ہم ہی وہ لوگ ہیں جو شیطان کی خواہش تھے


مری میں ایک فیملی نے ہوٹل میں کمرہ لینے کے لیے زیور رہن رکھے۔

الحمدللہ اسلامی ریاست ہے اور بھاری سے بھی بھاری اکثریت مسلمان ہے، کلمہ گو ہے، نمازی ہے، دیندار ہے، مسلمان ہے، بعض حاجی ہیں، بعض زوار ہیں، بعض عمرے کر چکے ہیں، ہر سال قربانیاں دیتے ہیں، بڑھ چڑھ کر صدقہ و خیرات کرتے ہیں، رمضان کے روزے رکھتے ہیں، باجماعت تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو باقاعدہ دھوم دھام سے آخری روزے کے اختتام پر واپس گھر لایا جاتا ہے، فطرانہ و زکواۃ جو کی قیمت میں طے کر کے پورا پورا ادا کیا جاتا ہے، ہاتھ میں تسبیحات پھیری جاتی ہیں، اوراد و وظائف اوڑھنا بچھونا ہیں، ماتھے پہ محراب سجدوں کی گواہی کے علمبردار ہوتے ہیں، قرآن پاک کی عربی عبارت کی تلاوت روزانہ صبح کاذب تا صادق کی جاتی ہے تاکہ برکت و رحمت کی بارشیں برسیں، ربیع الاول میں جشن ولادت رسول ﷺ منایا جاتا ہے، جشن ولادت مولود کعبہ پر نیازیں بانٹی جاتی ہیں، محرم الحرام میں خانوادہ نبوت کے شہزادوں کی شہادت کا سوگ و ماتم منایا جاتا ہے۔

مگر۔ ۔ ۔

ہر ایک مسلک کا مسلمان دوسرے مسلک کے لیے غیر مسلم ہے (لکھنا تو وہی لفظ تھا جو رائج ہے لیکن مہربانوں کی وجہ سے غیر مسلم لکھ رہا ہوں ) ، اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو گ س ت ا خ کہہ کر مارا جاتا ہے، غیر ملکیوں کو ذاتی رنجشوں کی بنا پر شاتم کہہ کر زندہ جلا دیا جاتا ہے، نابالغ بچوں اور بچیوں کا ریپ کیا جاتا ہے، اڑسٹھ فیصد لوگ شراب پر پابندی ہونے اور مذہب میں سخت حرام ہونے کے باوجود شراب پیتے ہیں (مری بریوری کی دو سال قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق، ویسے یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جن میں عام دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں ملنے والی دیسی اور مٹکے والی شراب کا ذکر نہیں ) ، قحبہ خانوں پر پابندی ہے لیکن ہر محلے میں ایک ایسا گھر موجود ہوتا ہے جہاں عورت کو دل پشوری کا سامان بنا کر بیچا جاتا ہے، ملاوٹ کی جاتی ہے حالانکہ من غش فلیس منا کے احکامات ہیں، ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے، جھوٹ بولا جاتا ہے، دھوکہ دیا جاتا ہے، عزتیں پامال کی جاتی ہیں، رشوت دی اور لی جاتی ہے، قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں، بے ایمانی سے پیسہ کما کر صدقہ و خیرات کر کے خود کو جنت کا اہل بنا لیا جاتا ہے۔

ریاست کے آئین میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا حلف لے کر کہا گیا ہے کہ ریاست ماں کا برتاؤ کرے گی لیکن۔

لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں، تن ڈھانکنے کو چیتھڑے دستیاب نہیں، لوگ بھوک اور فاقوں سے تنگ آ کر خودکشیاں کرتے ہیں، بیٹیاں اپنی عزتیں بیچتی ہیں، نوجوان بیروزگاری کے باعث مایوس ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں یا جرم کی راہ پر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، باپ بیٹی کے پیدا ہونے پر فکر مند دکھائی دیتے ہیں، ماں بیٹے کے پیدا ہونے پر زود رنج ہو جاتی ہے، ونی عام ہے، کاروکاری رواج ہے، بس ستی کی رسم منظر عام پر نہیں آ رہی، میڈیا، دانشور، لکھاری، ادیب، شاعر، صحافی بکاؤ ہیں (چند ایک مستثنیات کے علاوہ) ، بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل رہی ہے۔

منافقت کا دور دورہ ہے۔

مثالیں دی جاتی ہیں نبی کریم ﷺ کی سادگی کی، حضرت عمر کی سادگی و متانت کی، حضرت علی کی شجاعت کی، حضرت امام حسین کی قربانی کی مگر۔

اہمیت و ترجیح دکھاوے کو دی جاتی ہے، بڑی گاڑی اور بڑی گاڑی والے کو سلیوٹ کیا جاتا ہے، خوشامد کو فرسٹ پرائرٹی ڈیکلیئر کیا جاتا ہے، قربانی صرف جانوروں کو ذبح کرنے تک محدود کر دی گئی ہے۔

الحمدللہ یہ ملک کلمہ کے نام پر بنا تھا اور ہم بھاری سے بھی بھاری اکثریت مسلمان ہیں۔ صبح کی اذان ہو رہی ہے، میں نماز کے لیے جانے لگا ہوں، نماز پڑھ لوں، پھر چاہے جو کچھ بھی کرتا رہوں گا سارا دن برکت نازل ہوتی رہے گی۔

مری میں ایک فیملی نے سردی سے بچنے اور جان بچانے کی غرض سے زیور رہن رکھے۔
ہم ہی وہ لوگ ہیں جو شیطان کی خواہش تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments