ادھوری کہانی کی تصویر (افسانے)


کتاب: ادھوری کہانی کی تصویر (افسانے )
مصنف: شاہد رضوان
سن اشاعت: 2020ء
ناشر: دانیال شاہد چوہدری
شہر: ملتان
قیمت: 500 روپے

”ادھوری کہانی کی تصویر“ شاہد رضوان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں کل تئیس کہانیاں شامل ہیں۔ گڑیا، لمحہ، عکس، غارت گر لمحہ، سندری، ہاتھ خالی، گڈڑے، ادھوری کہانی کی تصویر، لال پیٹھ والا، گل چیں، نئے لوگ، جنڈی والی سرکار، انتظار، ڈاکیا، تابوت، کیہہ جانا میں کون، بس ٹرمینل، ٹھیکے دار، تارکول کی سڑک، دجال، اجنبی، مردوں کی بستی، عوامی ٹائلٹ، اس مجموعے میں شامل افسانوں کو مصنف نے اک نیا موڑ دے کر ادھورا چھوڑ دیا ہے اور یہ ہی ان افسانوں کی خوبی ہے۔

افسانہ ”گڑیا“ بہت اہم معاشرتی مسئلے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ باپ بھائی اگر اپنی بہن بیٹی کی معصومیت پر یقین بھی رکھتے ہوں تو معاشرے کے ڈر کی وجہ سے اسے اپنی بیٹی کو یہ اعتماد نہیں دے پاتے۔

”شیرو جانتا تھا کہ اس کی بہن معصوم ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا جیسے بہن کی معصومیت کی شہادت دینا اس کو شہ دینے کے مترادف ہو۔“

افسانہ ”لمحہ“ میں مصنف زندگی کے خوب صورت ترین لمحے کو کیمرے میں قید کرنے نکلتا ہے مگر اسے دنیا میں کوئی ایسا لمحہ نظر نہیں آتا تو کیمرے کو گندے کھال کی پرلی طرف اچھال دیتا ہے۔ اور جب وہ مایوس، ہو کر گھر واپس جا رہا ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ایک اندھے کو گاڑیوں کی قطار کے درمیان سے چمار کا لڑکا سڑک پار کروا رہا ہوتا ہے۔ اس لمحے میں موجود خوشی کو وہ قید کرنا چاہتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ اس کے پاس تو کیمرہ ہی موجود نہیں ہے۔

افسانہ ”عکس“ میں مصنف نے شعور کی روکے ذریعے دنیا مکافات عمل ہے کی تصویر پیش کی ہے جس طرح کہانی کے مرکزی کردار نے اپنی جوانی میں محبوبہ کے چھوٹے بھائی کی آؤ بھگت کر کے، میٹھی گولیاں اور غبارے دلا کر محبوبہ تک پہنچنے کا راستہ تلاش کیا ہوتا ہے بالکل اسی طرح اس کی نوجوان لڑکی تک رسائی کے لیے محلے کا لڑکا اس کے چھ سالہ بیٹے کو استعمال کرتا ہے۔

افسانہ ”غارت گر لمحہ“ میں مصنف نے کیمپس میں چار سال گزار کر اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جانے والے طلبا کے جذبات و احساسات کو بیان کیا ہے۔ افسانہ ”سندری“ برعظیم پاک و ہند کی جامعات میں زیر تعلیم ایک ایسی لڑکی کا افسانہ ہے جو اساتذہ کی شہوت پرستی کا شکار ہوجاتی ہے۔ جب تک شہوت پرست اساتذہ ایسے پھولوں سے رس کشید نہیں کرلیتے کسی اور کو ان پھولوں کی جانب دیکھنے بھی نہیں دیتے۔

”میرے کچھ سینیئر دلے قسم کے تھے، وہ فطرتاً ایسے نہیں تھے، کیمپس کی آب و ہوا نے ان کو ایسے سانچے میں ڈھال لیا تھا، جس میں تیار ہونے والی اینٹیں طمع اور لالچ کے ایندھن سے پکتی ہیں اور ان کا رنگ پہلی بارش کے ساتھ ہی اتر جاتا ہے۔ ہر استاد کے گرد اس قماش کے دو تین لڑکے ہوتے جو مخبری کے فرائض سرانجام دیتے کہ کون کس ٹیچر کے کمرے میں گئی اور کتنی دیر تک بیٹھی رہی تھی؟ تاکہ استاد محترم کو نتیجے کے وقت اپنے پرچے میں، اسے پانچ نمبروں سے محروم کرنے میں آسانی رہے۔ کتنی ہی نوخیز کلیاں پانچ نمبروں کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔“ سندری بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جو جامعہ میں آنے سے قبل ایک معصوم لڑکی ہوتی ہے پھر اساتذہ کی ہوس اور نمبروں کی لالچ کے شکار میں خود کو تباہ کر لیتی ہے۔

افسانہ ”ہاتھ خالی“ میں ایک بے اولاد عورت کی کہانی ہے جسے گاؤں کی عورتیں بے اولادی کا ہر وقت طعنہ دیتی ہیں۔ وہ اپنی بکری اور بھینس کی خدمت کرنے لگتی ہے۔ ایک ویران سوکھے درخت کو پانی دینے لگتی ہے۔ بکری کے بکنے کے بعد جب بھینس نے مری ہوئی کٹی دی تو وہ یوں پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ جیسے اس کی اپنی کوکھ ویران ہو گئی ہو۔ مگر پھر ویران سوکھے درخت کو سبز دیکھ کر وہ بے انتہا خوش ہوجاتی ہے۔

افسانہ ”گڈڑے“ میں خانقاہی نظام اور خاص طور پر تو ہم پرستی اور کمزور عقیدے کی عکاسی کی گئی ہے۔ ”ایک ایسا دربار بھی ہے جس کے احاطہ میں پرانا ون کا درخت ہے جس پر جابجا لکڑی کے بنے عضو تناسل لٹکتے رہتے ہیں۔ ان کی کرامت یہ ہے کہ بے اولاد خواتین آتی ہیں اور اپنی مرضی کا اتار کر قریبی کھیتوں میں چلی جاتی ہیں اور آ کر وہیں لٹکا دیتی ہیں، ان کی تعداد میں گوناگوں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ درخت پر کیلے اور آم کی طرح لٹکتے رہتے ہیں۔ دربا۔ والی سرکار کے نام سے معروف ہے۔“

”ادھوری کہانی کی تصویر“ میں مصنف نے پاکستان کے سیاسی نظام کو علامتی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

وہ ریلوے اسٹیشن کے قریب پیپل کی چھتری کے نیچے جمگھٹا دیکھ کر اس طرف ہو لیا۔ بوریے پر ایک میل کچیلا شخص بیٹھا تھا۔ پھٹا پرانا پیوند لگا چولا اس کے ٹخنوں تک آتا۔ شانوں پر جمے جٹا دھاری بالوں میں راکھ جمی ہوئی کھچڑی داڑھی پر ٹپکتی رال پر مکھیاں بھنبھناتیں اور بدن سے بدبو کے بھبھوکے اٹھتے۔ عقیدت مند مرد عورتیں جھک کر اس کے پاؤں چھوتے، ہاتھ کے بوسے لیتے، منہ کی رال چاٹتے اور جسموں پر مل مل کر تسکین محسوس کرتے۔

وہ ایک ایک کی پشت پر ہاتھ پھیر کر بڑے اعتماد سے کہتا، ”جا تیری بگڑی بنا دی، جا تجھے وزیر بنا دیا آس امید لے کر آئے چہروں پر خوشی پھیل جاتی اور وہ ناچنے لگتے۔ وہ کچھ دیر یہ تماشا دیکھتا رہا اور کڑھتا رہا۔ اس کا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر لوگوں کو بتائے جو اپنے ننگ کو لباس نہیں دے سکا وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے لیکن لوگوں کے چہروں پر اطمینان دیکھ کر وہ چپ چاپ چل دیا۔

افسانہ ”لال پیٹھ والا“ میں مصنف نے علامتی اور تمثیلی انداز میں ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے من پسند لوگوں کو بادشاہ بنوا دیتے ہیں اور جب بادشاہ ان کی مرضی پر نہیں چلتا تو سیاسی بساط پر تبدیلی کے بعد کسی اور کو اقتدار دلوا دیتے ہیں۔ بادشاہ گری کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب عوام ایسے لوگوں کو پہچان لیتی ہے تو وہ ملک کو آگ لگا کر فرار ہو جاتے ہیں۔

افسانہ ”گل چیں“ موجودہ معاشرے میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو موضوع بنایا ہے۔ کس طرح بلیو فلموں کے شوقین شہوت پرست نوجوان، اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے چار چھ سال کی بچیوں کو ٹافیوں اور گڑیوں کا لالچ دے کر ساتھ لے جاتے ہیں اور اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد قتل کر دیتے ہیں تاکہ ان کا گناہ پوشیدہ رہے۔

افسانے ”نئے لوگ“ میں ایک ریٹائرڈ فوجی کی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ اس کے گھر میں اس کی اہمیت صرف پینشن کی چیک بک سائن کروانے تک ہوتی ہے۔ پھر اسے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ جب چیک بک ختم ہوتی تو اسے گلی گلی میں ڈھونڈا جاتا۔ حتیٰ کہ چیک بک ختم ہونے کے بعد وہ شدید بیمار اور بے ہوش ہوجاتا ہے اور پھر ڈاکٹر کی سرتوڑ کوشش بھی اسے موت سے نہیں بچا پاتی۔

”جنڈی والی سرکاری“ میں ایک پیر صاحب کی آمدنی اور آؤ بھگت کو دیکھ کر دین محمد اور شاہو ایک ٹرین میں سوار ہو کر ایک قصبے کے اسٹیشن پر جا اترے اور وہاں بیٹھ کر پیرو مرید کا ڈرامہ کر کے گاؤں کے سادہ لوح لوگوں کو خوب بے وقوف بنایا اور جب اتفاق سے بابا جی یعنی دین محمد بس کے کچلنے سے موت کا شکار ہوا تو اس کی قبر بھی وہاں بنا دی گئی تین سال تک شاہو کسمپرسی میں گزار کر بابا جی کی قبر آبادی کے قریب بنا دی اور یہ مشہور کر دیا کہ یہ بابا جی کی کرامت ہے۔

”انتظار“ میں خود کش بم دھماکہ کروانے والے کو موضوع بنایا ہے وہ جس جمود ختم کرنے کے لیے دھماکہ کرواتا ہے۔ اس جگہ اس کے اپنے دونوں بچے بندر کا تماشا دیکھنے آئے ہوتے ہیں اور وہ دونوں موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

افسانہ ”ڈاکیا“ میں ایک بدصورت مرد کی کہانی بیان کی گئی ہے وہ اپنی خوب صورت بیوی کو مرعوب کرنے کے لیے لڑکیوں کے نام سے خود کو فرضی خط لکھتا ہے۔ اپنے گھر کے پتے پر پوسٹ کرتا ہے۔ ڈاکیا مرزا جی کی بیوی عشرت کی خوب صورتی پر دل ہار بیٹھتا ہے بالآخر اس دروازے پر فرضی لڑکیوں کے نام کے خطوط کے ساتھ عشرت کے نام پر ڈاکیے کا خط آنے لگتا ہے اور عشرت کی آنکھوں میں چور بتیاں روشن ہوجاتی ہیں۔

افسانہ ”تابوت“ میں ایک تابوت بیچنے والے کو اپنا آخری تابوت جلد از جلد فروخت کر کے سفر پر جانا ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے پڑوسی دکان کے جلد ساز سے اپنی پریشانی کا ذکر کرتا ہے تو وہ شرارتاً تین ہزار کے تابوت کے لیے دو ہزار کی پیشکش کرتا ہے۔ تابوت والا سوچتا ہے کہ تابوت جلد ساز کے کسی کام کا نہیں شاید مذاق کر رہا ہے۔ مذاق ہی مذاق میں سودا طے ہوجاتا ہے۔ تابوت والا دکان بند کر کے تابوت تنویر جلد ساز کے حوالے کر کے چلا جاتا ہے جسے رکھنے کی تنویر جلد ساز کے پاس جگہ نہیں ہوتی۔

وہ گھر لے جاتا ہے تو محلے والے سمجھتے ہیں کہ اس کی بوڑھی ماں کا انتقال ہو گیا۔ پھوڑی بچھنے کے بعد اس کی بیمار ماں کو اٹھتا دیکھ کر سب لوگ بھاگ جاتے ہیں مگر تنویر میں کسی کو بتانے کی ہمت نہیں ہوتی کہ تابوت اس نے ویسے ہی خرید لیا۔ صبح فجر کے وقت اعلان ہوتا ہے کہ تنویر جلد ساز با قضائے الٰہی وفات پا گیا ہے۔ نماز جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

افسانہ ”کیہہ جانا میں کون“ میں عشرت کے ہاتھوں اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ پر پرانے کاغذات میں وہ رپورٹس لگ جاتی ہیں جن میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس کا باپ، باپ بننے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ لڑائی، جھگڑے، پولیس، دارالامان کے بعد جب عشرت کو کٹہرے میں پیش کیا جاتا ہے اور اس کے والدین اور ہسپتال کی نرس پر جرم ثابت ہوجاتا ہے تو مقدمے کے فیصلے سے قبل عشرت اپنے منہ بولے ماں باپ کے خلاف دیا گیا بیان واپس لے لیتی ہے۔

افسانہ ”بس ٹرمینل“ میں ایک مسافر بس ٹرمینل پر موجود فی میل ڈیوٹی کلرک پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ کئی دن اس کا پیچھا کرنے سے اس لڑکی کے دل میں بھی اس لڑکے کی محبت جنم لینے لگتی ہے۔ مسافر خود مصائب کا مارا ہوتا ہے اور ڈیوٹی کلرک لڑکی بھی ایک غریب گھرانے کی واحد کفیل ہوتی ہے۔ تھک ہار کر مسافر ملتان واپسی کا ایک ٹکٹ کٹواتا ہے تو وہ لڑکی بجھی ہوئی آواز میں کہتی ہے کہ صرف ایک ٹکٹ؟

افسانہ ”ٹھیکے دار“ فقیروں کے ٹھیکے دار کی لالچ اور ہوس کی داستان ہے۔ وہ مختلف علاقوں میں لڑکے لڑکیوں اور عورتوں سے بھیک منگواتا ہے۔ ایک نوجوان فقیرنی اور مدرسوں کے نام پر چندہ جمع کرنے والے اس کے ہرکارے اسے جل دے کر نکل جاتے ہیں۔ ”تارکول کی سڑک“ میں منشی سڑک کی مزدوری اپنی من پسند مزدور عورتوں کو دیتا ہے جو کام کے ساتھ ساتھ اس کی شہوت کی تسکین کا سبب بھی بنتی ہیں۔ شریفاں اور اس کی بیٹی ظہریٰ بھی یہ مزدوری کرتی ہیں۔

منشی، ظہریٰ کے جسم کا طالب ہوتا ہے مگر ظہریٰ اسے دھتکار دیتی ہے۔ منشی، شریفاں اور ظہریٰ کو مزدوری سے نکال دیتا ہے۔ ایک ہفتے کی تنگدستی اور فاقوں کے بعد شریفاں دوبارہ کام مانگنے منشی کے پاس جاتی ہے تو کچھ شرائط پر دوبارہ انھیں ملازم رکھتا۔ کام شروع ہونے کے دوسرے دن ہی منشی ظہریٰ کو تنہا جھگی میں بلاتا ہے۔

”وہ برابر جھگی کی طرف دیکھتی اور منشی کی بے چینی کو سمجھتی رہی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے؟ وہ ٹوکری پھینک کر اپنی ماں سے بولی،“ منشی کہتا ہے کہ جھگی میں آ کر میری بات سنو۔ ”شریفاں دوسری طرف منہ کر کے بولی،“ چلی جاؤ۔ ”

افسانہ ”دجال“ میں گاؤں کے مکھیا تمام گاؤں والوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ حتیٰ کہ اس گھر کی بیٹیوں کا نکاح کلام پاک سے کر دیا جاتا ان کے جنازے تو اٹھتے مگر کبھی ڈولی نہ اٹھتی۔

افسانہ ”اجنبی“ میں انسانی زندگی کی نفسیات اور اندھیرے سے اجالے کی جانب سفر کی وضاحت کی گئی ہے۔

افسانہ ”مردوں کی بستی“ میں شاہد رضوان نے انسان کی بے حسی کی داستان بیان کی ہے۔ اگر کوئی شخص سچ کو سچ کہے، حق کا ساتھ دے تو اس کے گھر میں ہونے والی میت کے ساتھ کوئی بیٹھنے والا تک نہیں ملتا۔ فی زمانہ سب کے ضمیر سو چکے ہیں۔

افسانہ ”عوامی ٹائلٹ“ میں مصنف نے ایک بہت اہم سماجی مسئلے کو موضوع بنایا ہے۔ لوگ جو حرکات اپنے گھر کے لوگوں کے سامنے نہیں کر سکتے ان حرکات کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ افسانے کا مرکزی کردار جب اپنی بیٹی کی ایسی ہوش ربا تصویریں فیس بک پر دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ فیس بک، واٹس اپ، ٹویٹر، میسنجر اور تمام تر سوشل میڈیا ایک پبلک ٹوائلٹ بن چکا ہے۔ جہاں لوگ اپنا گند ڈالتے چلے جا رہے ہیں اور اس سے اٹھنے والے تعفن سے بے خبر ہیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس افسانوں کے مجموعے میں شامل افسانوں کے کردار ہمیں اپنے اردگرد نظر آتے ہیں۔ لیکن کہیں مصنف خود ان افسانوں کا مرکزی کردار محسوس ہوتا ہے۔ ”ادھوری کہانیاں“ میں حقیقت نگاری عروج پر نظر آتی ہے۔ سندری، گڈڑے اور گل چیں کو اس مجموعے کے بہترین افسانے قرار دیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments