عورت کے نئے ہتھیار


نیاز علی ایک صوبائی حکومتی محکمہ کے مقامی دفتر میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ ایماندار تھے، اس لئے اوپر کی آمدنی عنقا تھی۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ماں باپ کا یہ گھر انہیں ورثہ میں مل گیا۔ گھر بے شک کوئی پرشکوہ اور قابل رشک تو نہیں تھا مگر اتنا بڑا ضرور تھا کہ خود ان کی تنخواہ سے نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ انہی کی طرح ان کی بیٹی انوشہ کا بھی کوئی بہن بھائی نہیں تھا۔ نیاز علی خود ایک جہاندیدہ اور صاحب بصیرت انسان تھے۔ انوشہ کا کمپیوٹر سائنس میں ایم فل کرنا دونوں باپ اور بیٹی کی خواہش سے ہی ممکن ہوا تھا۔ اب وہ ایک بڑی کمپنی میں معقول تنخواہ پر جاب کر رہی تھی۔

انوشہ کو ماں باپ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اتوار کو کچھ امیر کبیر لوگ، خود اپنی خواہش پر ان کے گھر مہمان آ رہے ہیں۔ بے شک انہوں نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا، لیکن گمان ہے کہ ان کی آمد انوشہ کو دیکھنے کے لئے ہی ہے۔ انوشہ نے اپنی والدہ سکینہ علی کے کہنے کے باوجود، گھر میں رکنے اور کوئی خاص تیار وغیرہ ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کی، دو اور سہیلیوں کے ساتھ، جو یونیورسٹی میں اس کی فیلوز بھی رہ چکی تھیں، ملاقات طے تھی۔ حالانکہ اسے رشتہ داری کے لئے، ایسی نمائشی تقریبات سے بہت چڑ تھی، پھر بھی اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ شام سے پہلے پہلے آ جائے گی اور وہ آ بھی گئی۔

انوشہ کے واپس گھر آنے تک مہمان اور میزبان چائے کے دوران ہی، ایک دوسرے سے تفصیلی تعارف حاصل کر چکے تھے۔ اب خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ دونوں میزبان یہ جان کر نہایت خوش تھے کہ ان کے مہمان دراصل ”مازگن انٹرنیشنل“ نامی کمپنی کے مالک منیب امجد ہیں۔ وہ اپنے جوان بیٹے نجیب امجد اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ انوشہ انہی کی کمپنی میں ملازمت کر رہی تھی۔ سکینہ علی کے لئے تو یہ نہایت خوشی کی بات تھی کہ منیب امجد نے اپنے بیٹے نجیب امجد کے لئے انوشہ کا ہاتھ مانگا تھا۔

انوشہ واپس گھر پہنچی اور سب سے سلام دعا کے بعد بیٹھ گئی تو تمام لوگ پھر سے ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ کسی کو بھی یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ انوشہ نے کمپنی مالکان کا اس کے گھر آنا پسند نہیں کیا تھا۔

گو اسی طرح کی باتیں پہلے بھی ہو چکی تھیں مگر اب انوشہ کے آنے کے بعد منیب امجد نے ایک بار پھر اصل موضوع پر آنے کے لئے گفتگو کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔

”سچ پوچھیں تو مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری کمپنی میں انوشہ جیسی لڑکی بھی کام کرتی ہے۔ جو اپنے ہنر کی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا کام اتنی محنت اور لگن سے سرانجام دیتی ہے۔ مجھے اپنی کمپنی کے ایسے ورکرز پر ہمیشہ ناز رہا ہے“ ۔

ابھی منیب امجد کا جملہ مشکل سے مکمل ہوا تھا کہ مسز منیب بول پڑیں
”لیکن اب تو یہ ہماری کمپنی کی ورکر نہیں رہے گی نا!“ ۔
انوشہ کو جیسے مسز منیب کی بات نے جھٹکا سا دیا۔ اس نے فوراً پوچھا
”کیوں؟ کیا آپ مجھے میری جاب سے فارغ کرنا چاہتے ہیں؟“ ۔

”نہیں بیٹی! جاب سے نکالنے کی بات نہیں ہے۔ لیکن اب جب تم ہماری فیملی کی ممبر بن جاؤ گی تو پھر ورکر تو نہیں رہو گی نا؟ پھر تو تمہارا شمار کمپنی کے مالکان میں ہو گا“ مسز منیب نے بہت پیار سے جواب دیا۔

”کیا مطلب ہے آپ کا ؟“ اب انوشہ کے سوال میں فکرمندی بھی شامل تھی
مگر اس بار جواب سکینہ نے دیا
”یہ بھلے لوگ دراصل اپنے بیٹے نجیب کے لئے تمہارا رشتہ مانگنے آئے ہیں۔ تم تو جانتی ہو اسے“ ۔
انوشہ نے ایک لمحہ کا بھی توقف کیے بغیر فوراً اور غصہ سے جواب دیا
”میں اس آدمی سے کبھی شادی نہیں کر سکتی“ ۔

انوشہ کے اس جملے نے کمرے میں موجود ہر فرد پر ایک سکتہ سا طاری کر دیا۔ حیرت، پریشانی اور پشیمانی انوشہ کی والدہ کے چہرے پر بھی عیاں تھی۔ البتہ انوشہ کے والد بہت آرام سے بیٹھے تھے۔ انوشہ کا لہجہ غصہ سے لبریز تھا اور وہ اس اعلان کے ساتھ ہی وہاں سے جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ نیاز علی نے اسے سمجھانے کے انداز میں بیٹھ جانے کے لئے کہا تو واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ماحول سخت تناؤ کے شکنجے میں تھا کہ کسی کو بھی انوشہ جیسی پڑھی لکھی، برسرروزگار اور مہذب لڑکی سے ایسی بدتمیزی کی توقع نہیں تھی۔

ماحول پر ایک مہیب سا سناٹا چھا گیا۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے! ایسے میں منیب امجد خاموشی کو توڑتے ہوئے انوشہ سے مخاطب ہوئے اور نہایت حیرت سے پوچھا ”ہمارے بیٹے میں کوئی کمی ہے بیٹی؟ یا کوئی اور بات ہے؟“ ۔

”آپ کا بیٹا وہ بھیڑیا ہے کہ کسی پسند کی عورت کو دیکھتے ہی جس کے خونخوار جبڑوں سے ہوس کا لہو ٹپکنے لگتا ہے۔ اور آپ چاہتے ہیں میں اس سے شادی کر لوں؟“ انوشہ نے فوراً جواب دیا۔

یہ سنتے ہی نجیب امجد خود پر قابو نہ رکھ سکا

”تم کچھ زیادہ نہیں بول رہی ہو؟ تم شاید بھول گئی ہو کہ تیزاب کے چند قطروں کی مار ہے تمہارا یہ سارا حسن، جس پر تم اتنی زیادہ مغرور ہو رہی ہو“ ۔

”غرور تو خیر مجھے کسی بات کا بھی نہیں، البتہ قدرت نے مجھے تھوڑی بہت عقل ضرور عطا کی ہے، جو انسان کے جسم میں چھپے ہوئے تمہارے جیسے درندے کو دور سے ہی پہچان لیتی ہے ”۔
”تم خود کو ہی نہیں پہچان سکو گی میڈم! اگر میں پیار کی بجائے غصہ دکھانے پر آ گیا“ ۔
منیب امجد دونوں کو حیرت سے دیکھتے ہوئے بولے ”یہ کیا کر رہے ہیں بھئی آپ لوگ؟“ ۔
اس سے پہلے کہ دونوں میں سے کوئی جواب دیتا، نیاز علی اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور منیب امجد سے مخاطب ہوئے

”منیب صاحب! زیادہ اچھا ہو گا کہ اس وقت آپ لوگ تشریف لے جائیں۔ بعد میں اگر کوئی مناسب موقع ہوا تو مل لیں گے“ ۔

منیب امجد نے اٹھتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں نیاز علی سے کہا ”معاف کیجئے گا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان دونوں کے درمیان پہلے ہی کوئی تلخی ہو چکی ہے، ورنہ میں آپ کو زحمت نہ دیتا“ ۔ انہوں نے اپنی مسز کو اشارہ کیا اور ساتھ ہی بیٹے کو پکڑ کر باہر نکل گئے۔ نیاز علی انہیں الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ نکلے اور پھر واپس آ کر انوشہ سے مخاطب ہوئے

”اب بتاؤ بیٹی اصل قصہ کیا ہے؟“ ۔
اس سے پہلے کہ انوشہ کوئی جواب دیتی، سکینہ علی جو کہ اب تک منہ پھلائے بیٹھی تھیں فوراً بول پڑیں

”اصل قصہ یہی ہے کہ آپ کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے اسے۔ برے بھلے کی تمیز تک بھلا دی ہے۔ لوگ دعائیں مانگتے ہیں، مزاروں پر جا کر چادریں چڑھاتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو ایسا رشتہ ملے۔ مگر اس نے گھر چل کر آئی ہوئی نعمت کو ٹھکرا دیا ہے“ ۔

”آپ اب ذرا خاموش ہو جائیں بیگم اور مجھے اپنی بیٹی کی زبانی سننے دیں، اصل ماجرا کیا ہے“ ۔

نیاز علی نے سکینہ علی کو تنبیہ کے انداز میں کہا اور سوالیہ نظروں سے انوشہ کی طرف دیکھا۔ انوشہ یوں گویا ہوئی

”جب میں نے ان کی کمپنی جوائن کی تو کمپیوٹر اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں چھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔ تین لڑکیاں اور تین لڑکے۔ میرے وہاں جانے کے بعد ہم چار لڑکیاں ہو گئیں۔ مینیجر صاحب تقریباً روزانہ ہم سے ہمارے پروجیکٹس کے بارے میں بات کرتے۔ سب لوگ دل لگا کر کام کر رہے تھے۔ البتہ دو لڑکیاں ایسی تھیں جو کام پر کم ہی دھیان دیتی تھیں۔ مینیجر صاحب بھی ان سے صرف حال چال ہی پوچھتے تھے۔ مجھے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ وہ دونوں لڑکیاں کمپنی کے ایم ڈی کے ساتھ کچھ بے تکلفی رکھتی ہیں۔ مینیجر صاحب اسی لئے ان سے کچھ پچھ گچھ نہیں کرتے تھے“ ۔

”لیکن آپ کا ان کے اس معاملے سے کیا تعلق؟“ ۔ نیاز علی نے درمیان میں ٹوکا

”نہیں، میرا ان کے کسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں تو اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ اسی لئے میں نے جلد ہی کمپنی کو مطلوب، دو سافٹ وئیر ڈیویلپ کر لئے۔ مینیجر صاحب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میرے کام کا ذکر ایم ڈی سے کر دیا۔ ایم ڈی نے میرے کام کو سراہنے کے لئے بلایا۔ یہ مجھے مینیجر صاحب نے بتا دیا تھا۔ جب میں ایم ڈی کے کیبن میں پہنچی تو دیکھا کہ یہی نجیب امجد وہاں کے ایم ڈی ہیں۔ اس سے پہلے میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی“ ۔

انوشہ ایک لمحہ کو سانس لینے کے لئے رکی اور پھر بات آگے بڑھائی

”نجیب امجد تو مجھے دیکھ کر ہکا بکا ہی رہ گیا۔ تقریبا اًیک منٹ تک کچھ بولے بغیر مجھے ہی دیکھتا رہا۔ تب میں نے پوچھا کہ کیا مجھے بلایا گیا ہے؟ ہاں ہاں! پلیز پلیز آپ بیٹھیے ادھر۔ اس نے مجھے خوش آمدانہ سے انداز میں کہا۔ میں بیٹھ گئی تو میرے لئے چائے منگوائی گئی اور اس نے میرے کام کی تعریف میں بھی کافی کچھ کہا“ ۔

سکینہ فوراً بولیں ”دیکھا آپ نے؟ ایسے ہوتے ہیں شریف لوگ“ ۔
”جی نہیں۔ اس کی شرافت کا بھرم دوسرے دن سے ہی ٹوٹنا شروع ہو گیا“ ۔ انوشہ نے جیسے طنز کی
”وہ کیسے بیٹا؟“ ۔ نیاز علی نے پوچھا

”دوسرے دن اس نے مجھے پھر اپنے کیبن میں بلایا اور اپنے ساتھ شام کو کہیں چائے کافی کی دعوت دی۔ میں نے بڑی تہذیب سے انکار کیا مگر اس نے پھر بھی کچھ ناراضی کا اظہار کر دیا۔ دو دو تین تین دن کے وقفے کے بعد اس نے پھر مجھے دو بار ایسے ہی اپنے کیبن میں بلایا اور باہر کسی ریستوراں میں چائے، کافی کے لئے انوائیٹ کیا۔ میرے آخری انکار پر اس نے ذرا زیادہ غصہ دکھایا تو میں نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ اس کے اس مسلسل اصرار سے، میں ڈسٹرب ہو رہی ہوں اور میرے کام کا بھی حرج ہو رہا ہے۔ اگر اس نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو میں استعفا دے دوں گی۔ تب اس نے مجھ سے معذرت کر لی مگر آج اپنے ماں باپ کو لے کر یہاں آ گیا“ ۔

سکینہ پھر بول پڑیں ”تو ٹھیک ہے نا! اس نے تمہارے لئے باعزت راستہ ڈھونڈا“ ۔

”آپ سمجھتی کیوں نہیں امی؟ وہ ایک بدکردار، بدتمیز اور مغرور آدمی ہے۔ اس نے مجھ سے انتقام لینے کے لئے یہ راستہ ڈھونڈا ہے۔ میں نے اس کی دعوت قبول نہیں کی جو دوسری دو لڑکیوں نے منظور کر لی تھی اور میری معلومات کے مطابق، پہلے بھی وہاں کام کرنے والی کئی خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ وہ ایسا کر چکا تھا۔ پہلے انہیں چائے کافی اکٹھے پینے کے لئے رضامند کرتا اور دو چار ملاقاتوں کے بعد کچھ مہنگی شاپنگ کراتا اور پھر کسی ہوٹل کے کمرے میں لے جاتا۔ کچھ ہفتوں یا مہینوں بعد جس سے جی بھر جاتا اسے کام سے بھی نکال دیتا“ ۔

”یہ تو بدکرداری کی بھی انتہا ہے۔ آپ فوراً اس جاب سے استعفا دے دیں“ ۔ نیاز علی بولے

”لیں جی! پہلے اتنا اچھا رشتہ ٹھکرا دیا اور اب جاب سے بھی استعفا دے دے۔ آپ دونوں باپ بیٹی کرنا کیا چاہتے ہیں آخر؟“ سکینہ نے پھر تشویش کا اظہار کیا۔

”ان لوگوں کی کمپنی میں جاب کا تو اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا امی۔ اور یہ سب کچھ ابھی جو آپ کے سامنے ہوا ہے، اس کے بعد کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ میں ان کے ہاں کام کروں؟“ انوشہ نے جواب دیا۔

تب نیاز علی اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئے ”آپ اپنے کمرے میں جا کر آرام کریں، باقی بات بعد میں کریں گے“ ۔
اور انوشہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

منیب امجد جب اپنے بیٹے اور مسز کے ساتھ آ کر گاڑی میں بیٹھے تو مسز منیب نے اپنا اظہار خیال کرنے کی کوشش کی مگر منیب امجد نے انہیں چپ کرا دیا۔ وہ ڈرائیور کی موجودگی میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر گھر پہنچتے ہی وہ اپنے بیٹے پر برس پڑے

”میں نے تمہیں ہزار مرتبہ کہا ہے کہ ملازمین سے ہمیشہ مناسب فاصلہ رکھو لیکن انہیں معقول عزت بھی دو ۔ دوسری کسی صورت میں کاروبار نہیں چلائے جا سکتے۔ اور پھر یہ آئی ٹی کے لوگ، ان کے ساتھ تو نہایت احتیاط سے چلنا چاہیے۔ کی بورڈ پر دوچار انگلیاں ادھر ادھر مار کر یہ ہمارا بڑے سے بڑا نقصان کر سکتے ہیں۔ اور اس لڑکی کے بارے میں تو تم نے ہمیں صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ بہت سلجھی ہوئی اور اپنے کام میں ماہر ہے۔ اگر مجھے خبر ہوتی کہ تم اس کے ساتھ پہلے ہی کوئی جھگڑا کر چکے ہو تو میں کبھی تمہارے ساتھ ان کے گھر نہ جاتا“ ۔

”میرا اس کے ساتھ کوئی جھگڑا کبھی نہیں ہوا۔ نا ہی مجھے خبر تھی کہ وہ اپنے حسن پر اتنا غرور کرنے والی لڑکی ہے“ نجیب نے جواب دیا

”اگر جھگڑا نہیں ہوا تو کوئی اور بات ہو گی اور یقیناً کوئی بری بات ہو گی۔ یا تو تم وہ بات مجھ سے چھپا رہے ہویا پھر تمہیں خود بھی نہیں پتہ کہ تم کیا حرکت کر بیٹھے ہو جس کا اس نے اتنا سخت جواب دیا ہے“ منیب امجد بولے۔

اب مسز منیب کی باری تھی کہ بیٹے کی صفائی میں کچھ کہیں ”اس لڑکی کو اپنے حسن پر بہت غرور ہے۔ اس کے علاوہ بدتمیز بھی ہے۔ شاید باپ نے زیادہ ہی سر پر چڑھا رکھی ہے۔ نجیب! تم اسے کل ہی جاب سے فارغ کر دو “ ۔

”یہ اسے کیا فارغ کرے گا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں وہ کل سے کام پر نہیں آئے گی۔ اگر وہ اپنا استعفا بھی بھیج دے تو نجیب صاحب، ہماری کچھ عزت رہ جائے گی۔ ورنہ وہ شاید تمہیں اس قابل بھی نہ سمجھے۔ اور دعا کرو کہ آج ہمارے وہاں جانے اور یوں واپس آنے کی خبر وہ ہمارے دیگر ملازمین کو نہ کر دے“ منیب امجد نے طنز بھرے لہجے میں کہا۔

انوشہ نے دوسرے دن استعفا لکھا جس میں ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے معذرت کی گئی تھی۔ نیاز علی بذات خود وہ استعفا ’مازگن انٹرنیشنل‘ کے دفتر میں پہنچا کر آئے۔

منیب امجد نے سکھ کا سانس لیا اور اپنے بیٹے کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ سے اپنے ملازمین کے ساتھ زیادہ محتاط رویہ اختیار کرے۔ انہوں نے اپنے اس خیال پر باقاعدہ زور دیا کہ جب ہم کسی بھی وجہ سے اپنے کسی ملازم کی انا کو مجروح کرتے ہیں تو ہم اپنے کام کی جگہ کا ماحول خراب کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔ جو بالآخر کمپنی کے کام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ردعمل کے طور پر نجیب نے باپ سے وعدہ کر لیا کہ وہ مستقبل میں احتیاط برتے گا حالانکہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

انوشہ اب زیادہ تر گھر میں ہی ہوتی اور بیشتر وقت انٹرنیٹ پر مصروف رہتی۔ کبھی کبھی کسی سہیلی کے ساتھ پروگرام بناتی اور باہر گھومنے پھرنے یا شاپنگ کے لئے نکل جاتی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ کسی دوسری کمپنی میں جاب کی تلاش بھی کر رہی تھی۔

پہلے پہل تو اس نے کوئی خاص توجہ نہ دی لیکن جب اسے لگاتار یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ جونہی کسی بازار یا شاپنگ سنٹر میں جاتی ہے تو اس کا پیچھا کیا جاتا ہے۔ لیکن تب بھی اس نے ماں باپ سے اس کا ذکر نہ کیا۔

پھر جب دو تین بار ایسا ہوا کہ وہ کسی بازار وغیرہ سے گزر رہی ہے اور کوئی صاحب اس کے بالکل قریب آئے ”چند قطرے تیزاب اور سارے حسن کا خانہ خراب“ کہہ کر فوراً غائب ہو گئے۔ جب چوتھی بار یہی واقعہ، اسی انداز سے وقوع پذیر ہوا، مع انہی الفاظ کے تو انوشہ نے گھر آ کر ماں باپ کو بتانا ضروری خیال کیا۔

سکینہ علی تو یہ سنتے ہی پریشان ہو گئیں۔ فوراً نیاز علی اور انوشہ سے یوں مخاطب ہوئیں ”میں تو کہتی ہوں، ابھی بھی وقت ہے، ان لوگوں سے معافی مانگیں اور یہ رشتہ منظور کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ کل کوئی بڑا نقصان ہو جائے“ ۔

انوشہ کچھ کہنے لگی تھی کہ نیاز علی پہلے بول پڑے ”سکینہ بیگم! میں نے اتنے برسوں تک لگاتار محنت کی اور بیٹی کو سکھایا کہ زندگی کی مشکلات کا کیسے مقابلہ کرنا ہے اور آپ اسے ایک فرضی خوف کی بنیاد پر کسی کی غلام بننے کا مشورہ دے رہی ہیں؟“ ۔

سکینہ علی ابھی تک بضد تھیں ”وہ لڑکا خود بھی دھمکی دے کر گیا تھا اور اب یہی کام اس کے بھیجے ہوئے لوگ کر رہے ہیں۔ ذرا سوچو انوشہ! اگر ان میں سے کسی نے واقعی تیزاب کا استعمال کر لیا تو تمہاری تو زندگی تباہ ہو جائے گی۔ وہ بہت پیسے اور تعلقات والے لوگ ہیں، ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا“ ۔

”وہ میری ظاہری خوبصورتی بگاڑ دے گا۔ میرا حسن چھن جائے گا۔ آپ کو یہی فکر ہے نا امی؟ یقین کریں وہ کتنا بھی زور لگا لے، لیکن وہ میرا علم نہیں چھین سکتا۔ اور میرا علم ہی میری اصل طاقت ہے۔ وہ علم جس سے آپ دونوں نے مجھے آراستہ کیا، اس کی ضرورت آج دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کو ہے۔ آپ یہ کیوں بھول رہی ہیں کہ حسن تو وقت کے ساتھ ساتھ دھندلا جاتا ہے لیکن علم آگے بڑھتا اور ترقی کرتا رہتا ہے“ ۔

”حسن بھی عورت کی طاقت ہوتی ہے بیٹی! تم ابھی سوچ بھی نہیں سکتی ہو کہ ایک بدشکل عورت کو ہمارے معاشرے میں کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے“ ۔ سکینہ کا استدلال جاری تھا۔

نیاز علی نے دونوں کو تسلی دی۔ ”ایسی بھی کوئی لوٹ نہیں مچی ہوئی۔ میرے تعلقات بھی ان لوگوں سے کم نہیں ہیں۔ میں ابھی پولیس میں رپورٹ کرتا ہوں۔ اس طرح کی ہراسانی پر ہم جاہلوں کی طرح خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتے“ ۔

اور نیاز علی نے اپنے اور منیب امجد کی کمپنی کے علاقائی تھانوں میں ان تمام واقعات اور اپنے خدشات کے بارے میں درخواستیں دے دیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے محکمہ کے وزیر کو بھی اپنے مسئلہ سے آگاہ کیا اور مدد طلب کی۔ جہاں سے انہیں کافی تسلی دی گئی۔

نجیب امجد کو بھی شاید کہیں سے خبر مل گئی اور اس نے انوشہ کو یوں سرراہ ہراساں کرانا چھوڑ دیا۔ لیکن اس نے اسے پریشان کرنا نہیں چھوڑا۔ انوشہ نے یکے بعد دیگرے تین مختلف کمپنیوں میں جاب حاصل کی لیکن ہر بار، خبر ملتے ہی نجیب امجد نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور اسے وہاں سے نکلوا دیا۔

انوشہ نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ یہاں تک کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اس کی قابلیت سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی اور انوشہ امریکہ پہنچ گئی۔

وہاں وہ کچھ دن کمپنی کے گیسٹ ہاؤس میں رکی اور پھر ماریا نامی اپنی ایک کولیگ کا فلیٹ شیئر کر لیا۔ اس فلیٹ میں دو کمرے اور ایک کامن روم تھا۔ دونوں کمروں کے ساتھ اٹیچڈ واش رومز تھے، لیکن کچن دونوں کا سانجھا تھا۔

ماریا کی عمر تیس سال سے بھی کچھ اوپر ہی تھی اور وہ اپنے کام میں بہت ماہر سمجھی جاتی تھی۔ کمپنی اسے نہ صرف اچھی تنخواہ دیتی تھی بلکہ ساتھ میں اسے وہاں عزت کی نظر سے بھی دیکھا جاتا تھا۔ البتہ وہ جنسی معاملات میں بہت لاپروا تھی۔ اس نے ابھی تک ایک بھی شادی نہیں کی تھی اور نا ہی وہ کسی باقاعدہ دوستی پر یقین رکھتی تھی۔ تقریباً ہر ویک اینڈ پر وہ کسی نئے مرد کو اپنے فلیٹ میں لے آتی۔ لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا تھا کہ وہ کسی ایک مرد کو دوسری بار بھی لے آئے۔ بے شک اس کی کوشش ہوتی تھی کہ انوشہ اس کے ان معاملات سے ڈسٹرب نہ ہو لیکن انوشہ بھی آخر نوجوان تھی اس کا ذہنی طور پر ڈسٹرب ہونا تو عین فطری تھا۔

سکینہ اور نیاز علی اپنی جگہ بہت خوش تھے کہ آخرکار ان کی بیٹی اپنی محنت اور قابلیت کا صلہ پانے میں کامیاب ہو گئی۔ گو سکینہ کو اب اس کی شادی کی فکر پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔

انوشہ ہر اتوار کو گھر کال کرتی۔ کبھی صرف آڈیو لیکن اکثر ویڈیو کال۔ اس نے ماریا کے ساتھ فلیٹ شیئر کرنے کی خبر انہیں شروع میں ہی دے دی تھی اور ایک دو بار اس سے ہیلو ہائے بھی کرا دی تھی۔ ماریا کی جنسی زندگی کا ذکر مگر ابھی تک نہیں آیا تھا جو ایک دن سکینہ اور انوشہ کی ویڈیو کال میں اچانک ہی آ گیا۔

اب سکینہ کا فکرمند ہونا تو ایک پاکستانی ماں ہونے کے ناتے لازمی تھا مگر نیاز علی نے خلاف توقع اپنی بیوی کو سمجھایا کہ وہ جہاں ہے وہاں وہ اپنے فیصلے خود ہی کرے گی۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کرے گی جس پر بعد میں وہ خود بھی پچھتائے اور ہمیں بھی شرمسار کرے۔

انوشہ وہاں بہت محنت اور دل جمعی سے کام کر رہی تھی۔ اس کے سینئرز اس سے خوش تھے اور وہ خود بھی بہت پرجوش تھی۔ مگر اس کی یہ خوشی اور جوش دو تین ماہ میں ہی کمزور پڑنے لگے۔ اسے اپنے ماں باپ، سہیلیاں، اپنا گھر، شہر اور ملک یاد آنے لگے۔ یوں آخرکار اس پر اداسی نے غلبہ پانا شروع کر دیا۔ اسی اداسی کے زیر اثر، کئی بار اس کے جی میں آیا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلی جائے مگر پھر روز کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کے مواقع، ڈیجیٹل دنیا کے پھیلتے ہوئے آفاق میں اس کا بڑھتا ہوا حصہ، اپنے کام میں ہوتی ہوئی ترقی اور اس شعبے میں بنتا ہوا اس کا نام اسے اپنا ارادہ ترک کرنے پر مجبور کر دیتے۔

ایسے میں اس نے سالانہ چھٹیوں پر ایک کی بجائے دو مہینے کے لئے پاکستان جانے کا پروگرام بنایا اور اداسی کے ہر دورہ پر اسی کے بارے میں سوچ کر یا ماں کو ویڈیو کال کر کے خود کو بہلا لیتی۔

انوشہ کے امریکہ جانے کے بعد نجیب امجد کو اور کئی شکار مل گئے چنانچہ وہ انوشہ کو بھول ہی گیا۔ بے شک منیب امجد اسے گاہے بگاہے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے اور جواب میں وہ ان کو تسلی بھی دے دیتا تھا مگر اپنی ڈگر چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ کمپنی یونہی چلتی رہے گی اور روپے پیسے کی ریل پیل میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ مینیجر صاحب نے تو شروع سے ہی اس کی خوشی کو مقدم جانا تھا مگر کبھی کبھی سٹاف میں سے کوئی آدمی ضرور اسے کچھ احتیاطی انداز اختیار کرنے کا مشورہ دے دیتا، لیکن تب نجیب اس کی تضحیک کرنا بھی ضروری خیال کرتا۔

مازگن انٹرنیشنل ایک بڑی کمپنی تھی۔ آئی ٹی، آن لائن، آف لائن اور کمپیوٹر سائنس کے علاوہ ایکسپورٹ اور پروڈکشن کے شعبے بھی اچھی آمدنی دے رہے تھے۔ ضرورت ہو نہ ہو، نجیب امجد ہر شعبہ کے لئے لڑکیوں کی اسامی کے اشتہارات دیتا رہتا۔ خود انٹرویو کرتا اور جہاں اسے آسان شکار کی امید نظر آتی اسے جاب دے دیتا۔ پھر اگر مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوتے تو اس کی چھٹی کرا دیتا۔

سال کے آخر میں انوشہ دو مہینے کی چھٹیوں کا پروگرام بنا کر پاکستان آ گئی۔ سکینہ نے بیٹی کے آرام و آسائش کے لئے بہت سا انتظام کر رکھا تھا۔ گھر میں ایک مستقل نوکرانی تو پہلے سے ہی موجود تھی، لیکن انوشہ کے لئے ایک اور خادمہ کا بندوبست بھی کر لیا گیا تھا۔ اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ چوبیس گھنٹے انوشہ کی خدمت میں حاضر رہے۔

انوشہ اس ماحول میں آ کر بہت خوش ہوئی۔ اسے ایک وقت میں کئی کئی ایسے کھانے مل رہے تھے، جن کے لئے وہ امریکہ میں ترس کر رہ گئی تھی۔ دونوں ماں بیٹی گھنٹوں تک خوش گپیاں کرتیں اور ملنے والوں کا بھی تانتا بندھا رہتا۔

تین دن رات تو نیاز علی بھی گھر میں ہی موجود رہے کہ انہوں نے انوشہ کے آنے کی خوشی میں چھٹیاں لے رکھی تھیں، مگر اس کے بعد دونوں باپ بیٹی کی ملاقات صرف شام کو ہوا کرتی تھی۔ انوشہ انہیں اپنی جاب کے بارے میں معلومات دیتی اور پھر وہ دونوں ملکوں کے حالات سے متعلق تبادلہ خیالات کرتے۔

انوشہ بہت چاہت سے یہاں چھٹیاں گزارنے آئی تھی اور اس ماحول میں بہت خوش بھی تھی۔ مگر پھر جلد ہی وہ اس روٹین سے تنگ آ گئی۔ ایک تو اس نے محسوس کیا کہ وہ آرام و آسائش کی عادی ہوتی جا رہی ہے، جو اس کی صحت پر تو اثرانداز ہو گا ہی، ساتھ ہی امریکہ واپسی پر اس کی زندگی بھی مشکل بنا دے گا۔ سو، اس نے گھر سے باہر نکلنا، سہیلیوں سے ملنا اور شہر میں گھومنا شروع کر دیا۔

پلوشہ اور مہوش، وہ دونوں لڑکیاں جو کبھی مازگن انٹرنیشنل میں نجیب امجد کی منظور نظر ہوا کرتی تھیں، اب وہاں سے نکالی جا چکی تھیں۔ ایک تو وہاں جاب کے دوران وہ انوشہ کو ذرا کم ہی لفٹ کرایا کرتی تھیں، دوسرا تب وہ دونوں ایک دوسرے کی رقابت میں بھی جل رہی تھیں۔ وجہ بڑی سادہ تھی جو اس وقت دونوں کی سمجھ میں نہ آئی تھی۔ نجیب امجد جس کے ساتھ بھی ہوتا، اس کے حسن کی تعریف کرتا، اسے شاپنگ کراتا، اپنی محبت کا یقین دلاتا اور دوسری کے بارے میں کہتا کہ وہ خوامخواہ اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔

آج کل دونوں جاب نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں فارغ بیٹھی تھیں اور گہری سہیلیاں بھی بن چکی تھیں۔ انوشہ کے آنے کی خبر سن کر وہ اسے ملنے چلی آئی تھیں۔ پھر تینوں مل کر باہر بھی گھومتی رہیں اور کبھی کبھی انوشہ بھی ان کے گھروں میں جاتی رہی۔

سکینہ علی بہت خوش تھیں کہ بیٹی کے آنے کی وجہ سے گھر میں مسلسل رونق لگی رہتی تھی۔ انوشہ بھی گھوم پھر تو خوب رہی تھی مگر اب اس کا جوش و خروش کم ہونے لگا تھا۔ دو ہفتے کے بعد ہی اس نے اپنے لئے رکھی گئی خادمہ کی چھٹی کرا دی۔ وہ اپنے سب کام خود کرنا چاہتی تھی۔ سکینہ علی کو یہ اچھا نہیں لگا۔ ان کا خیال تھا کہ جب آسانی سے ایسی ایک خادمہ کو افورڈ کیا جا سکتا ہے تو اس کی خدمات سے آخر کیوں استفادہ نہ کیا جائے؟

ایسے ہی کچھ اور معاملات نے ماں بیٹی کے درمیان بحث مباحثہ کی ابتدا کر دی تھی۔ سب سے پہلا مسئلہ انوشہ کی شادی کے موضوع پر سامنے آیا۔ سکینہ علی بضد تھیں کہ اب انوشہ کو جلد از جلد کسی پاکستانی لڑکے سے شادی کر لینی چاہیے۔ انہیں بہت فکر تھی کہ ماریا جیسی لڑکی کے ساتھ رہتے ہوئے کہیں وہ اسی کے رنگ میں نہ رنگی جائے۔

انوشہ نے ماں کے اس خدشے کو مکمل طور پر رد کر دیا۔ اس کا استدلال تھا کہ ماریا جو کچھ بھی کرتی ہے وہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ امریکہ کا قانون اسے ایسی زندگی گزارنے کی پوری پوری اجازت دیتا ہے۔ وہاں ہر فرد کو اس حد تک اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے جہاں تک وہ کسی دوسرے کی آزادی پر اثر انداز نہ ہو، اور نا ہی کسی دوسرے قانون کی خلاف ورزی کرے۔ آزادی کے نام پر کسی کو کسی سے زبردستی کی ہرگز اجازت نہیں دی جاتی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم جہاں رہیں وہاں کے قانون اور کلچر کا احترام کریں۔ ایک بات اور، میری ماریا کے ساتھ اس کے کسی ایسے معاملے پر گفتگو تک نہیں ہوتی۔

”لیکن جس طرح وہ نئے نئے مردوں کو اپنے بیڈ روم میں لے آتی ہے، اگر کسی نے کبھی حسد یا کسی اور وجہ سے پاگل پن دکھایا اور اسے مارا پیٹا تو تب تمہیں پتہ چلے گا“ سکینہ نے جیسے ایک اہم نکتہ نکالا۔

”وہ امریکہ ہے امی جان! وہاں ایسا کچھ بھی اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا آپ سمجھ رہی ہیں۔ بڑی سخت سزائیں ملتی ہیں ایسے جرائم پر ۔ آپ کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ ماریا تو کبھی کبھی اپنے ساتھ آئے ہوئے مرد کو ، اس کی کسی ان چاہی حرکت کی وجہ سے، آدھی رات کے وقت اپنے فلیٹ سے نکال دیتی ہے۔ اور کوئی اونچی آواز تک نہیں آتی“ انوشہ نے بھی جواب دینا ضروری سمجھا۔

”مگر ایسی لڑکی کو دفتر میں لوگ کس نظر سے دیکھتے ہوں گے، اس کا احساس تو ہے نا تمہیں؟“ ۔

”دفتر میں وہ صرف اپنا کام کرتی ہے۔ وہ اپنے کام کی ماہر ہے۔ کمپنی کو اس کی ضرورت ہے۔ وہاں کوئی عورت یا مرد اس سے ایسے کسی موضوع پر بات نہیں کرتا اور نا ہی وہ خود وہاں کسی سے اپنی پرائیویٹ زندگی کو موضوع بنانے کی اجازت دیتی ہے۔ دفتر میں صرف دفتر کا کام۔ اور ہاں! وہاں کی انتظامیہ کی طرف سے بھی دفتر میں بیٹھ کر ، دفتر کے کاموں کے علاوہ کسی اور مضمون کو زیربحث لانا ممنوع ہے“ ۔

انوشہ کے ان تیز جملوں کے بعد اس وقت تو سکینہ خاموش ہو گئیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ انہوں نے انوشہ سے اتفاق کر لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ماحول میں ہلکی سی کشیدگی بھی در آئی تھی۔

اگلے کچھ دن انوشہ باہر بھی کم ہی گئی۔ مگر جب بھی گئی ہمیشہ غصہ اور مایوسی سے بھری ہوئی واپس آئی اور تیسرے ہفتے کے آخر میں تو اس نے اپنا سامان ہی باندھنا شروع کر دیا۔ سکینہ نے اسے اپنے کپڑے سوٹ کیس میں رکھتے ہوئے دیکھا تو پوچھنا لازمی ہو گیا تھا۔

”تم یہ سامان کیوں باندھ رہی ہو؟“ ۔
”میں اگلے ہفتے واپس جا رہی ہوں امی!“ ۔
”مگر تم تو دو مہینے کے لئے آئی تھیں؟“ ۔
”آئی تو تھی، مگر اب واپس جانا پڑے گا۔ میں اب اور زیادہ نہیں رک سکتی“ ۔
”ابھی تو تمہیں جی بھر کے دیکھا بھی نہیں ہے بیٹی“ ۔

”اس کے موقعے بھی بنتے رہیں گے لیکن اس وقت میرا یہاں سے چلے جانا ضروری ہے۔ میں بہت ڈسٹرب ہو رہی ہوں یہاں“ ۔

”کیوں؟ کسی نے تمہیں کچھ کہا ہے کیا؟“ ۔

”مجھے براہ راست تو کسی نے کچھ نہیں کہا ہے امی! لیکن میں ہی شاید اب اس معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں رہ گئی ہوں۔ ہر طرف جھوٹ ہے، بے عملی ہے، بلیک میلنگ ہے اور کوئی جتنا بڑا منافق ہے اس نے اتنا ہی گہرا مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے“ ۔

”یہ تو تم ٹھیک کہتی ہو بیٹی“ ۔

”ہمارا ملک بہت بدقسمت ہے امی! اتنی زرخیز زمینیں ہیں۔ اتنے متنوع موسم ہیں اور ایسے ایسے اعلیٰ دماغ پیدا ہوتے ہیں یہاں، لیکن یہ جو طاقتور طبقات ہیں، انہوں نے ہر چیز پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اعلیٰ دماغوں کو کام ہی نہیں کرنے دیتے۔ ان کے تمام راستے بند کر دیتے ہیں۔ انہیں مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ یہاں سے نکل جائیں۔ ریاستی سطح تک اسلامی کہلانے والے ملک کی سڑکوں پر عورتیں کھڑی ہیں جو جسم بیچنے پر مجبور ہیں تاکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر سکیں“ ۔

”جو کچھ بھی ہے مگر ہمیں رہنا تو یہیں ہے نا؟“ ۔

”آپ رہئیے یہاں، میں تو اب اور نہیں رہ سکتی۔ دنیا خوراک کی کمی کی طرف اڑی جا رہی ہے اور یہاں زرعی زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں بدل بدل کر ضائع کیا جا رہا ہے۔ آبادی شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور کسی کو اس کی فکر تک نہیں۔ سب سے اوپر والا طبقہ ہے تو اسے کسی چیز کی کوئی پروا نہیں۔ ان کے گھروں کے اندر ان کے اپنے قوانین ہیں۔ یوں تو باہر بھی وہ کسی قانون کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اور کوئی ان کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتا۔

سب سے نیچے والا طبقہ ہے تو وہ بھی بے ح س ہو چکا ہے۔ اس نے ہر طرح کے جبر کو ، ظلم کو اپنا مقدر سمجھ کے قبول کر لیا ہے۔ اور یہ درمیان والا طبقہ، یہ سب سے زیادہ منافق ہے۔ رکھ رکھاؤ اور تکلفات کو اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ اوپر والے طبقہ میں شامل ہونا چاہتا ہے اور ادھر سے دھتکارا جاتا ہے۔ خود نچلے طبقہ کو دھتکارتا ہے۔ آپس میں بھی سب سٹیٹس کی لڑائیاں ہیں۔ جھوٹی شان و شوکت کے دکھاوے میں بری طرح پس رہا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی سے دشمنی ہے اور آئندہ نسلوں کے مستقبل سے بے نیاز“ ۔

”یہ سب کچھ تو ایسے ہی چل رہا ہے ہمیشہ سے“ ۔

”یا تو یہ ہمیشہ سے ایسا تھا نہیں، یا پھر مجھے علم نہیں تھا۔ لیکن اب جب میں یہ سب جان گئی ہوں تو میرا یہاں مزید رہنا بہت مشکل ہے“ ۔

”مجھے صرف یہ ڈر ہے بیٹی کہ تم ایک خوبصورت لڑکی ہو تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں کوئی امریکن اپنے جال میں پھنسا لے۔ اس لئے میں پھر کہوں گی تم جلد از جلد کسی پاکستانی لڑکے سے شادی کرلو“ ۔

”آپ کی بات صرف اس حد تک درست ہے کہ عورت کی خوبصورتی بھی اس کی زندگی میں ایک بڑا رول پلے کرتی ہے۔ مگر امی وہاں تو اب سیکرٹری بھی خوبصورت کی بجائے قابل عورت کو رکھا جاتا ہے۔ مجھ سے دس دس گنا زیادہ حسین لڑکیاں کام کرتی ہیں ہماری کمپنی میں، مگر جانتی ہیں وہاں ایم ڈی کون ہے؟ پچاس سال کی ایک سیاہ فام امریکن۔ وہ ہمارے معاشرے کے حسن کے معیار کے مطابق اوسط درجے کی بھی نہیں۔ مگر کمپنی نہ صرف یہ کہ اس پر اعتماد کرتی ہے بلکہ اسے بہترین تنخواہ بھی دیتی ہے۔ کیونکہ اس کے پاس علم کی طاقت اور انتظامی قابلیت بہت سے پھنے خاں مردوں سے زیادہ ہے ”۔

”لیکن میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ اب تم شادی کر لو۔ اور زیادہ اچھا ہو کہ کسی پاکستانی لڑکے سے کرو۔ اگر تم کہو تو میں یہاں کسی سے بات چلانے کی کوشش کروں؟“ ۔

”امی! میں وہاں کئی ایسی پاکستانی اور ہندوستانی لڑکیوں سے مل چکی ہوں، جنہوں نے امریکہ میں سیٹل ہونے کے بعد اپنے ہم وطن لڑکوں سے شادیاں کیں اور انہیں وہاں کے ویزے دلوائے۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ ان میں سے اکثر مرد حضرات نے، جب انہیں خود وہاں کوئی گرین کارڈ جیسی چیز مل گئی تو انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی۔ طلاق کے وقت جائیداد یا بینک بیلنس میں سے آدھا حصہ بھی لے لیا۔ جو زیادہ تر اس لڑکی کا ہی کمایا ہوا تھا۔ بعد میں کسی چھوٹی عمر کی لڑکی کو اپنے ملک سے بیاہ لائے“ ۔

”تو پھر تم کیا کرنا چاہتی ہو؟“ ۔
”ابھی تو میں صرف اپنے کیریئر پر دھیان دینا چاہتی ہوں۔ باقی بعد میں دیکھا جائے گا“ ۔

”جو کچھ بھی کرو لیکن بہت دھیان سے کرنا بیٹی۔ تمہیں یاد ہے نا کہ تم پہلے ہی یہاں کچھ طاقتور لوگوں سے بگاڑ چکی ہو۔ میرے خیال میں طاقتور لوگوں سے جھگڑا مول لینا کبھی عقلمندی نہیں ہوتا“ ۔

لیکن طاقتور کا غلام بننے کی بجائے، خود طاقتور بننے کی کوشش عقلمندی کے زیادہ قریب عمل ہے ”۔

ماں بیٹی کے درمیان اسی نوع کی باتیں چل رہی تھیں جب نیاز علی کی آمد ہوئی۔ انہیں بھی یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ انوشہ نے اتنی جلدی واپس جانے کا پروگرام بنا لیا ہے۔

پلوشہ اور مہوش بھی انوشہ کے اتنی جلدی واپس جانے کا سن کر اسے ملنے آئیں۔ انہوں نے انوشہ کی توجہ اپنی بے کاری کی طرف دلائی اور اس سے اس ضمن میں رہنمائی مانگتے ہوئے مدد بھی طلب کی۔

جواب میں انوشہ نے دونوں سے سوال کر دیا
”آپ دونوں کے خیال میں مازگن انٹرنیشنل میں جاب کے دوران آپ لوگوں نے اصل غلطی کیا کی تھی؟“ ۔
دونوں بہ یک زبان بولیں ”ہم نے نجیب امجد پر اعتبار کیا“ ۔

”نہیں“ انوشہ فوراً بولی ”آپ دونوں کی اصل غلطی یہ تھی کہ آپ نے اپنے علم اور قابلیت کی بجائے اپنے حسن کو ترقی کی بنیاد بنانا چاہا“ ۔

جواب میں دونوں کی طرف خاموشی چھا گئی۔ ایک ایسی خاموشی جو ظاہر کر رہی تھی کہ انہیں انوشہ کے الزام سے اتفاق تو ہے مگر وہ شرم کے مارے اس کا اقرار نہیں کر سکتیں۔ انہیں خاموش دیکھ کر انوشہ نے بات آگے بڑھائی

”وہ وقت گزر چکا جب عورت کو اپنی اہمیت جتانے کے لئے اپنے حسن و خوبصورتی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ خاوند اور خاندان کی اچھی خدمت گزار بن کر ہی وہ معاشرے میں اپنی جگہ بنا پاتی تھی۔ اب وہ سائنس ٹیکنالوجی، اکنامکس اور دوسرے بہت سے جدید علوم سیکھ کر ہر شعبۂ زندگی میں اپنا مقام بنا رہی ہے۔ آپ دونوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے“ ۔

پلوشہ نے انوشہ کی بات سے اتفاق کیا ”سچ کہہ رہی ہیں آپ“ ۔

انوشہ بولی ”میرے نقطہ نظر سے آپ دونوں اس وقت گھر میں بیٹھی کوئی اچھی جاب ملنے کے انتظار میں وقت ضائع کر رہی ہیں۔ میرا آپ دونوں کو مشورہ ہے کہ کچھ نیا ڈھونڈنے اور خود کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے کی کوشش کریں۔ گھر میں بیٹھی بیٹھی تو آپ ہماری فیلڈ سے ہی غیر متعلق ہو جائیں گی۔ اس لئے جیسی کیسی بھی جاب اس وقت مل رہی ہے اسے جوائن کر لیں اور خود کو سافٹ ویئر تک محدود نہ رکھیں۔ تھوڑا آگے نکلیں اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی طرف قدم بڑھائیں“ ۔

مہوش بولی ”ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اب آرٹیفیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) پر بہت کام ہو رہا ہے۔ آنے والے وقتوں میں اسی لائن کا راج ہو گا“ ۔

”اسی لئے اب آپ لوگ بھی ادھر توجہ دیں۔ میرے ساتھ رابطے میں رہیں۔ اپنے علم، محنت اور تجربے کے ہتھیاروں سے خود کو لیس کریں۔ کسی دولت مند لڑکے سے شادی کر کے امیر بننے کے خواب دیکھنے کی بجائے خود کو مضبوط بنائیں اور بلندیوں تک لے جائیں۔ وقت آپ کو بتائے گا کہ اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے میں جو خوشی ملتی ہے وہ اور کسی طور بھی میسر نہیں آ سکتی“ ۔

انوشہ اس کے بعد واپس امریکہ چلی گئی۔ ان کا آپس میں رابطہ اور تبادلہ ء خیالات جاری رہا۔ البتہ انوشہ اگلے تین سال چھٹیاں منانے بھی پاکستان نہ آ سکی۔ وہ اپنے کام میں سخت محنت کر رہی تھی اور کمپنی کی طرف سے اس کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

ادھر مازگن انٹرنیشنل میں اس دوران کئی کچھ ہو گیا۔

پہلے یکے بعد دیگرے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کو تین بڑے جھٹکے لگے۔ تین بڑے بڑے مقامی آرڈر جب پروڈکشن کے آخری مراحل میں تھے تو کینسل ہو گئے۔ مال بنانا بھی پڑا جس کا خریدار دور دور تک موجود نہیں تھا۔ گوداموں میں بھی کافی جگہ نہیں تھی اس لئے اونے پونے جیسے بھی بکا، مال تو بیچ دیا گیا تھا، مگر کمپنی مالی طور پر کافی مقروض ہو چکی تھی۔

منیب امجد صاحب نے جب معاملات کی جانچ پڑتال کی تو انہیں خبر ملی کہ ہر بار اس نقصان کی بنیاد خود ان کا بیٹا اور کمپنی کا ایم ڈی نجیب امجد ہی بنا تھا۔ ہر بار اس نے کسی محنتی، قابل اور کسی اہم عہدہ پر کام کرتے ہوئے کمپنی ملازم کو صرف اس وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا تھا کہ اس نے نجیب امجد کی کسی خاص غلطی کی نشاندہی کی تھی۔ حالانکہ اس کی بات کمپنی کے فائدے ہی کی تھی۔

ہر بار وہ کمپنی ملازم اس بے عزتی کی وجہ سے مستعفی ہو کر چلا گیا تھا اور ہر بار ہی اس نے جاتے ہوئے کمپنی کے کچھ اہم راز لے جا کر دوسری کمپنیوں کو بیچ دیے تھے۔ انہی اقدامات کے نتیجہ میں ان کے وہ بڑے بڑے آرڈر کینسل ہوئے تھے۔ اب کمپنی کی شہرت بھی اتنی گہنا چکی تھی کہ کم از کم پروڈکشن کے شعبہ کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔

سب حالات جاننے کے بعد منیب امجد صاحب نے اپنے بیٹے کو کمپنی سے ہٹا کر گھر بیٹھنے یا کوئی اور کام ڈھونڈنے کو کہا۔ خود انہوں نے اپنا دو کنال کا بڑا سا گھر بینک کے پاس گروی رکھ کر قرضہ لیا اور کمپنی کے آئی ٹی اور کمپیوٹر کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی۔ ان کی سخت محنت کے نتیجہ میں انہیں ایک امریکن کمپنی نے کچھ نئے سافٹ ویئر ڈیویلپ کرنے کا آرڈر دیا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) کے کچھ پراجیکٹس پر بھی بات چل رہی تھی۔

امریکن کمپنی نے ایک بڑا معاہدہ کیا تھا۔ کام کو مطلوبہ وقت میں مکمل کرنے کے لئے منیب امجد نے ایسے بیس ماہرین کو پانچ پانچ سال کے تحریری عہد نامہ پر اپوائنٹ کیا تھا، جو اس شعبہ میں بڑا نام رکھتے تھے۔ وہ یہاں پہلے سے بڑی تنخواہوں کی وجہ سے آئے تھے۔ یہ سب کے سب مرد حضرات تھے۔ پہلے سے اس شعبہ میں کام کرتی ہوئی کچھ خواتین وہاں موجود ضرور تھیں لیکن اب ان کی وہ حیثیت نہیں رہ گئی تھی کہ جو کبھی پہلے ہوا کرتی تھی۔

انوشہ کے واپس امریکہ آنے کے کچھ دیر بعد ہی پلوشہ اور مہوش کو ”رئیل سورس ایمپاورمنٹ“ نامی ایک شہرت یافتہ کمپنی میں جاب مل گئی۔ عطیہ قریشی نام کی ایک تیس سالہ لڑکی اس کمپنی کی مالک اور سی ای او تھی۔ عطیہ قریشی اس نوع کی کسی بھی کمپنی کے مالکان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھی۔ اکنامکس، بزنس ایڈمنسٹریشن اور کمپیوٹر سائنس، تینوں شعبوں میں ماسٹرز کی ڈگریاں اس نے برطانیہ اور امریکہ سے حاصل کی تھیں۔ پھر وطن واپس لوٹنے کے بعد اس نے چھوٹے سے پیمانے پر اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ اب اس کے پاس ایک سو بیس لڑکیاں کام کر رہی تھیں۔ جی ہاں! اس کی تمام ملازمین صرف خواتین ہی تھیں۔

اپنی کمپنی کی طرف سے دوسری کمپنیوں سے ملاقاتوں کے دوران ایک بار انوشہ کا آمنا سامنا ایک پاکستانی نژاد امریکن علی سفیان سے ہوا۔ دونوں ایک دوسرے میں دلچسپی لینے لگے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ کر محبت میں ڈھل گیا۔ علی سفیان کسی زمانے میں تعلیم کے سلسلے میں امریکہ آیا تھا۔ تعلیم کے بعد یہیں ملازمت اختیار کر لی اور اب یہاں کے نامور پاکستانیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ وہ بہت سال پہلے امریکہ کی شہریت حاصل کر چکا تھا۔ دونوں نے اپنے اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کو خبر دے دی تھی کہ وہ جلد ہی پاکستان آ کر شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔

انوشہ اور علی سفیان کے پروگرام سے پہلے ہی انوشہ کی کمپنی نے اسے ایک وفد کے ہمراہ ایک کام کے سلسلہ میں پاکستان بھیج دیا۔ مازگن انٹرنیشنل کو جس امریکن کمپنی نے کچھ خاص اور نہایت مہنگے سافٹ ویئر ڈیویلپ کرنے کا آرڈر دیا تھا، وہ انوشہ والی ہی کمپنی تھی۔ اب انوشہ کی سربراہی میں کمپنی نے اپنا ایک وفد بھیجا تھا کہ وہ جا کر مازگن انٹرنیشنل میں کام کی نوعیت کا جائزہ لے سکے۔

بے شک کمپنی نے انوشہ اور اس کے وفد کے تمام ارکان کے لئے ہوٹلوں کا بندوبست کیا ہوا تھا مگر رات کو انوشہ زیادہ تر ماں باپ کے پاس ہی ٹھہرتی تھی۔ ایسے میں سکینہ اس سے کسی معاملے میں سوال نہ کرے، یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ سب سے اہم سوال علی سفیان کے انتخاب کے بارے میں کیا گیا۔ انوشہ نے جیسے جواب میں پوری تقریر تیار کر رکھی تھی۔

”امی جان! میاں بیوی کا رشتہ صحیح طور پر محبت کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔ محبت کا آغاز کہیں بھی اور کسی بھی نوع کے حالات میں ہو سکتا ہے، لیکن محبت کے پنپنے اور جاری رہنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریقین میں ہر سطح کی برابری ہو۔ اگر ایک فریق علمی اور اقتصادی طور پر کمزور ہو گا تو دوسرا فریق اسے دبا لے گا۔ پھر وہ محبت ایک فریق کی طرف سے سمجھوتے کی شکل اختیار کر لے گی اور دوسرا حکمران بن جائے گا“ ۔

”لیکن میری پیاری بیٹی! محبت تو نام ہی سمجھوتے کا ہے“ ۔

”بالکل غلط! یہ ایک انتہائی غیر حقیقی تصور ہے جو مردوں نے ہزاروں سال کے جبر کے ذریعے عورت کے دماغ میں بھر دیا ہے۔ مرد نے خود کوشش کر کے عورت کو تعلیم سے دور رکھا تاکہ وہ باعلم ہو کر سوال نہ کرنے لگے۔ مالی طاقت حاصل کرنے کے لئے اس کے تمام رستے بزور طاقت بند کر دیے، مبادا خودمختار ہو کر وہ برابری کی دعویدار ہو جائے“ ۔

”تم پتہ نہیں کیسی باتیں کر رہی ہو! مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آ رہی تمہاری یہ منطق“ ۔

”بالکل آسان ہے امی جان! علی سفیان وہاں کا شہری ہے۔ مجھے بھی گرین کارڈ ملنے والا ہے۔ ہم دونوں جاب کرتے ہیں اور معقول آمدنیاں ہیں ہماری۔ ہم میں سے کسی کو بھی دوسرے کے ساتھ وقتی لالچ نہیں ہے۔ ہم دونوں امریکہ کی زندگی کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے زیادہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ ہم اچھے میاں بیوی ثابت ہوں گے“ ۔

”تو کیا میں اور تمہارے والد اچھے میاں بیوی ثابت نہیں ہوئے؟ جبکہ کمانے والے وہ اکیلے تھے۔ میں تو گھر بار کو ہی دیکھتی تھی“ ۔

”آپ دونوں ایک دوسرے کو کتنا پسند کرتے تھے؟ آپس میں کتنی محبت تھی؟ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ آپ میرے لئے اچھے ماں باپ ہیں، یہ ضرور جانتی ہوں۔ اس پر آپ کی شکر گزار بھی ہوں۔ اور یہ جو بات کرنے، سوال کرنے کی اجازت آپ دونوں نے مجھے دی تھی اسی کی بنیاد پر میں نے آپ کو اپنا موقف بتا دیا“ ۔

”چلو چھوڑو! مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں بحث میں تم سے جیت نہیں سکتی۔ اب تم مجھے صرف اتنا بتاؤ کہ شادی کب ہو گی؟“ ۔

”علی سفیان کوشش کر رہے ہیں چھٹی کی۔ ان کے یہاں پہنچتے ہی ہم نکاح کر لیں گے۔ باقی بعد میں دیکھا جائے گا“ ۔

منیب امجد صاحب، امریکن کمپنی کی طرف سے آئے ہوئے وفد سے روز ملاقاتیں کر کے انہیں کام کی پروگریس رپورٹ دے رہے تھے۔ وفد کے ارکان نے منیب صاحب سے اجازت لے رکھی تھی اور وہ وقتاً فوقتاً وہاں کام کرنے والے لوگوں سے خود مل کر اپنی ضرورت کی معلومات لے رہے تھے۔

انوشہ علی اس امریکن کمپنی میں کسی اچھے عہدے پر ملازمت کر رہی ہے، یہ خبر تو منیب صاحب کو کافی پہلے مل چکی تھی۔ اب وہ اس وفد کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان آئی ہوئی ہے یہ بھی جان چکے تھے۔ لیکن انوشہ علی ابھی تک مازگن انٹرنیشنل میں نہیں آئی تھی، یہ امر ضرور ان کے لئے تشویش کا باعث بن رہا تھا۔

کچھ دن انتظار کرنے کے بعد منیب صاحب نے خود انوشہ سے رابطہ کیا۔ جواب میں انہیں بتایا گیا کہ چونکہ مازگن انٹرنیشنل سے اس کی کوئی اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں اس لئے وہ خود وہاں نہیں آ رہی۔ وفد کے جو ارکان منیب صاحب یا ان کے عملہ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، وہ بھی اپنے کام میں مکمل آزاد ہیں۔ وہ ان کے کام میں کوئی دخل نہیں دے رہی۔

انوشہ کی طرف سے کوئی منفی ردعمل نہ آنے کے باوجود منیب صاحب فکرمند تھے۔ پھر ایک انفارمر نے ان کی فکروں میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس نے منیب صاحب کو خبر دی کہ مذکورہ امریکن کمپنی ان کے علاوہ ایک اور فرم کے ساتھ بھی اپنے کام کے لئے بات چیت میں مصروف ہے۔

اس شام گھر واپس پہنچے تو یہ فکر منیب صاحب کے چہرے پر صاف عیاں تھی۔ مسز منیب نے فوراً بھانپ لیا اور موقع ملتے ہی ان سے اس فکرمندی کی وجہ دریافت کی۔ منیب صاحب نے پہلے تو بیوی کو ٹالنے کی کوشش کی مگر آخرکار بتائے ہی بنی۔

”بہت پہلے جمیل قریشی نام کا ایک آدمی میرے پاس آیا۔ وہ کسی فیکٹری سے کمرشل مینیجر کی جاب چھوڑ کر آیا تھا۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اسے کریڈٹ پر کچھ مال دے دوں تاکہ اپنی نئی کمپنی کے ذریعے اسے بیچ کر وہ اپنے کام کا آغاز کر سکے۔ اس نے اپنے تجربے کی بنیاد پر مجھے یہ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ وہ بہت اچھا سیلزمین ہے۔ وہ مجھے یقین دلاتا رہا کہ وہ وسیع تعلقات والا آدمی ہے اور اگر میں اس کی مدد کروں تو بہت جلد وہ ہمارا مال نقد خریدنے، بلکہ ایڈوانس دینے کے قابل بھی ہو جائے گا“ ۔

”لیکن اس پرانی بات نے آپ کو آج کیوں فکرمند کر دیا ہے؟“ مسز منیب نے پوچھا

”ہوا یوں کہ میں نے اس کی درخواست رد کر دی۔ حالانکہ کچھ کچھ میرا دل اس کے حق میں گواہی بھی دے رہا تھا۔ وہ مایوس ہو کر چلا گیا۔ مگر دو سال میں ہی اس کی کمپنی چل نکلی اور بڑی بڑی فیکٹریوں والے خود اپروچ کر کے اسے اپنا مال ڈسٹری بیوشن کے لئے دینے لگے۔ مجھے بھی ضرورت تھی کہ وہ میرا مال بیچے مگر میری انا نے گوارا نہ کیا کہ میں اس سے رابطہ کرتا“ ۔

مسز منیب بولیں ”مجھے آپ کی فکرمندی کی بنیاد ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہی“ ۔

”فکرمندی کی بنیاد یہ ہے کہ جس امریکن کمپنی کے پراجیکٹ کی تیاری میں ہم نے اتنا پیسہ خرچ کیا ہے، اتنی محنت کی ہے، اتنا رسک لیا ہے، وہ یہاں کی ایک اور کمپنی سے بھی ایسے ہی پراجیکٹ پر بات کر رہی ہے“ ۔

”کیا وہ مقامی کمپنی ہم سے اچھے ریٹس دے رہی ہے؟“ ۔

”نہیں، ان کے ریٹس تو ہم سے زیادہ ہیں لیکن اس کمپنی کی ہیڈ اسی جمیل قریشی کی بڑی بیٹی عطیہ قریشی ہے۔ اور صرف چھ سال کے عرصہ میں، رئیل سورس ایمپاورمنٹ نامی اس کمپنی نے اچھی خاصی شہرت حاصل کر لی ہے“ ۔

”مگر جب ان کے ریٹس ہی زیادہ ہیں تو ہمیں فکرمند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟“ ۔

”ضرورت ہے بیگم! عطیہ قریشی صرف اس کمپنی کی مالک ہی نہیں، اپنی لائن میں اس کی قابلیت کی بڑی دھوم ہے۔ اس کے پاس تین تین ماسٹرز کی ڈگریاں ہیں۔ پھر وہ جمیل قریشی کی بیٹی ہے۔ تیسرے اس کی کمپنی میں صرف خواتین کام کرتی ہیں۔ ان میں کچھ وہ بھی ہیں جو ہمارے یہاں سے نکالی گئیں تھیں۔ میں تو بہت فکرمند ہوں بیگم۔ کاروباری معاملات میں یہ عوامل بہت اہمیت رکھتے ہیں ”۔

”آپ فکرمند نہ ہوں۔ مجھے یقین ہے وہ آپ کے کام اور ریٹس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی“ ۔

”کاش ایسا ہی ہو! مگر ایسا نہ ہونے کی صورت میں ہم تو سڑک پر آ جائیں گے۔ آج مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے کیوں اپنی بیٹیوں کو پڑھا لکھا کر اپنے ساتھ کام میں شامل نہیں کیا؟ ہمیں کیا جلدی پڑی ہوئی تھی کہ بس اچھے گھرانوں میں ان کی شادیاں کر کے فارغ ہو جائیں؟“ ۔

امریکن کمپنی کا وفد اپنا کام مکمل کر کے چلا گیا لیکن انوشہ کچھ دنوں کی چھٹی لے کر وہیں رک گئی۔ دراصل علی سفیان بھی پروگرام کے مطابق پاکستان آ گیا تھا۔ دونوں خاندانوں نے خوشی خوشی ان کے نکاح کا بندوبست کیا۔ رخصتی کی رسم جو کہ بس رسم ہی تھی، وہ بھی انجام پا گئی اور وہ دونوں واپس امریکہ چلے گئے۔۔

چند ہفتوں کے بعد مذکورہ امریکن کمپنی کی طرف سے منیب امجد کو خبر دی گئی کہ وہ مازگن انٹرنیشنل کے ساتھ اپنا معاہدہ منسوخ کر رہی ہے۔ جو بھی ادائیگی وہ اب تک کر چکے ہیں، وہ تو واپس نہیں مانگیں گے مگر آئندہ کوئی تعلق بھی نہیں رہے گا۔

منیب صاحب کو بعد میں خبر ملی کہ معاہدہ کی منسوخی مازگن انٹرنیشنل کی اپنے کارکنوں اور خاص طور پر خواتین کارکنوں کے ساتھ برتاؤ کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ امریکن کمپنی کے وفد نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مازگن انٹرنیشنل کے ورکرز اور مالکان کے درمیان بداعتمادی کی ایک بھاری خلیج حائل ہے۔ ایسے میں ان کے ساتھ مل کر مطلوبہ سافٹ ویئر بنانے کا رسک تو کسی صورت بھی نہیں لینا چاہیے۔

”رئیل سورس ایمپاورمنٹ“ ، جس کے ساتھ اس امریکن کمپنی نے آئندہ کام کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور اسے ایک بڑی رقم ایڈوانس کے طور پر بھی دی، وہ عطیہ قریشی کی سربراہی میں بہت اچھے ماحول میں کام کر رہی تھی۔ تمام ملازمین خواتین تھیں جو دل جمعی اور ذمہ داری سے نہایت معقول تنخواہوں پر کام کر رہی تھیں۔ اس لئے امریکن کمپنی نے مہنگے داموں بھی اپنا کام عطیہ قریشی سے کرانا بہتر سمجھا۔

اس معاہدے کی منسوخی منیب امجد فیملی کو بہت مہنگی پڑی۔ بہت سی اقساط ادا نہ ہو سکیں تو بینک نے ان کے گھر پر قبضہ کر لیا اور انہیں ایک کرائے کے گھر میں شفٹ ہونا پڑا۔

آخری خبریں آنے تک منیب امجد اپنے بچے ہوئے کاروبار پر سخت محنت کر رہے تھے۔ انوشہ اور علی سفیان ہنی مون مناتے ہوئے پوری دنیا میں گھوم رہے تھے۔

پہلے خواہش اکساتی ہے۔ پھر کوئی انسان محنت، کوشش اور مشقت سے گزر کر کسی اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ خود کو طاقتور سمجھنے لگتا ہے۔ چند لمحے سستانے کے لئے اس بلندی پر رکتا ہے۔ تبھی وقت اس کے پاس سے گزر کر کہیں آگے بڑھ جاتا ہے۔ طاقت اپنی شکل، اپنی فارم اور اپنا مقام بدل لیتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments