محبت، جنگ اور واپسی


ہو کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہو گا
زہر چپکے سے جان کے کھایا ہو گا
سین کچھ یوں تھا:
ہند کے کچھ فوجی جوان غالباً کسی محاذ پر کسی ویران جگہ پر محصور ہیں۔ اردگرد ویران، بنجر پہاڑیاں اور اداسیاں ہیں۔ ہاتھوں میں بندوقیں مگر آنکھوں میں حسرتوں اور جدائیوں کی پرچھائیاں رقص کرتی ہیں۔ اچانک ایک فوجی یہی گانا شروع کر دیتا ہے اور دھیرے دھیرے ایک کے بعد ایک سب اس کے ساتھ اس نغمہ سرائی میں شریک ہو جاتے ہیں۔
اشعار اتنے خوبصورت اور اثر انگیز تھے کہ میرا دل درد سے بھر گیا۔ فوجی جوان سپاہی جب اپنے گھروں، بیویوں، محبوباؤں، پیاروں سے بچھڑ کر اکیلے ہو جاتے ہیں تو ان کے جذبات کیا ہوتے ہیں؟ کیسا کیسا درد ان کی روح میں سما جاتا ہے۔ یہ نغمہ اسی کرب کی عکاسی کرتا تھا۔ پرانی فلموں کی شاعری لازوال ہوا کرتی تھی۔ جسے آج بھی ادب عالیہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس نغمے کا بھی ایک ایک شعر موتیوں میں تولنے کے لائق ہے۔ میں تو سن کر جھوم ہی اٹھی۔ فوجی کے دل کی چیخ کچھ یوں ابھرتی ہے :
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے۔ ایک ایک حرف جبیں پر ابھر آیا ہو گا
میز سے جب میری تصویر ہٹائی ہو گی۔ ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہو گا
نام پر جب میرے آنسو نکل آئے ہوں گے۔ سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اٹھایا ہو گا
سچ تو یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ، علاقہ، معاشرہ ہو، محبت کرنے والوں کے دلوں میں محبت اور بچھڑتے ہوؤں سے ملنے کی تانگ، واپس لوٹ جانے کی امید، کبھی دم نہیں توڑتی۔ ہر ذی روح ہر جاندار، ہر باشعور گھر کو ہی لوٹنا چاہتا ہے۔ اس خواہش کی آگ کی لپٹوں سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔
گھر ہوم سویٹ ہوم ہی ایسی جگہ ہے جہاں آسودگی کی چھت تلے مسرتوں اور محبتوں کی مہک ہوتی ہے۔ گرم گرم کھانے پکتے ہیں۔ پیٹ بھرتا ہے تو روح بھی شانت رہتی ہے چاہے جانے کے خمار میں پرسکون نیندیں آتی ہیں تو میٹھے میٹھے خواب گدگداتے ہیں۔ توقع اور امیدوں کی جھلملاہٹیں، زندگی کو روشن رکھتی ہیں۔ اکیلے شخص کے لئے تنہائی کا دوزخ پار کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ ہندوستانی سپاہیوں کی تنہائیوں اور محبتیں چھن جانے کے آزار کے جذبات پر فلمایا ہوا یہ گانا ایک کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی محبوبہ ان کی لمبی جدائی پر کیسی کیسی کیفیات سے گزرتی ہو گی۔ اسے کتنی مجبوری سے ان کی یادوں سے ذہن کو کھرچ کر نکالنا پڑتا ہو گا۔ کتنا تڑپتی ہو گی وہ۔
میں نے یہ بھی سوچا ایسا فرق کیوں ہے؟ کیا ہند و پاک کی عورت مغربی عورت سے مختلف ہے؟ برصغیر پاک و ہند کی عورت کا مرد جب لام پر جاتا ہے تو وہ بے بسی محسوس کرتی ہے اور چھپ چھپ کر آنسو بہانے کو ہی تقدیر سمجھ لیتی ہے۔ برہا کی اگنی اس لکڑی سمان بدن کو کوئلہ بناتی ہے اور پھر ایک دن وہ راکھ ہو جاتی ہے۔ کیا اس کے تن اور من میں جیتی جاگتی خواہشیں اور آرزوئیں نہیں پلتیں؟ سچ ہے ستی ہو جانے کے ستم کی رسمیں کسی نہ کسی شکل اور صورت میں زندہ ہی رہتی ہیں، مرتی نہیں۔
مشرقی عورت اکیلی رہ جائے، اس کا مرد اس سے دور چلا جائے یا ہو جائے تو اس کے لئے دوبارہ سے نئی زندگی کے تمام دروازے بند سمجھ لئے جاتے ہیں۔ یہی تصور کر لیا جاتا ہے کہ اب اس کی تمام ضرورتیں اور خواہشیں ختم ہو چکی ہیں۔ اسے عظیم اور مہان کہہ کر اس کے گلے میں عزت و توقیر کے پھولوں کی مالا پہنا کر ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔ معاشرے اور بچوں کی خاطر ان کی خواہشوں کے گلے گھونٹ دینے کی اس کی قربانیوں کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور وہ جیتی جاگتی عورت سے ایک پتھر کی مورت بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی معاشرے کی عورت اپنے انسان ہونے کا حق پوری طرح استعمال کرتی ہے۔ اپنے لئے نئی خوشیاں تلاش کرنا اپنا جائز حق سمجھتی ہے۔
اس کا چلے جانا والا مرد جب گھر لوٹتا ہے تو اکثر اس کی شریک سفر بدل چکی ہوتی ہے کیونکہ اس سے انتظار اور تنہائی کا کشٹ کاٹا نہیں جاتا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مغربی معاشرے میں مرد عورت کے آزادانہ میل جول کی وجہ سے نئے ساتھی کا ڈھونڈنا اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا۔ تو وہ سوچتی ہے کس کارن لذت محبت سے خود کو دور رکھے۔ دور جانے والے کے آنے کی گھڑی کا پتہ کب ہوتا ہے اور خوابوں کے سہارے جیا نہیں جا سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی لمحہ موجود سے عبارت ہے اور کسی کے انتظار میں گھٹ گھٹ کر مرنا یا مٹی کا تودہ بن جانا آسان نہیں ہوتا۔ کون نہیں چاہتا کہ اس کے مردہ تن و روح اور زندگی میں محبت کی روح پھونکنے کا عمل جاری نہ رہے۔ اس خوبصورت تجربے کی سرشاری کی لذت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے؟
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وفا کی روایات، انسانی جبلتیں، خواہشات اور ضروریات کی تشفی بھی تہذیب و تمدن کے قانون و قواعد کے تابع ہوتی ہے۔ کئی بار انسانوں اور خاص طور پر ہمارے معاشرے کی عورتوں کو خلاف فطرت طرز زندگی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ وہ کر تو لیتی ہیں مگر اس سے ان کی اپنی ذات کی تکمیل کا کام تو ادھورا رہ جاتا ہے۔ کم ہوتے ہوتے صدیاں لگ جائیں گی۔ انسان تو حسیات کا مرقع ہوتا ہے۔
عورت انسان ہے، راکھ ہونے کا ہنر جانتی ہے مگر کیا راکھ میں شرر پنہاں نہیں ہوتے؟ مشرقی معاشرے اور تہذیبیں اکیلی عورت کو راکھ کی ڈھیری سمجھ کر فراموش کر دیتے ہیں مگر عورت تو سرشار جذبوں کا ایک جلتا ہوا روشن دیپک ہے۔ اس کے کان پیار کے رسیلے بول سننے کو اور دل پیار کا خزانہ اپنے اندر چھپا لینے کو ہمیشہ تیار ملتا ہے یہی اس کی فطرت اور جبلت کا تقاضا ہے۔
میری فزیو تھراپی کے سیشنز مکمل ہونے کو آ رہے تھے۔ اب میں بھی گھر لوٹ جانے کے خواب دیکھنے اور دن گننے لگی تھی۔ بروس بہت دن مجھے دکھائی نہیں دیا۔ میں سمجھی شاید اسے چھٹی مل گئی اور وہ چلا گیا ہو۔ ایک روز اچانک میں نے اسے لنگڑاتے ہوئے کاریڈور میں سے گزرتے دیکھ لیا۔
”ہیلو بروس“ میں اس کے قریب چلی آئی۔ ”کیسے ہو؟“
”اوہ۔ ہیلو پاکستانی۔ تم بتاؤ کب گھر جا رہی ہو؟“ اس نے الٹا مجھ سے سوال کیا۔
”میں جلد ہی چلی جاؤں گی۔“ میں نے اسے جلدی سے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔ ”بہت دنوں سے تم دکھائی نہیں دیے؟“
”وہ پاؤں کی انگلی کی سرجری ہوئی تھی نا تو اسی لئے نظر نہیں آیا۔“
”اچھا۔ مجھے سن کر افسوس ہوا۔“ میں نے کہا
”ہاں لیکن اب میں ٹھیک محسوس کر رہا ہوں۔ اور خوشی کی خبر تو یہ ہے کہ آج میں گھر جا رہا ہوں۔ ہوم سویٹ ہوم۔“ وہ اپنی بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے خوشی سے بولا
”اچھا۔ مبارک ہو۔ یہ تو واقعی خوشی کی بات ہے۔“ میں نے ہنس کر کہا
”ابھی تھوڑی ہی دیر میں میری بہن اور اس کا بیٹا آئیں گے اور مجھے میرے گھر چھوڑ دیں گے۔ میں تو بہت بے چین ہوں اپنے گھر جانے کے لئے۔“ وہ ایکسائٹمنٹ سے بولا
”گھر میں کوئی ہو گا تمہارے ساتھ؟ میرا مطلب ہے۔“ میں نے ادھوری چھوڑ دی۔
”ہاں ہاں۔ وہ میرا انتظار کر رہی ہو گی۔“ وہ مسکرا کر بولا۔
”اچھا؟ کون؟“ میں بروس کی خوشی دیکھ کر خوش ہو گئی۔
”میری بلی بہت اداس ہو جاتی ہے میرے بغیر۔ سچ“ بروس کے لہجے میں دنیا بھر کا پیار سمٹ آیا۔
”او کے بائے۔ تم سے ملنا بہت اچھا لگا۔“ وہ ہاتھ ہلاتا ہولے ہولے قدم اٹھاتا، کاریڈور میں سے دور جاتا نظر آیا اور کچھ دیر بعد میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments