(آخری قسط ) بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور سید فخرالدین بلے فیملی = داستان رفاقت‎‎


میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج، مجھے دیا لکھنا
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری

ہر ماہ کی یکم تاریخ کو والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی رہائش گاہ پر ادبی تنظیم قافلہ کا جو پڑاؤ ڈالا جاتا تھا وہ بہت یادگار اور شاندار ہوا کرتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی، محترمہ الطاف فاطمہ، ڈاکٹر آغا سہیل، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر سلیم اختر، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، اصغر ندیم سید، انتظار حسین، خالد احمد، نجیب احمد، ڈاکٹر اجمل نیازی، سرفراز سید، بیدار سرمدی، شہزاد احمد، اداکار منور سعید، طارق عزیز، محمد علی، نسرین شیراز، بشری رحمن، سائرہ ہاشمی، منصورہ احمد، سیما پیروز بخت، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ آپا، صدیقہ بیگم، برادر محترم اسلم کولسری اور دیگر بے شمار مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ نے ہمیشہ ہی اپنی بھرپور شرکت سے قافلہ سے اپنی قلبی وابستگی کا ثبوت دیا۔

ایسے ہی ایک قافلہ پڑاؤ میں بانو قدسیہ نے سید عارف معین بلے سے خصوصی فرمائش کر کے ان کی نظم رنگ دے سنی۔ محترمہ صدیقہ بیگم فرمائش کی تائید فرماتے ہوئے کہا مجھے عارف معین بلے کا جو کلام بہت پسند ہے یہ نظم بھی اسی پسندیدہ کلام کا حصہ ہے۔ بانو آپا کی رائے پھر کسی وقت، فی الحال تو ملاحظہ فرمائیے نظم رنگ دے

رنگ دے
نظم نگار: سید عارف معین بلے
میری بے رنگی مٹا دے، مجھ کو اپنا رنگ دے
مجھ کو اپنے رنگ میں، تو میرے سجنا رنگ دے
۔
نیلا نیلا ہے سمندر، نیلا نیلا آسماں
رنگ آفاقی ہے نیلا، مجھ کو نیلا رنگ دے
۔
تیری قدرت اور محبت کے بہت سے رنگ ہیں
گھول کر یہ رنگ سب، تو میرا چولا رنگ دے
۔
بارش انوار میں نہلا دیا ہے صبح نے
اب شفق سے میرے جیون کا اجالا رنگ دے
۔
رنگوں کی دنیا میں جو پہچان بن جائے مری
اے مرے مولا مجھے، ایسا اچھوتا رنگ دے
۔
ساری دنیا دیکھتی رہ جائے دلہن کا سنگھار
جو عروس زندگی کا ہے دو شالہ رنگ دے
۔
گلشن دل کی فضا مہکے، بہاریں جی اٹھیں
منہ کھلے رہ جائیں کلیوں کے، وہ کھلتا رنگ دے
۔
جب مجھے دیکھے زمانہ، تو دکھائی دے اسے
رنگ میں اپنے جو تو میرا سراپا رنگ دے
۔
منزل مقصود پانے کی نہیں صورت کوئی
کیسے بھٹکوں گا؟ اگر تو میرا رستہ رنگ دے
۔
پھول کیسر کے کھلا دے، مسکرا اٹھوں گا میں
پھولے گی کھیتوں میں سرسوں، مجھ کو پیلا رنگ دے
۔
آسمانی رنگ میں تو رنگ دے دھرتی مری
یہ محبت کا ہے دلکش رنگ، دنیا رنگ دے
۔
یہ جو دو رنگی ہے دنیا کی، وہ خود مٹ جائے گی
شام کے جو رنگ ہیں، ان میں سویرا رنگ دے
۔
جب مجھے دیکھے یہ دنیا، تو نظر آنے لگے
رنگ میں تیرے رنگوں میں، مجھ کو اپنا رنگ دے
۔
رنگ جب سمٹے تو دنیا سبز گنبد دیکھ لے
رنگ ہریالی کا ہے، مجھ کو ہرا سا رنگ دے
۔
سرخ، اودہ، نیلا، پیلا، زعفرانی، کاسنی
رنگ سب تیرے، تری مرضی ہے، جیسا رنگ دے
۔
رنگوں کا میلہ ہے، اس کو اور وسعت بخش دے
رنگ سارے بانٹ، سب کو تھوڑا تھوڑا رنگ دے
۔
ساتھ چلنا ہے تو پھر ہم رنگی ہونی چاہیے
رنگ میں چنری کے تو ، میرا بھی چولا رنگ دے
۔
زندگی کی مانگ ہے اجڑی ہوئی، افشاں سجا
رنگ و خوشبو بھیج دے، بے رنگ صحرا رنگ دے
۔
اس عمارت کا میں اک حصہ نظر آنے لگوں
جالی روضے کی سنہری ہے، سنہرا رنگ دے
۔
صاف کردے زنگ تو آئینہ ءدل کا مرے
میرے اندر کے جہاں کو صوفیانہ رنگ دے
۔
رنگ پیلا پڑ گیا ہے ، موسم گل بھیج دے
میں ہوں سوکھا پیڑ، میرا پتا پتا رنگ دے
۔
اپنی بے رنگی سے مجھ کو مل ہی جائے گی نجات
مجھ کو اپنے رنگ میں تو میرے مولا رنگ دے
نظم : رنگ دے۔ نظم نگار: سید عارف معین بلے

برسوں پہلے بانو آپا کی والدہ ماجدہ شدید علالت کے باعث لاہور کے ایک اسپتال میں داخل تھیں۔ میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کو پتا چلا تو وہ میری امی محترمہ اور مجھے لے کر اسپتال پہنچے۔ اشفاق احمد خان اور ممتاز مفتی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ ان سے اسپتال کے باہر ہی ملاقات ہو گئی۔ اب طبیعت کیسی ہے؟ ابو نے پوچھا تو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ خاموش رہے۔ البتہ ممتاز مفتی نے اتنا کہا کہ بلے صاحب! جو آیا ہے، اسے جانا ہے۔

باریاں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں ہی نہیں ہمیں بھی جانا ہے۔ اللہ سے ملاقات کا بہانہ تو ضرور بنے گا۔ ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ دونوں کو تشفی اور تسلی دینے کے بجائے جو کچھ ہونے والا ہے، اس کے لیے ابھی سے ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ پھر وہی کچھ ہوا، جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ بانو آپا کے سر سے محبتوں اور شفقتوں کا سایہ اٹھ گیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تو ضرور جھلملائے لیکن وہ اللہ کے اس فیصلے پر راضی بہ رضا نظر آئیں۔ میں نے انہیں غم کا پہاڑ ٹوٹنے پر بھی پیکر تسلیم پایا۔

بانو آپا اسلامی اقدار اور روایات کی امین تھیں۔ ڈھلکنے سے پہلے اپنے آنچل کو سنبھال لیتی تھیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ البتہ کسی ادبی تحریک کا اثر انہوں نے لگتا ہے قبول ہی نہیں کیا۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تحریکیں بھی چلیں لیکن انہوں نے دائیں یا بائیں طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا کیونکہ وہ تو میانہ روی کی قائل تھیں۔ اسی کو وہ سچا راستہ کہتی اور سمجھتی رہیں۔ غور کریں تو سچائی ہی ان کی شخصیت اور فن کی پہچان ہے۔ مخلوق خدا کی مدد کو ساری زندگی عبادت سمجھتی رہیں اور اس عبادت کی روشنی سے ان کی زندگی کی کتاب کے اوراق روشن ہیں۔

ایڈیٹر ادب لطیف کی حیثیت سے بھی کئی بار مجھے معروف ادبی جوڑے سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ادیبوں اور شاعروں کے بہت سے قصے بھی سنے۔ پوچھنے پر یہ بھی بتا دیا کرتی تھیں کہ آج کل کون کون سی کتابیں پڑھ رہی ہیں اور کون کون سی کتابیں حال ہی میں پڑھ چکی ہیں۔ خود نمائی سے کوسوں دور تھیں۔ تکلف اور تصنع انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ سادگی، مروت اور رواداری ان میں رچی بسی تھی۔ ادب لطیف کی چیف ایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم سے بھی میں نے آپا بانو قدسیہ کی بہت سے باتیں سنی تھیں۔

وہ ان کی سمدھن بھی تھیں۔ دونوں میں محبتوں اور احترام کا رشتہ قائم ہی نہیں تھا، نظر بھی آتا تھا۔ اشفاق احمد صاحب کے رخصت ہو جانے کے بعد بانو آپا نے اپنی بہت سے سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ ادب سے رشتہ تو نہیں ٹوٹ پایا لیکن بینائی کمزور پڑ جانے کے باعث آخری ایام میں ان کا لکھنا لکھانا بہت کم ہو گیا۔ ان کے بیٹوں نے انہیں سنبھالے رکھا۔ وہ اپنی ماں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے۔ وہ واقعی اپنی ماں کی آنکھوں کا نور بنے رہے اور کسی بھی موڑ پر انہیں اپنی نظر کی کمزوری کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔

کوتاہی ہوگی اگر میں ان کی کتاب راہ رواں کا ذکر نہ کروں، جو انہوں نے اپنے مجازی خدا اشفاق احمد صاحب کے حوالے سے لکھی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر دو اہم شخصیات اپنے تمام تر خوب صورت خدو خال کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے آئیں گی۔ ایک اشفاق خان صاحب اور دوسری شخصیت بانو قدسیہ کی ہے۔ یہ محبتوں کے سفر کی زندہ کہانی ہے، جس میں سچے جذبے کے بھرپور ترجمانی ہے۔ اس کتاب کو پڑھیے تو یہ خود بتائے گی کہ بانو آپا کے دل پر اشفاق احمد خان کی حکمرانی ہے۔

بانو قدسیہ کی زندگی کی کتاب بند ضرور ہو گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ ان کی کتاب زندگی کے اوراق دوبارہ کھلنے لگے ہیں۔ مجھے یہاں اپنے والد مرحوم سید فخرالدین بلے کا ایک شعر موقع کی مناسبت سے یاد آ گیا ہے

الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

اب نئے زاویوں سے انہیں اور ان کے فن کو دیکھا جائے گا۔ ممکن ہے ہم ان کی دو درجن سے زیادہ کتابوں سے ایک مختلف بانو قدسیہ کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ایسا ہوا تو ان کی موت انہیں فنی زندگی میں ایک اور زندگی بخش دے گی۔ بہرحال مجھے تو لگتا ہے بانو آپا نے اپنا ٹھکانہ ہی بدلا ہے۔ پہلے وہ اس دنیا کی مکین تھیں، اب اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments