معزز طوائف از ژاں پال سارتر


تخلیق۔ ژاں پال سارتر
ترجمہ۔ خالد سہیل

امریکہ کے جنوبی شہر کا کمرہ۔ سفید دیوار دائیں طرف۔ کھڑکی بائیں طرف۔ غسل خانے کا دروازہ اور پشت پر ایک راہداری جو گلی کی طرف جاتی ہے۔ لزی کمرے میں اکیلی ہے ، نیم برہنہ، ویکیوم کلینر سے کمرے کی صفائی کر رہی ہے۔ دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔ پہلے ہچکچاتی ہے۔ پھر غسل خانے کے دروازے کی طرف نگاہ اٹھاتی ہے۔ گھنٹی دوبارہ بجتی ہے۔ لزی کلینر کو بند کر کے ایک طرف رکھتی ہے اور غسل خانے کا دروازہ آدھا کھولتی ہے۔

لزی (سرگوشی کے انداز میں ) کوئی گھنٹی بجا رہا ہے۔ باہر مت نکلنا۔

(وہ دروازہ کھولتی ہے ) ایک نیگرو دروازے پر دکھائی دیتا ہے۔ وہ دراز قد ہے۔ اس کے بال سفید ہو رہے ہیں۔

” کیا بات ہے تمہارے پاس شاید غلط پتہ ہے۔ تم کیا چاہتے ہو؟ بولو تو سہی“
نیگرو ( ملتجیانہ انداز میں ) ”مہربانی کر کے محترمہ مہربانی کر کے“

لزی: مہربانی کر کے کیا کروں؟ ( اسے دوبارہ غور سے دیکھتی ہے ) ایک منٹ ٹھہرو۔ کیا تم وہی شخص ہو جو ریل گاڑی میں نظر آئے تھے تو کیا تم ان کے ہاتھوں سے بھاگ نکلے۔ تمہیں میرا گھر کیسے ملا؟

نیگرو: میں تلاش کرتا رہا محترمہ میں ہر جگہ دیکھتا رہا۔ (وہ اندر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے ) مہربانی کر کے!

لزی: اندر مت آؤ۔ میرے پاس کوئی اور شخص ہے۔ تم آخر چاہتے کیا ہو؟
نیگرو: مہربانی کر کے
لزی: مہربانی کر کے کیا؟ کیا تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے؟
نیگرو: نہیں محترمہ صرف انہیں اتنا بتا دو کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔
لزی: کس کو بتا دوں؟
نیگرو: جج کو۔ اتنا احسان کرو اس کو بتا دو۔
لزی: میں اسے کچھ نہیں بتاؤں گی
نیگرو: کچھ تو خیال کرو۔

لزی: میں نے کچھ نہیں کرنا۔ میں کسی کی مصیبتیں مول لینے کو تیار نہیں۔ میرے پاس اپنی ہی بہت سی ہیں۔ بس بات ختم کرو۔

نیگرو: تم جانتی ہو کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ کیا میں نے کچھ کیا ہے؟

لزی: کچھ نہیں۔ لیکن میں جج کے پاس جانے کی نہیں۔ ججوں اور سپاہیوں کو دیکھ کر میری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے۔

نیگرو: میں اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں ساری رات جاگتا اور چھپتا پھرا ہوں۔ میں تھک کر نڈھال ہو چکا ہوں۔

لزی: شہر سے باہر نکل جاؤ۔
نیگرو: وہ سب چوکیوں پر میری تلاش کر رہے ہیں۔
لزی: کون لوگ؟
نیگرو: گورے۔
لزی: کون سے گورے؟
نیگرو: سب کے سب۔ کیا تم آج صبح گھر سے باہر نکلی ہو؟
لزی: نہیں

نیگرو: گلیاں گوروں سے بھری پڑی ہیں۔ ہر قسم کے گورے۔ بوڑھے جوان۔ وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے پھر بھی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔

لزی:اس کا کیا مطلب ہے؟

نیگرو: اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس وقت تک بھاگتا پھروں گا جب تک وہ مجھے گرفتار نہ کر لیں جب گورے اجنبی بھی آپس میں باتیں کرنے لگے تو اس کا مطلب ہے کہ نیگرو کی موت قریب ہے۔ تم ان سب کو کہہ دو میں نے کچھ نہیں کیا۔ جج کو ، لوگوں کو، اخبار والوں کو۔ شاید وہ تمہاری بات چھاپ دیں۔ انہیں بتا دو نہ۔

لزی: چیخو مت۔ میرے گھر میں کوئی اور بھی ہے۔ اخبار والوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہ مجھے عدالت میں بلائیں گے تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ سچ سچ بتا دوں گی۔

نیگرو: کیا تم انہیں بتاؤ گی کہ میں نے کچھ نہیں کیا؟
لزی: ہاں
نیگرو: محترمہ کیا تم قسم کھا کر کہتی ہو؟
لزی: ہاں
نیگرو: خدا گواہ ہے جو ہم سب پر نظر رکھتا ہے۔
لزی: بس اب بہت ہو چکی یہاں سے تم بھاگ جاؤ
نیگرو: کیا تم مجھے چھپاؤ گی نہیں؟
لزی: تمہیں چھپاؤں؟
نیگرو: دیکھو محترمہ چھپا لو نا

لزی: تمہیں چھپاؤں اور میں۔ میں تمہیں سب پر عیاں کروں گی۔ (دروازے کو زور سے بند کرتی ہے ) قصہ ختم ہوا۔ ( غسل خانے کی طرف دیکھتے ہوئے ) اب تم باہر آ سکتے ہو۔

فریڈ: وہ کون تھا؟
لزی: کوئی نہیں
فرید: میں سمجھا پولیس تھی۔
لزی: پولیس! کیا پولیس تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے؟
فریڈ: میرے پیچھے! نہیں میں نے سوچا شاید تمہارے لیے۔
لزی: (ناراضگی سے ) تمہاری یہ ہمت۔ میں نے آج تک کسی کا ایک پیسہ نہیں لیا۔
فریڈ: کیا پولیس نے تمہیں کبھی بھی گرفتار نہیں کیا؟
لزی: کم ازکم چوری کے لئے نہیں۔ وہ دوبارہ کلینر اٹھا کر کمرے کی صفائی شروع کر دیتی ہے۔

فریڈ: ( شور سے جھنجھلاتے ہوئے ) سنو تو
لزی: زور سے چیختے ہوئے کیا بات ہے پیارے۔
فریڈ : ( چیختے ہوئے ) تم میرے کانوں کے پردے پھاڑ دو گی۔
لزی: ( چیختے ہوئے ) میں ابھی کام ختم ہی کرنے والی ہوں۔ میری یہ عادت ہے
فریڈ: (چیختے ہوئے ) کیا؟
لزی: ( چیختے ہوئے ) میں کہہ رہی ہوں میری ایسی ہی طبیعت ہے۔
فریڈ: ( چیختے ہوئے ) کیسی طبیعت؟

لزی: (چیختے ہوئے ) میں ہر صبح غسل کرتی ہوں اور کلینر سے کمرے کی صفائی کرتی ہوں۔ ( وہ کلینر کو چھوڑ کر کمرے میں داخل ہوتی ہے )

فریڈ: (بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) تم وہاں گئی ہو تو بستر پر چادر ڈال دو۔
لزی: کیا؟
فریڈ: بستر کو چھپا دو۔ اس سے گناہ کی بو آ رہی ہے۔

لزی: گناہ؟ تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟ کیا تم ایک پادری ہو؟ تم انجیل سے باتیں کرتے ہو ( اس کی طرف دیکھتی ہے ) نہیں تم پادری نہیں ہوسکتے۔ تم خوش لباس ہو۔ مجھے اپنی انگوٹھیاں دیکھنے دو۔ ( تعریف کے انداز میں ) خوبصورت ہیں۔ کیا تم رئیس آدمی ہو؟

فریڈ: ہاں
لزی: بہت امیر؟
فریڈ: ہاں بہت

لزی: بہت بہتر ( بڑھ کر اس کے ہونٹوں کو بوسہ دیتے ہوئے ) مرد امیر ہو تو اچھی بات ہے۔ عورت محفوظ محسوس کرتی ہے۔ (وہ اسے سینے سے لگا نے ہی والا ہوتا ہے تو رک جاتا ہے )

فریڈ: بستر پر کپڑا ڈال دو

لزی: اچھا بھئی چھپائے دیتی ہوں۔ ( بستر پر کپڑا ڈالتے ہوئے دل ہی دل میں ہنستی ہے ) اس سے گناہ کی بو آتی ہے۔ تمہیں اس کا کیا پتہ۔ یہ تمہارا گناہ ہے پیارے۔ ( فریڈ سر ہلاتا ہے ) ہاں میرا بھی ہے لیکن میرے ضمیر پر اور بھی کتنے بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ بستر پر بیٹھ کر فریڈ کو ساتھ بٹھاتی ہے ) آؤ بیٹھ جاؤ اپنے گناہ پر بیٹھ جاؤ۔ بہت پیارا گناہ ہے۔ ہے نا؟ اپنی آنکھیں ایسے نہ جھکاؤ۔ کیا تمہیں مجھ سے خوف آتا ہے؟ (فریڈ اسے اپنے ساتھ بڑی بے دردی سے دباتا ہے۔

تم مجھے تکلیف پہنچا رہے ہو مجھے اذیت ہو رہی ہے۔ (فریڈ اسے چھوڑ دیتا ہے ) تم عجیب مسخرے آدمی ہو۔ تم برے موڈ میں لگتے ہو۔ ( تھوڑی دیر کے بعد ) تم اپنا پہلا نام بتاؤ۔ نہیں بتانا چاہتے۔ مجھے اس سے الجھن ہوتی ہے کہ مجھے تمہارا پہلا نام نہیں معلوم۔ ایسا اتفاق پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اکثر لوگ مجھے اپنا خاندانی نام نہیں بتاتے۔ اس کی تو مجھے سمجھ آتی ہے۔ لیکن تم! اگر مجھے پہلے نام کا علم نہ ہو تو ایک مرد کی دوسرے سے کیسے تمیز کر پاؤں گی۔ دیکھو پیارے بتا دو نہ۔

فریڈ : نہیں

لزی: چلو تم بے نام ہی سہی۔ ( وہ اٹھتی ہے ) کچھ دیر ٹھہرو میں چیزوں کو ترتیب دے لوں۔ (چیزوں کو ترتیب دیتی ہے ) اب ہر چیز سلیقہ سے ہے۔ کرسیاں میز کے گرد۔ کیا تم کسی ایسے شخص کو جانتے ہو جو تصویریں بیچتا ہو؟ دیوار پر تصویریں ہوں تو اچھی لگیں۔ میرے صندوق میں ایک پڑی ہے اس کا نام ہے ٹوٹی صراحی۔ اس میں ایک لڑکی دکھائی گئی ہے جس سے اپنی صراحی ٹوٹ جاتی ہے۔ بے چاری وہ فرانسیسی ہے۔

فریڈ: کس قسم کی صراحی؟

لزی: مجھے کیا خبر۔ وہ اس لڑکی کی صراحی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میری ایک دادی ہوتی جو اپنی پوتی کو کہانی سناتی۔ میں پردہ ہٹا دوں اور کھڑکی کھول دوں تو اچھا رہے۔ ( وہ ایسا ہی کرتی ہے ) باہر موسم سہانا ہے کتنا اچھا دن ہے۔ ( وہ انگڑائی لیتی ہے ) میری طبیعت کتنی ہشاش بشاش ہے۔ کتنا پیارا دن ہے۔ غسل کر کے میری طبیعت بحال ہو گئی ہے۔ میرا دل خوش ہے۔ اؤ آ کر دیکھو۔ کھڑکی سے کتنا پیارا منظر نظر آ رہا ہے۔ درخت ہی درخت۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ اتنے پیارے منظر میں کمرہ لیا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھو گے؟ کیا تم اپنے شہر کا منظر نہیں دیکھنا چاہتے؟

فریڈ: میں صرف اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھنا پسند کرتا ہوں۔

لزی: (اچانک پوچھتی ہے ) کیا صبح اٹھ کر کسی نیگرو کو دیکھنا بدشگونی ہے؟
فریڈ : کیوں؟
لزی: میں۔ سڑک کی دوسری طرف ایک جا رہا ہے۔

فریڈ: نیگرو کو کسی بھی وقت دیکھنا بدشگونی ہے۔ وہ شیطان ہے۔ (قدرے توقف کے بعد ) کھڑکی بند کر دو۔
لزی: کیوں؟ کیا تم میرے کمرے میں تازہ ہوا نہیں چاہتے۔
فریڈ: میں کہتا ہوں کھڑکی بند کر دو۔ پردے ڈال دو اور بجلی جلا دو۔
لزی: کیوں نیگرو کی وجہ سے؟
فریڈ: بے وقوفی کی باتیں نہ کرو۔
لزی: باہر کتنی پیاری دھوپ ہے۔

فریڈ : مجھے دھوپ پسند نہیں۔ میں کل رات کی طرح اندھیرا چاہتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کھڑکی بند کر دو میں باہر جاؤں گا تو دھوپ دیکھ لوں گا۔ ( وہ اٹھتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے )

لزی: (قدرے پریشان ہوتے ہوئے ) کیا بات ہے
فریڈ: کچھ نہیں مجھے میری ٹائی دے دو

لزی: وہ غسل خانے میں ہے ( وہ لینے جاتی ہے فریڈ جلدی سے میز کے خانوں میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لزی ٹائی لے کر لوٹتی ہے ہے۔ یہ تمہاری ٹائی ہے ٹھہرو میں اسے باندھ دوں ( وہ اس کی گردن میں ٹائی باندھتی ہے ) کیا تم جانتے ہو کہ میں صرف ایک رات کے تعلقات پسند نہیں کرتی کیونکہ مجھے بہت سے چہروں سے واسطہ پڑتا ہے اگر میرا اختیار ہوتا تو اپنے لیے تین عمر رسیدہ مرد رکھتی۔ ایک منگل کے لیے ایک جمعرات کے لئے اور ایک ویکنڈ کے لیے۔ تم نوجوان ہو اور سنجیدہ لگتے ہو۔ اگر کبھی تمہارے جذبات بے قابو ہونے لگے تو۔ بہرحال میں مجبور نہیں کرتی۔ دیکھو تم کتنے سندر لگ رہے ہو۔ ایک بوسہ دو یوں ہی دل لگی کے لیے۔ کیا بات ہے مجھے بوسہ کیوں نہیں دیتے۔ (وہ اسے بے دردی سے چومتا ہے اور پھر دھکا دیتا۔ ) اف

فریڈ: تم شیطان ہو
لزی: کیا؟
فریڈ :تم شیطان ہو
لزی: کیا تم پھر انجیل کی باتیں کرنے لگے ہو۔ کیا بات ہے؟
فریڈ: کچھ نہیں میں مذاق کر رہا تھا۔
لزی: تمہارے مذاق کرنے کا انداز عجیب ہے۔ (وقفہ) کیا تمہیں اس کا مزہ آیا؟ فریڈ: کس کا؟
لزی: کس کا؟ (اس کی نقل اتارتی ہے ) تم اتنے سادہ بھی نہیں۔
فریڈ: اوہ! اوہ! اس کا۔ ہاں مزہ آیا۔ تمہیں کتنے پیسے چاہئیں؟

لزی:پیسوں کی کس نے بات کی۔ میں نے صرف اتنا پوچھا ہے کہ کیا تمہیں مزہ آیا۔ تم اس سوال کا جواب سلیقے سے بھی دے سکتے تھے۔ کیا ہوا ہے تمہیں۔ کیا تمہیں مزہ نہیں آیا۔ اگر ایسی بات ہے تو مجھے بہت حیران ہوگی۔

فریڈ: بکواس بند کرو کرو

لزی: تم نے کل رات مجھے اپنے آغوش میں لے لیا تھا اور پھر سرگوشی کے انداز میں کہا تھا میں تم سے محبت کرتا ہوں۔

فریڈ : تم شراب کے نشے میں دھت تھیں۔
لزی: نہیں میں نشے میں نہیں تھی
فریڈ: تم تھیں
لزی: نہیں میں نہیں تھی
فریڈ: اگر تم نہیں تھیں تو میں تھا۔ مجھے کچھ یاد نہیں

لزی: کتنے افسوس کی بات ہے۔ کل رات میں غسل خانے میں گئی اور کپڑے اتار کر واپس آئی تو تم شرم سے سرخ ہو گئے۔ کیا تمہیں یاد نہیں؟ میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھا ، میرا عطیہ حاضر ہے، تمہیں یاد نہیں کہ تم لیمپ بجھانے کے لیے کتنے بے چین تھے۔ پھر اندھیرے میں تم نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ وہ لمحات کتنے سندر تھے اور کتنے معزز۔ کیا تمہیں کچھ بھی یاد نہیں؟

فریڈ: نہیں

لزی: پھر ہم نے فرض کیا تھا کہ ہم دونوں بچوں کی طرح ایک پنگھوڑے میں جھول رہے ہیں۔ کیا وہ بھی یاد نہیں۔

فریڈ: میں کہتا ہوں بکواس بند کرو رات گئی بات گئی رات کی باتیں دن کے وقت نہیں کیا کرتے؟
لزی: اور اگر مجھے اس کے ذکر میں مزہ آتا ہو تو کیا کروں کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں بہت محظوظ ہوئی تھی۔

فریڈ:یقیناً تمہیں بہت مزا آیا۔ (اس کے قریب جاتا ہے اس کے کاندھوں کو چومتا ہے اور اس کی گردن کو پکڑ لیتا ہے ) جب بھی تم کسی مرد کو الجھا دیتی ہو تمہیں بہت مزا آتا ہے۔ مجھے تمہاری پرلطف رات بھول چکی ہے۔ مجھے صرف ناچ گھر یاد ہے۔ اس کے بعد کچھ یاد نہیں۔ اگر اس کے بعد کچھ اور ہوا تو صرف تمہیں یاد ہے (اس کی گردن پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کر دیتا ہے )

لزی: کیا کر رہے ہو؟
فریڈ : تمہاری گردن کو اپنے ہاتھوں سے پکڑے ہوئے ہوں
لزی: مجھے تکلیف ہو رہی ہے

فریڈ: تم واحد شخصیت ہو جسے وہ باتیں یاد ہیں۔ اگر میں تمہاری گردن ذرا اور دباؤں تو دنیا میں کوئی بھی نہیں رہے گا جسے وہ باتیں معلوم ہوں۔ (وہ اس کی گردن چھوٹ دیتا ہے ) تمہیں کتنی رقم چاہیے؟

لزی: اگر تمہیں کچھ یاد نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں نے اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام نہیں دیا اور میں برے کام کے پیسے نہیں لیتی۔

فریڈ: مذاق ختم کرو کتنے پیسے؟

لزی: سنو میں اس جگہ صرف پرسوں ہی آئی ہوں۔ تم پہلے شخص ہو جو یہاں آئے ہو۔ میں پہلے گاہک سے پیسے نہیں لیتی۔ یہ اچھا شگون ہو گا۔

فریڈ: مجھے تمہارے تحفوں کی ضرورت نہیں (میز پر دس ڈالر کا نوٹ رکھتا ہے )

لزی: مجھے تمہاری خیرات کی ضرورت نہیں۔ بہر حال میں جاننا چاہتی ہوں کہ تمہاری نگاہوں میں میری کتنی قیمت ہے۔ مجھے اندازہ لگانے دو (وہ آنکھیں بند کر کے نوٹ اٹھاتی ہے ) چالیس ڈالر؟ نہیں بہت زیادہ ہے کیونکہ اس کے لیے تو دو نوٹ ہونے چاہئیں۔ بیس ڈالر؟ نہیں؟ چالیس سے زیادہ۔ پچاس ڈالر سو ڈالر۔ (جب وہ یہ کہہ رہی تھی فریڈ اسے غور سے دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا) میں یہ کرنا نہیں چاہتی لیکن مجبور ہوں۔ مجھے دیکھنا پڑے گا۔ (وہ نوٹ کی طرف دیکھتی ہے ) تم سے غلطی نہیں ہوئی؟

فریڈ: میرا خیال ہے نہیں۔
لزی: کیا تم جانتے ہو تم نے مجھے کیا دیا ہے؟
فریڈ: ہاں

لزی: اسے واپس لے لو۔ فوراً واپس لے لو۔ (وہ انکار میں ہاتھ ہلاتا ہے ) دس ڈالر۔ دس ڈالر۔ اس کو کہتے ہیں سستی عیاشی۔ مجھ جیسی لڑکی اور دس ڈالر۔ کیا تم نے میری ٹانگیں دیکھی ہیں (وہ اسے اپنی ٹانگیں دکھاتی ہے ) اور میرے پستان؟ کیا تم نے انہیں دیکھا ہے؟ کیا ان کی وقعت دس ڈالر ہے۔ اپنے دس ڈالر اٹھاؤ اور دفعان ہو جاؤ اس سے پہلے کہ میں غصے میں بے قابو ہو جاؤں۔ دس ڈالر۔ حضور مجھے بار بار بوسے دیتے ہیں بار بار محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ حضور میرے بچپن کی داستان سننا چاہتے ہیں اور پھر صبح اٹھ کر مجھے ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ میں اتنی سستی بھی نہیں ہوں۔ چالیس ڈالر بھی نہیں۔ تیس بھی نہیں۔ بیس بھی نہیں۔ صرف دس!

فریڈ: تمہاری ہوس کے لیے اتنا ہی کافی ہے

لزی: ہوس ہوگی تمہیں۔ خدا جانے تم کہاں پلے بڑھے ہو؟ تمہاری ماں ایک ایسی فاحشہ ہوگی جس نے تمہیں عورت کی عزت کرنا نہیں سکھایا۔

فریڈ: بس اب بکواس بند کرو۔
لزی: ایک پیاری کتیا ہوگی پیاری کتیا

فریڈ: (غصے سے ) اے جوان عورت! غور سے سنو اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو مردوں سے ان کی ماؤں کے بارے میں باتیں نہ کیا کرو۔

لزی: اس کی طرف بڑھتے ہوئے کیا تم مجھے جان سے مار دینا چاہتے ہو۔ دیکھوں کیسے کرتے ہو

فریڈ: پیچھے ہٹتے ہوئے جذباتی مت بنو۔ لزی میز سے گلدان اٹھاتی ہے جیسے فریڈ کی طرف پھینکنے والی ہو یہ لو دس ڈالر۔ جذباتی نہ بنو۔ ورنہ میں تمہیں پکڑوا دوں گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail