محبت، جنگ اور واپسی


دن رات ایسے ہی خیالات آتے کہ میرا انت کیا ہو گا؟ اتنا تو گمان ہے کہ عمر کے آخری حصے میں بھی مجھ سے محبت کرنے والے بھی بلاشبہ موجود ہوں گے مگر کون جانے ٹرین کب تک نہ آئے اور پھر آ جائے تو اس کا آخری سٹیشن آتے آتے کسی کا نظریہ ضرورت کیا سے کیا ہو جائے؟ کس کے حالات اسے کس پٹڑی پر ڈال دیں؟ کس ٹرین کا انجن سیٹی دیے بغیر اچانک دریا میں جا گرے اور کسی کو خبر بھی نہ ہو سکے؟

کئی بار سوچا اپنے اولڈ ہوم کے دوران یہاں کے ماحول اور لوگوں کی کچھ تصاویر کھینچ لوں مگر پھر سوچتی میں کب اس جگہ کو یاد رکھنا چاہتی ہوں۔ میں تو ہر رہائشی کی طرح وہاں سے بھاگنے کے دن کا ہی انتظار کرتی تھی۔ کبھی کبھی یوں لگتا جیسے میں کھو گئی ہوں اور کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئی ہوں۔ ایک پرانا امریکن گانا اکثر یاد آتا جس کے بول کچھ یوں تھے :

In the desert you dont remember your name۔ شاعر اور سنگر کہتا ہے جب آپ نو دن کے لئے صحرا میں بھٹکتے ہیں تو پھر آپ اپنا نام اپنی شناخت، اپنی پہچان سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ مجھے لگتا میں بھی صحرا میں زندہ ہوں۔

پھر اکثر یہ بھی لگتا میں وہ نہیں رہی جو کہ میں ہوں۔ میں ایک زندہ دل لاہورن یہاں اوہائیو سٹیٹ کے اولڈ ہوم میں ضعیف بیمار لوگوں کے ساتھ رہ کیسے رہی ہوں؟ کیا کبھی دوبارہ اپنے وطن، اپنی نارمل لائف کو جا سکوں گی یا نہیں؟ پھر سوچتی۔ بس آنکھیں بند کر کے یہ وقت گزار لوں تو آگے ہریالی ہی ہریالی ہو گی۔ میں نے وہاں بڑے صبر اور تحمل سے وقت گزارا۔

بڑے سے ٹی وی روم میں اکثر مجھے ایک بوڑھی عورت اور ایک نسبتاً جوان شخص اکٹھے اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے دکھائی دیتے۔ چند ہی دنوں میں معلوم ہو گیا کہ وہ دونوں ماں بیٹا ہیں۔ میں حیران ہو کر سوچتی۔ چلو ماں تو بوڑھی، ضعیف و نزار ہے بیٹھے کو کیا مسئلہ ہے کہ وہ یہاں داخل ہے۔ اتنا بوڑھا بھی نہیں تھا شاید پچاس سال کا رہا ہو گا۔ بڑا جی چاہتا کہ ان کے بارے میں ان سے پوچھوں۔ پھر یہ سوچ کر چپکی ہو رہی کہ کوئی دکھی کہانی سن لی تو اپنا ہی دل خراب ہو گا۔ نہ ہی پوچھو تو بہتر ہے۔ ویک اینڈ پر دونوں بڑا سا پیزا اور کوک کی بڑی بوتل منگواتے، چسکے لے لے کر کھاتے اور پیتے تو بڑے خوش دکھائی دیے۔ لگتا تھا یہی ان کی تفریح اور تشفی کا سامان تھا۔ میں زیادہ تر ماں کو ہی بولتا دیکھتی۔ بیٹا خاموش رہتا تھا۔

ایک روز عجیب بات ہوئی۔ دبلی پتلی بڑھیا وہیل چیئر دھکیلتی ٹی وی روم میں آ گئی اور زور زور سے رونا اور شور مچانا شروع کر دیا، وہ ایک ہی بات بار بار دہرا رہی تھی۔

”میرا بیٹا گم ہو گیا ہے۔ اسے ڈھونڈ کر لاؤ ورنہ میں مر جاؤں گی۔“ اس کے آنسو اور دہائیاں سن کر میرا تو دل ہی دہل کر رہ گیا۔ نہ جانے بیٹا کہاں چلا گیا تھا۔ کیا خبر ماں سے کچھ دیر علیحدہ ہی ہونا چاہتا ہو۔ جان بوجھ کر چھپ گیا ہو۔ میں سوچ پڑ گئی۔ قریباً گھنٹے کے بعد سٹاف اسے کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ ہی لایا۔ سنا یہی کہ وہ گیٹ کے پاس کھڑا ہو کر آتی جاتی ٹریفک کو دیکھ رہا تھا۔ ماں اسے دیکھتے ہی چمٹانے، لپٹانے لگی اور وہ بت بنا بیٹھا ٹی وی دیکھتا رہا۔ ماں بار بار پوچھ رہی تھی۔

”تم مجھے اکیلا چھوڑ کر گھر تو نہیں چلے گئے تھے؟ مجھے بھی گھر جانا ہے۔ اکیلے چلے گئے تو میں مر جاؤں گی۔ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔“ بیٹے کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ مجھے دونوں پر ہی ترس آنے لگا۔ دونوں ہی نجات چاہتے تھے۔ حالات سے۔ معمولات سے۔ اور شاید اس ماحول سے بھی جہاں وہ محدود، محصور اور مجبور ہو کر رہ رہے تھے۔ فرار اور قرار ان کے نصیبے سے دور ہو چکا تھا۔

میں ایک روز حسب معمول کاریڈور میں واک کر رہی تھی۔ دھیان نہ جانے کہاں تھا کہ لگا جیسے اچانک کسی نے زور سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہو۔ میں چونک کر مڑی، دیکھا وہیل چیئر پر ایک شخص بیٹھا بڑے غور سے میری طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی اپنی ہی قومیت کا بندہ دکھتا تھا۔ گندمی رنگ، بڑی بڑی ذہین گہری آنکھیں، لانبا قد، جس کا اندازہ اس کے ڈیل ڈول سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ کافی ہینڈسم شخصیت تھی۔ اسے اپنی طرف دلچسپی سے دیکھتے ہوئے دیکھ کر میں بھی رک گئی اور خوش دلی سے پوچھا:

”آ ر یو انڈین؟“ میں نے اس سے وہی سوال پوچھا جو اکثر مجھ سے پوچھا جاتا تھا۔

”نو۔ پاکستانی۔ ظہیر عثمانی فرام کراچی۔“ اس نے جواب دیا تو میں کھل اٹھی اور گرم جوشی سے دوبارہ اس سے ہاتھ ملا لیا۔ یوں لگا جیسے کوئی اپنا، کوئی بچھڑا ہوا دوست دیار غیر میں اچانک آن ملا ہو۔ ایک پاکستانی شخص اور یہاں امریکہ کے اولڈ ہوم میں میرے لئے کافی اچنبھے کی بات تھی۔ وہ میری طرف کھوئے کھوئے انداز میں دیکھے چلے جا رہا تھا۔ شاید وہ بھی اسی حیرت میں مبتلا تھا کہ ایک پاکستانی عورت اور یہاں؟

”آپ کب داخل ہوئے یہاں؟ امریکی میں کب سے ہیں؟“ میں نے اس سے اردو میں بات چیت شروع کر دی۔
”آپ کی فیملی۔ بال بچے وغیرہ؟“ میں نے فوراً ہی دوسرا سوال کر دیا۔

”آپ کہاں تھے؟ کیا کام کرتے تھے؟“ اسے خاموش دیکھ کر میں نے سوالات شروع کر دیے تھے۔ وہ میری طرف دیکھ کر آہستگی سے بولا ”سب بھول گیا۔ بس کراچی یاد آتا ہے۔ ہوم سویٹ ہوم“

میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے وہاں زندگی کی کوئی رمق کوئی کرن دکھائی نہ دی۔ اس کی خود فراموشی کا سن کر مجھے یوں لگا جیسے مجھے کسی نے اچانک گہرے پانی میں دھکا دے دیا ہو۔ انتہائی دکھ اور رنجیدگی سے میں نے اس کا فقرہ دہرایا۔

”سب بھول گئے؟“

باوقار، خوبصورت، متاثر کن، جاندار شخصیت والا اجنبی ہم وطن مجھے کوئی جیتا جاگا انسان نہیں بلکہ کاغذ کا ایک گڈا لگا جس میں نہ کوئی جان تھی نہ ہی زندگی کی کوئی مچلتی ہوئی لہر۔ ایک ساکن سمندر، جس میں اب کسی قسم کا کوئی مدوجزر ہلچل نہ مچاتا تھا۔

انسان کے پاس اگر حافظے کی دولت نہ ہو تو وہ بے وقعت ہو جاتا ہے۔ اس کی شناخت ہی نہ ہو تو وہ اپنی ذات کا محض ایک سایہ، ایک پرتو ہی تو ہے۔ ظہیر عثمانی کو تو اب یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں ہے اور اس اولڈ ہوم تک کیسے پہنچا؟ اس کے پیارے کہاں ہیں؟ البتہ یہ بات قابل غور ضرور تھی کہ اسے اپنا بچپن کا پرانا شہر اپنا چھوڑا ہوا کراچی اب بھی یاد تھا۔ وہ اسے ہی اپنا گھر سمجھتا اور یاد رکھتا تھا۔ یہ حافظہ بھی کیسا selective ہوتا ہے، جو چاہے یاد رکھتا اور جو چاہے بھلا دینے کی قدرت سے مالا مال ہوتا ہے۔

ظہیر عثمانی کو دیکھ کر پھر میرے دل میں وہی سوال اٹھا۔ یا اللہ! یہ زندہ ہی کیوں ہے؟ اس کا سفر اب تک کیوں جاری ہے؟ اسے تو خود بھی اپنی منزل کا نہیں پتہ۔ تو کیوں اور کس لئے؟ ”یہ جیون کیوں؟“ اس کے بعد سے یہ ہوتا کہ ظہیر عثمانی مجھے جب بھی اس بڑی سی شاندار عمارت کے کاریڈور میں وہیل چیئر پر بیٹھے کسی دیوار سے باتیں کرتے یا خاموشی سے اپنے اردگرد گھورتے دکھائی دیتے تو میں ان کے قریب سے کنی کترا کر گزر جاتی۔

مجھے ان پر نہ جانے کیوں غصہ آتا؟ سوچتی۔ یہاں اس جگہ پر کسی اپنے ہم وطن کے مل جانے کا مجھے بھلا کیا فائدہ؟ ہم زبان، ہم قوم ہونے کے باوجود ہم لوگ آپس میں بات چیت بھی نہیں کر سکتے۔ وہ نارمل ہوتا تو شاید ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے، اپنے حالات شیئر کرتے تو تنہائی کے یہ کٹھن دن کا ٹنا اتنا مشکل نہ رہتا۔ اب ایک کاغذ کے گڈے سے کوئی بھلا کیا بات کر سکتا ہے؟ جس کی یادداشت کھو گئی ہو تو اس کے پاس بچتا ہی کیا ہے؟ کبھی کبھار یہ خوف مجھے بھی گھیر لیتا کہ اگر میں اس حال کو پہنچ گئی تو میرا کیا ہو گا؟ اگر مجھے خبر ہی نہ رہی کہ میں کون ہوں؟ کیا تھی؟ کوئی مجھے یہاں رکھ کے بھول گیا ہے تو پھر کیا ہو گا؟

ا اللہ سے یہی دعا کرتی کہ یا اللہ! بھلے مجھے اپنی زندگی کی کٹھنائیاں، تلخیاں، تنہائیاں بھلا دے۔ یہ کبھی نہ بھولنے دینا کہ زندگی میں کس کس کی محبت میری جھولی میں پھولوں کی طرح آ کر گری اور میری ذات کو مہکایا۔ مجھ سے یہ یاد بھی کبھی نہ چھیننا کہ کتنی چاہتیں، کتنی عزتیں مجھے نصیب ہوئیں، جس سے میری زندگی کا سفر آسان ہوا۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر یہی سمجھ میں آتا کہ محبتیں اور چاہتیں ہی زندگی کا اصل سرمایہ اور خزانہ ہوتی ہیں۔ زندہ رہوں تو اپنے حافظے کی طاقت اور خوبصورتی کے ساتھ۔ مجھے خود فراموشی کے کسی بلیک ہول میں مدغم ہونے کا عذاب قبول نہیں۔ میں خود دھڑکتی، قلقاریاں مارتی، خوبصورت زندگی ہوں۔

اے اللہ! جب جی چاہے بتی گل کر کے مجھے اپنے پاس بلا لینا۔ میں بڑی خوشی خوشی تیری طرف آؤں گی اور چاہوں گی کہ تیرے وجود کی لامتناہی خوبصورتیوں کا حصہ بن جاؤں۔ تجھ میں سما جاؤں، لافانی ہو کر من سے تو ہو جاؤں اور یوں کبھی ختم نہ ہو سکوں۔ کبھی کبھی ظہیر عثمانی کو دیکھ کر خیال آتا اگر انہیں کبھی نارمل لائف میں کسی پارٹی میں دیکھا ہوتا تو یہ کیسا لگتا؟ لانبے قد، دلکش شخصیت والا اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص، ہنستا بولتا، خواتین کے جھرمٹ میں کھڑا کتنا ڈیشنگ اور پر کشش لگتا ہو گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments