محبت، جنگ اور واپسی


ہاتھ میں مشروب تھامے، دلچسپ باتیں کرتا، قہقہے لگاتا، کسی کو ساتھ بٹھا کے لانگ ڈرائیو پر لے جاتا، زندگی کو انجوائے کرتا۔ دھڑکتی ہوئی زندگی سے بھرپور، آرزو سے چور، یقیناً یہی سوچتا رہا ہو گا کہ زندگی کا چلن یونہی رہے گا۔ سب اچھا ہو گا اور یونہی وہ جیون دریا پار کر جائے گا مگر اس سے تو ہوش و خرد کی دنیا ہی روٹھ گئی تھی۔ کتنا بدنصیب نکلا وہ۔ میں تصور کی آنکھ سے نہ جانے کیا کیا مناظر دیکھنے لگی تھی۔ آج یہ شخص بوڑھوں کی بستی میں ایک کھنڈر کی طرح ویران رہتا تھا۔ اسے ڈائننگ روم میں امریکن کھانا کھاتے دیکھ کر یہ خیال بھی آتا، کیا خبر اس کا دل پاکستانی کھانا کھانے کو چاہتا ہو؟

مجھے یہ عجیب بات نہیں لگی کہ ظہیر عثمانی بھی مجھ سے مل کر اسی طرح لاتعلق ہو گیا تھا جیسے میں۔ میں پاس سے گزرتی تو اس کے چہرے پر شناسائی کا کوئی رنگ نہ آتا۔ مگر مجھے اس سے کوئی گلہ بھی کب تھا؟ جو بے چارہ اپنے آپ کو ہی بھول چکا ہو، اسے بھلا میں کہاں یاد رہ سکتی تھی؟ شاید اب اس کی زندگی کا یہی دن تھا کہ سانسوں کی مالا کے موتی گنتے اور گنتا چلا جائے۔ یونہی خواہ مخواہ۔ بے وجہ۔

ایک روز فزیو تھراپی روم میں ورزش کے دوران میں نے اپنی انڈین فزیو تھراپسٹ سے پوچھا
” یہ ظہیر عثمانی صاحب یہاں کب سے ہیں؟“

”ارے جہیر صاحب؟ بہت نائس ہیں، ان کی بیوی اور بچے سبھی ڈاکٹرز ہیں، بڑی گریٹ فیملی ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے بتایا

”امریکن کونسلیٹ میں ڈپلومیٹ ہوا کرتے تھے۔“
”اچھا تو ان کے بیوی بچے ملنے آتے ہیں؟“ میں نے کریدا

”جی ہاں آتے ہیں۔ ان کی بیوی بڑی خوبصورت ہیں، جیسے آپ پاکستانی لوگ ہوتے ہیں۔ اوپر سے فیشن ایبل ویل ڈریسڈ۔“ جواب ملا

”کچھ کھانے کو بھی لاتی ہوں گی؟“ میں نے عورتوں والا گھریلو سا سوال کر دیا۔

”ہاں ہاں لاتی ہیں۔ بڑے شوق سے کھاتے ہیں مگرا نہیں کچھ یاد نہیں۔ کسی کو پہچانتے ہی نہیں بس یہی کہتے ہیں کراچی جانا ہے۔“ تھراپسٹ نے بتا کر مجھے سوگوار کر دیا۔

اپنے امریکہ والے گھر کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ چالیس سال سے امریکہ کو گھر بنایا ہوا ہے مگر سچ ہے اپنا دیش تو اپنا دیش ہوتا ہے اور وہاں ہوتا ہے اپنا اپنا سکھ کا گاؤں۔ ہوم سویٹ ہوم۔ ”انڈین لڑکی باتیں کرتے کرتے کہیں کھو سی گئی۔ شاید اسے بھی اس لمحے انڈیا میں پیچھے رہ جانے والا گھر، گاؤں اور اہل خانہ یاد آ گئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کی اصل اپنی طرف کھینچتی ہے وہ لوٹ سکے یا نہ لوٹ سکے، بہرحال مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا ضرور ہے۔

شام کو اکثر میرا بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ مجھے ملنے آتا تو ہم لوگ بڑے سے ٹی وی روم کے صوفوں پر جا کر بیٹھ جاتے اور آپس میں ملاقات کرتے۔ ٹی وی روم میں یوں تو کچھ بوڑھے بوڑھیاں بیٹھے اونگھتے، ٹی وی دیکھتے دکھائی دیتے ہی تھے مگر ایک چہرہ ایسا بھی تھا جو مستقل وہیں براجمان رہتا۔ اس اسی پچاسی سال کی بڑھیا کا نام مسز براؤن تھا۔ سب لوگ اسے یہی کر مخاطب کرتے تھے۔ مسز براؤن مجھے اور میرے بیٹے بہو کو بڑے غور اور دلچسپی سے دیکھا کرتی تھی۔ شاید اس سفید فام بڑھیا کو ہم لوگ عجیب لگتے ہوں، پتہ نہیں۔ وہ میرے بیٹے کاشف کو خاص طور پر ٹکٹکی باندھے سارا وقت دیکھتی رہتی۔ کاشف ماشاء اللہ سانولا سلونا، لمبے قد کا خوبصورت نوجوان ہے۔ امریکی معیار کے مطابق Tall، Dark، Handome سمجھا جانے والا یہ پرکشش اور منفرد مرد نظر آتا ہے۔

ایک روز میری بہو نے کاشف سے مسکرا کر کہا ”میرا خیال ہے مسز براؤن تمہیں پسند کرتی ہے۔“ اس بات پر ہم تینوں ہنس دیے اور بات آئی گئی ہو گئی۔

ایک بار ایسا ہوا کہ کاشف چند دنوں کے لئے مجھ سے ملنے کے لئے نہ آ سکا۔ ایک شام میں ٹی وی روم میں چپ چاپ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اچانک مسز براؤن اپنی وہیل چیئر چلاتی ہوئی میرے قریب چلی آئی اور مجھ سے پوچھنے لگی

” وہ جو ہینڈ سم آدمی تمہیں ملنے آتا ہے، کہاں ہے؟ اور آج کل کیوں نہیں آ رہا؟“

مجھے دل ہی دل میں ہنسی آ گئی اور میں نے اسے بتایا کہ اسے کچھ مصروفیت ہے اس لئے نہیں آ سکا۔ میں اس بات پر محظوظ بھی ہوئی کہ مسز براؤن کے دل میں جذبے ابھی بھی جوان ہیں۔ اگر کوئی اچھا لگا تو اس نے کہہ دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دل کا کیا ہے؟ کسی پر بھی، کسی بھی عمر میں آ سکتا ہے۔ مسز براؤن کا دل چاہا تو اس نے پوچھ لیا اور مجھے اس کا پوچھنا برا نہیں بلکہ اچھا لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ میرا بیٹا ہے تو وہ مسکرا دی۔

کئی بار دل میں یہ خیال بھی آیا کہ امریکی بوڑھے بوڑھیوں کا یوں اکٹھے مل کر ایک بڑے سے گھر میں رہنا بہتر ہے یا ہمارے کلچر کی طرح بچوں، خاص طور پر بیٹیوں کے ہی ساتھ رکھا جانا زیادہ مناسب اقدام ہے۔ اولڈ ہوم میں انہیں کھانا پینا، دوائیں اور توجہ تو ملتی تھی، کئی قسم کی ایکٹی ویٹیز بھی کروائی جاتی تھیں جبکہ ہمارے کلچر کے بوڑھے تو اکثر زیادہ عمر ہو جانے پر دل ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ کسی بات میں دلچسپی نہیں لیتے اور قبر میں جانے کے پروگرام بنانے لگتے ہیں۔

میری بیٹی کے ساتھ والے گھر میں دو بیڈ روم والا ایک اپارٹمنٹ تھا، جس میں ایک سکھ فیملی قیام پذیر تھی۔ میاں بیوی، دو بچیاں اور ان کے دادا دادی سب اکٹھے رہتے تھے۔ بابا جی اور ماتا جی اکثر اپنے دیسی لباس میں اپارٹمنٹ بلڈنگ کے اردگرد واک کرتے نظر آتے تھے پھر ایک روز بابا جی فوت ہو گئے اور ماتا جی اکیلی رہ گئیں۔ پھر اکثر یوں ہونے لگا کہ جیسے ہی بیٹا اور بہو کام پر گئے، ماتا جی میری بیٹی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگتیں۔ ان کے نزدیک انڈین پاکستانی فیملی ایک ہی بات تھی۔ میں ان سے پنجابی میں بات کرتی تو بہت خوش ہوتیں۔ کبھی ہاتھ میں کچھ ڈالرز ہوتے جنہیں وہ دکھا کر کہتیں

”یہ ذرا گن کر بتا دو، کتنے ہیں؟“

کبھی کوئی فون ڈائری ہاتھ میں تھام رکھی ہوتی جس میں سے کوئی نمبر ڈائل کروانا چاہتیں۔ میں نے اور بیٹی نے انہیں کئی بار بتایا کہ ہمیں ہندی پڑھنا نہیں آتی تو وہ بے یقینی اور حیرانی سے ہماری طرف دیکھنے لگ جاتیں، جیسے کہہ رہی ہوں لو بھلا تم لوگوں کو ہندی پڑھنا کیسے نہیں آئے گی؟ میں اکثر سوچتی، نہ جانے بے چاری کے کیا مسائل ہیں؟ جالندھر سے امریکہ آ کر پھنسی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔

میری بیٹی کے گھر کے نیچے والے اپارٹمنٹ میں ایک بوڑھا امریکی اکیلا رہتا تھا۔ ہم لوگ اکثر بالکونی میں سے دیکھتے تو وہ گھسٹ گھسٹ کر گاڑی سے نکلتا، سودے ڈھوتا، کبھی سردیوں میں شیشے سے برف صاف کرتا دکھائی دیتا۔ اسے دیکھ کر بہت ترس آتا کہ بے چارہ کیسے اپنی زندگی چلاتا ہو گا؟ ایک روز میرا داماد بھاگ کر گیا اور اس کے سودے کا تھیلا اٹھا کر اس کے گھر میں لے گیا۔ بابا بہت حیران اور خوش ہوا۔ اس نے میرے داماد کو بدلے میں کچھ ڈالر دینا چاہے جو اس نے نہیں لئے تو وہ مزید حیران رہ گیا۔ اس بوڑھے کو دیکھ کر ہم لوگ یہی بات کرتے کہ اسے اولڈ ہوم میں ضرور ہونا چاہیے تاکہ اس کے کھانے پینے قیام اور میڈیکل کیئر کا انتظام ہو جائے اور وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو۔

کھانے کے وقت میں ڈائننگ روم میں ہی جانے کو ترجیح دیتی تھی۔ ایک تو اس بہانے کمرے سے نکلنے کا موقع ملتا تھا، دوسرے کچھ نئے چہرے بھی دیکھنے کو مل جاتے تھے۔ ایک دلچسپ بات یہ دیکھنے میں آئی کہ ڈائننگ روم میں زیادہ تر مرد مردوں کے ساتھ اور خواتین خواتین کے ساتھ بیٹھی نظر آتیں۔ پاکستان میں تو ایسا اکثر دیکھنے آتا ہے مگر امریکہ میں بھی ایسا ہوتا ہے، اس بات کا پہلے مجھے خیال یا دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ میں نے سوچا آخر ایسا کیوں ہے؟ تو یہی سمجھ میں آیا کہ بات مذہبی پابندی یا طرز معاشرت کی نہیں ہے۔ دراصل مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں عورتوں کے ساتھ زیادہ آرام دہ محسوس کرتی ہیں۔ شاید اس لئے کہ ان کے گفتگو کے موضوعات ایک سے ہوتے ہیں۔ اس قسم کی حقیقتوں کو یونیورسل ٹروتھ ہی کہا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں۔

میں جب بھی عورتوں والی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتی تو انہیں میک اپ، کپڑوں، ہیئر سٹائل، مردہ شوہروں اور گرینڈ چلڈرن کی ہی باتیں ڈسکس کرتے سنتی۔ اور پھر جب قریب کی میز پر بیٹھے مردوں کی باتیں کانوں میں پڑتیں تو سنتی کہ وہ لوگ بھی اپنے مخصوص پسندیدہ موضوعات کو ہی زیر بحث لاتے ہیں۔ اکثر ریٹائرمنٹ کے فند، ٹیکس، جھوٹ، فشنگ، کیمپنگ ٹرپ، ماضی کے کارنامے اور موجودہ سیاسی صورت حال پر بھی باتیں ہوتی سنائی دیتیں۔ مطلب یہی ہوا کہ واقعی مردوں، عورتوں کی پسند اور دلچسپیاں علیحدہ علیحدہ ہوتی ہیں۔

زیادہ وقت میں چپکی بیٹھی دونوں اطراف کی باتیں سنتی رہتی، خود کچھ نہ کہتی۔ شاید اس لئے کہ میں خود کو آؤٹ سائیڈر تصور کرتی تھی۔ آخر وہ گورے کالے امریکی اور میں گندمی رنگ والی مسلم عورت تھی۔ ویسے انہوں نے کبھی مجھ سے میرا مذہب یا قومیت پوچھی تو نہیں تھی مگر میں خود ہی اس معاملے میں حساس تھی کہ کوئی دل سے مجھے کہیں برا نہ سمجھ لے۔ نائن الیون سے پہلے امریکہ میں مسلم تعصب بہت کم تھا۔ نان وہائٹ بڑے اعتماد اور دھڑلے سے رہتے اور ممکنہ حقوق انجوائے کرتے تھے مگر ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد مسلمانوں کو ذرا سنبھل کے رہنا اور محتاط ہو کر چلنا پڑتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments