بانو قدسیہ کی ادبی جہات


بانو قدسیہ 18 نومبر 1928ء کو پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔ (1) ان کا اصلی نام قدسیہ بانو تھا۔ (2) شادی کے بعد اشفاق احمد نے

انھیں بانو قدسیہ کا قلمی نام دیا۔ (3) انھوں نے 1950ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ (4) وہ جاٹ برادری سے تعلق رکھتی تھیں دوران تعلیم پٹھان خاندان سے تعلق رکھنے والے شخص (اشفاق احمد) سے ملاقات ہوئی۔ جو تعلیم کے خاتمے پر محبت کی شادی پر منتج ہوئی۔ (5) انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مالی پریشانیوں سے کیا۔ (6) ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد کھیتی باڑی سے وابستہ تھے۔ ان کے والد کا نام بدر الزماں تھا جو ایسی سی ایگریکلچر تھے اور ضلع حصار کے ایک حکومتی فارم میں ڈائریکٹر تھے۔ وہ گھڑ سواری، ٹینس اور فٹ بال کے عمدہ کھلاڑی تھے۔ بدقسمتی سے بانو قدسیہ ساڑھے تین سال کی عمر میں والد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو گئی تھیں۔ (7)

بانو نے ابتدائی تعلیم مشرقی پنجاب میں حاصل کی۔ میٹرک وہاں کے ایک شہر دھرم شالہ سے کیا۔ پھر پاکستان آ کر اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا۔ (8) اپنے ادبی سفر کے حوالے سے بانو قدسیہ کا کہنا تھا کہ میں نے پانچویں جماعت میں ایک چھوٹا سا ڈرامہ لکھا تھا اس کے بعد افسانہ نگاری کا شوق اور مشق جاری رہی لیکن سب ردی کی ٹوکری کی خوراک بنتے رہے۔ 1950ء کے بعد انہوں نے باقاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔

(9) 1956ء میں ان کا پہلا افسانہ ”واماندگئی شوق“ ادب لطیف میں شائع ہوا۔ (10) اردو افسانے میں ان کی شہرت کا آغاز ان کے افسانے ”کلو“ سے ہوتا ہے۔ یہ موضوع، پلاٹ اور کردار کے اعتبار سے ایک منفرد افسانہ ہے۔ (11) اس افسانے میں قاری کو جو چیز نظر آئی وہ مدت سے اہم معاشرتی مسئلہ تھا اور لوگ چاہتے تھے کہ اس موضوع کو قلم بند کیا جائے۔ بانو قدسیہ نے دلکش اور موثر پیرائے میں اس افسانے کو بیان کیا اور قارئین نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی ان کے دل میں ہے۔ (12) بانو قدسیہ کا پہلا افسانوں کا مجموعہ شیش محل کتاب گھر، لاہور سے شائع ہوا۔ جس میں مندرجہ ذیل افسانے شامل ہیں۔ (1) کاغذی ہے پیراہن، بیوگی کا داغ، بازگشت، جٹ بکرا فقیر، مجازی خدا، باپ پرست، دانت کا دستہ، چابی، فلورا اور فریدہ، نیلوفر۔

ان کا دوسرا افسانہ کا مجموعہ ”امربیل“ مکتبہ اردو لاہور سے اکتوبر 1975ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کے کل دس افسانے شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ ہو نقش اگر باطل، سوغات، کتنے سو سال، سامان شیون، اسنون جل سینچ سینچ، موج محیط آب میں، مجازی خدا، سمجھوتہ، ناخواندہ، امربیل۔

ان کا تیسرا افسانوں کا مجموعہ ”کچھ اور نہیں“ مکتبہ اردو لاہور سے شائع ہوا۔ جس میں کل نو افسانے شامل ہیں۔ توجہ کی طالب، کلو، کال کلیجی، یہ رشتہ یہ پیوند، بکری اور چرواہا، انتر ہوت اداسی، کر کلی، مراجعت، ایک اور ایک۔

ان کا چوتھا افسانوں کا مجموعہ ”ناقابل ذکر“ مکتبہ اردو لاہور سے شائع ہوا۔ ان کا پانچواں افسانوں کا مجموعہ ”آتش زیرپا“ بھی سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا۔ افسانوں کے علاوہ انہوں نے چار ناولٹ بھی لکھے۔ ایک دن، موم کی گلیاں، پروا، شہر بے مثال، ان چاروں ناولوں کا مجموعہ ”چہار چمن“ کے نام سے منظر عام پر آیا۔

بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 2003ء میں ”ستارۂ امتیاز“ اور 2010ء میں ”ہلال امتیاز“ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انہیں کئی ایوارڈ ملے۔ (13)

بانو قدسیہ ایک گھریلو، سیدھی سادھی، مذہبی اقدار کی پابند اور جدید فیشن سے دور ایک گھریلو خاتون خانہ تھیں۔ جن کی شخصیت تو بے شک سادہ تھی اور بظاہر نظر بھی آتی تھی لیکن ان کے افسانوں اور ناولوں میں اسی قدر گہرائی اور رمزیت ہے انھوں نے زندگی کے ہر پہلو کا ، ہر زاویے سے باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور اسے مکمل اور بھرپور طریقے سے اس کی جزئیات کے ساتھ نثر کے قالب میں ڈھالا ہے۔ (14) خود بانو قدسیہ کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ ”میں ایک ادنیٰ سی ادیب ہوں مشاہدے کے عمل سے گزر کر جو کچھ تخیل کے چوکھٹے پر فٹ کر سکتی ہوں وہاں تصویر سجا دیتی ہوں۔

(15) اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے وہ“ مرد ابریشم ”میں لکھتی ہیں کہ“ مجھے کام کی رٹ بری لگتی تھی لیکن مجبوری تھی وسائل اتنے کم تھے کہ میں اشفاق احمد کے مقابل عیش عیش کا نعرہ نہ لگا سکتی تھی۔ گردن جھکا کر، سلیپر پہن کر رکتی چلتی کام کی پٹری پر چڑھ گئی۔ (16) اپنی شادی شدہ زندگی کے حوالے سے بانو قدسیہ کا کہنا تھا ”ہماری شادی ایسے حالات میں ہوئی کہ میرے شوہر اشفاق احمد گھر بدر کر دیے گئے اور ہم نے اپنی زندگی چھڑے چھانڈ ننگے بچے آدرشوں سے شروع کی۔ ہمارے گھر میں سامان نہ تھا صرف آدرش ہی آدرش تھے۔ (17)

ایک اور جگہ لکھتی ہیں کہ ”میں ایک گھریلو عورت ہوں۔ اس لیے میرا بیش تر وقت دوسروں پر صرف ہوتا ہے۔ لکھنے کے سمے مہمان آ جائیں تو میں ان سے کیسے کہوں کہ میں اپنے وقت کا عظیم ناول لکھ رہی ہوں۔ اس لیے آپ تشریف لے جائیں۔ میرا گھر، میرے بچے اور رشتے دار سب میری ذمے داری ہیں۔ عموماً میں صبح دس بجے سے دوپہر بارہ بجے تک لکھنے کا کام کرتی ہوں۔ پھر باورچی خانے میں چلی جاتی ہوں۔ کم عمری میں میرے لکھنے کا بہترین وقت سہ پہر تین بجے سے شام چھ بجے تک کا تھا لیکن اب یہ وقت ہمارے آرام کا ہے۔“ (18)

”میرا خیال تھا کہ چوڑی دار پاجامہ پہن، کانوں میں کان پھول سجا، سلیم شاہی جوتی پہن کر جب میں وارد ہوں گی تو اشفاق احمد تالیاں بجانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ جب میں امراؤ جان ادا بن کر موڑھے پر بیٹھتی تو اشفاق احمد کا منہ کڑوا ہوجاتا وہ کہتے“ قدسیہ! یہ عورت والے چونچلے چھوڑ دو ۔ میری ساتھی بن جاؤ۔ کپڑوں کا سہارا نہ لو۔ زیور کی محتاجی نہ کرو۔ لکھو۔ محنت کرو۔ رات دن کام کام اور پھر کام، پھر تمہیں ایسی آزادی ملے گی جس کا کوئی بھی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ (19)

بانو قدسیہ بحیثیت مصنفہ، تخلیقی قوتوں کی مالک، حساس اور صاحب رائے تھیں وہ اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا انتہائی باریک بینی سے مشاہدہ کرتیں اور پھر انہیں ایک نیا روپ دے کر اپنے قاری کے سامنے پیش کرنے کا ہنر جانتی تھیں۔ (20) بحیثیت خاتون خانہ وہ شوہر کی خوشنودی اور گھر کی بہتری کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ رہتی تھیں۔ ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ ”اشفاق بیوی کی آمد کے بعد بالکل ہی دیوتا بن گیا۔ کانٹا اشفاق کو چبھتا تو درد بانو کو ہوتا ہے۔ ہتھ چکی اشفاق چلاتا ہے تو آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں۔“ (21) ”بانو بڑی مفکر ہے وہ ہر بات میں صاحب رائے ہے۔ عقل و خرد سے بھرپور لیکن جب اشفاق طلوع ہوتا ہے تو سب کچھ سپاٹ ہوجاتا ہے، عقل و خرد اور دانش وری۔“ (22)

اپنے ادیب بننے کی داستان بانو قدسیہ نے ”مرد ابریشم“ میں تحریر کی ہے وہ لکھتی ہیں کہ ”ان دنوں جب ہمارا رسالہ“ داستان گو ”لنگڑی چال چل رہا تھا اور ادیب حضرات مضمون لکھنے کا وعدہ کر کے پاس وعدہ نہ کرتے تھے، مجھے ضرورت نے ادیب بنا دیا۔ اب جتنے صفحے کم پڑتے مجھے افسانہ، مضمون، آپ بیتی، ڈائری جانے کیا کچھ لکھنا پڑتا۔ ان ہی دنوں میں نے شکاریات پر “ میر شکاری ”کے نام سے کئی مضمون اور“ موم کی گلیاں ”کے عنوان سے ایک ناولٹ لکھا۔ (23)

ان کے افسانوں میں معاشرتی شعور کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بصیرت اور متصوفانہ رنگ کی جھلک بھی ہے۔ (24) ان کے افسانوں میں کہیں کہیں بے باک دہقانیت بھی ملتی ہے جو عریانی کو فحش نہیں ہونے دیتی۔ (25) انھوں نے اشیا افراد اور محسوسات کے باطن میں جھانک کر اپنے عہد کے معنی دریافت کرنے کی کوشش کی۔ (26) ان کے افسانوں میں طبقاتی کشمکش، معاشرتی رسم و رواج، نوجوان نسل کی بے راہ روی اور ان کے ذہنی مسائل، محبت، جنس، عورت کا احساس محرومی اور ان کا عدم تحفظ کا احساس، خوف اور ازدواجی تعلقات اور رشتوں جیسے اہم موضوعات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ (27) ان کا انداز بیاں سادہ، سلیس اور رواں ہے اور کرداروں کا لب و لہجہ اپنے ماحول سے مطابقت رکھتا ہے۔ (28) بانو قدسیہ کے افسانوں کے مکالمے ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کرتے ہیں (29) یہاں ان کے افسانوں کے کچھ جملے درج ذیل ہیں جس سے بانو کے اسلوب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

”شادی شدہ زندگی وہ بجلی ہے جس میں لوڈ ہمیشہ زیادہ پڑتا ہے اور کسی لمحے، کسی جگہ، کسی بھی حالت میں اس کی فیوز بھک سے اڑ جانے کے امکانات ہیں۔ شادی کے دو ماہ تین دن کے بعد ، سات سال تین ہفتے گزر جانے پر ، ستائیس سال اور نو گھنٹے کی مدت کے بعد ، غرض یہ کہ کسی وقت بھی اچانک میں سوئچ فیوز ہو سکتا ہے اور مشکل یہ ہے کہ نیا فیوز بھی پرانی تار سے نہیں لگتا۔ اس کے لیے ہمیشہ نیا تار لگانا پڑتا ہے۔ (ہو نقش گر باطل، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 9)

شادی کے پکے ہوئے آڑو میں بھی اپنے آپ وہ کپڑے پیدا ہو جاتے ہیں جن کا آڑو جیسی خوبصورت چیز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ (ہو نقش اگر باطل، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 10)

مرد کی ذات ایک سمندر سے مشابہ ہے اس میں ہمیشہ پرانے پانی بھی رستے بستے ہیں اور نئے دریا بھی آ کر گلے ملتے ہیں۔ (ہو نقش اگر باطل، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 11)

خدا جانے پہلے پہلے کس کافر نے عشق کیا اور افزائش نسل کے کھیل کے ساتھ عزت کا تصور تعویز کے طور پر باندھ دیا۔ (انتر ہوت اداسی، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 718)

عشق کے مرحلوں سے حیض کی طرح فارغ ہو کر اب وہ جنسی، ذہنی اور جسمانی طور پر عجیب سکون کے دن بسر کر رہی تھی۔ (توجہ کی طالب، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء ص 565)

بیوی کی عادت ہوجاتی ہے بالکل جس طرح بچے کو بوتل سے دودھ پینے کی عادت ہوجاتی ہے۔ (کاغذی ہے پیرہن، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 382)

جب کسی بدصورت عورت کا روپ ڈس لیتا ہے تو انسان جنم جنم کا روگی بن جاتا ہے۔ (کلو، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 553)

یادیں بھی پیتل کا برتن ہیں اگر مانجھتے رہو تو دمکتی ہیں ورنہ ان پر بھی کائی کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔ (کتنے سو سال، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 64)

بانو کے افسانے، ہو نقش اگر باطل، سوغات، ہوتے ہواتے، سامان شیون، موج محیط آب، میں ازدواجی زندگی کے مختلف مسائل، جذباتی تغیرات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ”ہو نقش اگر باطل“ میں بیوی کی موجودگی میں شوہر کی دوسری عورت کی طرف رغبت اور بیوی کے انتقال کے بعد اس دوسری عورت سے شادی کی صورت میں، دل میں بیوی کی محبت کی شدت بیان کی گئی ہے۔ ”سوغات“ میں شوہر پاک دامن بیوی کی موجودگی میں دوسری عورتوں سے تعلقات کو برا نہیں سمجھتا ہے جب بیوی بدچلنی کی راہ اپناتی ہے تو شوہر اسے سوکن کی شکل میں ”سوغات“ پیش کر دیتا ہے۔ ”کتنے سو سال“ میں ایک سکھ لڑکی کی کہانی بیان کی ہے جو ایک مسلمان عورت کے سائے میں پرورش پاتی ہے اور مسلمان معاشرہ اسے بحیثیت مسلمان قبول نہیں کرتا تو وہ یہ سوال کرتی ہے کہ کتنے برسوں میں ایک نومسلم مسلمان ہوجاتا ہے۔

”امربیل“ میں ایک نو عمر لڑکی اپنے والد کے دوست کے عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے اور عمروں کے فرق کے باوجود اس شخص کو ہر طرح اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے اور محبت نہ ملنے کی صورت میں وہ لڑکی موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ اس افسانے میں بانو کی فنی گرفت کہانی پر بے حد مضبوط نظر آتی ہے۔ یہاں اس افسانے کے کچھ جملے درج ذیل ہیں۔

محبت کی امربیل میں ہمیشہ ہائی سنتھ کے پھول کھلتے ہیں۔ (امر بیل، مشمولہ: توجہ کی طالب، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1958ء، ص 553)

ہائی سنتھ پچھتاوے کا پھول ہے۔ محبت کا مدفن ہے اسی سے جدائی کی خوشبو آتی ہے۔ اس میں تمناؤں کا لہو جھلملاتا ہے۔ اس کی ہر پنکھڑی پر لکھا ہوتا ہے افسوس صد افسوس۔ (امر بیل، مشمولہ: توجہ کی طالب، ص 211)

محبت تو امربیل کی مانند ہے جس درخت پر اس کی زرد ڈالیاں چڑھ جاتی ہیں وہ درخت آپی آپ مر جاتا ہے۔ (امر بیل، ص 215)

افسانہ ”کلو“ کا موضوع بانو نے عام معاشرے سے اخذ کیا ہے۔ اس سے قبل یہ موضوع لوگوں کے ذہن میں موجود تھا۔ مگر بانو نے معاشرے کے اس اہم مسئلے کو بے حد خوبصورتی سے اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ یہ افسانہ پلاٹ اور کردار کے حوالے سے بے حد کامیاب اور منفرد تصور کیا جاتا ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار ساجد اور کلثوم ہیں۔ کلو عرف کلثوم کالی ہونے کے باوجود بے حد اعتماد سے زندگی کے ہر مسئلے سے نمٹی ہے اور اپنے دکھ اور آنسوؤں کو ہنسی کے پردے میں چھپاتی ہے۔ ساجد کے طنز خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہے۔ ساجد کلو کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے لیکن اس کا احساس ساجد کو ، کلو کی شادی کے بعد ہوتا ہے۔ کلو کا کردار ایک مثبت شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ کہانی کا پلاٹ مضبوط، مکالمے جاندار اور انداز بیاں سادہ سلیس اور رواں ہے۔

”انتر ہوت اداسی“ میں ایک نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی عورت کی داستان ہے جس سے اس کی ماں، بیٹے اور ساس نے ایک سوال کیا لیکن وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکی۔ پہلی بار اس سے یہ سوال اس کی ماں نے کیا جب اس کا پاؤں بانس کی آخری سیڑھی پر تھا اور وہ محلے کے ایک شخص قدیر کھوکھلے والے سے مل کر آ رہی تھی۔ دوسری بار یہ سوال اس کی ساس نے کیا جب وہ جائیداد کے وارث کی خاطر سسر سے مل کر آ رہی تھی۔ تیسری دفعہ یہ سوال اس کے بیٹے نے کیا جب وہ مالک مکان شیخ صاحب سے مل کر آ رہی تھی۔

پہلی اور دوسری دفعہ وہ مصلحتاً خاموش رہتی ہے لیکن تیسری دفعہ وہ بڑے اطمینان سے جواب دیتی ہے۔ ”میرا کبھی کسی سے کوئی ناتا نہیں رہا بیٹے۔“ غربت اور افلاس کی وجہ سے ہاجرہ ابنارمل شخص کو شوہر کو شوہر کے روپ میں قبول کرتی ہے۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے سسر سے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور آخر میں بیٹے کی پرورش کے لیے مالک مکان سے تعلقات استوار کرتی ہے۔ اس افسانے کے مکالمے تشبیہات اور جملے متاثر کن ہیں۔ موضوع، کردار اور پلاٹ کے اعتبار سے بھی یہ افسانہ پر اثر ہے۔

بانو قدسیہ واحد مصنفہ ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں جانوروں اور پرندوں کی تمثیل کے ذریعے انسانی نفسیات کی عکاسی کی ہے۔ افسانے ”کال کلیچی ’میں انھوں نے میگی کے کردار کو “ کال کلیچی ”سے تشبیہ دی ہے۔ اس افسانے میں ایک ایسے گھرانے کی کہانی بیان کی ہے جہاں ایک بیٹا سانولی لڑکی کو بہو بنا کر لاتا ہے تو اسے بطور بہو قبول نہیں کیا جاتا اور اس سے حقارت آمیز رویہ رکھا جاتا ہے جبکہ دوسرا بیٹا آئرلینڈ کی میم کو بیاہ کر لاتا ہے تو اسے بے حد پذیرائی ملتی ہے لیکن وہ گوری عورت شوہر کے انتقال کے بعد پاکستان میں رہنا گوارا نہیں کرتی اور اپنا بچہ بھی پاکستان میں چھوڑ جاتی ہے کیونکہ وہ بچہ کالا ہوتا ہے جس طرح کال کلیچی کے بچے دوسرے گھونسلوں میں پرورش پاتے ہیں بالکل اس طرح میگی کا بیٹا بھی پاکستان میں پرورش پاتا ہے۔

بانو قدسیہ کے افسانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہاں ان کے تمام افسانوں پر تبصرہ ممکن نہیں البتہ ان کے مختلف افسانوں میں موجود عورت کے کردار پر عمومی تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔

افسانہ ”موج محیط آب“ کی مینا ایک بے بس عورت کا کردار ہے۔ افسانہ ”انتر ہوت اداسی“ کی ہاجراں ایک مفلس اور محروم عورت ہے جو کبھی جوانی کی امنگوں، کبھی معاشرتی دباؤ اور کبھی بیٹے کی پرورش کی وجہ سے مختلف مردوں سے جنسی تعلق استوار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

افسانہ ”امربیل“ کی زری ایک کم عمر اور نادان لڑکی ہے۔ جو باپ کے دوست کی محبت میں مبتلا ہو کر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ افسانہ ”بیوگی کا دکھ“ کی عائشہ بیٹی کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کرتی مگر بیٹی اسی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے۔

افسانہ ”بہوا“ کے دو کردار بہوا اور دلہن بیگم۔ بہوا خوبصورت ہونے کے باوجود بے اولادی کے سبب، دلہن بیگم بدصورت ہونے کی وجہ سے اولاد ہونے کے باوجود گھر سے نکال دی جاتی ہیں۔ ”ہو نقش اگر باطل“ کی عطیہ شوہر کی پسند اور چاہت کے باوجود جب گھر میں آتی ہے تو شوہر کسی دوسری عورت کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے۔ افسانہ ”سوغات“ کی شریفاں، افسانہ ”مراجعت“ کی عزیز فاطمہ، افسانہ ”چھمو“ کی نوکرانی سبو، ”بڑا بول“ کی نوکرانی شادو، ”سمجھوتہ“ کی تیجو، ”مشک نافہ“ کی بڑی اماں، ”ہوتے ہواتے“ کی ملک نور افشاں، ”مجازی خدا“ کی تابندہ، ایسی خواتین کے کردار ہیں جو سماجی حوالے سے کسی نہ کسی طرح بے بسی اور محرومی کا شکار ہیں۔ یہ تمام کردار معاشرتی حقیقت نگاری کی عمدہ تصویر پیش کرتے ہیں۔

بانو قدسیہ کا ناول ”راجہ گدھ“ اردو ادب کا ممتاز ناول ہے یہ ناول 1981ء میں منظر عام پر آیا اس ناول کے فلیپ پر اشفاق احمد کی یہ رائے موجود ہے ”راجہ گدھ، اردو زبان میں ایک اور طرح کا ناول ہے جو آئندہ لکھنے والوں کے لیے سوچ کی نئی راہیں کھولے گا اور ایک ذہین قاری کو ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں مکوڑے کی بینائی طائر کی نظر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ’راجہ گدھ‘ واقعی اردو زبان میں ایک اور طرح کا ناول ہے۔ (30) اس کا اسلوب بھی قدیم طرز کے ناولوں سے یکسر مختلف ہے (31) ناول کا ہر صفحہ، ہر سطر اس حقیقت کی غماز ہے کہ اس کے لکھنے والی ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے جدید ترین دور سے تعلق رکھتی ہے (32) ناول میں بانو نے انسان کی تخلیق، اس کے ذہنی و فکری ارتقاء، اس کی جنسی نفسیات، اس کی تہذیب اور مذہب اور تصوف کے حوالے سے کائنات میں اس کے مقام سے بحث کی ہے، مگر ان تمام باتوں کا تانا بانا وہ فکری لحاظ سے روحانیت اور تصوف سے جوڑ دیتی ہیں۔

(33) پر فیسر سہیل کے کردار کے ذریعے مصنفہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے معاشرتی عوارض کا حل روحانیت میں پوشیدہ ہے اور ہماری بد اعمالیوں اور مغربی فلسفوں نے ہماری روح پر جو زخم ڈالے ہیں ان کا علاج فرائڈ کے نسخوں میں نہیں (34) اس ناول کے تمام کردار اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بنے نظر آتے ہیں، وہ اپنے گناہوں کی فہرست خود پیش کرتے ہیں، اور خود ہی منصف کا رول ادا کرتے ہیں، یہ سب علامتی کردار ہیں جو معاشرے کے مجموعی رویوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان تمام رویوں کے ڈانڈے عشق لاحاصل اور دیوانگی سے جا ملتے ہیں (35)

بانو قدسیہ ان ناول نگار خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے فرائڈ کے جنسی نظریات کا پر تو قبول کیا اور اپنی تحریروں میں اسے نمایاں جگہ دی (36) ’راجہ گدھ‘ میں پیش کیا گیا دیوانے پن کا یہ نظریہ جسے بانو قدسیہ نے، عشق لاحاصل، جنس کے مشکی گھوڑے، اور رزق حرام کی مختلف تاویلوں سے بحث کا موضوع بنایا ہے عرفان اور فرزانگی پر روشنی ڈالتا ہے (37) دنیا کی نظر میں جو شخص دیوانہ ہوتا ہے وہ درحقیقت شعور اور ادراک کی منزلوں تک پہنچ چکا ہو تا ہے لیکن ظاہر کی آنکھ رکھنے والے اسے نہیں پہچان سکتے مصنفہ نے اپنے خاص انداز میں یہ بات جانوروں کی تمثیل میں بھی کہی ہے اور انسانوں کی زبان سے بھی ادا کرائی ہے (38) اس ناول میں مصنفہ نے سیمی اور آفتاب کے درمیان روحانی ربط بھی دکھایا ہے آفتاب کے چہرے پر لگنے والے زخم کی اطلاع سیمی کو روحانی طور پر ہو جاتی ہے (39) اس ناول کا ایک اہم کر ادر آفتاب کا بیٹا ہے جسے مصنفہ نے اہل عرفان میں سے دکھایا ہے جس کی تیسری آنکھ کھل چکی ہے اور جو سبز گنبد اور مدینے میں لوگوں کو بھاگتے دوڑتے، پاکستان میں موجود ہونے کے باوجود کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے بظاہر ابنارمل دکھنے والا وہ بچہ قیوم کی نظر میں بالکل نارمل ہے، لیکن اس بچے میں موجود دیوانہ پن جو عرفان کی ہی شکل ہے اسے ایک انفرادیت عطا کرتا ہے (40) سیمی، قیوم اور آفتاب کی تکون سے شروع ہونے والا یہ ناول اپنے اختتام تک ایک مختلف صورت میں سامنے آتا ہے، اس ناول میں کہانی تکنیکی انداز میں آگے بڑھتی ہے اور بانو قدسیہ کا فلسفہ قاری کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا (41) اس ناول میں مصنفہ نے یہ فکر پیش کی ہے کہ جب انسان گدھ جاتی کی طرح مردار کھانے لگتا ہے تو اس میں دیوانگی پیدا ہو جاتی ہے، مردار سے مراد بے جان چیزیں نہیں، بلکہ حرام، جھوٹ، چوری، دھوکہ دہی اور دوسروں سے غصب کیا ہو مال ہے (42)

مندرجہ بالا حقائق کے مطابق :بانو قدسیہ شخصی اعتبار سے ایک سادگی پسند خاتون تھیں محبت کی شادی کی وجہ سے شادی کے بعد ابتدائی دور معاشی مشکلات میں گزارا، بانو قدسیہ بنیادی طور پر شوہر پرست تھیں وہ اشفاق احمد کو اپنی کل کائنات سمجھتی تھیں، اشفاق احمد کی موجودگی میں زیادہ تر خاموش رہتیں یا ان کے حکم کی منتظر رہتیں، ان کی غیر موجودگی میں لوگوں نے بانو قدسیہ کو دقیق علمی، فکری، اور نظریاتی موضوعات پر بحث کرتے ہوئے بھی سنا۔ اشفاق احمد کو ہار پھول پہنے، بنی سنوری، مونڈھے پر بیٹھی عورت پسند نہ تھی بلکہ مسلسل کام کرنے والی عورت ان کا آئیڈیل تھی، بانو نے خود کو ان کی پسند کے مطابق ڈھال لیا۔ شادی کے بعد تحریری کام وہ دس سے بارہ بجے کے درمیان انجام دیا کرتی تھیں۔ جبکہ گھریلو کام کاج اپنے ہاتھوں سے انجام دینا پسند تھے۔

بانو قدسیہ اردو کی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ جنھوں نے افسانوں کے علاوہ، ناول، ڈرامے، مضامین اور شخصی خاکے بھی لکھے۔ ان کے افسانوں کے کئی ایک مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ”وا ماندگی شوق“ ادب لطیف میں شائع ہوا۔ ان کے افسانے ”کلو“ کو ادبی سطح پر بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کے افسانوں کے موضوعات عام زندگی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں منفرد تشبیہات کا استعمال کرتی رہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار اور خاص طور پر عورتوں کے کردار حقیقت کی عمدہ تصویر کشی کرتے ہیں۔ بانو قدسیہ کو اردو افسانے کی تاریخ میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

بانو قدسیہ کا ناول ”راجہ گدھ“ بے شک اردو ناولوں میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کا موضوع و اسلوب منفرد ہے، جانوروں کی تمثیل کے ذریعے ناول ڈرامائی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس ناول میں حرام اور حلال کی جو تھیوری پیش کی گئی ہے وہ مصنفہ کے منفرد نکتہ نظر کی وضاحت کرتی ہے۔ درحقیقت ”راجہ گدھ“ اپنے اسلوب اور موضوع کے اعتبار سے اردو ادب کا ایک شاہکار ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔

حواشی
1۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اردو افسانہ اور افسانہ نگار، بار اول 1982ء، اردو اکیڈمی، کراچی،
ص 330، 131
2۔ ایضاً
3۔ ایضاً
4۔ ایضاً
5۔ ایضاً
6۔ ایضاً
7۔ دردانہ جاوید، پاکستان کی منتخب افسانہ نگار خواتین، قصر الادب، حیدر آباد، 2002ء، ص 35
8۔ عفت افضل، بانو قدسیہ، شخصیت اور فن، ادارہ انشا، حیدر آباد، 1999، ص 45
9۔ ایضاً، ص 45
10۔ ایضاً، ص 46
11۔ فرمان فتح پوری، اردو افسانہ اور افسانہ نگار، ص 340
12۔ ایضاً، ص 340
13۔ urdu۔ dunyanews۔ tv/index۔ php/ur/pakistan/ 373666
14۔ عفت افضل، بانو قدسیہ، شخصیت و فن، ص 48
15۔ بحوالہ، ایضاً، ص 48
16۔ بانو قدسیہ، مرد ابریشم، سنگ میل پبلی کیشنز، 2003ء، ص 11
17۔ ایضاً، ص 10
18۔ دردانہ جاوید، پاکستان کی منتخب افسانہ نگار خواتین، ص 37
19۔ بانو قدسیہ، مرد ابریشم، ص 11
20۔ عفت افضل، بانو قدسیہ شخصیت و فن، ص 43
21۔ ممتاز مفتی، داستان گو، مشمولہ: اور اوکھے لوگ، فیروز سنز، لاہور، 1991ء، ص 116
22۔ ایضاً، ص 116
23۔ بانو قدسیہ، مرد ابریشم، ص 11
24۔ انوار احمد، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ، مثال پبلشرز، فیصلہ آباد، 2010ء، ص 480
25۔ ایضاً، ص 480
26۔ ایضاً، ص 480
27۔ عفت افضل، محولہ بالا، ص 53
28۔ ایضاً، ص 59
29۔ ایضاً، ص 59
30۔ جاوید اختر، سید، ڈاکٹر، اردو کی ناول نگار خواتین، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1997ء، ص161
31۔ ایضا، ص 161
32۔ ایضا، ص 161
33۔ ممتاز احمد خان، ڈاکٹر، اردو ناول کے بدلتے تناظر، ویلکم بک پورٹ، کراچی،
1993ء، ص258
34۔ ایضا، ص 258، 259
35۔ ایضا، ص 258، 259
36۔ جاوید اختر، ڈاکٹر، محولہ بالا، ص 164
37۔ ایضا، ص 164
38۔ ایضا، ص 164
39۔ تہمینہ نورخان، حلقۂ شہابیہ (ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی شخصیات پر قدرت اللہ
شہاب کے اثرات کا ایک مطالعہ، غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایم اے، شعبۂ اردو،
جامعہ کراچی، 2004ء، ص 152
40۔ ایضا، ص 152
41۔ ایضا، ص 152، 153
42۔ ایضا، ص 149


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments