معزز طوائف از ژاں پال سارتر


فریڈ: چلو کام سے فارغ ہو لیں۔ یہ میرا قلم ہے۔ لو اور دستخط کردو۔
لزی: تمہاراقلم تمہیں مبارک ہو۔
(تینوں مرد کھسیانے سے ہو جاتے ہیں )

فریڈ: تو یہ حالت ہو گئی ہے اب شہر کا نفیس آدمی اور اس کی زندگی دو کوڑی کی عورت کے رحم و کرم پر ہے۔ (وہ کمرے میں چہل قدمی کرتا ہے پھر اچانک لزی کے قریب آتا ہے ) اسے دیکھو (وہ لزی کو ایک تصویر دکھاتا ہے ) تمہیں اپنے بدنام پیشے میں کئی مردوں سے واسطہ پڑا ہو گا۔ کیا کبھی ایسا خوبرو نوجوان دیکھا ہے۔ اس کی پیشانی دیکھو۔ اس کی تھوڑی دیکھو۔ اس کے فوجی وردی پر سجے ہوئے تمغے دیکھو۔ ادھر ادھر مت دیکھو اب۔ اپنے مظلوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو۔

دیکھو وہ کتنا کمسن ہے۔ لیکن اس کا کیا غم۔ جب وہ دس سال بعد قید سے رہا ہو کر آئے گا تو بوڑھا ہو چکا ہو گا۔ نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ کمر ٹیڑھی اور سر گنجا۔ لیکن تمہیں اپنے کیے پر فخر ہو گا، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ کیا تم ایک انسان کی زندگی لینا چاہتی ہو؟ اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا تمہارا اندر تک کالا ہو چکا ہے؟ (وہ اسے زور دے کر گھٹنوں پر بٹھا دیتا ہے ) او قطامہ! گھٹنوں کے بل جھک جاؤ اس تصویر کے آگے جس کی تم بے عزتی پر تلی ہوئی ہو۔

(سینیٹر کلارک کھلے دروازے سے داخل ہوتا ہے )
سینیٹر: اسے چھوڑ دو (لزی سے ) اٹھ جاؤ
فریڈ: ہیلو
جان: ہیلو
سینیٹر: ہیلو ہیلو

جان : (لزی سے ) سینیٹر کلارک سے ملو
سینیٹر: (لزی سے ) ہیلو
لزی: ہیلو
سینیٹر: بہت خوب سب کا تعارف ہو گیا۔ تو یہ وہ نوجوان عورت ہے۔ یہ تو مجھے بہت نفیس دکھائی دیتی ہے۔
فریڈ: یہ دستخط نہیں کرنا چاہتی۔

سینیٹر: وہ بالکل حق بجانب ہے۔ تم اس کے گھر میں بغیر اجازت کے گھس آئے۔ جان کی طرف دیکھ کر۔ تمہیں اس کا بالکل حق نہیں پہنچتا تھا۔ تم نے اس سے نا انصافی کی ہے اور پھر اسے اپنے ضمیر کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتے ہو۔ یہ امریکی روایات کے خلاف ہے۔ کیا نیگرو نے تمہارے ساتھ زنا بالجبر کیا تھا میری بچی؟

لزی: نہیں

سینیٹر: بہت اچھا یہ بات تو صاف ہوئی۔ میری آنکھوں میں دیکھو۔ وہ اس کی طرف غور سے دیکھتا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ (۔ وقفہ۔ ) ۔ بے چاری میری۔ (۔ دوسروں سے۔ ) ۔ چلو لڑکو چلو۔ ہم کچھ اور نہیں کر سکتے۔ اس نوجوان عورت سے معذرت خواہی کریں اور چلیں۔

لزی: میری کون ہے؟

سینیٹر: میری وہ میری بہن ہے بدنصیب تھامس کی ماں۔ غریب عورت جس کا دل اس واقعہ سے پاش پاش ہو جائے گا۔ خدا حافظ میری بچی۔

لزی: ( اس کے گلے میں آواز پھنس جاتی ہے ) سینیٹر
سینیٹر: ہاں میری بچی
لزی: میں معذرت خواہ ہوں
سینیٹر: معذرت کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ تم نے تو سچ کہا ہے
لزی: مجھے افسوس ہے کہ یہ حقیقت ہے

سینیٹر: ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں غلط گواہی دینے کو کہے۔ (وقفہ۔ ) نہیں نہیں اس کے بارے میں مزید مت سوچو۔

لزی: کس کے بارے میں؟
سینیٹر : کیا تم اس کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھیں؟
لزی: ہاں

سینیٹر: میں تمہارا دماغ پڑھ سکتا ہوں میری بچی۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ تمہارے ذہن سے اس وقت کیا گزر رہا ہے۔ (لزی کے انداز میں بات کرتے ہوئے ) اگر میں نے دستخط کر دیے تو سینیٹر اس کے پاس جا کر کہے گا ، لزی میکے بہت اچھی لڑکی ہے۔ یہ وہ لڑکی ہے جس نے تمہارا بیٹا تمہیں واپس لوٹا دیا۔ ، اور وہ آنسو بہاتے ہوئے مسکرا دے گی۔ پھر وہ کہے گی ، لزی میکے میں یہ نام کبھی فراموش نہیں کروں گی، اور پھر میں جس کا نہ تو کوئی خاندان ہے اور جو زمانے کے ہاتھوں بہت ستائی گئی ہوں ایک بوڑھی عورت کے دل میں زندہ رہوں گی۔ ایک امریکی ماں میرے نام کو کتنا عزیز رکھے گی ، مسکین لزی اس کے بارے میں زیادہ مت سوچ

لزی: کیا اس کے بال سفید ہیں؟

سینیٹر: بالکل سفید لیکن اس کا چہرہ ابھی بھی جوان ہے۔ اگر تم اسے ایک دفعہ مسکراتے ہوئے دیکھ لو۔ نہیں نہیں۔ وہ اب کبھی نہیں مسکرائے گی۔ خدا حافظ کل تم جج کو سچ سچ بتا دینا۔

لزی: کیا تم جا رہے ہو؟
سینیٹر۔ ہاں میں اسی کے گھر جا رہا ہوں۔ میں نے اسے اس گفتگو کے بارے میں بتانا ہے۔
لزی: کیا وہ جانتی ہے کہ تم یہاں ہو؟
سینیٹر: اسی نے تو مجھے منت سماجت کر کے یہاں بھیجا ہے۔

لزی: او خدایا! اور وہ منتظر ہے اور تم اسے بتاؤ گے کہ میں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔

سینیٹر : (اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھتے ہوئے ) میری بے بس بچی تم کتنی مشکل میں ہو۔
لزی: کیا مصیبت ہے (سرد آہ بھرتی ہے ) یہ سب میرا قصور ہے۔ میں ہی ناپاک ہوں۔
سینیٹر: کیا؟

لزی: کچھ نہیں (وقفہ) جہاں تک ان حالات کا تعلق ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ نیگرو نے میرے ساتھ زنا بالجبر نہیں کیا۔

سینیٹر: (رقت سے ) میری بچی!
لزی: (غم زدہ) اس طرح تمہیں کتنا فائدہ ہو جاتا اور مجھے کتنی کم تکلیف ہوتی۔

سینیٹر: شکریہ (وقفہ) میرا کتنا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں۔ (وقفہ) لیکن افسوس حقیقت حقیقت ہے۔

لزی: (افسردگی سے ) ہاں یقیناً
سینیٹر: اور حقیقت یہ ہے کہ نیگرو نے تمہارے ساتھ زنا نہیں کیا۔
لزی (اسی انداز سے ) ہاں سچ
سینیٹر : ہاں (وقفہ) یقیناً یہ پہلے درجے کا سچ ہے
لزی: (نہ سمجھتے ہوئے ) پہلے درجے کا
سینیٹر: ہاں میرا مطلب ہے ایک عام سچ

لزی: عام؟ کیا یہ سچ نہیں ہے؟
سینیٹر: ہاں ہاں سچ تو ہے لیکن بات یہ ہے کہ سچ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔
لزی: کیا تمہارا خیال ہے کہ نیگرو نے میرے ساتھ زنا کیا تھا؟

سینیٹر: نہیں نہیں۔ اس نے تمہارے ساتھ زنا نہیں کیا۔ ایک نقطہ نظر سے اس نے تمہارے ساتھ زنا نہیں کیا لیکن یہ دیکھو میں ایک بوڑھا آدمی ہوں جس نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں اور ان سے سبق سیکھے ہیں۔ اس لیے اب میں غلطیاں کم کرتا ہوں۔ اس بارے میں میری رائے تم سے مختلف ہے۔

لزی: کس قسم کی رائے؟

سینیٹر: میں تمہارے سامنے اس کی کیسے تشریح کروں۔ فرض کرو انکل سام اچانک تمہارے آگے کھڑا ہو تو وہ کیا کہے؟

لزی: (گھبرا کر) اس نے مجھے کیا کہنا ہے۔ کچھ نہیں۔
سینیٹر: کیا تم کمیونسٹ ہو؟
لزی: خدا را نہیں۔

سینیٹر: پھر انکل سام نے تمہیں بہت سی باتیں بتانی ہوں گی۔ وہ کہے گا ، لزی! تم زندگی کے اس موڑ پر کھڑی ہو جہاں تمہیں میرے دو لڑکوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ان میں سے ایک نے قربان ہو جانا ہے۔ اس حالت میں تم کیا کرو گی؟ بہتر کو بچا لو گی۔ اب تمہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے بہتر کون سا ہے؟ کرو گی؟

لزی: (جذبات کی رو میں بہتے ہوئے ) ہاں کرنا ہے۔ اوہو۔ معذرت خواہ ہوں میں سمجھی تم پوچھ رہے تھے۔

سینیٹر: میں انکل سام کی ایما پر بول رہا تھا۔ (وہ پہلے کی طرح پھر شروع ہو جاتا ہے ) ، لزی یہ نیگرو جس کی تم اتنی طرفداری کر رہی ہو بھلا کس کام کا ہے۔ یہ کہیں پیدا ہو گیا خدا جانے کہاں۔ میں نے اس کی پرورش کی لیکن یہ کرتا کیا ہے؟ نہ کام نہ کاج بس آوارہ گردی۔ نیلے پیلے بے ڈھنگے کپڑے پہن کر پھرتا رہتا ہے۔ یہ بھی میرا بیٹا ہے۔ اور مجھے عزیز ہے لیکن کیا یہ انسانوں کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ یہ اگر مر بھی جائے تو کسی کو کوئی فرق نہ پڑے۔

لزی: تمہارا انداز گفتگو کتنا پیارا ہے!

سینیٹر: (اسی انداز سے ) دوسرا تھامس ہے جس نے ایک نیگرو کو قتل کر دیا ہے بہت برا ہے لیکن مجھے اس کی ضرورت ہے۔ یہ سو فیصد امریکی ہے۔ ایک قدیمی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہے۔ ایک افسر کے طور پر کام کرتا ہے۔ مجھے افسروں کی ضرورت ہے۔ اس نے اپنی فیکٹری میں دو ہزار مردوں کو نوکری دے رکھی ہے۔ اگر وہ مر گیا تو دو ہزار لوگ بے کار ہو جائیں گے۔ وہ ایک رہنما ہے۔ کمیونسٹوں لیبر یونینوں اور یہودیوں کے خلاف خوب لڑتا ہے۔ اس کا مقصد زندہ رہنا اور تمہارا کام اس کی مدد کرنا ہے اور اسے زندہ رکھنا ہے۔ بس مجھے اتنا ہی کہنا ہے۔ اب تم ان میں سے انتخاب کرو ،

لزی: تم کتنی پیاری پیاری باتیں کرتے ہو۔
سینیٹر: انتخاب کرو۔

لزی: (ہوش میں آتے ہوئے ) کیا کہا او ہاں (وقفہ) تم نے مجھے پریشان خیالی کا شکار کر دیا ہے۔ میں حیران ہو گئی ہوں۔

سینیٹر: لزی میری طرف دیکھو کیا تمہیں مجھ پر اعتماد ہے؟
لزی: ہاں سینیٹر
سینیٹر: کیا تمہارا ایمان ہے کہ میں تمہیں کوئی غلط کام کرنے پر مجبور کروں گا
لزی: نہیں سینیٹر
سینیٹر: تو پھر اس پر دستخط کر دو۔ یہ لو میرا قلم

لزی: کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوگی؟
سینیٹر: کون؟
لزی: تمہاری بہن
سینیٹر: وہ تم سے محبت کرے گی۔ فاصلے سے۔ اپنے بچے کی طرح
لزی: شاید وہ مجھے ایک گلدستہ بھیج دے۔
سینیٹر:عین ممکن ہے
لزی: یا اپنی تصویر دستخط کر کے بھیج دے
سینیٹر: عین اغلب ہے

لزی: میں اس تصویر کو اپنے کمرے کے کونے میں لٹکا دوں گی۔ (کمرے میں بے چینی سے چلتی ہے ) کیا مصیبت ہے (سینیٹر کے قریب آ کر) اگر میں نے دستخط کر دیے تو نیگرو کا کیا حشر ہو گا؟

سینیٹر: نیگرو کا؟ قصہ تمام (اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے ) اگر تم نے دستخط کر دیے تو سارا شہر تمہیں اپنی منہ بولی بیٹی بنا لے گا۔ سارا شہر۔ اس شہر کی سب مائیں۔

لزی: لیکن

سینیٹر: کیا تمہارا خیال ہے سارا شہر کوئی غلط فیصلہ کر سکتا ہے۔ پورا شہر جس میں اس کے پادری ، ڈاکٹر، وکیل ، فنکار، رہنما ، ان کے پیروکار اور رضاکار سب ہی شامل ہیں۔ کیا تم سوچتی ہو ایسا ہو سکتا ہے؟

لزی: نہیں نہیں نہیں

سینیٹر: مجھے اپنا ہاتھ دو (وہ اسے دستخط کرنے پر مجبور کرتا ہے ) اب جبکہ دستخط ہو چکے ہیں۔ میں تمہارا اپنی بہن ، اپنے بھتیجے، اس شہر کے سترہ ہزار شہریوں اور امریکی باشندوں جن کا میں نمائندہ ہوں کی طرف سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ادھر آؤ۔ مجھے اپنی پیشانی پہ بوسہ دینے دو میری بچی۔ ( وہ اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتا ہے ) چلو لڑکو چلیں (لزی سے ) ہماری شام کو ملاقات ہوگی۔ ہمیں ابھی کچھ باتیں کرنی ہیں۔

فریڈ: (جاتے ہوئے ) خدا حافظ
لزی : خدا حافظ

(وہ سب چلے جاتے ہیں اور وہ حیرت میں کھڑی رہتی ہے۔ پھر دروازے کی طرف بھاگتی ہے ) سینیٹر سینیٹر میں دستخط نہیں کرنا چاہتی۔ اس کاغذ کو پھاڑ کر پھینک دو سینیٹر۔ (پھر وہ آ کر جلدی سے کلینر اٹھاتی ہے ) انکل سام مجھے لگتا ہے حالات بدل گئے ہیں۔ اچھے یا برے (پھر وہ غصے سے ویکیوم کلینر چلانا شروع کر دیتی ہے۔

۔
بارہ گھنٹے بعد
۔

وہی جگہ ہے۔ شمعیں جل چکی ہیں۔ کھڑکیاں کھلی ہیں۔ باہر اندھیرا ہے۔ نیگرو کھڑکی میں نمودار ہوتا ہے۔ چوکھٹ کا سہارا لے کر خالی کمرے میں کود پڑتا ہے۔ گھنٹی بجتی ہے۔ وہ پردے کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ لزی غسل خانے سے نکلتی ہے اور دروازہ کھولتی ہے۔

لزی: اندر آ جاؤ (سینیٹر داخل ہوتا ہے ) تو کیا ہوا؟
سینیٹر: تھامس اپنی ماں کی آغوش میں ہے۔ میں ان کا شکریہ لے کر آیا ہوں۔
لزی: کیا وہ خوش ہے؟
سینیٹر: خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔

لزی: کیا وہ روئی بھی تھی؟
سینیٹر: وہ کیوں روتی وہ بہت جی دار عورت ہے۔
لزی: لیکن تم نے کہا تھا نہ کہ وہ روئے گی
سینیٹر: وہ تو میں نے محاورے کے طور پر کہا تھا۔

لزی: اسے اس بات کی امید نہیں تھی ہے نہ یہ بات؟ اس کا خیال تھا میں ایک بدکردار عورت ہوں اور نیگرو کے حق میں فیصلہ کروں گی۔

سینیٹر: اس نے خدا پر بھروسا کر رکھا تھا۔
لزی: اس کا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟
سینیٹر: وہ آداب بجا لاتی ہے۔

لزی: کیا اس نے میری شکل و شباہت کے بارے میں پوچھا تھا؟
سینیٹر: نہیں
لزی: کیا اس کا خیال ہے کہ میں ایک اچھی لڑکی ہوں۔
سینیٹر: اس کا خیال ہے کہ تم نے اپنا فرض ادا کیا۔
لزی: کیا واقعی؟
سینیٹر: اسے یہ بھی امید ہے کہ آئندہ بھی تم ایسا ہی کرتی رہو گی۔
لزی: او ہاں بہت خوب۔

سینیٹر : لزی میری آنکھوں میں دیکھو (وہ اسے شانوں سے پکڑ لیتا ہے ) تم اپنا فرض انجام دیتی رہو گی۔ مجھے نا امید تو نہ کرو گی؟

لزی: بے فکر رہو۔ میں نے جو وعدہ کیا ہے اسے نبھاؤں گی۔ ورنہ وہ مجھے کال کوٹھڑی میں پھینک دیں گے۔ (وقفہ) یہ شور کیسا؟

سینیٹر: اس کی طرف دھیان نہ دو
لزی: میں اسے مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ (کھڑکی بند کر دیتی ہے ) سینیٹر؟
سینیٹر: میری بچی
لزی: کیا تمہیں یقین ہے کہ ہم نے غلط کام نہیں کیا؟ میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا؟
سینیٹر: بالکل یقین ہے۔ سو فیصد

لزی: تم بہت ہوشیار ہو۔ تمہاری زبان بہت تیز ہے۔ تمہاری باتیں میری سوچنے کی قوت کو منتشر کر دیتی ہیں۔ کیا وقت ہے؟

سینیٹر: گیارہ بجے ہیں۔

لزی: دن نکلنے میں آٹھ گھنٹے باقی ہیں۔ میں ایک پل بھی نہ سو سکوں گی۔ (وقفہ) یہاں تو دن کی طرح رات کو بھی گرمی پڑتی ہے۔ (وقفہ) نیگرو کا کیا بنا؟

سینیٹر: کون سا نیگرو؟ او ہاں! وہ اسے تلاش کر رہے ہیں۔

لزی: وہ اس کے ساتھ کیا کریں گے۔ ؟ (سینیٹر کندھے جھٹکتا ہے۔ شور بڑھتا جاتا ہے لزی کھڑکی کی طرف بڑھتی ہے ) یہ شور کس بات کا ہے؟ یہ مرد کتے اور ٹارچیں لے کر کیوں بھاگ رہے ہیں۔ کیا یہ کوئی جشن منانے جا رہے ہیں اور یا۔ یہ کیا ہو رہا ہے سینیٹر؟ بتاؤ نہ یہ کیا ماجرا ہے؟

سینیٹر: (جیب سے خط نکال کر) میری بہن نے تمہارے لیے یہ خط دیا ہے۔

لزی: (اشتیاق سے ) اس نے مجھے خط بھیجا ہے۔ (لفافہ کھولتی ہے۔ اس میں سے سو ڈالر کا نوٹ نکلتا ہے۔ اسے زمین پر پھینک دیتی ہے۔ اس کا لہجہ بدل جاتا ہے ) سو ڈالر بہت خوب۔ تمہارے بیٹے نے پانچ سو کا وعدہ کیا تھا۔ کاروبار کرتے ہو۔

سینیٹر: میری بچی

لزی: تم محترمہ کا شکریہ ادا کر دینا۔ تم اسے بتا دینا کہ اس سے زیادہ مجھے اس بات کی خوشی ہوتی اگر وہ بازار سے جا کر میرے لیے ایک ادنیٰ سا تحفہ پسند کر کے لائی ہوتی۔ ایک گلدستہ یا ایک موزوں کا جوڑا۔ بہر حال اصل بات جذبات کی ہے چیزوں کی نہیں۔

سینیٹر: میں تمہارا مشکور ہوں۔ ہم دونوں کو کچھ باتیں کرنی ہیں۔ تم ایک اخلاقی مشکل کا شکار ہو تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے۔

لزی: اصل میں مجھے کچھ آٹے کی ضرورت ہے۔ (وقفہ) اب تک میں عمر رسیدہ لوگوں کی قدر کیا کرتی تھی کیونکہ وہ معزز دکھائی دیتے تھے لیکن اب سوچ میں پڑ گئی ہوں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ دوسروں سے عیاری میں زیادہ مختلف نہیں۔

سینیٹر: (خوشی سے ) عیار! کاش میرے رفقائے کار تمہاری بات سن سکتے۔ تم کتنی بے تکلف ہو۔ تم میں کچھ جوہر موجود ہیں جو ناسازگار حالات نے بھی برباد نہیں کیے۔ (وہ اسے تھپکی دیتا ہے ) تم میں یقیناً کچھ جوہر ہیں۔ میں واپس لوٹ کر آؤں گا۔

( وہ باہر چلا جاتا ہے۔ لزی بے جان سی کھڑی ہے۔ وہ نوٹ اٹھاتی ہے۔ ہاتھوں میں چڑ مڑ کر کے زمین پر پھینک دیتی ہے۔ کرسی میں گر کر سسکیاں لیتی ہے۔ باہر سے شور کی آواز بڑھ رہی ہے۔ گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے۔ نیگرو باہر نکل آتا ہے۔ لزی سر اٹھاتی ہے اور اس کی چیخ نکل جاتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 692 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail