سردار سکندر حیات، مسلم کانفرنس، مسلم لیگ اور کشمیر کے مظلوم عوام


آزاد کشمیر کے ایک سینئر اور معتبر سیاستدان سردار سکندر حیات کی پہلی برسی 10 اکتوبر 2022 کو منائی گئی۔ سردار سکندر حیات خان ریاست جموں و کشمیر کے ایک معروف سیاستدان سردار فتح محمد خان کریلوی کے فرزند تھے جو ڈوگرہ دور میں مسلم کانفرنس میں شامل رہے اور ڈوگرہ دور کی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ آج جب بھی آزاد کشمیر کے 1947 سے اب تک کے سیاستدانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو سردار سکندر حیات خان کی شخصیت نمایاں اور منفرد طور پر نظر آتی ہے۔

سردار سکندر حیات خان نے کئی بار یہ بات فخریہ طور پر کہی کہ وہ بھی مہاجر ہیں اور انہوں نے پونچھ سے آزاد کشمیر ہجرت کی ہے۔ سردار سکندر حیات خان کی پیدائش یکم جون 1934 کو پونچھ میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم بھی انہوں نے پونچھ میں ہی حاصل کی۔ سردار فتح محمد خان کریلوی نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف پونچھ میں بغاوت کرتے ہوئے ڈوگرہ ٹیکس کے خلاف سرگرم تحریک چلائی۔ سردار سکندر حیات خان راولپنڈی کے گورڈن کالج میں زیر تعلیم رہے، 1956 میں گریجویشن کرنے کے بعد 1958 میں یونیورسٹی لا کالج لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کوٹلی میں وکالت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔

آزاد کشمیر کے پہلے پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیاب ہو نے والے سابق سینئر بیوروکریٹ طارق مسعود، جو آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس، کشمیر کے بارے میں مستند و مشہور کتاب ”کشمیری فائٹ فار فریڈم“ کے مصنف، معروف کشمیری شخصیت یوسف صراف کے داماد بھی تھے، نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک تفصیلی وڈیو انٹرویو میں بتایا کہ 1965 کے ”آپریشن جبرالٹر“ کے بعد ہونے والی جنگ کے نتیجے میں کوٹلی آنے والے مہاجرین کی معاونت کے لئے سردار سکندر حیات خان اور کوٹلی کے دیگر وکلا نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس وقت طارق مسعود کوٹلی میں ”ایس ڈی ایم“ تھے۔ سردار سکندر حیات خان 1970 میں کوٹلی بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔

میرے والد خواجہ عبدالصمد وانی کے سردار فتح محمد خان کریلوی سے مسلم کانفرنس کے حوالے سے قریبی ذاتی تعلقات قائم تھے اور کریلوی صاحب کو والد مرحوم سے خصوصی لگاؤ، انسیت تھی اور وہ وانی صاحب پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ سردار سکندر حیات خان کوٹلی میں وکالت کر رہے تھے، انہی دنوں آزاد کشمیر میں مقامی حکومتوں کے نظام کے ’بی ڈی‘ الیکشن ہونے والے تھے۔ ایک دن سردار فتح محمد خان کریلوی نے خواجہ عبدالصمد وانی سے کہا کہ میں سردار سکندر حیات سے کہتا ہوں کہ ’بی ڈی‘ الیکشن میں حصہ لو، لیکن وہ میری یہ بات نہیں مان رہا، تم اس کو سمجھاؤ۔

سردار سکندر حیات میرے والد خواجہ عبدالصمد وانی کے ہم عمر اور قریبی دوست تھے۔ وانی صاحب نے کریلوی صاحب کی خواہش پہ سردار سکندر حیات سے الیکشن میں حصہ لینے کی بات کی تو سردار سکندر حیات خان نے کہا کہ ”سیاست کروں گا تو کھاؤں گا کہاں سے؟“ ۔ سردار سکندر حیات خان کی وکالت اچھی چل رہی تھی اور اس دور میں سیاست مفاد پرستی نہیں بلکہ کافی حد تک نظریاتی تھی اور سیاست ابھی مفاد پرستی، مال بنانے کا ذریعہ نہیں بنی تھی۔ بہر حال سردار سکندر حیات خان الیکشن میں حصہ لینے پہ رضامند ہو گئے اور الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب بھی ہو گئے۔

1970 میں آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1972 میں آزاد کشمیر حکومت کے وزیر خزانہ مقرر ہوئے۔ سردار سکندر حیات خان 1970 سے 2001 تک مسلسل آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب ہوتے رہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے شملہ سمجھوتے اور آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی قائم کرنے کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان کی حکومت کو زبردستی، بزور قوت ختم کیا گیا تو اس وقت بھی سردار سکندر حیات خان مضبوطی سے مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ ڈٹے رہے۔

سردار عبدالقیوم خان زبردستی حکومت سے ہٹائے گئے تو مظفر آباد کے ایوان صدارت سے روانگی کے وقت ان کی گاڑی سردار سکندر حیات خان چلا رہے تھے۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی زیادتیوں اور جبر کا بہادری سے مقابلہ کرتے رہے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا ’قومی اتحاد‘ قائم ہوا تو مسلم کانفرنس بھی اس میں سرگرمی سے شامل رہی اور سردار سکندر حیات خان اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد کے کچھ عرصہ صدر بھی رہے اور سرگرمی سے اپوزیشن جماعتوں کی پیپلز پارٹی کی بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں متحرک رہے۔

پاکستان میں 1977 کو ضیا الحق کا مارشل لا لگنے کے بعد 1985 تک آزاد کشمیر میں فوجی عہدیدار حکومت کے چیف ایگزیکٹیو رہے۔ 1985 میں سالہا سال کے بعد آزاد کشمیر میں الیکشن ہوئے، جس میں مسلم کانفرنس نے اکثریت حاصل کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں حکومت بنائی۔ مسلم کانفرنس نے سردار سکندر حیات خان کو قائد ایوان بنانے کا فیصلہ کیا اور سردار سکندر حیات خان آزاد کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ آزاد کشمیر کے کئی سینیئر بیوروکریٹ اور دوسرے شعبوں کی اہم شخصیات سردار سکندر حیات خان کی وزارت عظمی کے اس دور کو رولز اینڈ ریگولیشن کے مطابق حکومت کو چلانے اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

سردار سکندر حیات خان دس سال تک مسلم کانفرنس کے صدر بھی رہے۔ سردار سکندر حیات خان صاحب کی وزارت عظمی کے اسی دور میں، مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے حوالے سے بڑی سیاسی سرگرمی شروع ہوئی اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم متحدہ محاذ کے نام سے آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا۔ سردار سکندر حیات خان اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر بھی تھے۔ غالباً یہ 1987 کی بات ہے کہ ایک دن صبح کے وقت والد گرامی خواجہ عبدالصمد وانی اور مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل خواجہ محمد امین مختار جلدی میں ناشتہ کر رہے تھے، میں نے اس جلدی کی وجہ پوچھی تو خواجہ امین مختار صاحب نے جواب دیا کہ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان کے ساتھ آزاد کشمیر کے بجٹ کے حوالے سے ایک اہم میٹنگ میں جانا ہے۔

اس پر میں نے خواجہ امین مختار صاحب، جنہیں میں چاچا جی کہتا تھا، کہا کہ ”کیا چاچا جی آزاد کشمیر کا بجٹ، آپ کی حکومت کشمیر کے لئے کچھ کرتی ہی نہیں“ ، اس پہ خواجہ امین مختار صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ آزاد کشمیر حکومت کشمیر کے لئے کیا کر سکتی ہے؟ میں نے کہا کہ کشمیر کے لئے ایک ادارہ قائم کیا جائے جو تحریک آزادی کے لئے کام کرے۔ اس پہ خواجہ امین مختار صاحب نے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت لڑائی کے اقدامات تو نہیں کر سکتی۔

میں نے کہا کہ لڑائی کے لئے نہیں بلکہ تحریک آزادی کے لئے علمی سطح پہ کام کرنے کے لئے ایک ادارہ بنایا جائے، تحریک آزادی کے لئے فنڈز مختص کیے جائیں۔ خواجہ امین مختار صاحب نے کہا کہ آزاد کشمیر کی مالیاتی حالت تمہیں معلوم ہی ہے، اگر چند لاکھ ہی تحریک آزادی کے لئے رکھیں گے تو یہ مذاق نہیں بن جائے گا کہ کشمیر کے لئے صرف چند لاکھ۔ میں نے کہا کہ کام تو شروع کیا جائے، کچھ تو کیا جائے۔ شام کو خواجہ امین مختار صاحب اور والد صاحب میٹنگ سے واپس آئے تو خواجہ امین مختار صاحب نے کہا کہ میں نے میٹنگ میں تمہاری تجویز وزیر اعظم سردار سکندر حیات کے سامنے پیش کی، انہیں یہ آئیڈیا اچھا لگا ہے اور انہوں نے بجٹ میں تحریک آزادی کے لئے ایک ادارہ بنانے اور ابتدائی طور پر بیس لاکھ روپے بجٹ میں اس کے لئے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ کشمیر لبریشن سیل کے قیام کی ابتدا تھی۔ چند ہی سال بعد ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی بے نظیر بھٹو کے دور میں اسلام آباد آئے۔ اس وقت میریٹ ہوٹل کے سامنے سڑک کے درمیان نصب کشمیر ہاؤس کا بورڈ اس لئے ہٹا دیا گیا تھا کہ اس راستے سے راجیو گاندھی نے گزرنا ہے، کہیں اس کی نظر کشمیر ہاؤس کے اس بورڈ پہ پڑ گئی تو کہیں اس کا موڈ خراب نہ ہو جائے۔ اس دورے کے موقع پر وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے شکوہ کیا کہ آزاد کشمیر حکومت نے تحریک آزادی کے لئے بجٹ میں رقم مختص کی ہے، اس پر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت نے تو صرف بیس لاکھ روپے ہی رکھے ہیں، اتنی قلیل رقم سے کیا ہو سکتا ہے۔

اس پر راجیو گاندھی نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ بات قلیل رقم کی نہیں، اصل بات نیت کی ہے، کسی بھی وقت یہ رقم چند لاکھ سے کئی کروڑ روپے بھی ہو سکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی سیاسی جدوجہد کے ساتھ مسلح مزاحمتی تحریک بھی شروع ہو گئی تھی۔ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان نے، غالباً 1990 میں راولپنڈی کے انٹر کانٹیننٹل ہوٹل میں ایک بڑی کشمیر کانفرنس منعقد کی جس میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بیگم نصرت بھٹو شریک ہوئیں۔ کشمیر کاز کے حوالے سے یہ کشمیر کانفرنس ایک اہم بنیاد ثابت ہوئی۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلم کانفرنس 1985 تک جیسے تیسے، جتنی بھی ہو، ایک حقیقی سیاسی جماعت کے طور پر متحرک رہی، اس کے فیصلے مجلس عاملہ، جماعت کے سینئر افراد کی اجتماعی مشاورت اور مرضی سے فیصلے ہوتے رہے لیکن 1985 کے وقت سے مسلم کانفرنس پہ علاقائی، قبیلائی بنیادوں پہ مفاداتی سیاست یوں حاوی ہوتی چلی گئی کہ جس سے مسلم کانفرنس کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی، مسلم کانفرنس میں گروپوں کی سیاست غالب ہوتی چلی گئی۔

اسی دوران سردار عبدالقیوم خان صاحب کے فرزند سردار عتیق احمد خان مسلم کانفرنس کی مرکزی سطح کی سیاست، عمل دخل میں شامل ہوئے۔ 1990 کے بعد مسلم کانفرنس دو مرتبہ انتشار کا شکار ہوئی اور مسلم کانفرنس دو گروپوں کے روپ میں الگ الگ طور پر سامنے آئی۔ دونوں مرتبہ مختلف نوعیت کے سنگین مسائل و امور پر سردار سکندر حیات خان اپنے حامی ساتھیوں کے ساتھ مسلم کانفرنس کا الگ گروپ بنانے پر مجبور ہوئے۔ یوں مسلم کانفرنس ق اور مسلم کانفرنس س کے ناموں سے دو الگ گروپوں کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم دونوں مرتبہ الگ الگ ہونے کے بعد جب یہ حقیقت درپیش ہوئی کہ اس صورتحال سے دوسری جماعتیں ہی فائدہ اٹھا رہی ہیں، دونوں گروپوں کے درمیان دونوں مرتبہ اتفاق اور اتحاد قائم کیا گیا۔

آزاد کشمیر کا قیام 24 اکتوبر 1947 کو آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر، یعنی تمام ریاست کی تحریک آزادی کی نمائندہ حکومت کے طور پر عمل میں آیا اور مسلم کانفرنس کی طرف سے سردار محمد ابراہیم خان آزاد کشمیر کے پہلے صدر بنے۔ مسلم کانفرنس کے بانی رہنما اور شیخ عبداللہ کے ساتھ ریاست کے سینئر ترین رہنما چودھری غلام عباس ہندوستانی قید سے رہا ہو کر قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہو کر پاکستان، آزاد کشمیر آئے تو تھوڑے ہی عرصے کے بعد ان کے سردار محمد ابراہیم خان کے ساتھ اختلافات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

سردار محمد ابراہیم خان علاقائی بنیادوں پر مضبوط مقامی حمایت رکھتے تھے جبکہ چودھری غلام عباس ریاست، مسلم کانفرنس کے سینیئر ترین رہنما، قائد اعظم کے دست راست ہونے کے باوجود مہاجر ہونے کی وجہ سے اس سیاسی کشمکش سے نالاں ہوئے۔ اسی حوالے سے چودھری غلام عباس آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست کے مخالف رہے کہ اس سے آزاد کشمیر حکومت اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر علاقائی اور قبیلائی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ چودھری غلام عباس نے 1951۔ 52 میں سردار محمد عبدالقیوم خان کو مسلم کانفرنس میں آگے لایا کہ وہ مقامی ہونے کے ناتے سردار محمد ابراہیم خان کا سیاسی طور پر بہتر طور پر مقابلہ کر سکیں گے۔

کئی حوالوں سے یہ بات نہایت اہم ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے بعد ، کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہونے کے فوری بعد معاہدہ کراچی کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کا آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے طور پر انقلابی، تمام ریاست کی نمائندہ حکومت کا کردار ختم کر دیا گیا۔ اس کے محرکات اور اثرات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ یوں آزاد کشمیر میں پہلے ایک ہی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس تھی، پھر سردار ابراہیم خان مسلم کانفرنس سے الگ ہوئے۔

بعد ازاں خورشید حسن خورشید، کے ایچ خورشید نے لبریشن لیگ بنائی۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کا قیام بھی مسلم کانفرنس سے وابستہ افراد کے ذریعے عمل میں لایا گیا۔ یوں یہ کہا جاتا تھا کہ آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی ماں مسلم کانفرنس ہی ہے۔ سردار سکندر حیات خان 1985 سے 1990 تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائر رہنے کے بعد الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور 29 جون 1990 کو راجہ ممتاز حسین راٹھور وزیر اعظم بن گئے تاہم 5 جولائی 1991 کو انہیں مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

مسلم کانفرنس نے چند ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کی اور مسلم کانفرنس کے قائد سردا ر محمد عبدالقیوم خان وزیر اعظم بنے اور سردار سکندر حیات خان آزاد کشمیر کے صدر بن گئے۔ سردار سکندر حیات خان کی صدارت کے اسی عرصے میں مجھے بطور افسر تعلقات عامہ ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ میں صبح کشمیر ہاؤس کے صدارتی بلاک میں اپنی ڈیوٹی کے لئے جاتا تو کئی بار خواجہ محمد امین مختار صاحب، جو اس وقت بھی مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل تھے، بھی میرے ساتھ گاڑی میں کشمیر ہاؤس جاتے۔

میں خواجہ امین مختار صاحب کو کشمیر ہاؤس کے وزیر اعظم بلاک کے گیٹ پہ اتار کر گاڑی صدارتی بلاک کی طرف لے جانے لگتا تو خواجہ صاحب کہتے کہ آؤ اور سردار عبدالقیوم صاحب کو سلام کر کے جانا۔ میں وزیر اعظم ہاؤس کے اندر جاتا تو سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب مجھے سے بہت شفقت، بہت پیار سے پیش آتے۔ ان دنوں میں اخبارات میں باقاعدگی سے کالم، مضامین بھی لکھتا تھا۔ سردار عبدالقیوم خان صاحب ہر بار اصرار سے مجھے یہ بات کہتے کہ تم کیا صدارتی سیکرٹریٹ میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو، ادھر میرے ساتھ آؤ، یہاں بہت کام ہے۔

لیکن میں ہر بار ان کی بات ٹال جاتا۔ الیکشن میں مسلم کانفرنس کی کامیابی کو سردار سکندر حیات خان اپنی وزارت عظمی کی حکومت کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ ان کی حکومت کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے ہی مسلم کانفرنس کو الیکشن میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس حوالے سے سردار سکندر حیات خان صاحب کا خیال تھا کہ دوبارہ بھی انہیں ہی مسلم کانفرنس کی طرف سے وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ الیکشن میں مسلم کانفرنس کی کامیابی کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب کے فرزند سردار عتیق احمد خان وزیر اعظم بننے کے خواہاں تھے۔

تاہم ایسی صورتحال تھی کہ اگر انہیں وزیر اعظم بنایا جاتا تو مسلم کانفرنس میں ایک بار پھر دو گروپوں میں تقسیم ہونے کا خدشہ تھا۔ اس صورتحال میں سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب نے خود وزیر اعظم بننے کا فیصلہ کیا۔ سردار عبدالقیوم خان صاحب کے وزارت عظمی کے اس دور میں ان کے فرزند سردار عتیق احمد خان کی طرف سے وزیر اعظم کے اختیارات کے استعمال کی باتیں زود عام تھیں۔ یہ تمام صورتحال دیکھتے ہوئے میں ہر بار سردار عبدالقیوم خان صاحب کی اپنے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں آ کر ان کے ساتھ کام کرنے کے اصرار کو ٹال جاتا کہ مجھے معلوم تھا کہ سردار سکندر حیات خان صاحب میرے اس اقدام پر سخت ناراض ہو جائیں گے۔

ایک دن صدر آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان نے آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایوان صدر مظفر آباد میں دعوت پہ بلایا۔ سب اپوزیشن رہنما، وزرا ایوان صدر کے ہال نما ڈرائینگ روم میں بیٹھے عمومی بات چیت کر رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے کہا کہ مسلم کانفرنس ہی آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی ماں ہے۔ اس پر الحاج ثنا اللہ قادری، جو اس وقت غالباً ڈپٹی سپیکر تھے، نے اپوزیشن رہنماؤں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ جس جس نے اپنی ماں کو چھوڑا ہے، اس کو چاہیے کہ وہ واپس اپنی ماں کے پاس آ جائے۔

اس پہ سب اپوزیشن رہنما خاموش رہے کہ یہ بات تو حقیقت تھی، اس پہ وہ کیا کہتے، ثنا اللہ قادری صاحب نے ماحول سازگار دیکھ کر دوبارہ اصرار کے انداز میں اپنی بات دہرائی۔ اس پہ کچھ توقف کے بعد ممتاز راٹھور صاحب نے کہا ”جب ماں خراب ہو جائے تو بچوں کو ماں کو چھوڑنا ہی پڑتا ہے“ ۔ اس پہ ہال میں ایسا اجتماعی قہقہہ بلند ہو اجس میں اپوزیشن اور مسلم کانفرنس کے رہنما بھی شامل تھے۔

مسلم کانفرنس حکومت کے اس دور حکومت کے بعد الیکشن ہوئے جس میں مسلم کانفرنس ہار گئی اور پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کر کے حکومت بنا لی۔ سردار محمد ابراہیم خان صاحب آزاد کشمیر کے صدر اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری وزیر اعظم بن گئے۔ اس کے پانچ سال بعد آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں ایک بار پھر مسلم کانفرنس نے کامیابی حاصل کر لی اور سردار سکندر حیات خان پورے اعتماد سے وزیر اعظم بننے کے لئے تیار تھے۔ تاہم سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب کے فرزند اب کی بار خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور انہوں نے مسلم کانفرنس کے چند ممبران اسمبلی کو ساتھ ملا کر اپنا گروپ بھی بنا لیا۔

سردار عبدالقیوم خان صاحب کا جھکاؤ اپنے فرزند کی جانب تھا۔ مسلم کانفرنس میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب میرے والد گرامی خواجہ عبدالصمد وانی کے مسلم کانفرنس سے متعلق مشوروں کو خاص اہمیت دیتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ خواجہ عبدالصمد وانی کا مشورہ ہمیشہ مسلم کانفرنس کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ مسلم کانفرنس میں جب سردار سکندر حیات خان صاحب نے مسلم کانفرنس کا الگ گروپ بنایا تو دونوں مرتبہ خواجہ عبدالصمد وانی صاحب نے سردار سکندر حیات خان کا ساتھ دیا۔

مسلم کانفرنس کی اس دھڑے بندی کے وقت بھی سردار عبدالقیوم خان صاحب خواجہ عبدالصمد وانی صاحب کی مشاورت حاصل کرتے اور ان کی مشاورت کو اہمیت دیتے۔ سردار سکندر حیات خان اور سردار عتیق احمد خان کے درمیان وزیر اعظم کے معاملے پہ کشمکش اور سردار عبدالقیوم خان صاحب کی طرف سے سردار عتیق احمد خان کی حمایت کی صورتحال میں خواجہ عبدالصمد وانی نے سردار عبدالقیوم خان صاحب سے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات میں انہیں بتایا کہ اگر وہ سردار سکندر حیات خان کو وزیر اعظم بنانے پر رضامند نہ ہوئے تو ایک بار پھر مسلم کانفرنس کے ٹکڑے ہو جائیں گے اور اب کی بار یہ نقصان ناقابل تلافی رہے گا۔ اس پہ سردار عبدالقیوم خان صاحب نے سردار عتیق احمد خان کو وزیر اعظم بننے کی کوشش سے روک دیا۔ سردار عتیق احمد خان کسی صورت وزیر اعظم بننے کے مطالبے سے ہٹنے کو تیار نہ تھے لیکن سردار عبدالقیوم خان صاحب کے حکم پر وہ خاموش ہو گئے اور سردار عبدالقیوم خان صاحب کے فیصلے کو خاموشی سے تسلیم کر لیا۔

یہ وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حاکمیت کا تھا۔ ہر معاملے میں فوج کی نگرانی کا عمل جاری تھا۔ آزاد کشمیر میں حکومت سازی میں بھی فوج کا کلیدی کردار مخفی نہیں بلکہ کھلے طور پر کارفرما تھا۔ فوجی عہدیداروں کے ساتھ آزاد کشمیر میں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کے لئے ایک ایسے ہی اجلاس میں جب فوج کے ایک عہدیدار نے تجویز کیا کہ کیوں نہ شاہ غلام قادر کو وزیر اعظم بنا دیا جائے تو اس پر سردار سکندر حیات خان نے جواب دیا کہ اس صورت فوج کو ایک پلٹن ساتھ بھیجنا پڑے گی جو شاہ غلام قادر کو مظفر آباد جا کر وزیر اعظم بنوائے۔ سردار عبدالقیوم خان صاحب کی رضامندی اور حمایت سے مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی میں سردار سکندر حیات خان کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ ہو گیا اور سردار سکندر حیات خان 25 جولائی 2001 کو دوسری بار آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے۔

وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان نے اپنی کابینہ کے ارکان، مشیران کے لئے اپنی لسٹ ’جی او سی‘ کو منظوری کے لئے ارسال کی۔ چند ہفتے کے بعد وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان اسلام آباد سے مظفر آباد جاتے ہوئے مری میں رک کر ’جی او سی‘ سے ملاقات کے لئے رکے۔ خواجہ عبدالصمد وانی صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سردار سکندر حیات خان نے ’جی او سی‘ سے وزرا، مشیران کی ارسال کردہ فہرست کے بارے میں دریافت کیا کہ کافی دن ہو گئے ہیں، کابینہ کے اعلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔

اس پہ ’جی او سی‘ نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اپنی کابینہ کا اعلان کر دیں۔ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان مظفر آباد پہنچے اور ساتھ ہی کابینہ کی ارکان کے اعلان اور حلف کی تیاری شروع ہو گئی۔ وزیر اعظم ہاؤس کے ڈرائینگ روم میں سیکرٹری سروسز اور دیگر متعلقہ افراد کے ساتھ بات چیت، تیاری شروع ہو گئی۔ اتنے میں ایک صاحب ہال میں داخل ہوئے اور کابینہ کے اعلان، حلف کی تیاری دیکھ کر دریافت کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

اس پر وزیر اعظم سردار سکندر حیات نے ان صاحب کو بتایا کہ کابینہ کے ارکان کے ناموں کے اعلان اور کل صبح ان کے حلف کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس پہ ان صاحب نے کہا کہ نہیں ابھی رک جائیں۔ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان پریشان ہو گئے اور کہا کہ میں ابھی ’جی او سی‘ سے ملاقات کر کے آ رہا ہوں، انہوں نے کہا ہے کہ آپ اعلان کر دیں۔ اس پہ ان صاحب نے جواب دیا کہ میں نے کہا نا کہ ابھی نہیں، ابھی رک جائیں۔ اس پہ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خاموش ہو گئے، ڈرائینگ روم میں خاموشی چھا گئی۔

خواجہ عبدالصمد وانی ان صاحب کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے ان صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ اس پہ وہ صاحب حیران اور پریشان ہوئے کہ یہ کون ہے جو مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ تم کون ہو۔ اس پہ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان صاحب نے ان صاحب کا تعارف کرایا۔ اس پہ خواجہ عبدالصمد وانی نے ان صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ اب تم تنخواہ دار آدمی اس بات کا فیصلہ کرو گے کہ کون محب وطن ہے اور کون محب وطن نہیں ہے؟ کون وزیر بنے گا اور کون وزیر نہیں بنے گا؟

ان صاحب کو اس لہجے اور اس طرح کی بات سننے کی عادت نہیں تھی، ان صاحب نے اس بات کو اپنی توہین تصور کیا اور نہایت غصے کے تاثرات کے ساتھ اٹھ کر ڈرائینگ روم سے باہر نکل گئے اور وزیر اعظم ہاؤس سے چلے گئے۔ ان صاحب کے غصے اور غضبناک ہو کر جانے سے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان صاحب سمیت دو تین افراد ایک ساتھ غصے سے وانی صاحب سے مخاطب ہوئے کہ یہ کیا کیا آپ نے، اس کو ناراض کر دیا، اب معاملہ کون ٹھیک کرے گا، یہ آپ نے کیا کر دیا۔

اس پر خواجہ عبدالصمد وانی بھی غصے کے عالم میں اٹھ کر ڈرائینگ روم سے باہر نکل آئے اور وزیراعظم ہاؤس سے باہر جانے لگے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان سناتے ہیں کہ میں فوراً بھاگتا ہوا وانی صاحب کے پیچھے گیا، ان کو روکا اور ان کا ماتھا چوم کر کہا کہ ”خدا کا شکر ہے کہ ریاست میں ایک آدمی ایسا موجود ہے جو ان کے سامنے بات کر سکتا ہے جن کے سامنے کوئی بھی بات کرنے کی ہمت اور جرات نہیں کرتا“ ۔

خواجہ عبدالصمد وانی وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان کی اس حکومت میں چار ماہ، اپنی وفات تک ان کے معاون خصوصی رہے۔ وانی صاحب نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کا معاون خصوصی بننے سے متعلق اپنے جریدے ہفت روزہ ”کشمیر“ میں ایک مضمون میں لکھا کہ مجھے وزیر اعظم کا مشیر بننے کا کوئی شوق نہیں تھا، ایک دن کوٹلی کے ایک شخص نے مسلم کانفرنس کے ایک اعلی سطحی اجلاس میں کہا کہ ”میں مسلم کانفرنس میں سب سے سینیئر شخص ہوں“ ۔ وانی صاحب نے لکھا کہ وہ صاحب اپنے حکومتی عہدے کے حوالے سے اپنے آپ کو مسلم کانفرنس میں سب سے سینیئر قرار دے رہے تھے۔

وانی صاحب نے لکھا کہ میں جو مسلم کانفرنس میں چودھری غلام عباس کے قریبی متعمد، ساتھی کی حیثیت سے ساتھ رہا، مسلم کانفرنس کے نظریے سے ہجرت کی، تمام عمر مسلم کانفرنس کو دے دی اور مسلم کانفرنس میں سینیارٹی کا حساب حکومتی عہدے سے کیا جا تا ہے؟ وانی صاحب نے لکھا کہ اس پہ میں نے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان کا مشیر بننے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان صاحب نے خواجہ عبدالصمد وانی کی پہلی برسی کی تقریب میں وانی صاحب کے مشیر بننے کا یہ واقعہ سنایا، سردار سکندر صاحب نے بتایا کہ جب وانی صاحب نے مجھ سے مشیر بنانے کی بات کی تو میں نے جواب دیا کہ بالکل میں آپ کو اپنا مشیر بناتا ہوں، یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہو گی کہ آپ میرے ساتھ مشیر کے عہدے پہ رہیں لیکن یہ تو بتائیں آپ تو ایسے کسی عہدے کے کبھی خواہشمند نہیں رہے، اب آپ کو یہ خیال کیسے آیا؟

سردار سکندر صاحب نے وانی صاحب کا وہی جماعت میں سینیارٹی والا معاملہ بتایا جو وانی صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا تھا۔ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان نے خواجہ عبدالصمد وانی کی برسی کی اسی تقریب میں کہا کہ میں ایک بڑی شخصیت سردار فتح محمد خان کریلوی کی بیٹے کی حیثیت سے بہت سے پرانے لوگوں سے بھی ملتا رہا، میرے پیدائش اور لڑکپن پونچھ میں گزرا، ہجرت کی، آزاد کشمیر میں کئی سال وکالت کی، اس حوالے سے بھی بے شمار لوگوں سے ملا، مسلم کانفرنس کا دس سال صدر رہا، ایک بار آزاد کشمیر کا صدر اور دو بار وزیر اعظم رہا، اس دوران دنیا کے کئی ممالک کا دورہ بھی کیا، میں ریاست جموں وکشمیر کے لاکھوں افراد سے ملا ہوں اور بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ میں نے اتنا غیرت مند کشمیری اور کوئی نہیں دیکھا جتنے غیرت مند خواجہ عبدالصمد وانی تھے۔

قریبی سیاسی تعلق کے علاوہ خواجہ عبدالصمد وانی اور سردار سکندر حیات خان کے درمیان گہری دوستی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 1985 کے الیکشن سے پہلے چاندنی چوک راولپنڈی میں علی خان چغتائی صاحب کی کوٹھی کے وسیع سبزہ زار میں مسلم کانفرنس کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ الیکشن کے لئے مسلم کانفرنس کے رہنماؤں نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے مہاجرین کے تمام حلقوں کے دورے کے اخراجات کے لئے پیسے اکٹھے کرنے تھے۔

اس دن ہمارا ڈرائیور چھٹی پہ تھا چنانچہ میں وانی صاحب کے ساتھ گاڑی میں ڈرائیور کے طور پر ساتھ اس اجلاس میں گیا۔ سٹیج پہ سردار عبدالقیوم خان صاحب اور چند مسلم کانفرنس کے چند دیگر عہدیدار بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے کرسیوں پہ ستر، اسی افراد موجود تھے۔ میں سٹیج اور حاضرین کی کرسیوں کے درمیان ایک طرف کھڑا منتظر تھا کہ یہ کارروائی ختم ہو تا کہ کھانا کھایا جا سکے۔ سردار سکندر حیات صاحب کے ہاتھ میں ایک رجسٹر اور قلم تھا، ہر آدمی اٹھ کر اپنی طرف سے پیسے دیتا اور اپنا نام لکھواتا۔

میں نے دیکھا کہ سردار فتح محمد خان کریلوی صاحب حاضرین کی دوسری صف میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہر شخص سردار سکندر صاحب یا ان کے ساتھ بیٹھے شخص کو پیسے تھماتا اور اپنا نام اور دی گئی رقم درج کرواتا۔ اتنے میں ایک شخص نے سردار سکندر حیات صاحب کی واسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس میں پیسے ڈالے اور اپنا نام لکھواتے ہوئے بتایا کہ پانچ سو روپے۔ سردار سکندر صاحب اس شخص کا نام اور بتائے گئے پانچ سو کی رقم درج کرنے لگے۔

اس پر سردار فتح محمد خان کریلوی صاحب فوراً اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور بلند آواز میں کہا او سکندر، او سکندر۔ وہاں شور تھا، سردار سکندر صاحب ان کی آواز سن نہیں سکے، اس پہ کریلوی صاحب نے مزید اونچی آواز میں پکارا ”او سکندر او سکندر ’، ان کی اونچی آواز سے سب خاموش ہو گئے اور ان کی طرف متوجہ ہو گئے، سردار سکندر صاحب نے پوچھا“ جی ابا جی ”، اس پہ کریلوی صاحب نے ایک شخص کا نام لے کر کہا کہ اس شخص نے پانچ سو روپے لکھوائے ہیں اور تمہاری جیب میں پیسے ڈالے ہیں، چیک کرو کہ اس نے واقعی پانچ سو روپے دیے ہیں یا نہیں۔

یہ دیکھ کر میرے ذہن میں یہی بات آئی کہ“ دیکھو ایک باپ اپنے بیٹے کی کس طرح سیاسی تربیت کر رہا ہے۔ سردار فتح محمد خان کریلوی صاحب وفات سے پہلے سخت علیل اور ہسپتال میں داخل تھے۔ میرے والد خواجہ عبدالصمد وانی اور والدہ کریلوی صاحب کی عیادت کے لئے گئے۔ کریلوی صاحب پہ بیماری کی نقاہت طاری تھی۔ میری والدہ ان سے باتیں کرنے لگیں اور انہیں بتایا کہ میرے والد کی پیدائش پونچھ میں ہوئی ہے اور میرے والد کے دادا ملا محمد کشمیری مہاراجہ پونچھ کے دربار میں اتالیق تھے۔

یہ سنتے ہی شدید نقاہت کے باوجود کریلوی صاحب اٹھ بیٹھے اور نہایت شفقت سے والدہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور ان کے ساتھ پونچھ کی یادوں میں محو ہو گئے۔ پرانی باتیں یاد کرتے کریلوی صاحب کی خوشی اور جذبات دیکھتے ہوئے محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ شدید علیل ہیں، اس کے چند ہی دنوں بعد کریلوی صاحب کا انتقال ہو گیا تھا۔

سردار سکندر حیات خان صاحب اصولوں، قواعد و ضوابط کی سختی سے پیروی کرنے والے انسان تھے اور عمومی طور پر انہیں سخت مزاج تصور کیا جاتا تھا۔ دوستوں کی محفل میں بیٹھے ہوتے تو ان کی خوش مزاجی دیکھنے کے قابل ہوتی۔ میں افسر تعلقات عامہ کے طور پر پانچ سال ان کے ساتھ رہا اور انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنے روئیے سے کبھی مجھ پہ ایسا ظاہر نہیں کیا کہ وہ اپنے قریبی دوست کا بیٹا ہونے کی وجہ سے مجھ سے کوئی رعایت رکھتے ہیں۔

ایک دن ان کے پولیٹیکل سیکرٹری شفیق انقلابی نے بتایا کہ سردار صاحب نے پرنسپل سیکرٹری کو میرے اور کوٹلی کے ایک نوجوان سٹاف ممبر سے متعلق بتایا ہے کہ انہیں مستقل سرکاری ملازمت میں کہیں ایڈجسٹ کیا جائے۔ میں نے یہ بات سنتے ہی صاف انکار کر دیا کہ میں سرکاری ملازمت نہیں کرنا چاہتا، میں صحافت کے شعبے میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔ ایک دن میں بڑی تعداد میں صدر کے نام آئی مختلف درخواستوں پہ سردار سکندر حیات صاحب سے دستخط کروا رہا تھا، شاید تین سو سے زائد درخواستیں تھیں، ڈیڑھ دو سو درخواستوں پہ دستخط کرنے کے بعد مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم تھک تو نہیں گئے، میں نے فوراً جواب دیا، بالکل نہیں۔

ان کا موڈ اچھا ہونے کا سوچ کر میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اکثر فاروق، ان کے بڑے فرزند سردار فاروق سکندر، کو ساتھ رکھتے ہیں، شاید آپ انہیں اپنا جانشین بنانا چاہتے ہیں، میں نے مزید کہا کہ اگر فاروق کو آپ نے اپنا جانشین بنانا ہے تو اس سے کہیں کہ وہ اپنے علاقے کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد میں بھی لوگوں سے میل ملاپ بڑھائے اور اس کو کہیں کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں بھی حصہ لے، آپ نے بھی نچلی سطح سے اپنی سیاست شروع کی تھی، اس پہ سردار سکندر صاحب مسکرائے اور کہا واقعی تمہاری بات درست ہے۔

سردار سکندر صاحب اور حمید اختر صاحب طالب علمی کے دور سے دوست تھے۔ سردار سکندر صاحب دوستوں کی محفل میں سنایا کرتے تھے کہ نوجوانی میں ہم، وہ اور حمید اختر صاحب ایک ہی سیگریٹ باری باری پیتے تھے۔ حمید اختر صاحب ہمارے گھر کے قریب ہی ہولی فیملی ہسپتال کے سامنے رہتے تھے اور انہوں نے اپنے گھر کا ایک کمرہ سردار سکندر حیات خان صاحب کے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔ سردار سکندر صاحب جب راولپنڈی، اسلام آباد آتے تو ان کا قیام حمید اختر صاحب کے گھر، اپنے لئے مخصوص کمرے میں ہی ہوتا۔ صدر اور وزیر اعظم بننے کے باوجود جب بھی موقع ملتا وہ حمید اختر صاحب کے گھر ہی قیام کرتے۔ وانی صاحب، سردار سکندر صاحب اور حمید اختر صاحب کے درمیان قریبی دوستی کا یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہا۔ وانی صاحب اکثر شام کو حمید اختر صاحب کے گھر چلے جاتے اور دیر تک ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف رہتے۔

خواجہ عبدالصمد وانی صاحب کی ایک فوجی عہدیدار سے باز پرس کا ہی نتیجہ تھا کہ وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان کی طرف سے وانی صاحب کا نام معاون خصوصی کے لئے ارسال کیے جانے کے کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود فوجی حکام کی طرف سے ان کی فائل روک کر رکھی گئی۔ یہ جنرل مشرف کی مانیٹرنگ کے نام پہ کھلی حاکمیت کا دور تھا اور آزاد کشمیر کے خطے کے لئے اس حاکمیت کے پیمانے مزید سخت تھے۔ جب یہ تاخیر غیر معمولی ہوئی تو سردار سکندر حیات خان ’جی او سی‘ سے بات کرتے ہوئے اپنے لہجے میں تلخی لے آئے اور ساتھ ایسا جملہ بھی کہہ دیا کہ جسے حکام کے لئے نظر انداز کرنا مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہوتا۔

اس پہ تین ماہ کی تاخیر کے بعد وانی صاحب کے معاون خصوصی بننے کی فائل منظوری کے ساتھ ریلیز ہو گئی۔ خواجہ عبدالصمد وانی نے اپنی وفات سے قبل وزیر اعظم کے معاون خصوصی بننے کے حوالے سے تحریر کردہ اپنے مضمون میں اس اپنی کشمیر کاز اور پاکستان سے اپنی گہری وابستگی کے حوالے سے واقعہ سے متعلق دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اس معاملے میں سردار سکندر حیات نے ایک سچے دوست کا کردار ادا کیا ورنہ یہ معاملہ لٹکائے رکھنے کا پورا اہتمام کیا گیا تھا، انہوں نے اس واقعہ کی تفصیل پھر کبھی بیان کرنے کی بات کی لیکن اس کا انہیں موقع نہیں مل سکا کیونکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے پہ چار ماہ فائز رہنے کے بعد ایک دن مظفر آباد میں اچانک ان کا انتقال ہو گیا۔

مجھے یاد ہے کہ دسمبر کی شدید سردی میں عید الاضحی کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی انہوں نے مظفر آباد جانے کی تیاری کر لی۔ انہیں تیز بخار بھی تھا، روانگی سے تھوڑی دیر پہلے وہ کمرے کمرے میں اچانک لڑکھڑا گئے، میں نے کہا کہ ابھی آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں، دوچار دن آرام کر لیں، پھر چلے جائیے گا، انہوں نے جواب دیا کہ حکومت مجھے گھر بیٹھنے کے لئے تنخواہ تو نہیں دیتی۔ تین دن کے بعد رات نو بجے ان سے فون پہ بات ہوئی اور رات چا ر، ساڑھے چار بجے فون پہ ہی اطلاع ملی کہ وہ وفات پا گئے ہیں۔

سردار سکندر حیات خان کو اپنے قریبی ساتھی، دوست کی اچانک وفات پہ گہرا صدمہ ہوا۔ انہیں جب انتقال کی اطلاع ملی تو وہ پریشان ہو گئے۔ میں نے جو محسوس کیا کہ اپنے قریبی عزیز کی وفات پہ سردار سکندر حیات کو سب سے زیادہ دکھ کے عالم میں دیکھا، ایک وانی صاحب کی وفات پہ اور دوسرا موقع وہ تھا کہ جب ان کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوا۔

2006 کے الیکشن میں ایک بار پھر مسلم کانفرنس کا کامیابی حاصل ہوئی اور سردار عتیق احمد خان 24 جولائی 2006 کو آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے۔ تاہم بطور وزیر اعظم اور بطور صدر جماعت سب کو ساتھ لے کر چلنے کے اہم معاملے کو نظر انداز کیے جانے سے مسلم کانفرنس میں بغاوت ہوئی اور وہ 6 جنوری 2009 کو عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے باہر ہو گئے اور 7 جنوری 2009 کو سردار یعقوب خان وزیر اعظم کے عہدے پہ فائز ہو گئے۔ الگ ہونے کا نقصان ایک بار پھر ظاہر ہوا، پھر دونوں دھڑے یکجا ہوئے اور سردار یعقوب خان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوئی اور راجہ محمد فاروق حیدر خان 23 دسمبر 2009 کو وزیر اعظم بن گئے۔

سردار عتیق احمد خان نے خود کو اس حکومت کا محافظ قرار دیا لیکن وزیر اعظم راجہ فارق حیدر خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے تبدیل کرتے ہوئے ایک بار پھر سردار عتیق احمد خان 29 جولائی 2010 کو وزیر اعظم بن گئے اور حکومت کی باقی ماندہ میعاد 26 جولائی 2011 تک وزیر اعظم رہے۔ اس عمل سے مسلم کانفرنس یوں انتشار کا شکار ہوئی کہ مخالفت کی بات دو گروپوں کی تقسیم سے بہت آگے چلی گئی۔ سردار سکندر حیات خان کی قیادت میں راجہ فاروق حیدر خان، شاہ غلام قادر اور مسلم کانفرنس کی کئی اہم شخصیات نے مسلم کانفرنس کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ دیا۔

کسی نے پوچھا کہ مسلم کانفرنس سے الگ ہونے والوں نے مسلم کانفرنس کے نام سے ہی الگ دھڑا کیوں نہیں بنایا تو جواب ملا کہ کئی بار الگ اور دوبارہ اکٹھے ہونے کے بعد اب مسلم کانفرنس میں دوبارہ شامل ہونے کا باب بند ہو چکا ہے۔ مسلم کانفرنس کی اہم شخصیات کا سردار عتیق احمد خان کی وزارت عظمی کے دوران ہی علیحدگی کا سلسلہ چل نکلا اور ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس عمل میں مزید تیزی آ گئی۔ سردار سکندر حیات خان، راجہ فاروق حیدر خان، شاہ غلام قادر اور دیگر شخصیات نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں پہلا اجلاس سردار سکندر حیات خان کے اسلام آباد کے کھنہ میں واقع گھر میں ان کی صدارت میں منعقد ہوا۔

اس اجلاس کو مسلم لیگ نون آزاد کشمیر کے بانی ارکان کا اجلاس قرار دیا گیا۔ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون کا قیام عمل میں آ گیا لیکن ایک سال کی کوششوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر محمد نواز شریف نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون کے قائم کیے جانے کے فیصلے کی توثیق کی۔ نواز شریف کے اس فیصلے میں بھی سردار سکندر حیات خان کا بنیادی اہم کردار رہا۔

2011 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور پیپلز پارٹی کے چودھری عبدالمجید 26 جولائی کو وزیر اعظم بن گئے۔ مسلم لیگ نون نے پانچ سال کے عرصے میں مضبوط اپوزیشن کے طور پر اپنا کردار ادا کیا۔ 2016 کے الیکشن میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور راجہ محمد فاروق حیدر خان وزیر اعظم بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد ہی سردار سکندر حیات خان صاحب مسلم لیگ نون کی حکومت اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان سے متعلق اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے لگے۔

ہر بار وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان جا کر سردار سکندر حیات خان سے ملاقات کرتے رہے لیکن ناراضگی کے اس سلسلے اور سردار سکندر حیات خان صاحب کی تنقید کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب سردار سکندر حیات خان نے مسلم لیگ نون سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ سردار سکندر حیات خان کے عشروں تک سیاسی اور ذاتی ساتھی ان کے مزاج سے بخوبی آشنا تھے، سردار سکندر حیات خان کافی ضعیف ہو چکے تھے، ان کے دیرینہ ساتھیوں کو ان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے ان کی ناراضگی کو پورا احترام دینا چاہیے تھا اور ہر طریقے سے ان کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے تھا۔

لیکن ’آر پار‘ کشمیر کی سیاست میں طاقت اور حکمرانی میں غلط فیصلوں، غلط اقدامات کی ایک طویل تاریخ ہے جو تمام بڑی سیاسی شخصیات سے وابستہ چلی آ رہی ہے۔ ان امور میں جب محدود، کم سطح کی مشاورت حاوی ہو جائے تو اس کا نتیجہ عشروں کے سیاسی اور ذاتی گہرے تعلق کے باوجود مخالفت اور دوری کی صورت ہی نکلتا ہے۔ آج جب میں کشمیر کی سیاست کی بڑی شخصیات کی کامیابیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بڑی شخصیات کی کامیابیوں میں بنیادی وجہ انہیں صاحب الرائے، مخلص، قابل، دور اندیش شخصیات کی مشاورت حاصل ہونا رہی ہے۔

بڑی شخصیات بھی جب محدود اور وقتی امور و مفادات رکھنے والی مشاورت میں پھنس کر رہ جائیں تو بڑی شخصیات کے چھوٹے فیصلے ان کی ذات کے لئے تو نقصان دہ ہوتے ہی ہیں لیکن اس کے نقصانات کے اثرات بہت وسیع اور تا دیر رہنے والے ہوتے ہیں اور پھر ان کے پاس مداوے کا وقت بھی نہیں رہتا۔ یوں اچھی مشاورت کا حاصل ہونا اوسط سطح کی شخصیت کو بھی بلند و بالا کرنے کا سبب رہتا ہے اور کمتر سطح کی مشاورت بڑی شخصیت کو بھی اوسط سطح کے مقام پہ لے آتی ہے۔

سردار سکندر حیات خان اپنی وزارت عظمی کے پہلے دور پہ فخر کیا کرتے تھے کہ اس اسمبلی میں کئی بڑی اور کے ایچ خورشید کی طرح کی بڑی شخصیات بھی موجود تھیں۔ آج جب میں آزاد کشمیر کی ایک بڑی سیاسی شخصیت سردار سکندر حیات خان کی زندگی، ان کے کردار پہ نظر دوڑاتا ہوں تو بلاشبہ انہیں ایک بڑے مقام پہ پاتا ہوں۔ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے، اچھی انسان وہ ثابت ہوتا ہے جس کی اچھائیاں اس کی خامیوں، برائیوں پہ حاوی رہیں، برا انسان وہ قرار پاتا ہے جس کی بے شمار اچھائیوں پہ چند ایک ہی خامیاں، خرابیاں محیط ہو جائیں۔

متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام حصے ایسے خطے ہیں جن کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اس وقت تک مقامی حقوق اور بڑے مقصد کے حوالے سے بھی یکجہتی، اشتراک عمل کے لئے سیاسی شخصیات کی ذمہ داریوں میں گراں اضافہ ہو جاتا ہے، ایسی شخصیات، جن کے پیمانے اصولوں پر مبنی ہوں، مفادات میں محدود نہ ہوں، ورنہ شخصیات ہی نہیں، متنازعہ خطے اور اس کے لوگ بھی بری طرح اس کے نقصانات سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ تمام باتیں ایک ہی نشست کی روانی میں مسلسل تحریر کی ہیں، اس خیال سے کہ آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی شخصیت سردار سکندر حیات خان کی خدمات، ان کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کر سکوں۔ سردار سکندر حیات خان کی شخصیت کا مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی وسیع پیمانے پہ احترام پایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments