلک چلے گا ہر چیز خرابی کی طرف جا رہی ہے۔
وقت اور زمانے نے خرم بھائی کو کافی سنجیدہ بنا دیا تھا۔ ان کی آنکھوں کی چمک اپنی جگہ تھی مگر چہرہ بتا رہا تھا کہ وقت کے تھپیڑوں نے انہیں کافی زک پہنچائی ہے مگر وہ پُراُمید تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک دفعہ جب عوامی جمہوری انقلاب آئے گا تو سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔ موجودہ حکومت تو چلی ہی جائے گی مگر ساتھ ہی اچھا وقت بھی آئے گا مگر انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ روس کے حامی ترمیم پسند انقلابیوں نے انقلاب کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور ان کی وجہ سے دُنیا بھر میں سامراجی طاقتوں کو خوب فائدہ پہنچا ہے۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ سوشلسٹوں کے دونوں دھڑوں کی جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ خرم بھائی جیسا مخلص آدمی بھی اس جنگ میں ایک پارٹی بنا ہُوا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جس کمیونسٹ پارٹی کے لیے کام کر رہے تھے اس کی طرف سے انہیں کچھ جیب خرچ بھی ملتی ہے اور وہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ تعلیمی اداروں میں ہونے والی سرگرمیوں کے انچارج تھے اور اپنی تمام تر ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ وہ کام جو کمیونسٹ پارٹی نے ان کے ذمّے کیا تھا، مُلک بھر کے طالب علموں کو منظم کرنے کا کام تاکہ وہ انقلاب کے لیے کام کرسکیں اور وہ اس کام میں خلوص دِل کے ساتھ منہمک تھے۔
پھر وہ چلے گئے۔ بہت دنوں تک ملاقات نہیں ہوئی، شادی کی ایک تقریب میں ان کے بڑے بھائی کے منہ سے یہ سُنا تھا کہ خرم کا کیا ہے اگر جیل میں نہیں ہوں گے تو کسی جگہ لیڈری کر رہے ہوں گے۔ بڑی بددلی سے انہوں نے ان کا ذکر کیا تھا اور بڑی بے شرمی کے ساتھ سارے لوگ ہنس بھی دیے تھے۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ اپنے کام میں مخلص تھے، بہت سے لوگوں سے زیادہ مخلص جو اس وقت وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ زیادہ تر لوگوں کے دو چہرے تھے دکھانے کا کچھ اور اندر سے کچھ اور، مجھے اندازہ تھا اس بات کا۔ مجھے نفرت سی ہو گئی تھی ان سب سے۔
اسی زمانے میں مُلک بھر میں الیکشن ہوئے تھے اور الیکشن سے پہلے بہت سے لوگ گرفتار ہو گئے تھے۔ مجھے پتا لگا تھا کہ اس دفعہ خرم بھائی گرفتار ہو کر جیکب آباد کی جیل میں رکھے گئے ہیں۔ مجھے تو یہی پتا تھا کہ جیکب آباد اور سکھر جیل دونوں ہیں بہت خوف ناک ہیں دونوں جگہوں پر بدترین سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ دونوں ہی جگہ پر قیدیوں کی جسمانی انا کے ساتھ رُوحانی انا بھی ختم کردی جاتی ہے۔ میں دِل ہی دِل میں افسوس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
عوامی حکومت بھی ایک اور فوجی حکومت کے آنے کا باعث بن گئی تھی۔ وہی مارشل لا اور وہی آمریت، نہ جانے کیا تھا ہمارے مُلک کی قسمت میں۔
خرم بھائی بہت دنوں تک جیل میں ہی رہے تھے۔ جیل سے چھوٹنے کے بعد تھوڑے دنوں تک کراچی میں رہے تھے پھر کچھ دنوں تک ان کی کوئی خبر نہیں آئی۔
نئی حکومت نے قوم سے کیے ہوئے ہر وعدے کو پامال کیا تھا۔ جماعت اسلامی سے مل کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی تھی اور نہ جانے کیا کیا ہو رہا تھا۔ نظام نے امریکا سے خط لکھا تھا کہ جماعت اسلامی جس طرح سے فوجیوں کی بی ٹیم بن گئی ہے اس پر سوائے حیرت اور افسوس کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ کہاں کا اسلام؟ اور کیسی جمہوریت؟ جماعت اسلامی بھی مسلم لیگ ہی نکلی تھی۔ بھٹو نے داڑھی منڈوا کر، نہا دھوکر عزت کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو پہن لیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے صرف اس بات پر ہی بھٹو کے بہت سے گناہوں کو معاف کردیا تھا۔ اس کے عوام نے اسے اپنے من میں بسایا تھا، عوام تو ایسے ہی ہوتے ہیں، ان کے معیار الگ ہوتے ہیں اور وہ چیزوں کو مختلف طرح سے دیکھتے ہیں۔
ایک بار پھر مُلک میں تحریک چل رہی تھی، مُلک کو پھر خون کا، جانوں کا نذرانہ چاہیے تھا۔ پھر انہی دنوں میں مجھے پتا لگا تھا کہ خرم بھائی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے گرفتاری دے دی ہے۔ ہر روز کچھ لوگ گرفتار ہو رہے تھے۔ گرفتاریاں بڑھتی گئی تھیں، لوگ مرتے رہے تھے، عوام کے گھروں پر ملٹری کے بوٹوں کی دھمک تھی، سندھ میں گاﺅں جل رہے تھے اور رہنما عیش کر رہے تھے۔ افغانستان میں بھی جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔ ایک ایسی جنگ جو نہ جانے کس کی تھی۔ ایک ایسا جہاد جس کا کوئی مقصد نہیں تھا، دو بڑے ہاتھیوں کی جنگ میں ہم لوگ اپنی مرضی سے پس رہے تھے اور اس کی قیمت چکانے کے لیے بھی عوام تھے، پاکستان کے اور افغانستان کے۔ وہاں سے مہاجر پاکستان آرہے تھے، اسلحہ عام ملنا شروع ہوگیا تھا، چرس ہیروئن بھی عام ملنی شروع ہو گئی تھی، سکون صرف سکون، نہیں تھا ہم لوگوں کی قسمت میں۔
خرم بھائی کی یہ گرفتاری سب سے زیادہ خوفناک ثابت ہوئی تھی۔ تشدد کی انتہا کردی گئی تھی۔ برف کے سلوں پر لٹایا گیا تھا، ناخنوں کو کھینچ لیا گیا تھا، راتوں کو جگایا گیا تھا۔ ہر رنگ کے سیاسی قیدیوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں گرفتاریوں کا سلسلہ بند ہُوا ہی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ مارشل لا حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی جہاں بہت سارے سیاسی قیدی رہا ہوئے تھے تو خرم بھائی کو بھی رہائی نصیب ہوئی تھی۔
ان کے والد کا انتقال ان کی قید کے دنوں میں ہی ہوگیا تھا۔ ایک ماں تھیں جو ان کے آنے کا راستہ دیکھ رہی تھیں۔ بھائی بہن تو اپنے کاموں میں اُلجھے ہوئے تھے۔ میری بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی، آنکھوں کی وہی چمک تھی مگر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ جسم ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ میں بہت دیر تک ان کے ساتھ بیٹھا رہا، سوچتا رہا کہ یہ جنگ وہ کب تک لڑیں گے؟ سوشلزم کی جنگ، ترمیم پسندوں سے جنگ، انقلاب کی جنگ، فوجیوں سے جنگ، سماج سے جنگ، عوام کی بھلائی کے لیے جنگ، وہ یہ جنگ لڑتے رہیں گے اور انقلابی ان کی جنگوں کا سودا کر کر کے اپنی زندگی کو بدلتے رہیں گے۔ میں سوچتا رہا، ان سے کہہ نہیں سکا۔ اس کے اصول الگ تھے اور میری سوچ مختلف۔ انہیں صرف دُکھ ہی ہوتا۔
نظام امریکا میں خوب ڈالر بنا رہا تھا۔ اسلم بھی پیرس میں رہ رہا تھا اور بہت سارے سیاسی لوگ پاکستان کے علاوہ دُنیا میں ہر جگہ رہ رہے تھے۔ جو پاکستان میں تھے انہوں نے بھی اپنی اپنی قیمت وصول کرلی تھی۔ دائیں بازو کے ہر فرقے کے لوگوں نے، بائیں بازو کے دھڑے نے۔ ان کے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ ان کی ایمانداری ان کے ساتھ تھی۔ وہ ابھی تک ایسے ہی تھے، کراچی یونیورسٹی کے خرم بھائی۔
مجھے اندازہ تھا کہ ان کی کمیونسٹ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ پھر کچھ اور لوگ ٹوٹ کر الگ ہو کر اپنی ایک اور پارٹی بنا چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے کچھ بتایا نہیں تھا مگر مجھے پی آئی اے میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ کون کہاں پر کس طرح سے کیا کر رہا ہے؟ کمیونسٹ پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ نیچے تک جاتی تھی، طالب علموں سے لے کر مزدور یونین اور ایمپلائز یونین تک، جہاں بھی جو ہوتا تھا، وفاداری توڑتا تھا۔
وہ پھر غائب ہو گئے تھے، کبھی پتا لگتا تھا کہ وہ ملتان میں ہیں، کبھی لاہور میں تو کبھی کوئٹہ میں ہیں۔ ان کی وہی مصروفیت تھی۔ ان کی وہی قربانی تھی مگر بدل کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ صرف چہرے بدل رہے تھے، بار بار کبھی ایک چہرہ، کبھی دوسرا چہرہ۔ ظلم و جبر کے راج کو بدلو چہرے نہیں سماج کو بدلو والا نعرہ کسی دیوار پر تو لکھا ہُوا تھا مگر ہماری قسمتوں میں نہیں تھا میں نے بھی سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا تھا کہ اب پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔ پھر یکایک مجھے خبر ملی تھی کہ خرم بھائی کراچی کے سول ہسپتال میں داخل ہیں اور شدید بیمار ہیں۔
میں انہیں دیکھنے گیا تھا، وہ شدید بیمار تھے۔ بہت دنوں کے بعد دیکھا تھا ان کو میں نے۔ جسم بہت دُبلا پتلا ہوگیا تھا۔ دھنسی ہوئی آنکھیں اور چوڑی پیشانی صرف یہی نظر آتا تھا۔ مجھے پتا لگا تھا کہ انہیں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کا ٹی بی ہوگیا ہے۔ بہت قیمتی دوائیں دی جا رہی تھیں ان کو مگر مجھے دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ بچنے والے نہیں ہیں۔ ان کی زندگی کے دن پورے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے میری آواز سُن کر آنکھیں کھولی تھیں، مجھے غور سے دیکھا تھا اور میرے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔ بہت دار تک تھامے رہنے کے بعد پھر آہستہ آہستہ بولے تھے۔ یاد ہے اب تک مجھے انہوں نے کیا کہا تھا اپنے جسم کے بارے میں،مرنے کے بعد اسے اناٹومی میوزیم میں کاٹ کاٹ کر شیشے کے جار میں رکھوا دینا۔ میں نے ڈاکٹر کو بھی کہا ہے اور ایک وصیت بھی کردی ہے، وہ شاید آخری دفعہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے تھے: ”آخر کب تک موہنی، کرشن، جان ولیم کی ہی لاشوں پر طلبہ پڑھیں گے ایک میرا مٹھی کا جسم بھی تو ہے۔“ ایک سفید لفافہ ان کے سرہانے رکھا ہُوا تھا۔ ان کی آنکھوں میں یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا مجھ پر بھروسا تھا کہ میں ان کے کہنے پر عمل کراﺅں گا، ایک مرنے والے کی آرزو تھی کہ ان کا کہا پورا کیا جائے گا، میں نے سوچا تھا کہ اس اعتماد کو میں برباد نہیں ہونے دوں گا۔
ہم ہسپتال آتے جاتے رہے، دوائیں لاتے رہے تھے، جو ممکن تھا وہ کر رہے تھے کہ وہ یکایک مر گئے ٹی بی نے ان کے جسم کے خلیوں کو اندر سے چاٹ لیا تھا۔ ایک دن جسم دھڑام سے گر گیا۔
مجھے ان کے مرنے کا افسوس نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بیماری کی تکلیف سے ان کا مر جانا ہی اچھا تھا۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی خواہش پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی۔ میں آخر تک ان کے بھائی سے التجا کرتا رہا کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کی لاش ڈاﺅ میڈیکل کالج کے اناٹومی میوزیم کو دی جانی چاہیے تاکہ اس کا specimen بنا کر وہاں اناٹومی میوزیم میں شیشوں کے جار میں رکھ دیا جائے اور میڈیکل کے طالب علم اس سے اپنی پڑھائی کریں۔ مگر کسی نے نہیں سُنا تھا بلکہ مجھے سختی سے کہہ دیا تھا کہ میں وارثوں میں نہیں ہوں، لہٰذا مجھے بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وصیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وارث وہی کریں گے جو وہ مناسب سمجھیں گے۔ مجھے زیادہ بولنے بلکہ بولنے کی ہی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں رشتہ دار تھا، وارث نہیں تھا۔
وارث انہیں، ان کی مرضی کے خلاف ہسپتال سے گھر لائے، مُردہ جسم کو نہلایا گیا، جنازہ اُٹھایا گیا، قبرستان میں لے جا کر منوں مٹی کے نیچے دبا دیا گیا۔ وارثوں کا اپنا بنایا ہوا فرض پورا ہوگیا تھا۔ آہستہ آہستہ مٹی پھینکی جا رہی تھی۔ زندگی ایک بار پھر موت سے ہار گئی تھی۔
میں سوچ رہا تھا کہ کیا بگڑ جاتا اگر ان کی بات مان لی جاتی؟ یہ کیسے لوگ ہیں؟ زندہ آدمی اگر مختلف ہوتو اس کے جسم کو چور چور کر دیتے ہیں اور اگر مُردہ ہو جائے تو بھی اس کی خواہش پوری نہیں کرتے ہیں۔ کب کریں گے عزت ہم لوگ مرنے والوں کی، اپنے پیاروں کی۔ زندگی میں تو حق دیتے نہیں ہیں، نہ بولنے کا حق، نہ مانگنے کا حق، نہ عزت سے زندہ رہنے کا حق، نہ اپنی مرضی سے جینے کا حق اور جب آدمی مر جاتا ہے، لکھ کر جاتا ہے کہ اس کے جسم کے ساتھ کیا کیا جائے تو وہ وارث جنہیں سب سے زیادہ احترام کرنا چاہیے، وہی اس وصیت کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں، ہم مُردہ جسم کا احترام نہیں کر سکتے تو زندہ لوگوں کا کیا احترام کریں گے؟
وارث نہ جانے کیا دُعا مانگ رہے تھے مگر میرے کانوں میں آواز گونج رہی تھی:
مرغ گویم
باہر نکلم
چیل جھپٹم
جان کھویم
مرغ گویم مرغ گویم مرغ گویم

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments