عالم برزخ سے عامر لیاقت حسین کا پہلا خط


پاکستان میں موجود تمام ہی قارئین و ناقدین کو اور پاکستان سے باہر بھارت، متحدہ عرب امارات، تمام خلیجی ریاستیں، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور وہاں سے آگے تمام یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ، فرانس، اسپین، اٹلی، جرمنی سویڈن، اور وہاں سے بھی آگے ریاست متحدہ امریکہ ساؤتھ افریقہ کینیڈا آسٹریلیا، ناروے۔ اور جہاں جہاں دنیا بھر میں میری یہ تحریر پڑھی جا رہی ہے وہاں وہاں موجود تمام قارئین کو انتہائی محبت خلوص ادب اور احترام کے ساتھ آپ سب کو

”عالم برزخ“ سے عامر لیاقت حسین کی طرف سے ”السلام علیکم“

قارئین و ناقدین آج عالم برزخ میں یہاں میرا پہلا دن ہے۔ میرے ساتھ کیا ہوا، کیسے ہوا۔ میں اچھا تھا یا بہت برا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ میں ایک سچا عاشق رسول اور عاشق اہل بیت تھا۔ جب میں سات برس کا ایک ننھا بچہ تھا، تب ہی سے میں نے سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں نعت رسول مقبول پڑھنے کا آغاز کیا۔ دنیا مجھے کچھ بھی سمجھے کہے مگر میں خود کو نعت خواں کہنے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔

میرے محترم ناقدین میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ آپ لوگ مجھ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ آپ نے میرے کردار میری گفتار میری کامیابیوں و ناکامیوں پر ہمیشہ انگلیاں اٹھائیں۔ میرے خلاف تیز و تند جملے کسے۔ میں نے اپنی زندگی میں اگر کچھ اچھے عمل کرنے کی بھی کوشش کی، تب بھی میرے خلاف دشنام طرازی جیسا رویہ اپنایا گیا۔ اس کو دکھاوا کہا گیا۔ میری ذات پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔ مگر میں نے ہمیشہ خوشیاں بکھیرنے کی کوشش کی۔ کتنے ہی بچھڑے ہوئے بچوں کو ان کے ماں باپ سے ملوایا۔ موذی امراض میں مبتلا لاچار و بے بس مریضوں کے آپریشن کروائے۔ اولڈ ہاؤسز میں آپ لوگ جہاں اپنے بوڑھے والدین کو مرنے کے لیے چھوڑ گئے ان کو آپ سے دوبارہ ملوایا۔

آپ دولت و شہرت کی بلندیوں پر جس عامر لیاقت کو پرواز کرتا دیکھتے تھے، وہ مقام مجھے پلیٹ میں سجا کر پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے لیے میں نے دن رات محنت کی ہے۔ میری زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب میرے پاس اپنی جان سے پیاری ننھی بیٹی ”دعا“ کو دینے کے لیے پچاس روپے تک نہیں تھے۔ اس وقت میری بے بسی و لا چاری میں ہی جان سکتا تھا۔ میری اولین خواہش تھی کہ میں اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دے سکوں۔ ان ہی کے بہتر مستقبل کے لیے میں نے دن رات پسینہ بہایا، محنت مشقت کی تاکہ میرے بچے معاشرے میں اعلیٰ مقام پا سکیں۔

محترم ناقدین۔ آپ کو اچھی طرح سے یاد ہو گا کہ وطن عزیز میں ایک ایسا بھی وقت آیا، جب مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے پر شدید قسم کی فتوے بازیوں کا دور تھا۔ جہاں ایک دوسرے کو کافر اور بدعتی کی اسناد سے نوازا جاتا تھا۔ میں نے ان مخدوش حالات میں جہاں دلوں میں نفرتیں پنپ رہی تھیں اتحاد بین المسلمین کے نام پر تمام مکاتب فکر کے علماء اکرام کو عالم آن لائن میں ایک ساتھ بٹھایا۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح علماء اکرام کے ایک نشست پر بیٹھنے سے تمام مسالک کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔

رمضان المبارک میں آپ کے لیے افطار سے سحر تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی براہ راست نشریات کیں۔ جو ایک عالمی ریکارڈ بھی ہے۔ پھر انعام گھر میں گر کسی کو میں نے آم کھلایا یا کبھی آپ کو ہنسانے کے لیے میں ”ناگن“ بنا تب بھی مجھ پر آپ کی طرف سے گولہ باری کی جاتی۔ میرا تمسخر اڑایا جاتا۔

محترم ناقدین! آج میں سوچتا ہوں جس انسان نے لوگوں میں ہمیشہ محبتیں تقسیم کیں۔ جس کی ہمیشہ کوشش رہی کہ میں دکھی دلوں کو ہنسا سکوں، ان کے لبوں پر مسکان بھروں۔ بچھڑے ہوؤں کو جوڑ سکوں۔ میری ان سب کاوشوں کے باوجود مجھے کیوں نفرت کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ 22 اگست 2016 سے پہلے جب میں متحدہ قومی مومنٹ میں تھا۔ اس وقت ایک میں ہی تھا جو الطاف حسین بھائی کی ترجمانی کر رہا تھا۔ کہاں تھی اس وقت کی رابطہ کمیٹی اور سینئر ترین مفاد پرست ارکان جو الطاف حسین سے وفاداری کی قسمیں کھاتے تھے۔ وہ سب 22 اگست سے پہلے ہی الطاف حسین سے فاصلے بڑھا چکے تھے۔

ان حالات میں صرف میں ہی چٹان کی طرح مضبوطی سے مختلف ٹاک شوز میں بیٹھا ان کا دفاع کر رہا تھا۔ آپ شاید اس بات سے بھی لاعلم ہوں ان کی اس متنازع تقریر کے بعد بھی میں وہ واحد فرد تھا جو اس پر بھی ان کے دفاع میں کھڑا تھا۔ اس ہی کی پاداش میں مجھے گرفتار کیا گیا اور پھر کیا ہوا کیسے ہوا عقل و شعور اور فہم و فراست رکھنے والے صاحب علم میری مجبوریوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جب میں ایم کیو ایم میں تھا، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم میری مری ہوئی ”ماں“ کو گندی اور بازاری گالیاں دیتی رہی۔ جس کو سن کر میرا دل تڑپ جاتا، میری آنکھیں نمناک ہو جاتیں۔ 22 اگست کے بعد جن حالات میں مجھے تحریک انصاف میں شامل ہونا پڑا تو دوسری طرف سے مجھ پر غداری کے فتوے لگائے جاتے۔

22 اگست 2016 کے بعد آپ نے جس عامر لیاقت حسین کو دیکھا وہ یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کی گفتار اس کا انداز تکلم اس کا لب و لہجہ سب ہی تو تبدیل ہو گیا۔ مجھے جیو کو خیر باد کہنا پڑا اور پھر میں نے بول نیوز جوائن کیا۔ وہاں مجھے ایسا پروگرام ”ایسے نہیں چلے گا“ دیا گیا۔ جو قطعی میرے مزاج کے مطابق نہیں تھا۔ وہیں سے میرا زوال شروع ہوا۔ ایسا میں نے کیوں کیا کس لیے کیا؟ جانے دیں۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ یہ سب وہ عوامل تھے جو مجھے دن بہ دن ڈپریشن کا شکار کر رہے تھے۔ اس ہی ڈپریشن نے میری ازدواجی زندگی کو بھی متاثر کیا۔ میرا کریئر تباہ ہوتا گیا۔ میرے اپنے مجھ سے بچھڑتے گئے۔ میں تنہائی کا شکار ہونا شروع ہو گیا۔

پھر طوبیٰ میری زندگی میں آئیں۔ ان سے میں نے باقاعدہ نکاح کیا۔ ان کو اپنی شریک حیات بنایا۔ اس پر بھی آپ لوگوں نے میرے خلاف ہتک آمیز رویہ روا رکھا۔ مجھے بدچلن اور ٹھرکی کے القابات سے نوازا گیا۔ کیا آپ لوگوں نے کبھی یہ سوچا کہ اگر میں ایک بد کردار ٹھرکی انسان ہوتا تو اپنی ٹھرک پوری کرنے کے لیے میرے پاس اتنے وسائل تھے کہ میں اپنی ٹھرک ناجائز عمل سے بھی پوری کر سکتا تھا۔ مگر میں نے شرعی طور پر ایک خاتون سے نکاح کیا۔ ان کو عزت شہرت مقام اور سہارا دیا۔ مگر آپ لوگوں کی ہائے اور سوشل میڈیا پر میرے خلاف چلنے والی مہم سے میرا وہ گھر بھی تباہ ہو گیا۔ طوبیٰ مجھے چھوڑ گئیں۔ جس کے بعد میری زندگی پھر ایک دفعہ تنہائی کا شکار ہو گئی۔

دانیہ لودھراں کے گاؤں کی ایک انتہائی غریب گھرانے کی لڑکی تھی۔ جس کو میں نے غلاظت کے اس دلدل سے نکال کر ایک عزت دار زندگی دینے کی کوشش کی۔ اس کم عمر لڑکی کو نبی کی سنت کے عین مطابق اپنے نکاح میں لیا۔ اس کو اپنی تنہائی کا ساتھی تصور کیا۔ اپنے دکھ اپنے درد، تکالیف دانیہ کے ساتھ بانٹیں۔ اپنے ہاتھ سے اس کو کھانا بنا بنا کر کھلایا۔ ایک نئی خوشگوار زندگی کا خواب دیکھا کہ شاید اس طرح میں قید تنہائی سے نکل سکوں جو مجھے دیمک کی طرح کھائے جا رہی تھی۔

میں نے دانیہ کا ہر طرح سے خیال رکھا اس کے خاندان کی کفالت کی۔ ان کا ہر دکھ سکھ میں ساتھ دیا۔ مگر میری ان سب اچھائیوں کے باوجود دانیہ نے حدود اللہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ وہ عمل کر ڈالا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے اللہ کی جانب سے ڈھکا ہر پردہ پھاڑ ڈالا۔ میاں بیوی کی تنہائی میں بھروسے اور یقین کی قوت کو للکار دیا، اس نے میرا لباس پھاڑ ڈالا۔ مجھے قوم کے سامنے برہنہ کر دیا۔ اور پھر جس طرح آپ لوگوں نے میری برہنہ بے لباس ویڈیو پر مجھے تضحیک کا نشانہ بنایا۔ بیہودہ کمنٹس کیے۔ میری ویڈیو کو واٹس ایپ گروپس اور مختلف پیجز پر شیئر کیا گیا۔ نام نہاد یوٹیوبرز سے میری کردار کشی کروائی گئی۔ آپ کے اس عمل نے مجھے میرے بچوں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔

میری جو ویڈیو وائرل کر کے میرا تماشا بنایا گیا، میری تذلیل کی گئی، مجھے بدکردار اور بدچلن ثابت کیا گیا۔ پر میرا آپ سب معززین وطن سے صرف ایک سوال ہے۔ کیا اس ویڈیو میں میں کسی زانی کا کردار ادا کر رہا تھا۔ یا میں کسی نامحرم دوشیزہ کے ساتھ کسی ہوٹل کے کمرے میں تھا، جس پر میری کردار کشی کی گئی۔ میں تو اپنی بیوی کے ساتھ اپنے کمرے میں تھا۔ جو میرا اور میں اس کا لباس تھا۔ جو میری اور میں اس کی عزت کا ضامن تھا۔

آپ نے اس عورت کو مقبول کر کے، اس کے بیہودہ الزامات کی تشہیر کر کے میری عزت تار تار کر ڈالی۔ پھر سب سے بڑا المیہ یہ کہ اس ملک میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے ادارے کسی محکمے نے اس گھناونے عمل پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کسی عدالت کے کسی معزز جج صاحبان نے سوموٹو ایکشن نہیں لیا۔ کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی آخر کیوں؟

جو یوٹیوبرز نام نہاد صحافی میرے ملک کے اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائیں۔ میرے سپہ سالار کو میر جعفر و میر صادق کہہ کر ان پر غداری کے فتوے لگائیں، میرے ملک کی معزز عدلیہ ان کو قبل از وقت گرفتاری ضمانتیں دیتی پھریں۔ کوئی دوسرا سیاست دان بغیر نکاح کے اولادیں پیدا کرے، جس کے لاتعداد جنسی اسکینڈل ہوں۔ آپ جسے صادق و امین قرار دیتے ہیں۔ ان کے ناجائز فعل کو ان کی ذاتی زندگی قرار دے کر انھیں بری الذمہ قرار دے کر مسند اعلیٰ پر بٹھا دیتے ہیں۔

اور جو انسان نکاح جیسے پاکیزہ رشتے میں بندھ کر، شرعی طریقہ اپناتے ہوئے کسی کو عزت بھری زندگی دے۔ اس کو اپنی زندگی میں شامل کرے۔ آپ کی نظر میں وہ بدکردار و بدچلن ہے۔ اس کی عزت بیچ بازار نیلام کردی جائے۔ آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے بچوں، عزیز و اقارب دوستوں کو منہ دکھانے قابل نہ رہے۔ آپ اس گھناونے فعل پر بھی اس کا استہزا کریں اس کی میمز بنائیں۔ اس کو معاشرے میں اور ننگا کریں۔

میرے محترم ناقدین آپ سے بارہا گزارش کی کہ میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوں۔ شدید اذیت اور کرب مبتلا ہوں۔ خدارا مجھے معاف کر دیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں نے عمران خان پر تنقید کی۔ مگر میری اس بات پر بھی مجھے اور میری ماں کو گالیاں دی گئیں۔ ان کو ”کنجری“ کہا گیا میرا تمسخر اڑایا گیا۔ آپ کے اس طرز عمل سے ایک ہنسنے بولنے والا زندہ دل عامر لیاقت حسین قید تنہائی کا شکار ہو گیا۔ میں رات رات بھر روتا رہتا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کرتا یا اللہ میں لاکھ گناہ گار، خطاکار ہوں۔ مگر تیرے محبوب کا عاشق رسول ہوں۔ ان کے طفیل میری خطاؤں کو درگزر فرماتے ہوئے مجھے اس آزمائش سے نکال میں اس آزمائش کے قابل نہیں ہوں۔

میں رات بھر اپنے پروردگار سے یہ ہی فریاد کرتا رہتا۔ دعا اور احمد کو شدت سے یاد کرتا کہ کاش جانے سے پہلے ایک بار اپنی گڑیا ”دعا“ اور احمد کو گلے سے لگا کر ان سے اپنی خطاؤں پر معافی مانگ سکوں۔ ان کے گلے لگ کر خوب رو لوں۔ دنیا کی بے رخی اور ان کی نفرت سے میرے اندر جینے کی تمنا بالکل ختم ہو چکی تھی۔ بس ایک آخری خواہش تھی کہ ملک چھوڑنے سے پہلے میں اپنی آنکھوں سے اپنے بچوں کو آخری بار دیکھ سکوں۔ مگر یہ ہو نہ سکا، اور جس عامر لیاقت کی پوری زندگی دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب تھی۔ کیسے اس کی موت ایک معما بنا دی گئی۔ اور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر چل دیا۔ میرے سینے میں کئی راز تھے جو میرے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔

یہاں عالم برزخ میں پہنچتے ہی میں نے دور سے دیکھا سفید پوشاک میں ملبوس ایک خاتون اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے مجھے پکار رہی ہیں۔ میرے قریب آؤ ”عامر“ ۔ میں حیرانی اور پریشانی کے عالم میں کبھی دائیں دیکھتا کبھی بائیں اور کبھی اس گونجتی ہوئی آواز کی طرف دیکھتا تو غور سے سننے کے بعد مجھے آواز مانوس سی لگی۔ میں دوڑتا ہوا ان خاتون کے قریب پہنچا تو دیکھا وہ کوئی اور نہیں محترمہ محمودہ سلطانہ میری ”امی جان“ تھیں۔ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب سا بہنے لگا۔ میں لپک کر ان کے گلے لگ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ وہ مجھے اپنے سینے سے لگا کر دلاسا دیتی رہیں۔ بس کرو بیٹا چپ کرو مگر میں بدستور امی سے لپٹ کر روتا رہا اور کہتا رہا امی میں اس دنیا کی بہت ساری نفرتیں سمیٹ کر یہاں پہنچا ہوں۔

جن سے میں نے محبت کی۔ جس پر بھروسا کیا اس نے میرا مان توڑا ماں۔ آپ کا ”عامر“ آپ کا چھوٹو بہت تھک چکا ہے۔ میں بہت برا ہوں ماں بہت برا۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر روئے جا رہا تھا۔ مجھ کو نیند آ رہی ہے ماں مدت ہو گئی آپ کا عامر سکون سے سو نہیں سکا ماں۔ مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر سلا دو ماں۔ مجھے سکون کی تلاش ہے جو تیرے آغوش میں ہی میسر ہے ماں۔ مجھے سلا دو مجھے سونا ہے۔ ابھی میری فریاد جاری تھی کہ امی نے مجھے اپنے زانو پر لٹایا اور بڑی چاہ سے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولیں ”عامر“ میرے بیٹے۔ جانتی ہوں تم دکھی اور شکستہ دل کے ساتھ یہاں تک پہنچے ہو۔

بیٹا بس تم اپنے آنسو صاف کرلو اور میری بات سنو۔ میرے ”چھوٹو“ ۔ بے شک ساری دنیا نے تمھارا تمسخر اڑایا، تمھیں قابل نفرت سمجھا مگر میرے ”چھوٹو“ بھلے ساری دنیا تمھارے خلاف ہو تم سے نفرت کرے، تمھیں دھتکارے۔ مگر یاد رکھو بیٹا جس انسان کی ”ماں“ اپنی اولاد سے راضی ہو۔ اس سے خوش ہو، اس کے لیے دعائیں کرتی ہو، تو سارے جہاں کی نفرتیں ”ماں“ کے اس راضی نامے کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ تمھاری خوش قسمتی ہے بیٹا کہ میں تمھاری ”ماں“ تم سے راضی ہوں۔ بس اب سو جاؤ بیٹے تمھیں سکون کی اشد ضرورت ہے۔ اور میں بعد مدت سکون کی نیند سویا۔

میرے محترم ناقدین۔ آپ کی نفرتوں عداوتوں اور لگائی گئی تہمتوں اور سازشوں کا شکار ہو کر میں اس دنیا سے جا چکا ہوں۔ میں ایک ایسی جگہ جاکر بس چکا ہوں جہاں سے اب کبھی واپس نہیں آؤں گا۔ آخر میں آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ آپ نے میرے ساتھ جو کیا سو کیا۔ مگر التجا ہے ایسا کسی دوسرے انسان کے ساتھ نہیں کیجئے گا۔

دعا اور احمد آپ لوگ بھی ہو سکے تو بابا کو معاف کر دیجیے گا۔ آپ کے بابا برے انسان نہیں تھے۔ وہ آپ سے بہت پیار کرتے تھے آخر وقت ان کی نظریں آپ کی منتظر تھیں بیٹا۔ احمد میاں جاتے جاتے آپ نے ایک بہت بڑی خوشی اپنے بابا کو دی بیٹا کہ میری نماز جنازہ آپ نے پڑھائی۔ ایک باپ کے اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ اس کا جنازہ اس کا بیٹا پڑھائے۔ شکریہ بیٹا۔ دعا اور احمد اپنی ماں کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہمیشہ ان کی عزت کرنا۔ تمھارے بابا اس نفرت بھری دنیا سے بہت دور جا بسے ہیں۔ آئی لو یو دعائے عامر اور احمد میاں۔ خوش رہو۔ زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی تم دونوں کے قدم چومے امین۔

اس اپنے پن کے ساتھ ”عامر لیاقت حسین“ کو دیجیے ہمیشہ کے لئے اجازت کہ اپنا بہت خیال رکھیے گا۔
اللہ حافظ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments