غدار اور سرکار


ان دنوں سیاسی میدان میں کئی محاذوں پے گھمسان جاری ہے۔ ایک جانب اتحادی افواج ہیں اور دوسری جانب ہماری حقیقی سرکار کے فہم و فراست کی پیداوار جماعت۔ ہر صبح ایک نئے مژدے سے ہوتی ہے، ہر رات ایک نیا خطاب لاتی ہے۔ دونوں جانب سے الزامات کی گولہ باری اور توجیہات کی تابکاری معمول بن گیا ہے۔

جنتا جب جب مہنگائی کو رو لیتی ہے تو معصومیت سے منہ اٹھائے باری باری دونوں فریقین کے مسائل اور دلائل سننے لگتی ہے۔

ایک کہتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ یعنی دیوالیہ ہونے کے دہانے پے کھڑا تھا قریب تھا کہ اس دہکتے لاوے میں گر کے راکھ ہو جاتے کہ حقیقی سرکار نے ہوش کو ہاتھ مارا، اپنے گودیوں کھیلے، نازوں پلے کا ہاتھ جھٹک کے انہی کو ڈوبتی ناؤ کی پتوار تھما دی جنھیں کبھی دریا برد کرنے کی آرزو کیا کرتے تھے۔ ابتدائی سخت فیصلوں کے بعد اب حالات میں بتدریج بہتری سی بظاہر دکھائی پڑتی ہے مگر رسہ کشی اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ نئی حکومت سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طور ملکی معیشت اور اپنے سیاسی کیرئیر دونوں کو بچا سکے۔ کام بہرحال جوکھم کا ہے پر اپنی دعاؤں پے یقین ہے کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن!

یہ تو ہوا حکمراں جماعتوں کا حال۔ دوسری جماعت کا حال اس بچے سا ہے جسے زندگی میں پہلی بار باپ نے ناصرف جھڑکا بلکہ ایک ( کچھ کا دعوا ہے، دو ) طمانچہ بھی رسید کر دیا۔ ایسے بچوں کو ڈانٹ مار کی عادت تو ہوتی نہیں لہذا ان کے دل پے جو چوٹ پڑتی ہے، نازک مزاجی اور حساس طبیعیت کے باعث اس درد کو سہنا ناممکن ہوتا ہے۔

ہمیشہ پیار کرنے والا یوں چشم زدن میں نگاہ پھیر کے آنکھیں ماتھے پر رکھ لے تو کون رستم ہے جو اس افتاد ناگہانی پر حیرت زدہ و رنجیدہ نہ ہو سو یہ بھی ہیں!

پہلے پہل تو اس آفت کی آہٹ پر ذرا چونکنا ہو کے ایک ”خطرے ناک“ خطاب کر ڈالا کہ یوں ہوا تو یوں ہو جائے گا۔ ایسا کیا تو ویسا کر دوں گا۔ حیف، یہ تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی۔ یہی ہوتا آیا ہے

جے تک پیا من بھائی راج رانی
جے دل سے اتری بسری کہانی

ایسا ہی کچھ ہوا بھی مگر یہاں نازوں پلے کو اندازے میں پھر چوک ہوئی، خوشامدیوں کے بہکائے سے وہ اب بھی اسی خوش فہمی میں تھے کہ جیسے پہلے تھوڑی تکرار پھر پیار میں بدل جایا کرتی تھی، اب کے بھی یہی ہو گا۔ دراصل جو آنکھوں کا تارا رہا ہو، جس کی ہر بری بھلی کو ہنس کے ٹال دیا جائے اسے یہ زعم لے ڈوبتا ہے کہ میرے علاوہ اور کوئی میری جگہ لے ہی نہیں سکتا۔ آئی ایم دا اونلی چوائس۔ ایسے میں اچھے وقتوں کی ناز برداری یاد کرتے ہوئے کہ پھر اسی لاڈ سے منا لئے جائیں گے کے یقین پر روٹھنے کا نخرا دکھا دیا جس کا نتیجہ، تم روٹھے ہم چھوٹے نکلا تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔

پہلے پہل ہوش اڑے پھر طوطے اور پھر ہیلی کاپٹر میں یہاں وہاں بذات خود اڑتے پھرے اور قریہ قریہ فریاد کی کہ مجھ دکھیاری کو کیا خبر تھی کہ رتی بھر من مٹاؤ یوں مانگ کا سیندور مٹا دے گا، جو میں جانتی بسرت ہیں سیاں وغیرہ وغیرہ۔ اس دل خراش بین بلکہ بیانئے نے خیر خواہوں اور مداحوں کے کلیجے چھلنی کر دیے۔ ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک میں آسودہ محب وطن بالخصوص پچھاڑیں کھانے لگے۔ پر جو ہونا تھا سو ہو چکا، اب کوئی یوں اچانک گھر کو آ بیٹھے تو ایک زمانے کو کرید لگ جاتی کہ آخر ماجرا کیا ہے؟

کہاں تو محل آرا بیگم ساتویں آسمان پر ہی رہا کرتی تھیں اب یوں جو عرش سے فرش پے پٹخی گئی ہیں تو کچھ تو ہوا ہی ہو گا؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ لاکھ کہا گیا کہ سب اچھا تھا بس ایک روز یونہی کسی سے بات کرتے یہ کہہ بیٹھی کہ میاں تو سسر سے زیادہ میری سنتے ہیں، اس گھر میں جو میں کہوں گی وہی ہو گا۔ مثلاً ایبسولوٹلی ناٹ! لو بھیا، مجھ غریب کو الہام ہوتا کہ کوئی ابلیس کا چیلا میرے سرکار کے بڑے سرکار تک چغلی لگا آئے گا۔

وہ ٹھہرے بزرگ، ضد باندھ لی کہ یا یہ؟ یا میں؟ ملازم کے ہاتھ رقعہ لکھوا بھیجا کہ ہاتھ کے ہاتھ فیصلہ کرو ورنہ میری جانب سے خود کو عاق سمجھو۔

چار و ناچار میرے سرکار نے کچھ اپنی اور کچھ میری عزت کا پاس رکھتے ہوئے مجھے خود ہاتھ تھام کے ڈیوڑھی پار نہ کیا بلکہ میری خوشیوں سے جلنے والیوں کو بلا بھیجا وہ پتھر دل تو جیسے منتظر بیٹھی تھیں، کھڑی سواری آ دھمکیں اور مجھے روانہ کیا۔ یہ کہہ کے نازو بیگم آبدیدہ ہو جاتی ہیں، وہ روتی ہیں ساتھ غمگسار جان کھوتے ہیں مگر تاڑنے والے جو اڑتی چڑیاں کے پر گن لیں اس رام کہانی پر ان کی تشفی ناممکن تھی۔ کسی نہ کسی واسطے سے سرکار میاں کے یوں بیگانہ یعنی نیوٹرل ہونے کا سراغ نکال ہی لائے اور سننے والوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں، بات ہی ایسی تھی بھلا کوئی ناز و نخرا اٹھانے والے سے بھی یوں چال چلتا ہے؟ بسنے کی پہلی شرط ہی وفا ہے، بے وفائی کی سزاوار کو سرکار کیا اللہ بھی درگزر نہیں کرتا۔ شرک کے سوا سب گناہوں کی معافی ہے، جب خالق و مالک کا یہ عالم ہے تو بندا بشر سے ایسے ظرف کی توقع عبث ہے لہذا اب لاکھ یاد دلائیں کہ کبھی ہم میں تم میں قرار تھا جانے والے کو نہ یاد آنا تھا نہ یاد آیا۔

کچھ ہی دن ایسے گزرے، معاملے کی سچائی زہریلی سرگوشیوں کی صورت کانوں تک آ ہی گئی۔ اندر کا حال اب راز نہیں رہا، یہ جان کے تلملا گئیں اور لگیں، اللہ رسول کی باتیں کرنے جیسے کوئی چھل کیا ہی نہ ہو۔

گھر تو ان کے سدھارنے کے بعد زیادہ سلیقے سے چلنے لگا کیونکہ ان کو میکہ بھرنے سے فرصت ہوتی تو کچھ گھر پے لگاتیں جتنے برس مختار کل رہیں، کسی نے حساب ہی نہ لیا۔ معلوم ہوا، ڈپٹی نذیر احمد کی اکبری اور گھر سے چوری کرنے والی ماما عظمت دونوں ہی ان میں موجود تھیں۔ بد لحاظ اور بد سلیقہ تو تھیں ہی اس پے گھر کو بیجا اصراف سے گروی رکھ گئی ہیں اور ہاتھ کی صفائی ایسی کہ گھر کی کمائی کے ساتھ توشہ تحائف تک پر جھاڑو پھیر چکی ہیں۔ ان کے آنے کی خوشی میں دوست احباب نے جو کچھ قیمتی دیا تھا سب سمیٹ کے پہلے ہی پچھلوں کو پہنچا چکیں۔

اپنی بدنامی کے چرچے سے خون کھول کھول جاتا تھا تو ٹھان لی کہ اب معافی تلافی کافی نہیں۔ گیا راج سنگھاسن پانے کے لئے اپنے منہ کی کالک اوروں پے ملنی ہو گی۔ اب چشم زمانہ نے یہ دیکھا، وہی نازو بیگم کہ ہر مجلس، محفل میں اترا اترا کے سرکار کی اپنے لئے خاطر و الفت کے قصے سنایا کرتی تھیں، جن کی یہ کہتے زبان نہ تھکتی تھی کہ میں اور سرکار ایک پیج پر ہیں، ذہنی ہم آہنگی کا وہ حال ہے کہ جو وہ سوچیں وہ میں کہہ اٹھتی ہوں اور میں ابھی سوچ رہی ہوتی ہوں کہ وہ کہہ جاتے ہیں۔

اب منہ بھر بھر کے انہی کے بارے میں اول فول کہا جا رہا ہے۔ کل تک جنھیں آدمی کے روپ میں فرشتہ ثابت کرتی تھیں، آج کون سا عیب ہے جو ان کے سر نہ ڈالا جا رہا ہو؟ خیر، یہاں تک کچھ سچ کچھ جھوٹ کی آمیزش رہی، سرکار میاں بھی ایسے زم زم کے دھلے نہیں مگر پھر بھی لوگ باگ دبے دبے کہہ ہی دیتے تھے کہ نازو بیگم کی خودسری اور دس گز کی زبان سرکار کی ڈھیل کی ہی وجہ سے ہے۔

جو عیب وہ آج گنوا رہی ہیں، ان تمام کے جانتے بوجھتے انہوں نے سرکار میاں کی اونچی حیثیت اور رعب داب کے مزے لینے کو رشتہ استوار کیا تھا۔ آج سرکار میاں دھوکے باز۔ مفاد پرست۔ موقع پرست۔ مظلوم کا حق کھانے والے۔ اول نمبر کے کائیاں۔ سسر کی خوشامد سے مزید مال و دولت کی خاطر ہر غلط فرمائش کو فرمان سمجھنے والے بزدل نظر آنے لگے۔ رہے سسر تو ان کے بھی اگلے پچھلے سارے کارنامے یاد آ گئے کہ کس کس وقت میں کیسے کیسے سرکار میاں اور دیگر کو فرماں برداری پر نوازا اور نافرمانی پر برباد کیا ہے۔

بظاہر شدید غصے میں سرکار اور بڑے سرکار کے بخیے ادھیڑ رہی ہوتی ہیں لیکن یہ بھی ایک چال ہے کہ سارے میں بدنام کر کے مظلوم بن جاؤ کہ مجھ بے گناہ پے ظلم ڈھایا گیا ہے، میں تو نیک صفات، خوش مزاج، سلیقہ شعار، ملنسار، عبادت گزار ٹھہری جو کچھ بھی مجھ سے ہوا، وہ تو سرکار میاں کی مرضی سے کیا۔ مقصد ہے اتنا زچ کر دینا کہ سسر اپنی دستار اور سرکار میاں اپنی تلوار کی لاج رکھنے کو معاملہ رفع دفع کریں۔ پہلی کوشش یہی ہے کہ دوبارہ اسی حیثیت کو بحال کر کے واپس بلا لیں ورنہ فارغ خطی دے کر ہمیشہ کے لئے ناتا توڑ دیں مگر اب ساتھ گزارے اچھے وقتوں کی خاطر رحم کرتے ہوئے، نازو بیگم کی لوٹ مار اور خردبرد کا تذکرہ بند کروا دیں۔ نازو بیگم تو شہر چھوڑ جانے کو بھی راضی ہیں۔ مگر ابھی موقعہ ملا نہ اجازت۔

مگر اب تنازعہ اتنا پھیل گیا ہے کہ دونوں جانب کے عزیز عزیزوں کے، دوست دوستوں کے اور خیر خواہ خیر خواہوں کے دشمن ہوئے جا رہے ہیں۔

نازو بیگم جیسی ہیں ان کا خاندان اور ملنے جلنے والے بھی انہیں سے ہیں بلکہ ایک دو تو ان سے بھی چار جوتے آگے ہیں۔ ایسے ہی ایک مرد دردمند ہیں جو ہمیشہ پلاؤ سے زیادہ دیگ گرم کی مانند رہتے ہیں، ایسی گفتگو میں مہارت رکھتے ہیں جو سننے والوں کو ناگوار ہو اور ان کی بیہودہ گوئی کے چرچے کا سبب بنے۔ انہی حضرت نے چند روز پہلے ایک نجی چینل پر اپنا پارٹی موقف بیان کیا جو اعلی ایوانوں۔ ملک کے سالاروں۔ وطن کے جاں نثاروں۔

سیاسی تجزیہ کاروں اور عوام میں تعجب اور شدید رد عمل کا باعث بن گیا۔ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانئے میں واضح طور پے نام لے کر ہر چھوٹے بڑے عہدے پر تعینات فوجی کو یہ پیغام دیا کہ اولین اور اہم ترین عسکری اصول، بنا سوال آرڈر بجا لانا، کی پابندی کو فرض نہ سمجھا جائے بلکہ ملنے والے احکامات کو خود جانچ کے ماننے یا نا ماننے کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ سراسر فوجی بغاوت یعنی میوٹنی پر اکسانے کی قبیح کوشش ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے میں پینتیس سال فوجی آمریت، اس سے پہلے یا بعد میں عسکری ادارے کی مداخلت جمہوری روایات کے برعکس افسوسناک حد تک زیادہ رہی ہے۔

جمہوریت پسند رہنما۔ جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں اور اسی سوچ کے حامی افراد ہمیشہ ملک دشمن اور غدار مشہور کیے جاتے رہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح پاکستانی سیاستدانوں میں پہلی ”غدار“ قرار پائیں کیونکہ انہوں نے ظل الہی فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت کو للکارا تھا۔ اس کے بعد ایک طویل محضر نامہ ہے جس میں جی ایم سید۔ باچا خان عبدل غفار خان۔ شیخ مجیب الرحمان۔ مولانا بھاشانی۔ میر غوث بخش بزنجو۔ سردار عطا اللہ مینگل۔ نواب خیر بخش مری۔ نواب اکبر بگٹی۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ رسول بخش پلیجو۔ عاصمہ جہانگیر۔ محمود اچکزئی۔ بینظیر بھٹو۔ الطاف حسین۔ منظور پشتین۔ محسن داوڑ۔ علی وزیر۔ جلیلہ حیدر شامل ہیں یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جس میں حالات اور حوالات اضافہ کرتے رہے ہیں۔

پاکستان میں غدار وطن یا ملک دشمن کے معنی عرف عام میں فوجی آمر کے خلاف آواز اٹھانا۔ فوج کو ملنے والی بے پایاں مراعات پے اعتراض۔ عوامی رائے کے بجائے جمہوری عمل کو عسکری رائے کے مطابق چلانے کی مخالفت کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔

یہ جمہور اور جابر کی پنجہ آزمائی ہے۔ ماضی میں تمام مخلص سیاستدانوں نے اس جبری نظام پر کھل کے تنقید کی اور نتیجے میں سالہا سال جیل کاٹی۔ ملک بدری سہی۔ اپنے لئے غدار اور خائن کا پروپیگنڈا بھی جھیلا مگر ہر بار ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جو عسکری قوت کو استعمال کرتے ہیں۔ فوجی قیادت اور فیصلے کا اختیار جس کی ہاتھ میں رہا، سوال بھی اسی سے ہونا چاہیے اور اسی کو مخاطب کر کے کیا گیا، ناپسندیدگی بھی اسی سے ظاہر کی گئی۔

تاہم شدید اور سنجیدہ تر مخالفت کے باوجود کسی سیاسی رہنما نے کبھی فوج کے ادارے کو کمزور کرنے یا عسکری نظم و ضبط پر عمل نہ کرنے جیسا مہلک مشورہ نہیں دیا کیونکہ ہر زیرک سیاستدان جانتا ہے کہ برسوں بعد ایسی امر بیل کو یک دم کاٹا جائے تو درخت کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ حل یہی ہے کہ ایک ایک کر کے بل کھولتے جائیں اور یکے بعد دیگرے ہر شاخ کو آزاد کرتے جائیں۔

مگر جب اناڑی کے ہاتھ بندوق لگ جائے تو اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ چاند ماری کسی اور کو گھائل کرے گی یا خود بندوقچی کی جان لے گی؟

یہاں تو اناڑی بھی وہ ہے جسے خود سرکار میاں نے بہترین کھلاڑی اور اعلی ترین شکاری منوانے بلکہ سادہ لوح عوام کے دلوں میں عقیدے کی طرح اس تصور کو راسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

آج انہیں کا تربیت یافتہ مداری، انہیں کی تھمائی ڈگڈگی پر اپنے حامیوں کو نچا رہا ہے اور یہ منہ تک رہے ہیں۔

اسی تماشے میں مجمع گرمانے کے لئے ہمارے مرد بد گفتار نے حماقت کی اور شست باندھ کے جو نشانہ لگایا وہی اچٹ کے اسے ہی آ لگا۔ نتیجتاً ایک ادھم کٹ گیا۔ ساتھیوں نے منہ موڑ لیا۔ رہنما نے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ عوام بھی کچھ ٹھٹھک گئی۔ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو گنگنانے کی سوا کچھ نہ بچا، طرہ پے طرہ، غداری کا اقرار بھی کر لیا کہ جو کہا بقائمی ہوش و حواس کہا۔ اب ہم سے جو نہ تین میں نہ تیرہ میں تماشائی ہیں کہ جس کی خاطر سب جگ چھوڑا اور بن میں بن باس لیا وہ سیاسی اوتار پرکٹ ہو کے اپنے بھگت کا سنکٹ دور کریں گے یا حسب روایت کسی ملاقاتی سے ”چڑھ جا بیٹا سولی پے رام بھلی کرے گا“ کہلوا کے چلتے بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments