محبت، جنگ اور واپسی


”میں جنگ کی ہلاکتوں کے مناظر دیکھتا اور مزے سے تصویریں کھینچتا تھا۔ یہی سمجھتا تھا کہ ویت نامی لوگ کیڑے مکوڑے ہیں، اسی قابل ہیں کہ ہماری سفید Race انہیں مسل کے رکھ دے۔ ان پر قابض ہو جائے مگر جب ایجنٹ اورنج والی کیمیائی بارش برسائی گئی اور میں مقامی لوگوں کو تیزاب میں گھلتے، تڑپتے، جلتے مرتے دیکھا تو میرا جی گھبرا گیا۔ میں ایک سال بعد ہی چھٹی لے کر گھر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اپنے محبوب بیٹے اور بیوی کے لئے بے انتہا اداس تھا اور ان تک اڑ کر پہنچنا چاہتا تھا۔ میرا ہوم سویٹ ہوم مجھے خوابوں میں آ کر لبھانے لگا تھا۔“
”تو پھر تم لوٹ آئے؟“ میں نے بے چین ہو کر پوچھا
”ہاں۔ سوچا اپنی بیوی اور بیٹے کو سرپرائز دوں گا تو وہ خوشی سے بے قابو ہو جائیں گے۔ چند روز بعد میں اپنے ہوم ٹاؤن ہکس ول جا پہنچا۔ شام ڈھل رہی تھی اور میں اپنے گھر کے سامنے کھڑا اسے محبت اور حسرت سے دیکھ رہا تھا۔ گھر کے اندر سے ایپل پاتی بیک ہونے کی اشتہا انگیز خوشبو آ رہی تھی، جسے سونگھتے ہی میں بے چین ہو کر فوراً گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ سیلی کچن میں ایپرن باندھے کھڑی تھی اور ایلن کسی کھلونے سے کھیل رہا تھا۔ میں فوراً ہی سیلی سے لپٹ گیا اور اسے بے تحاشا چومنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ سے بس یہی نکلتا رہا“ اوہ مائی گاڈ۔ اوہ مائی گاڈ۔ ”وہ بھی مجھے جو اباً چمٹتی جا رہی تھی۔
چند لمحوں بعد میں نے نظر گھما کر ادھر ادھر دیکھا تو مجھے صوفے پر بیٹھا ایک شخص نظر آ گیا۔ جو بڑے انہماک سے ٹی وی پر فٹ بال گیم دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا یا کہتا، وہ ہیلو بروس کہہ کر اٹھا اور مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں کچھ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اس نے کہا
”میں سیلی کا بوائے فرینڈ فرینک ہوں۔ ہم دونوں تمہیں اپنے تعلق کے بارے میں بتانا ہی چاہ رہے تھے کہ تم آ گئے۔ چلو اچھا ہوا۔ امید ہے تم انڈر سٹینڈ کر لو گے۔“
میں نے سیلی کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں اس بات کا اقرار لکھا دیکھ لیا۔ میں کئی لمحے گم صم کھڑا رہا۔ پھر ایلن کو گود میں اٹھایا، اسے چند لمحے پیار کیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
”اوہ۔“ میرے منہ سے اور کچھ نہ نکلا۔ بروس نے اپنی بات جاری رکھی۔
”باہر والے oak tree کا تو مجھے خیال ہی نہیں رہا تھا۔ وہاں کوئی پیلا ربن اب موجود نہیں تھا۔ بہر حال زندگی تو ایسی ہی ہوتی ہے۔“ وہ کہہ کر مسکرانے لگا۔
”ارے باتوں باتوں میں مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میری نرس میرے کمرے میں پہنچ گئی ہو گی اور مجھے ڈھونڈ رہی ہو گی۔“
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ اس کے چلنے سے اس کی ٹانگ اور پاؤں میں ہونے والی تکلیف صاف واضح ہو رہی تھی۔
اس کے بعد سے کئی روز تک وہ مجھے فزیو تھراپی روم میں نظر آتا تو ہم محض ہیلو ہائے کہہ کر پاس سے گزر جاتے، بات نہ ہو پاتی۔ میں حسب معمول شام کو کاریڈور میں واک کر کے وقت گزارتی مگر وقت کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ جی چاہتا تھا جلد از جلد یہاں سے نکل بھاگوں۔ اب تو میرا دم گھٹنے لگا تھا۔ لگتا جیسے کسی نے مجھے ایک ویران جزیرے پر قید کر دیا ہے اور رہائی کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو۔ چاروں طرف سمندر ہے اور مجھے تیر کر پار جانا نہیں آ رہا۔
ڈائننگ روم میں حسب معمول عورتیں مرد اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ کر کے وقت گزارتے تو مجھے بروس بھی دکھائی دیتا اور ہم مسکرا کر ہیلو کہہ لیتے۔ مجھے تو بروس سے بہت سی باتیں پوچھنا تھیں۔ ایک روز اسے ایک صوفے پر تنہا بیٹھے دیکھ کر میں پھر سے اس کے پاس جا کر بیٹھی گئی اور اس کا حال چال پوچھنے لگی۔
”تمہارے پاؤں کی انگلی اب کیسی ہے؟“ میں نے اس سے پوچھا
”لگتا ہے کاٹنی ہی پڑے گی۔ ڈاکٹرز نے یہی بتایا ہے۔ دراصل میں ذیابیطس کی پرہیز وغیرہ بالکل نہیں کرتا۔ ہر چیز کھاتا پیتا ہوں نا۔“ اس نے دانت نکال کر میرے سامنے اعتراف جرم کیا اور سامنے پڑا ایک کیک پیس منہ میں ڈال دیا۔
”تمہیں کوئی سمجھاتا نہیں۔ ؟ میرا مطلب ہے تمہاری بیوی؟ پھر شادی کی؟“ میں نے اسے یونہی کریدا۔
”ہاں۔ دوسری شادی میں نے لنڈا سے کی۔ ہم دونوں ایک فشنگ کیمپنگ ٹرپ پر ملے تھے۔ ملنے کے کچھ عرصہ بعد ہم ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور شادی رچا لی۔ بہت اچھی بیوی تھی لنڈا۔“
”اچھا۔ یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ چلو تمہارا گھر پھر سے بس گیا۔“ میں نے مسکرا کر کہا
”ہاں ہم بھی بہت خوش تھے۔ اس کے پہلے سے دو بچے تھے۔ پھر دو ہمارے اپنے بھی ہو گئے۔ لائف اچھی گزرنے لگی۔“
اس نے اپنی داستان حیات جاری رکھی۔
”تو لنڈا اب کہاں ہے۔ ؟ ملنے آتی ہے۔ ؟“ میں اپنا تجسس چھپا نہ سکی اور فوراً پوچھ لیا۔
”اب ہم اکٹھے نہیں ہیں۔“ اس نے جواب دے کر میری بولتی بند کروا دی۔
”ہیں۔ ؟ کیوں کیا ہوا؟“ میں نے فکرمندی سے پوچھا
”چند سال بعد مجھے کوریا کی جنگ میں جانا پڑ گیا۔ وہاں دو سال کی پوسٹنگ تھی۔ اب کی دفعہ بھی آنے پر حالات بدل چکے تھے۔ لنڈا کی زندگی میں کوئی اور آ گیا تھا۔ واپس آیا تو اس نے مجھ سے طلاق کی خواہش کی۔ میں نے سچوئیشن کو سمجھا۔ ظاہر ہے وہ اتنا عرصہ اکیلی تو نہ رہ سکتی تھی۔ اس کی زندگی میں کسی نے تو آنا ہی تھا۔ بس پھر ہم نے اپنی راہیں بدل لیں۔ ویسے تم بتاؤ تمہیں ایک فراموش کردہ سپاہی کی کہانی سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟“ بروس نے سوالوں کا رخ میری طرف موڑ دیا۔
”بس ہے۔ دراصل میں کہانیاں لکھتی ہوں نا۔ تو مجھے ورلڈ پالیٹکس، جنگوں اور انسانوں کی زندگیوں پہ ان کے اثرات کی کہانیاں بڑی دلچسپ اور پرکشش لگتی ہیں۔ امریکہ اور پاکستان دونوں ملکوں میں وقت گزرتا ہے تو مجھے دنیا کے حالات سے باخبر رہنا اچھا لگتا ہے۔“ میں نے اسے توجیہہ پیش کی تو وہ کچھ مطمئن سا ہو گیا۔
”تو اب تمہاری فیملی ہے۔ ؟“ میں نے کہانی کا سرا پھر سے تلاش کرنے کی کوشش کی۔
”میں نے پھر قسمت آزمائی کی اور ٹینا سے تیسری شادی کی۔ بہت اچھی عورت تھی ٹینا۔ بس ایک ہی مسئلہ تھا، اسے ڈرگز کی ایڈکشن تھی۔ میں نے اس کا نشہ چھڑوانے میں بہت مدد کی۔ اسے rehab میں داخل کروا دیا۔ اس کے بچے سنبھالے۔ مزے کی بات بتاؤں اپنی تینوں بیویوں کے اگلے پچھلے اور ہمارے اپنے بچے ملا کر ہم نے تقریباً بیس بچوں کی پرورش کی۔ ہمارے گھروں میں تقریباً ہر نسل ہر رنگ ہر قومیت کے بچے آتے جاتے رہتے۔ ہمیں یہ سب بہت اچھا لگتا تھا۔ گھر تو پھر گھر ہی ہوتا ہے نا؟ ہوم سویٹ ہوم ہر بچے کا حق ہوتا ہے۔“
میں نے نوٹ کیا کہ بروس کا کسی بھی بات کے بارے میں رویہ منفی نہیں تھا۔ یہ اس کی ایک قابل تعریف اور قابل قدر بات تھی جو میرے دل کو بہت بھائی۔ انسان کو ہر حال میں مثبت ہی ہونا چاہیے۔
”اسی طرح میرے ایک بیٹے نے پاکستانی لڑکی پسند کر لی۔ ان کی شادی ہو گئی اور وہ ہماری فیملی کا حصہ بن گئی۔ بڑی اچھی ہے وہ، ویری کیئرنگ۔“ بروس کی بات سن کر مجھے پھر سے خوشی اور کسی قدر احساس تفاخر ہوا کہ ہماری پاکستانی بچی نے امریکن فیملی کی اچھی طرح دیکھ بھال کی۔
”اب ٹینا کہاں ہے؟ تمہاری بیوی؟“
”مر گئی۔“ بروس نے آرام سے جواب دیا مگر میری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
”مر گئی؟ کیسے۔ ؟“ میں نے حیرت سے پوچھا
”پھر سے جنگ بیچ میں آ گئی۔ کسی کو احساس بھی نہیں کہ یہ جنگیں کس طرح ہم سے ہماری خوشیاں چھین کر ہماری زندگیاں اتھل پتھل کر کے رکھ دیتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد مجھے فوج نے افغانستان بھیج دیا۔ وہ ایک عجیب و غریب جنگ تھی۔ گرم ریت کے بگولوں میں گھر کے میں کچھ عرصہ کے لئے لاپتہ ہو گیا۔ اس بے تکی اور ظالم جنگ نے مجھ سے میری پہچان، میرا احساس، میرا ذہن سب کچھ چھین لیا۔ میرے حواس گم ہو گئے اور مجھے اس نے ذہنی طور پر اتنا ڈسٹرب کیا کہ میں ہوم سویٹ ہوم اپنے امریکہ لوٹنے کی امید ہی کھو بیٹھا تھا۔ پہاڑوں، غاروں میں چھپتے، لڑتے، بھڑتے وقت گزرتا چلا گیا۔ ٹینا میری گمشدگی سے پریشان اور ڈپریشن کا شکار ہو گئی تھی۔ اس نے ہیروئن کا نشہ پھر سے شروع کر دیا اور ایک دن اوور ڈوز ہو کر ختم ہو گئی۔“
ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک عورت اور ایک لڑکا بروس کو ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ گئے۔ وہ خوشی سے کھل اٹھا اور مجھے بتانے لگا۔
”یہ میری بہن اور اس کا بیٹا ہے۔ مجھے ملنے آئے ہیں۔ اب میں چلتا ہوں۔ بائے۔“
وہ لنگڑاتا ہوا ان کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ میں بھی تھک گئی تھی۔ اٹھی اور اپنے کمرے میں آ کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ سوچا وقت گزاری کے لئے کمپیوٹر پر کچھ پرانے ویڈیو گانے ہی دیکھ لوں۔ طبیعت بہل جائے گی۔
بہت سے گانے سنتے سنتے اچانک ایک گانا یو ٹیوب میں سے نکل کر میرے سامنے آ گیا جیسے مالا میں سے کوئی منکا ٹوٹ کر باہر آ گرتا ہے۔ یہ انڈین گانا کسی پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلم کا تھا، جس کے بول بھی بڑے دکھ بھرے تھے :

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments