ارشد چوہدری: بے نظیر بھٹو کا پروفیسر بھی رخصت ہو گیا


دن بروز منگل 18 جنوری، سنہ 2022۔ یہ بروکلین، نیویارک کے میمونڈیز میڈیکل سنٹر کے کمرہ نمبر 724 کا منظر ہے۔ جہاں ایک بیڈ پر کرونا کی وجہ سے طبیعت بگڑنے پر لائے گئے ہمارے صحافی دوست ارشد چوہدری آکسیجن ماسک لگائے لیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے سرہانے لگی مانیٹرنگ سکرین ان کا آکسیجن لیول 93 / 94 دکھا رہی ہے۔

ہم ان کے مجھ سمیت تین دیرینہ صحافی دوست ندیم منظور سلہری اور نیو جرسی سے سلیم صدیقی ان کی عیادت کرنے کمرے میں داخل ہوتے ہیں، تو ہمیں آتے دیکھ کر ارشد چوہدری کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ چوہدری صاحب ہمارے ساتھ بات کرنے کے لیے ماسک نیچے کرتے ہیں تو مانیٹرنگ سکرین دو تین پوائنٹ اوپر نیچے کرتی دکھائی دیتی ہے۔

ارشد چوہدری ہمیں بتاتے ہیں کہ انہیں پانچ جنوری کو کرونا ٹسٹ مثبت آنے کی وجہ تکلیف شروع ہوئی۔ ہلکا بخار، گلا خراب اور کھانسی نے چند روز کافی پریشان رکھا۔ بھوک بھی کم لگتی تھی۔ جب کھانسی اور گلے کی تکلیف زیادہ بڑھی تو ان کا بیٹا شان انہیں ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے آیا۔

ڈاکٹروں نے اسے چوبیس گھنٹے ایمرجنسی میں رکھ کر مطلوبہ ٹسٹ لیے اور حالت تسلی بخش قرار دیتے ہوئے گھر بھیج دیا۔ گھر آ کر رات گئے ان کی طبیعت پھر بگڑ گئی۔ اور انہیں واپس میمونڈیز ہسپتال لے جایا گیا۔ آکسیجن لیول 86 / 85 ہونے کی وجہ سے انہیں آکسیجن ماسک لگا کر دوبارہ داخل کر لیا گیا۔

فون پر روزانہ ارشد چوہدری سے بات ہوتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بڑا مطمئن، بلند حوصلہ اور نارمل ظاہر کرتا۔ اور زیادہ تر یہی کہتا کہ بس ہلکی سی کھانسی اور گلہ خشک ہے۔ ویسے میں جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہوں۔ اگلے چند روز تک جب ان کا آکسیجن لیول 90 سے 93 کے درمیان رہا اور کوئی بہتری نہیں آئی، تو ہمیں تشویش ہوئی کہ یہ نارمل بات نہیں ہے۔

ہسپتال میں کرونا کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے کمروں میں پروٹوکول کا پورا خیال رکھا گیا تھا۔ ڈیوٹی نرس نے ہمیں پہننے کے لیے حفاظتی گاؤن دیے۔ اور ساتھ ہی کہا کہ ایسے مریضوں کی تیمارداری کے دوران این۔ 95 ماسک اور ڈسپوزیبل گاؤن پہننا لازمی ہیں۔

ارشد چوہدری صاحب ہماری موجودگی کے دوران کافی ہشاش بشاش اور پرجوش نظر آنے لگے۔ ہمیشہ سے چہرے پر مسکراہٹ ان کا خاصا رہی ہے۔ اس موقع پران کا موڈ مزید خوشگوار بنانے کے لیے میں نے کہا کہ ”چوہدری صاحب! کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لیے ہمارے ساتھ ہسپتال سے باہر چلیں۔ ہم کونی آیئلنڈ ایونیو بروکلین کے کسی پاکستانی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر اکٹھے کھانا کھائیں گے۔ پھر آپ کو واپس ہسپتال چھوڑ دیں گے“ ۔

میری یہ بات سن کر ایسی محفلوں کے دلدادہ چوہدری کا چہرہ کھل اٹھا۔ ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔ کہنے لگے، ”کیوں نہیں، باہر جانے کا کوئی حساب کتاب لگایا جا سکتا ہے، چلے چلتے ہیں“ ۔ ان کی یہ بات سن کر ساتھ کھڑے ندیم منظور سلہری نے کہا کہ ”چوہدری صاحب! خدا کا خوف کریں، آپ ہسپتال میں داخل ہیں اور آکسیجن پر ہیں۔ آپ ہسپتال سے چوری چھپے باہر کیسے جا سکتے ہیں؟ آپ انشاءاللہ چند روز میں ہسپتال سے ٹھیک ہو کر ہمارے درمیان ہوں گے، تو اس وقت ہم سارے دوستوں کو اکٹھا کر کے بھرپور طریقے سے آپ کا جشن صحت منائیں گے“ ۔

ارشد اس پر خاموش ہو گیا۔ مزید کچھ نہیں کہا۔ میں نے اسے پھر خوش کرنے کے لیے کہا کہ ”چوہدری صاحب! تین چار نئی کتابیں آئی ہوئی ہیں، جن پر آپ کے ساتھ گفتگو بھی کرنی ہے جو ظاہر ہے یہاں تو نہیں ہو سکتی۔ آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں تاکہ ان پر بھی تبصرہ کیا جا سکے“ ۔

مجھے انتہا کے کتاب دوست چوہدری کی اس کمزوری کا بخوبی پتہ تھا کہ وہ امریکہ میں چھپنے والی نئی کتابوں کے ذکر پر خوب خوش ہوتا ہے۔ خصوصاً ایسی کتابیں جو ساؤتھ ایسٹ ایشاء کے ریجن، فارن پالیسی، یا پھر سوانح عمریاں ہوں۔ کتابوں کے ذکر پر اس کے چہرے پر پھر سے مسکراہٹ آ گئی۔

پھر ان کی صحت کے حوالے سے ہلکی پھلکی باتیں ہونے لگیں، سلہری نے اس کے بیڈ کے ساتھ ٹیبل پر بے ترتیب پڑی کھانے پینے کی فالتو چیزوں کو سمیٹ کر ڈسٹ بن میں پھنکا۔ وہ اس بات پر سلیم صدیقی سے بڑے خوش تھے کہ وہ نیو جرسی سے ان کی تیمارداری کے لیے آئے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتایا کہ کل رات خواجہ فاروق اور کامران ملک بھی اس کی عیادت کرنے کے لیے آئے تھے۔ اور سرور چوہدری سمیت دیگر کئی اور دوستوں کے فون بھی آئے تھے کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ حاضر ہیں۔

ہم کوئی پینتیس چالیس منٹ ارشد کے پاس گزار کر واپس آنے لگے اور انہیں ہاتھ ملائے بغیر خدا حافظ کہا، تو وہ مجھے بجھے بجھے سے نظر آنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی واضح طور پر جھلک رہی تھی۔ کچھ میرا بھی ایسا ہی حال تھا۔ جس کو میں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا۔

میں نے چند سیکنڈ کے اندر کرونا لگنے کے خوف سے اپنے آپ کو باہر نکالا۔ کرونا کے حفاظتی پروٹوکولز کی پرواہ کیے بغیر میں باہر کے دروازے کی جانب قدم بڑھانے کی بجائے واپس ارشد کی جانب مڑا، اس کے بیڈ کے قریب آ کر ہاتھ ملانے کے لیے اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی چوہدری کی جانب بڑھا دی۔ اس نے بھی جواب میں اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائی اور میری مٹھی سے ٹکرا دی۔

میں نے ایسا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی، اس کی آنکھوں میں میرے اس خیر سگالی عمل سے ایک چمک سی آ گئی۔ وہ مجھے اور زیادہ روشن روشن سی لگنے لگیں۔ ہلکی سی بھرائی ہوئی آواز میں مجھ سے صرف اتنا ہی کہا جا سکا کہ

” توسیں چھیتی ٹھیک ہو جاؤ گے چوہدری صاحب!
اسیں دوبارہ آنواں گے۔ اللہ حافظ ”۔

ارشد چوہدری سے میری یہی آخری ملاقات تھی۔ البتہ اگلے چند روز فون پر بات اور ٹیکسٹ میسنجر کا تبادلہ ہوتا رہا۔ البتہ ندیم سلہری ایک دو بار دوبارہ اس سے ملنے گیا اور مسلسل اس کی دلجوئی کرتا رہا۔

25 جنوری کو صبح ساڑھے سات بجے ارشد کی سلہری کو آخری کال آئی کہ دل اداس ہے، ملنے کو جی کرتا ہے۔ آج شام مجھے ملو ”۔ تاہم سلہری اس دن ملنے نہ جا سکا۔ ارشد کا بیٹا صبح و شام اس کے پاس کچھ وقت گزارتا اور واپس اپنی ماں کی نگہداشت کے لیے گھر چلا جاتا۔ کرونا تو تینوں باپ، ماں بیٹے کو ہوا تھا۔ مگر ماں بیٹا تو ٹھیک ہو گئے۔ مگر ارشد اس کی لپیٹ میں روز بروز آتا چلا گیا۔

ہسپتال میں ایک تو بیماری اور دوسرا تنہائی اسے اندر ہی اندر مار رہی تھی۔ وہ تو محفلوں کا رسیا، یار باش آدمی تھا۔ میں نے 25 جنوری کی شام ارشد کو میسج کیا کہ آپ کیسے ہیں؟ اس کا مجھے جواب نہیں آیا۔ البتہ یہ شو ہو رہا تھا کہ میسج پڑھ لیا گیا ہے۔ 26 جنوری کو صبح 9 : 54 پر اس کے نمبر سے میسج آیا کہ ”وہ شان، ارشد کا بیٹا ہے اور اس کے والد کو گزشتہ رات وینٹیلیٹر پر ڈال دیا گیا ہے“ ۔ وینٹیلیٹر کا سنتے ہی خوف سے مجھے جھرجھری سی آ گئی۔ ہم سب جو پرامید ہو چلے تھے۔ اب سبھی دوستوں کی امیدیں دم توڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

مزید استفسار پر شان نے مجھے بتایا کہ ”گزشتہ رات اس کے والد کا آکسیجن لیول 75 / 74 پر آ گیا تھا جس کی بنا پر ڈاکٹروں نے اسے فوری طور پر وینٹیلیٹر پر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آکسیجن لیول کم ہونے سے اس کے گردے اور جگر بھی متاثر ہوا ہے۔ رات کو اسے بخار بھی ہوا تھا جو اب کم ہو گیا ہے تاہم ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے“ ۔

چوہدری کے وینٹیلیٹر پر جانے کا جس جس کو بھی پتہ چلا وہ تھوڑا مایوس ہی نظر آیا۔ اسے مسلسل بے ہوش رکھا جا رہا تھا۔ خوراک کی نالی بھی لگا دی گئی تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ سے کسی معجزے کی توقع تھی کہ وہ زندگی کی طرف واپس لوٹ آئے گا۔ سبھی اس کی صحت یابی کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔

28 جنوری کو میں نے ارشد چوہدری کی تشویش ناک صحت کے متعلق اپنے جذبات عزیز دوست ندیم سلہری سے شیئر کرتے ہوئے اسے میسج سنڈ کیا کہ ”ارشد چوہدری۔ زندگی کی رعنائیوں اور شادابیوں سے بھرپور ایک بہت پیارا دوست اس وقت انتہائی تکلیف میں مبتلا ہے۔ موت تیزی سے ہمارے دوست کا تعاقب کر رہی ہے اور ہم بے بسی سے اسے مٹھی سے ریت کی مانند جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کوئی معجزہ اے خدا“ !

سلہری مجھ سے اور میں اس سے اپنے دکھ کا اظہار کرتا۔ اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہتے۔ 30 / 29 جنوری کو نیویارک اور امریکہ کے دیگر حصوں میں شدید برفباری ہوئی۔ ایسی ہی ہوتی برفباری جو کہ ارشد چوہدری کو بہت پسند تھی کے دوران جب ارشد کے چلے جانے کا خوف اور دکھ شدت اختیار کر گیا تو بے اختیار یہ ٹوٹی پھوٹی سی نظم ارشد کی برفباری کے دوران لی گئی ایک تصویر کے ساتھ فیس بک پر شیئر کر دی۔

ارشد چوہدری!
بیڈ سے اٹھو!
ہسپتال کو چھوڑو
دیکھو یار نیویارک میں آج
برفباری پھر سے ہوئی ہے
وہ تمہاری منتظر ہے کہ
تم زندگی کی تمام تر
رعنائیوں اور شادابیوں
کے ساتھ آؤ اور
اسے پیار کرو
اٹھو چوہدری یار!

(بروکلین، نیویارک کے میڈیکل سنٹر کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں وینٹیلیٹر پر ڈالے گئے عزیز دوست کی یاد میں )

ہم سب کی دعائیں قبول نہ ہوئیں۔ قدرت کے اپنے فیصلے ہیں۔ جو اٹل ہیں۔ 31 جنوری بروز سوموار کی صبح کو ارشد چوہدری کے بیٹے شان کو ہسپتال سے کال موصول ہوئی کہ ”7 : 38 پر آپ کے والد کے دل نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ جس پر انہیں وینٹیلیٹر سے ہٹا کر دل کو شاک لگایا گیا۔ جس کی وجہ سے دل نے دوبارہ دھڑکنا شروع کر دیا۔ تاہم 8 : 30 پر دوبارہ ان کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔ اور وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے“ ۔

31 جنوری کو بروکلین کے علاقے برائٹن بیچ کی عمر مسجد میں ارشد چوہدری کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جس میں نیویارک، نیو جرسی، لانگ آیئلنڈ، اور ویسٹ چیسٹر سمیت دیگر علاقوں سے ان کے دوستوں، صحافی برادری سمیت پاکستانی کمیونٹی کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ نمایاں شخصیات میں ان کے صحافی دوستوں، عظیم ایم میاں، آفاق خیالی، ندیم منظور سلہری، محسن ظہیر، مجیب لودھی، فاروق مرزا، خواجہ فاروق سمت دیگر نے شرکت کی۔ پاکستانی مشن برائے اقوام متحدہ کے ایک نمائندہ نے بھی ارشد چوہدری کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔

دو دن پہلے ہوئی برفباری کے باوجود عمر مسجد اس کا آخری دیدار کرنے والوں سے بھری ہوئی تھی۔ جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ارشد چوہدری نے اور کچھ کمایا یا نہیں، تاہم اس نے دوست خوب بنائے۔ وہ محبتیں اور مسکراہٹیں بانٹنے والا شخص تھا۔ اپنی بیس سالہ دوستی میں، میں نے اسے سبھی سے پیار اور سبھی کی مدد کرنے والا ایک مہربان اور بے ضرر شخص پایا۔

ارشد چوہدری کی یکم فروری کو ارشد چوہدری کی میت تدفین کے لیے امارات کی پرواز کے ذریعے پاکستان روانہ کر دی گئی جہاں 2 فروری بروز بدھ کو اسے ماہی شاہ قبرستان ساہیوال میں دوبارہ نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ ارشد کے والدین کی وفات بھی نیویارک میں ہی ہوئی تھی اور ان کے جسد خاکی بھی تدفین کے لیے ساہیوال لے جائے گئے تھے۔

38 سال پہلے ارشد چوہدری سنہ 1984 میں ساہیوال سے امریکہ آئے تھے، آج اسی شہر کی مٹی کا مکین ہونے کے لئے وہیں واپس لوٹ گئے۔

گزشتہ بیس سال بطور صحافی نیویارک میں ہمارے ارشد چوہدری صاحب کی رفاقت میں گزرے۔ گزشتہ اڑتیس سال سے امریکہ میں مقیم ہونے کے باوجود وہ کبھی بھی ساہیوال کو اپنے دل سے نہیں نکال سکا۔ ساہیوال کے اپنے دیگر دوستوں کے علاوہ وہ دین محمد درد، شکیل قمر، ڈاکٹر جاوید کنول، آئیون راجکمار اور خصوصاً ”کیفے ڈی روز“ کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک بے رعا، مخلص اور صحافیوں کی نایاب ہوتی نسل کا ایک خوبصورت انسان ہم سے رخصت ہوا۔

ارشد چوہدری 2 اکتوبر 1956 کو ساہیوال شہر میں پیدا ہوئے۔ مقامی سکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے انہوں نے ایم اے جرنلزم کیا۔ علمی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں میں انہوں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں دوران تعلیم ہی حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ ان کا اصل نام تو محمد ارشد محمود تھا، ابتداء میں انہوں نے ارشد محمود یاسر کے نام سے کچھ افسانے اور کہانیاں بھی لکھیں اور صحافت میں بھی یہ نام استعمال کرتے رہے۔ تاہم بعد ازاں وہ زیادہ تر ارشد چوہدری کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے رہے۔

ساہیوال سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اور آج کل نوائے وقت لاہور سے منسلک دین محمد درد کے بقول ”ارشد محمود (پرنس) المعروف ارشد محمود یاسر، میرا قریبی دوست اور میرا ہمدرد تھا۔ اسے ادب اور صحافت سے لگاؤ تھا۔ انہوں نے صحافت میرے مشورے سے شروع کی۔ حلقہ ارباب قلم پنجاب (رجسٹرڈ) کے وہ بنیادی عہدیدار تھے۔ ساہیوال میں ان کا زیادہ تر وقت میرے ساتھ گزرتا تھا۔ ایک سال قبل جب وہ پاکستان آئے تو لاہور پریس کلب میں میری طرف سے ان کے اعزاز میں ایک خصوصی نشست رکھی گئی تھی۔ جو یادگار تھی“ ۔

سنہ 1984 میں ارشد نے امریکہ آنے کے لیے اپنا رخت سفر بندھا۔ ابتداء میں وہ انگلینڈ آئے، اور وہاں مانچسٹر میں اپنے دوستوں ملک شیر افضل اعوان اور شکیل قمر کے ہمراہ کچھ وقت گزارا۔ شکیل قمر نے مجھے بتایا کہ ”ارشد چوہدری ان کا 1970 ء کی دہائی سے ساہیوال میں دوست تھا۔ انہیں اس کی وفات کا سن کر بہت افسوس ہوا ہے۔ جب ارشد انگلینڈ آیا تو انہوں نے ارشد چوہدری سے بار بار یہ کہا تھا کہ اب انگلینڈ پہنچ گئے ہو تو یہیں رک جاؤ، مگر وہ امریکہ جانے کے لیے بضد رہا اور جو وہ چاہتا تھا اس نے کر بالآخر دکھایا“ ۔

ارشد چوہدری سنہ 1984 ء میں امریکہ پہنچے۔ انہوں نے امریکہ میں نیویارک شہر کے علاقے بروکلین میں ’برائیٹن بیچ‘ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ امریکہ میں اپنے قیام، 1984 ء سے لے کر اپنی وفات، 2022 تک نیویارک کے علاقے ”برائیٹن بیچ“ میں ہی مقیم رہے۔ اسی علاقے میں ان کی زیادہ تر دوستیاں بنیں۔ برائیٹن بیچ کے کنارے بوٹ واک پر شام کی سیر ان کا سالوں معمول رہا۔ جس میں بعد ازاں سرور چوہدری، شیخ صادق اور خواجہ فاروق بھی ان کا ساتھ دیتے رہے۔

امریکہ میں اپنے قیام کے ابتدائی مہینوں سے ہی انہوں نے یہاں کی ادبی محفلوں میں جانا شروع کر دیا تھا۔ مقامی اخبارات میں کالم نگاری بھی شروع کر دی۔ جس کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ انہوں نے کم و بیش 25 سال ”روزنامہ پاکستان“ لاہور کے لیے بطور بیورو چیف نیویارک سے کام کیا۔

الیکٹرانک میڈیا کے فعال ہونے کے بعد سے وہ گزشتہ چند سالوں سے، پہلے ”کیپٹل ٹی وی“ اور آج کل ”ہم نیوز کے لیے بھی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ نیویارک کے مقامی اخبارات ہفت روزہ“ پاکستان پوسٹ ”اور ہفت روزہ“ آواز ”میں وہ کالم بھی لکھتے رہے۔ انہوں ’ویرا نیوز‘ کے نام سے اپنا پیج بھی بنا رکھا تھا۔

1993 ء میں برائٹن بیچ کے علاقے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فارماسسٹ سرور چوہدری نے اپنی فارمیسی شروع کی۔ تو ان کی فارمیسی کمیونٹی کے میل ملاپ کا ایک ذریعہ بھی بن گئی۔ سرور چوہدری نے مجھے بتایا کہ ”یہیں ارشد چوہدری سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی، جو بعد ازاں گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ ارشد سے اس کی وفات تک یہ رشتہ قائم رہا۔ ہم نیویارک اور نیو جرسی میں ہونے والی تقریبات میں اکٹھے جاتے۔ بعد ازاں خواجہ فاروق اور انجنئیر شیخ صادق (ملتانی) بھی اس گروپ میں شامل ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشد کا سب سے زیادہ وقت انہی کے ساتھ گزرا تھا۔ کئی بار آپس میں ناراضگی بھی ہو جاتی، جو زیادہ طویل نہ ہوتی۔ پھر آپس میں پہلے جیسے ہو جاتے۔ پروفیسر ارشد چوہدری کے جانے کا انہیں گہرا صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

سرور چوہدری ایک طویل عرصہ پاکستان پیپلز پارٹی نیویارک کے صدر بھی رہے۔ سرور چوہدری نے مزید بتایا کہ انہوں نے ارشد چوہدری کی علمی ادبی اور صحافتی صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں ”پروفیسر“ کہنا شروع کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کے دیگر کئی قریبی دوست بھی انہیں ”پروفیسر“ کے نام سے پکارنے لگے۔

کئی سال پہلے پیپلز پارٹی نیویارک کی ایک تقریب میں، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی، میں چوہدری سرور  نے ارشد چوہدری کا تعارف محترمہ بے نظیر بھٹو سے پروفیسر ارشد چوہدری کہہ کر کروایا۔ جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی انہیں پروفیسر کہنا شروع کر دیا۔ نیویارک میں جب بھی کسی پریس کانفرنس میں یا پارٹی میٹنگ میں ارشد چوہدری سے بطور صحافی بی بی ملتیں تو انہیں ”ہیؤ آر یو پروفیسر“؟ کہہ کر مخاطب کرتیں۔

صحافی ارشد چوہدری چونکہ کتابوں کی دنیا کے آدمی تھے۔ ہر نئی آنے والی کتاب پر ان کی گہری نظر ہوتی۔ مقامی بڑے اخبارات و جرائد پر وہ روزانہ کی بنیاد پر ضرور نگاہ ڈالتے تھے۔ اپنے اسی شوق کی وجہ سے انہوں نے بہت سی اچھوتی خبریں بھی بریک کیں۔ جنرل مشرف کی 2007 ء میں شائع ہونے والی کتاب ”In the Line of Fire“ انہوں نے نیویارک میں اپنے ذرائع سے قبل از وقت حاصل کر کے اس کے اقتباسات اپنے اخبار ’روزنامہ پاکستان‘ میں میں شائع کر دیے تھے۔ یہ ان کے کریڈٹ پر ایک اچھا سکوپ تھا۔ جیو نیوز کے عظیم ایم میاں اور سمیع ابراہیم نے اس حوالے سے ان کا انٹرویو بھی چلایا تھا۔

انہیں عالمی امور سے متعلقہ جو اچھا آرٹیکل کسی میگزین میں یا اخبار میں مل جاتا تو وہ اس کی فوٹو کاپی کروا لیتے، اور جب محترمہ اپنے دورے پر نیویارک آتیں تو وہ آرٹیکل کی فائل انہیں پیش کر دیتے۔ جس پر محترمہ بے حد خوش ہوتیں اور ان کا شکریہ ادا کرتیں۔ اس وجہ سے بھی وہ ارشد چوہدری کی عزت کرتی تھیں کہ وہ پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں۔

امریکہ میں جنگ، جیو اور دی نیوز کے سینئر صحافی عظیم ایم۔ میاں نے ارشد چوہدری کی نیویارک میں نماز جنازہ کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”ارشد چوہدری ایک شریف اور سفید پوش آدمی تھا۔ وہ اکثر مجھے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب لکھنے پر آمادہ کرتا رہتا تھا، اللہ اس کی مغفرت فرمائے“ ۔

ہفت روزہ ’اردو نیوز‘ نیویارک کے ایڈیٹر اور کمیونٹی کی معروف میڈیا شخصیت محسن ظہیر نے ارشد چوہدری کی وفات پر کہا کہ ”ارشد چوہدری بنیادی طور پر علم اور کتاب کا آدمی تھا۔ وہ اکثر میرے ساتھ پرانی اور نئی آنے والی کتب شیئر کرتا رہتا تھا۔ پچھلے بائیس سے اس سے ایک محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم رہا۔ وہ بے ضرر اور یار باش آدمی تھا۔ اس کی وفات پر وہ دکھی ہے“ ۔

ارشد چوہدری کے نیویارک میں پرانے دوست اور ’ڈیلی پاک وطن‘ کے چیف ایڈیٹر سید زاہد شہباز نے کہا کہ ”وہ ارشد چوہدری کی وفات پر افسردہ ہیں۔ کاش وہ ویکسین لگوا لیتے۔ تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

1990 ء کی دہائی میں ارشد چوہدری نے نیویارک میں ایک امریکی سفید فام خاتون ڈونا۔ این۔ اینڈریسن سے شادی کی۔ تاعمر یہی ان کی واحد شادی رہی۔ اس شادی کو انہوں آخری عمر تک نبھایا۔ ان کا ایک ہی 30 سالہ بیٹا ہے جس کا نام شان محمود ہے۔

میرا تعلق ارشد محمود چوہدری سے 2001 ء میں بنا جب میں پہلی بار بطور صحافی امریکہ آیا تھا۔ مشترکہ صحافی دوست ندیم منظور سلہری نے پہلی بار ارشد چوہدری سے میری ملاقات کرائی تھی۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ ندیم منظور سلہری کی بھی ارشد چوہدری سے پہلی ملاقات چوہدری سرور کی ’نیپچون‘ فارمیسی پر ہوئی تھی۔ یہ ملاقات بعد ازاں گہری دوستی میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ ارشد چوہدری ایک درویش منش آدمی تھا۔ سنتیں اڑتیس سال امریکہ میں رہا کوئی بنک بیلنس یا پرائرٹی نہیں بنائی۔ اتنا ہی کام کرتا جس سے بس گزارا ہو سکے۔

گزشتہ بیس سال بطور صحافی نیویارک میں ہمارا زیادہ تر وقت ارشد چوہدری اور صحافی دوست ندیم منظور سلہری کی رفاقت میں گزرا۔ اکٹھے تقریبات میں جانا اور بعد ازاں خبریں تیار کرنیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارا فون پر رابطہ رہتا۔ اور نیوز سٹوریز اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا جاتا۔

اقوام متحدہ میں سالانہ (ستمبر، اکتوبر) جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر جب روزویلٹ ہوٹل نیویارک میں پاکستان سے آئے صحافیوں اور واشنگٹن اور نیویارک میں موجود صحافیوں کا میلہ سا لگ جاتا۔ تو یہ وقت سبھی کے لیے ایک دوسرے سے ملنے ملانے کے لیے غنیمت ہوتا۔ پرانی باتیں اور یادیں ایک دوسرے سے شیئر کی جاتیں۔ ہر کوئی خبر پہلے فائل کرنے کے چکر بھاگ دوڑ کر رہا ہوتا۔

سال ہا سال یہ معمول رہا کہ میں، ندیم منظور سلہری اور ارشد چوہدری زیادہ تر شام کے بعد کانفرنس کال میں آ جاتے۔ اور مختلف امور پر لمبا بحث و مباحثہ ہوتا۔ آپس میں کئی بار گلے شکوے اور ناراضگیاں بھی ہو جاتیں۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد پھر سے شیر و شکر ہو جاتے۔ ارشد چوہدری کے چلے جانے کے بعد جب مسکراہٹوں سے مزین اس کی تصویریں نظروں کے سامنے آتی ہیں تو دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ ارشد کے جانے کا دکھ بڑا بے چین کرتا ہے۔

ارشد چوہدری کا پاکستان آنے سے پہلے زیادہ تر وقت ساہیوال شہر میں گزرا۔ جہاں ان کی نشستیں معروف کمپیئر طارق عزیز، چوٹی کے شعراء منیر نیازی، مجید امجد کے ساتھ بھی ہوتی رہیں۔ جن کا احوال وہ ہمیں اکثر سنایا کرتے تھے۔ ساہیوال ہمیشہ ان کے دل کے اندر بستا رہا۔ گزشتہ سال وہ اڑھائی تین ماہ پاکستان رہ کر واپس آئے۔ تو ہمیں بتاتے رہے کہ یار میں جو ساہیوال چھوڑ کر آیا تھا۔ اسے تو میں ڈھونڈتا ہی رہا ہوں۔ وہ پرانا ساہیوال مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ اب تو بڑی بڑی کمرشل بلڈنگز اور شاپنگ پلازوں نے پرانے ساہیوال کا حسن گہنا دیا ہے۔ وہ کئی ماہ اس بات پر آزردہ رہے۔ اپنے پسندیدہ شاعروں، منیر نیازی اور مجید امجد کے دو شعر وہ ہمیں اکثر لہک لہک کر سنایا کرتے تھے۔

اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
(منیر نیازی)
مہکتے میٹھے مستانے زمانے
کب آئیں گے وہ من مانے زمانے
(مجید امجد)

ارشد چوہدری ساہیوال میں پریس کلب کے بانی ممبران میں سے تھے۔ اب شاید ساہیوال میں نئے آنے والے صحافیوں کو ان کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ساہیوال کے ماہی شاہ قبرستان میں ان کی نماز جنازہ اور تدفین کے بعد ان کے ایک پرانے دوست نے فیس بک پر لکھا کہ ”چوہدری صاحب کے جنازے میں ساہیوال کے مقامی صحافی کم تعداد میں شریک ہوئے۔ جو کہ افسوس ناک امر ہے“ ۔

ارشد چوہدری کی وفات پر پاکستان مشن برائے اقوام متحدہ نیویارک میں مستقل مندوب منیر اکرم، قونصل جنرل نیویارک، عائشہ علی اور پاکستان مشن برائے اقوام متحدہ نیویارک میں پریس قونصلر ڈاکٹر مریم شیخ نے ارشد چوہدری کی میڈیا خدمات کے اعتراف میں مرحوم کی اہلیہ اور بیٹے کے نام تعزیتی پیغامات جاری کیے ہیں۔ ڈاکٹر مریم شیخ نے مجھے بتایا کہ سفیر منیر اکرم نے انہیں خاص تاکید کی کہ وہ ان کی طرف سے تعزیتی بیان جاری کریں۔

ایمبیسڈر منیر اکرم نے اپنے تعزیتی پیغام میں سینئر صحافی ارشد چوہدری کی وفات پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”مرحوم نے صحافت کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اقوام متحدہ کے سالانہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں باقاعدگی سے صحافتی کردار ادا کیا۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ارشد چوہدری کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ دے“ ۔

اقوام متحدہ، پاکستان مشن نیویارک میں تعینات پریس قونصلر ڈاکٹر مریم شیخ نے ارشد چوہدری کی وفات پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ

” میں اپنے ساتھی اور سینئر صحافی جناب ارشد چوہدری کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہوں۔ میں ان کے دوستوں اور لواحقین کے ساتھ اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کرتی ہوں۔ ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ میں اقوام متحدہ، نیویارک میں پاکستانی مشن کی جانب سے بھی تعزیت کا اظہار کرتی ہوں۔ میڈیا کمیونٹی کے لیے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

پاکستان قونصلیٹ نیویارک کی قونصل جنرل عائشہ علی نے مرحوم ارشد چوہدری کے بیٹے مسٹر شان کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ

”اپنے والد کے انتقال پر میری طرف سے دلی تعزیت قبول کریں۔ وہ ایک تجربہ کار صحافی اور ہماری کمیونٹی کا ایک حقیقی ستون تھے۔ وہ اپنے ساتھی پاکستانیوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ یہ واقعی ہماری کمیونٹی کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے، جیسا کہ یہ نقصان ان کے خاندان اور دوستوں کے لیے ہے۔ میں اور ہمارے قونصلیٹ کے ممبران مرحوم کی روح کے لیے دعا میں آپ اور کمیونٹی کے دیگر افراد کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ اور خدا آپ کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرے“ ۔

پاکستانی کمیونٹی نیویارک اور خصوصاً نیویارک کی صحافتی برادری کے بعض حلقوں نے پاکستان سفارت خانہ واشنگٹن میں تعینات سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان، پریس اتاشی ملیحہ زرگام اور پریس قونصلر سرفراز حسین کی جانب سے اختیار کی جانے والی بے حسی اور سرد مہری پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ نیویارک میں ایک سینئر پاکستانی جرنلسٹ کی وفات پر ان کی جانب سے کسی قسم کا اظہار افسوس یا تعزیتی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

2020 ء کے آج ہی کے دنوں میں اڑھائی تین ماہ پاکستان میں گزارنے کے بعد ارشد چوہدری واپس نیویارک پہنچے، تو مجھ سے پوچھ کر میری پسندیدہ کتابیں میرے لیے لے کر آئے۔ ان کا دل اور ظرف بڑا وسیع تھا۔ کسی دوست کی کوئی تحریر یا خبر چھپتی، تو کھل کر داد دیتے۔ حسد، بغض اور کینہ پروری سے کوسوں دور وہ ایک بے رعا اور اجلی شہرت کے آدمی تھے۔ ان کے ساتھ ہمارے بیتے ماہ و سال کی یادیں اور باتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اتنی ہی بڑی ایک تحریر اور بن سکتی ہے۔

کچھ لوگ شمع محفل نہیں ہوتے مگر جب محفل سے اٹھ جاتے ہیں تو محفل سونی سونی سی لگتی ہے۔ ارشد چوہدری بھی ایسی ہی شخصیت تھے۔ گڈ بائے۔ ارشد چوہدری!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments