نفسیات کی رصدگاہ سے: ذہنی صحت سب کے لئے ( 3 )


کیا آپ جانتے ہیں کہ
حسد ایک ذہنی بیماری ہے؟
حسد ایک سہ حرفی لفظ ہے۔ جس سے ہر کوئی واقف ہے۔ عام طور پر حسد کو دل کی بیماری کہا جاتا ہے۔

مذہب اور مقدس کتابوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اس کو شر اور آگ سے تعبیر کیا گیا ہے اور شیطانی حملہ یا ناپاک خصائل قرار دیا گیا ہے اور ہر مقدس کتاب میں اس سے پناہ مانگی گئی ہے۔ عام طور پر ہم اسے کسی شخص کی بری فطرت کا نام دیتے ہیں اور یہیں سے بد نظر یعنی
Evil Eye
کا تصور شروع ہوا جو حسد کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فعل ہے۔ جس سے ہر شخص خوف کا شکار رہتا ہے۔
آئیے آج ہم حسد کو نفسیات کی رصد گاہ سے حاصل ہونے والی معلومات و مشاہدات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

نفسیات کی رصدگاہ سے حسد یعنی جیلسی

ایک ایسے جذبے اور احساس کا نام ہے جس میں انسان کو کچھ کھو جانے کا شدید خوف لاحق رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں فرد عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔

حسد ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ جس میں انسان کو اپنی ملکیت کھو جانے کا ڈر رہتا ہے۔

سوال ہے کہ کیا یہ ایک بنیادی جذبہ ہے؟
نہیں یہ پرائمری ایموشن نہیں ہے بلکہ اس کو سیکنڈری ایموشن کہا گیا ہے جو کچھ چھن جانے کے خوف سے پیدا ہوتا ہے

روایتی ارتقائی نفسیات کے مطابق حسد ایک وراثتی رد عمل ہے جس کی وجہ سے بقا کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ابتداء میں یہ جذبہ جنسی شراکت کار کے کھو جانے کے خدشات سے سے پیدا ہوا یعنی اس کو شروع میں مردانہ وصف کہا گیا جس میں مرد نے ایک عورت کے ساتھ جنسی شراکت داری کی تو اس کو ملکیت جانا اور دوسرے مردو‌ں کو رقیب۔

یوں لگتا ہے کہ اس جذبے کی ابتدائی شکل ”رومانوی“ نوعیت کی ہے۔ جس کو ”محبت“ کا نام دیا گیا۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ محبت کا جذبہ ہے؟
نہیں ہرگز نہیں حسد محبت کا جذبہ نہیں ہے۔ یہ خالصتاً نفرت کا منفی جذبہ ہے۔

اور یہ بلا تخصیص جنس، ہر مرد عورت، بچے بوڑھے جوان ہر شخص میں موجود ہو سکتا ہے ہر اس صورتحال میں جہاں ملکیت کھو جانے کا ڈر ہو۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ملکیت اپنی نوعیت میں بہت وسعت لئے ہوئے ہے۔ جیسے

جنسی شراکت داری کی ملکیت عورت یا مرد کی
اولاد کی ملکیت کا احساس
مال و دولت کی شراکت داری کی ملکیت
دو افراد کے درمیان
کسی مادی ترقی اور برتری کی ملکیت
حسن و جمال بہ حیثیت برتری کی ملکیت
ذہنی خواص اور اخلاق کی برتری
علمی برتری
دینی برتری کا احساس
معاشرتی برتری
معاشی برتری وغیرہ۔

کوئی بھی فرد اگر ان برتریوں کو اپنی ملکیت سمجھنے لگے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے یہ احساسات ملکیت، گھمنڈ، تکبر اور غلبے کی حد سے بڑھی خواہش کے احساسات میں بدل کر انسان کو

احساس برتری جیسے منفی جذبے میں مبتلا کرتا ہے اور جب ان منفی جذبوں کے نشے میں چور فرد یہ دیکھتا ہے کہ دیکھتا ہے کہ بہت سے دوسرے لوگ اس سے بھی برتر ہیں تو یہ شدید صدمہ اسے احساس کمتری جیسے متضاد مگر متبادل منفی جذبے میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اور وہ ہر وقت عدم تحفظ کا شکار ہو کر ایک اذیت میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرے بہتر فرد کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

بنیادی طور پر حسد ایک تکون ہے جس کی شکل کچھ اس طرح ہے :
مثال کے طور پر:
حاسد۔ اس کا جنسی شریک، محبوب۔ تیسرا جنسی شریک کا پرانا جنسی شریک یا دوست

حاسد۔ اس کا شریک حیات۔ تیسرا اس کے شریک حیات کی برتری مثلاً اعلی تعلیم، منصب، اعلی عہدہ، ترقی، معاشرتی حلقہ میں عزت، خاندانی نظام، اور اس سے بھی بڑھ کر ذاتی خوبیاں مثلاً اچھے اخلاق، دیانت داری، خلوص وفا داری، انسان دوستی اور محبت کا جذبہ۔

حاسد۔ اس کا استاد۔ اور تیسرا کوئی بہتر کارکردگی کا مالک ہم جماعت
حاسد۔ اس کا باس۔ تیسرا باس کا کوئی بہتر اور لائق ہم منصب ماتحت

حاسد۔ اس کا شریک حیات۔ تیسرے اس کے سسرالی رشتہ دار (عام طور پر دیورانیان، جیٹھانیا‌ں اور ان کے بچے )

حاسد۔ اس کے ماں باپ۔ تیسرے اس کے بہن بھائی (سبلنگز)

حاسد۔ ۔ اس کی اپنی جسمانی خوبصورتی یا خوب صورتی کا احساس۔ تیسرا اس سے بہتر شکل و صورت کا مالک دوست یا رشتہ دار کزن وغیرہ

حاسد۔ اس کا کاروبار، تعلیمی کامیابیاں اور دیگر برتر چیزیں۔ اور تیسرا اس کا مد مقابل یا ہم منصب۔

حسد کے اس ماڈل کی تکون میں حاسد تکون کی لکیر کے ایک کونے پر ہوتا ہے۔ اس کی ملکیت دوسرے کونے پر اس کا خوف اور خدشہ جو اس کی ملکیت کو چھیننے والے شخص، یا اس کی برتر چیزوں اور اوصاف کی صورت میں تکون کے کونے پر اس کے حسد کا نشانہ بن کر حاسد ہی کے لئے خوف، احساس کمتری اور عدم تحفظ کا باعث بنتے ہیں۔

حسد کی جن تکونو‌ں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کچھ حسد عارضی ہوتے ہیں جیسے سبلنگز، سسرالی رشتہ دار یا جسمانی خوبصورتی اور تعلیمی کامیابیوں سے متعلقہ حسد۔ بچے بڑے ہو کر اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرنے لگتے ہیں لیکن یہ محبت ختم ہو کر دوبارہ نفرت اور جلن میں بدل جاتی ہے جب بہن بھائیوں کی شادیا‌ں ہو جاتی ہیں اور خاندان میں بہن بھائیوں کے شریک حیات مختلف رشتوں کی شکل میں شامل ہوتے ہیں جیسے بھابھی، بہنوئی دیورانی، ممانی، چچی اور خالو وغیرہ۔

اسی طرح تعلیمی رقابتیں بھی تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے کے بعد دھندلی پڑ جاتی ہیں۔

حسن جمال سے متعلقہ جلن بھی عمر کے ساتھ ٹھنڈک اختیار کر لیتی ہے جب سب ہی کے چہرے عمر کے ساتھ خد و خال کے ڈھلنے سے خوبصورتی کھونے لگتے ہیں تو حاسد پرسکون ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی طمانیت بھی حسد کے جذبے کے ساتھ چمک رہی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی ڈھلتی عمر کے بد اثرات پر خوش ہوتا ہے کہ شکر ہے اس کی خوبصورتی میں کمی آئی۔ اس وقت وہ اپنے خدو خال کی طرف نظر ڈالنا بھول جاتا ہے۔ کیونکہ وہ پرانے مقابلے کے ساتھ ہی چل رہا ہو تا ہے۔

حسد کی ایک بھیانک شکل جو ہمارے معاشرے کے مجموعی خاندانی ڈھانچے پر بری طرح اثر انداز ہو کر نفرتو‌ں اور عداوتوں کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی وجہ بنتا ہے۔ یہ وہ حسد ہے جو شادی کے انسٹیٹیوشن سے متعلق ہے۔ جب ایک بہن بھائی کے بچوں کی شادی ایسی جگہ ہو جائے جہا‌ں وہ اپنے بچے کی شادی کا سوچے بیٹھے تھے یا کسی دوسری /دوسرے کزن کی شادی کسی دوسرے کزن سے ہو جائے۔ اس تکون میں حسد کی آگ کا بڑھنا اور تا دیر رقابت کا قائم رہنا بڑے بھیانک نتائج کا موجب بنتا ہے۔

یہیں سے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال شروع ہوتا ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کے بارے میں غلط اطلاعات، کردار کشی، اور بغیر کسی ٹھوس حقائق کے فریقین کو باتوں باتوں یا اشاروں کنایوں میں رشتہ ختم کرنے کے مشورے دینا اور اگر پھر بھی مقصد میں کامیابی نہ ہو تو بے بنیاد ناراضگی کے ساتھ شادی میں شرکت نہ کرنا اور پھر بھی کام نہ بنے تو مقدس کتابوں کا سہارا لے کر وظائف کرنا تعویذ گنڈوں اور جعلی پیروں کی مدد سے رشتے اور شادیوں کو تڑوانا حتی کہ طلاق تک کروا دینا۔

لیکن حسد کی اس سے بھی بد ترین قسمیں ہیں :
ورک پلیس میں حسد۔
گھر میں حسد۔

ورک پلیس یعنی دفتر یا کام کی جگہ پر پایا جانے والا حسد ایسا حسد ہے جو ایک بھیانک خواب ہے اور وہ نہ صرف کسی ایک متاثرہ فرد کے لئے تباہ کن ہوتا ہے بلکہ وہ جگہ ایک دوزخ سے کم نہیں ہوتی۔ اگر بدقسمتی سے کوئی ماتحت، کولیگ یا باس حسد کے جذبات سے مغلوب ہے تو وہ اس آرگنائزیشن کی تمام پراڈکٹیوٹی کو متاثر کر سکتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس حسد میں ایک باس (حاسد) ہوتا ہے جو اپنے کسی بہت قابل، لائق، ایماندار اور محنتی اور اس سے بڑھ کر اپنی صلاحیتوں کے مالک ماتحت کو نشانہ بناتا ہے کیونکہ اس باس کو خدشہ لاحق رہتا ہے کہ یہ با صلاحیت ورکر جس اچھے طریقے سے کام کر رہا ہے اس کی قابلیتیں دوسروں کو خاص طور پر افسران بالا کو نظر آ سکتی ہیں۔

اور وکٹم یا متاثرہ شخص (ورکر) سب میں پسندیدہ ہوتا ہے۔ اور حاسد باس کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں اس ورکر کی ترقی نہ ہو جائے۔ اور اگر اس متاثرہ ورکر کو ترقی کے مواقع کی آفر آ جائے یا بہتر پوزیشن مل جائے تو یقیناً اس ورکر کے لئے روزگار کی جگہ جہنم کی آگ سے کم نہیں۔ اس کی عزت کو خطرہ ہو سکتا ہے، اگر باس عورت ہو تو ہراسمنٹ کا الزام لگ سکتا ہے، اس کو میٹنگز میں سب کے سامنے ذلیل کیا جا سکتا ہے، اس کے کیے ہوئے ہر کام، رپورٹ اور تجاویز کو بار بار مسترد کیا جاسکتا ہے، بار بار اس کی ٹیم بدلی جاتی ہے اور اس کی ٹیم کے افراد کو اس بے ضرر ورکر کے خلاف اتنا بھڑکایا جاتا ہے کہ وہ ورک پلیس میدان جنگ محسوس ہوتا ہے۔

اس متاثرہ ورکر کو تنزلی اور برطرفی کی دھمکیاں اور بے شمار اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرایا جاتا ہے کہ یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ ایسی ورک پلیس اس ورکر کے لیے اتنی زہریلی اور آلودہ ہو جائے کہ اس متاثرہ شخص کی پہلے ذہنی صحت متاثر ہو اور پھر وہ مسلسل سٹریس کی وجہ سے اپنی جسمانی صحت بھی کھو بیٹھے۔ اسے یا تو سٹریس لیو لینا پڑتی ہے یا وہ یہ جاب چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

حسد کے تکونی ماڈل میں جو دوسری بد ترین تکون ہے اس میں بد قسمتی سے

حاسد بھی ایک ازدواجی شریک حیات ہوتا ہے اور اس کی ملکیت بچے اور جس سے حسد کیا جاتا ہے وہ بھی شریک حیات ہوتا ہے۔

ایک شریک حیات اگر اپنے ہی شریک حیات سے حسد کرے تو اس کی بھی بہت سی شکلیں یا ملکیتیں اور اثاثے ہوتے ہیں۔ مثلاً شریک حیات کا بہتر خاندانی ڈھانچہ، بہتر سماجی حیثیت، شکل و صورت، تعلیم حتی کہ اعلی اخلاقی اقدار کا حامل ہونا۔ اس حسد کی ابتدا بھی ملکیت کے تصور سے ہوتی ہے۔ حاسد شریک حیات جب اس ازدواجی بندھن میں شامل ہوتا ہے تو اس گھمنڈ اور تکبر کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ میرا حسب نصب، خاندان، میری اور میرے خاندان کی علمی قابلیتیں میرے شریک حیات کے خاندان سے برتر ہیں۔ وہ اس برتری اور گھمنڈ کے خبط اور گرینڈ یوسٹی کے زعم میں اپنے شریک حیات کو ہر وقت نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور باہمی ادب، احترام اور رومانوی محبت کے حسین لمحات سے بھی لطف اندوز ہونے کے مواقع گنوا دیتا/دیتی ہے۔

جب اس حاسد شریک حیات کو کہیں بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ میرا/میری شریک حیات اور اس کا خاندان کئی لحاظ سے مجھ سے بہتر ہے تو اس کا پہلا تکبر، گھمنڈ اور برتر خصوصیات کا احساس برتری دھڑم سے نیچا گرتا ہے اور وہ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو کر ایسے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے جنہیں حسد کہا جاتا ہے جس میں عدم تحفظ اور برتر خصوصیات کے ماند پڑ جانے یا چھن جانے کا خوف ہر وقت لاحق رہتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں شریک حیات اگر مشترکہ فیملی نظام میں نہ رہ رہے ہو‌ں تو شاید یہ عدم تحفظ نہ پیدا ہو۔

نہیں ایسا نہیں ہے حسد کرنے والا شریک حیات ہر حال میں انہی جذبات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ اگر بچے ہوں تو بہت تباہ کن صورتحال ہوتی ہے کیونکہ حاسد شریک حیات کی ملکیت بچے ہوتے ہیں۔ بچوں کو وہ اپنا اور صرف اپنا اثاثہ اور ملکیت اور طاقت سمجھتا ہے اور اپنے شریک حیات کو جس کی اس ملکیت میں قانونی اور بائیولوجیکل سانجھ بھی ہوتی ہے۔ مگر حاسد شریک حیات اس مشترکہ قدرتی حق کو بھی چھین اور جھپٹ لینا چاہتا ہے اور اپنے ہی شریک حیات کو اپنا اور اس کا بچہ بھی مل بانٹ کر دیکھنا اور پیار کرنا نہیں برداشت کرتا۔

بچے کی زندگی کے اہم فیصلے کرنے میں بھی اس کو شامل کرنے میں تامل ہی نہیں بلکہ تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے اور اس کو صرف اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔ ایسے میں بچے کو اس کے ہی ماں /باپ کے خلاف کرنا اور چھوٹی عمر سے اسے دوسرے شریک حیات کے خلاف آلہ تیار کرنا اور اس کو بلیک میل کرنا جیسے گھناؤنے رویے اور کرداروں کا مظاہرہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ حسد کے اس تکون میں دوسرے شریک حیات کو ہراساں کر کے معاشی مفادات حاصل کرنے کے کردار بھی سامنے آتے ہیں۔

ایسے بندھنوں کو بد قسمت بندھن کہا جاتا ہے جس میں متاثرہ فریق یا دوسرا شریک حیات ایک دوزخ میں رہتا ہے۔ یہاں بھی سٹریس اور ذہنی تناؤ اس متاثرہ فریق کو ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرنے کے قوی امکانات رکھتی ہے۔ نتیجہ آئے دن کھینچا تانی، ، لڑائی جھگڑے یا خاموش جنگ جس میں حاسد شریک حیات کبھی ہار نہیں مانتا۔ اور ملکیت یعنی بچے اس زہریلی یعنی ٹاکسک فضا میں ایسے گھٹتے دبتے ہیں کہ ان کی شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے مثلاً سکول میں تعلیمی سرگرمیوں اور کارکردگیوں کا متاثر ہونا، کرداری مسائل، جذباتی مسائل کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ اس میدان جنگ کی زہریلی اور بارودی فضا میں پلنے والے بچے ضدی، سرکش، ڈھیٹ، ہٹ دھرم اور سکولوں میں بلی کرنے والے اور دیگر نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہو کر بار بار جسمانی بیماریوں کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ حسد کے اس تکون میں اگر حاسد شریک حیات کسی مقام پر بھی اپنے حسد کو لگام نہیں دیتا تو علیحدگی اور طلاق منتج ہو جانے پر بچے معاشرے کا بھیانک کردار بھی بن جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کہ حسد کی اس تکون میں مرد حاسد ہوتا ہے یا عورت؟

اس کا جواب یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں اور اب بھی ہمارے معاشرے میں مرد ہی بچوں پر حق ملکیت رکھتا ہے جس طرح وہ عورت کو ملکیت سمجھتا ہے۔ ایسی صورت میں مرد ہی حاسد فریق نظر آتا ہے۔

لیکن اس تکون کا ماڈل اب بدل گیا ہے۔ عورت جس طرح بہت سی دیگر چیزوں کی مالک ہو گئی ہے اور ان ملکیتوں کے کھو جانے کا خوف اسے دوسرے کئی حسدوں میں مبتلا کرتا ہے۔ اسی طرح وقت کے بدلتے دھارے اور بدلتی تہذیب کے قوانین نے بچو‌ں کو عورت کا حق قرار دے کر جہاں اس کی قانونی برتری میں اضافہ کیا ہے وہیں اسے اس ملکیت کے چھن جانے کے خوف میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ عورت کے حصے میں حسد

جیسے جذبے کی آبیاری ہوئی ہے۔ اور وہ بھی پرانے مرد جیسی دھونس اور زہریلی شخصیت کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ یہاں بحث کا مرکز عورت یا مرد نہیں ہے۔ کیونکہ نفسیات کی رصدگاہ میں بلا تخصیص جینڈر مطالعہ کیا جاتا ہے۔ بات صرف حاسد شریک حیات کی ہے جو مرد یا عورت کوئی بھی ہو سکتا ہے نتیجہ منتشر اور نفسیاتی مریض بچے ہے۔

اس قسم کے حسد کی مثالیں کلینیکل سیٹنگ میں ملتی ہیں جہاں ایک فریق یہ شکایت کرتا یا کرتی ہے کہ میرا پارٹنر مجھے بچے سے پیار کرنے، اس کے ساتھ کھیلنے اور خوش ہونا بھی برداشت نہیں کرتا۔

حقیقی زندگی میں ایک ایسی ہی مثال کو ضمنا بیان کیا جا سکتا ہی ”میری ایک کینیڈین کولیگ نے اپنے شوہر سے اس لئے طلاق لے لی کہ اس کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ اس کا شوہر اس کے بچے کو (جو اس کے ہی شوہر کا بھی بچہ تھا) پیار کرے، گود میں اٹھائے یا اس کے ساتھ کھیل کود کر خوش ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچے کو باپ ساتھ ہنستا کھیلتا دیکھتی ہوں تو مجھے جلن کا احساس ہوتا ہے۔ اس لئے میں نے باپ کو بچے سے دور کرنے کے لئے طلاق لے لی۔

اس مثال میں کئی جگہوں پر عورت کی بجائے مرد بھی ہو سکتا ہے۔ عموماً وہ عورتیں اس قسم کے حسد میں مبتلا ہوتی ہیں جس کے باپ نے ہمیشہ اس کی ما‌‌ں سے حسد کیا اور بچوں کو اپنی ملکیت بنا کر دھونس اور بے جا رعب کا رویہ رکھا۔ اب یہ عورت رد عمل کے طور پر اپنی ماں کا بدلہ اپنے شریک حیات سے لیتی ہے اور اس عدم تحفظ کے روئے آج کی عورت میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شاید حسد کی معاشرتی حیثیت اور شکل تبدیل ہو گئی ہے

حسد کی مختلف اشکال یا
Triangles of jealousy
پر نظر ڈالنے کے بعد اب ہم کچھ اہم سوالات کی طرف آتے ہی مثلا:
اگر حسد ایسا ہی توڑ پھوڑ والا جذبہ ہے تو کیا حسد ایک بیماری ہے؟

نفسیات کی رصدگاہ سے اس کا ٹھوس جواب ہے کہ حسد ایک منفی او بیمار جذبہ ہی نہیں ذہنی اور نفسیات مرض ہے بلکہ اس کو نفسیاتی کینسر کہنا بے جا نہ ہو گا کیونکہ یہ روکے نہیں رکتا۔ یہ

Morbidity

کے زمرے میں آتا ہے اور بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں علامات کے طور پر نظر آتا ہے۔ ان میں پرسنیلٹی ڈس آرڈرز سر فہرست ہیں۔ اور پرسنیلٹی ڈس آرڈر میں مجرمانہ خصائل کی صورتوں میں حسد کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے جیسے سائیکو پیتھی او نارسزم میں اس منفی جذبے کی موجودگی ایک لازمی علامت ہے اور یہ دو امراض اور ان میں حسد کی موجودگی ایک بھیانک خواب ہے جس کی تعبیر بھی بھیانک ہی ہوتی ہے۔

شیزو فرینیا میں بھی حسد پایا جاتا ہے۔ اس حسد میں عورتیں زیادہ دیکھی جا سکتی ہیں جس میں وہ شک اور شبے کے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔

الکوحل سے متعلقہ سائیکوسز میں حسد کا اظہار مردوں میں زیادہ ہوتا ہے۔

پرسنیلٹی ڈس آرڈر اور نارسزم کے بارے میں الگ مضمون میں بات کی جائے گی جس میں حسد کو پیتھالوجیکل حسد کہا جاتا ہے۔ :

اگلا سوال ہے کہ کیا حسد چھوت کی بیماری ہے؟

جی ہاں حسد ایک چھوت کی بیماری ہے جو نہ صرف کینسر کی طرح فرد کی اندر پھیل کر اس کے وجود، اور ہے اور اس کے وجود کے ذہانت، صلاحیت اور وزڈم کو تاریک کر دیتی ہے یہ دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ اگر ہمیں یہ علم ہو جائے کہ کوئی شخص گھر یا ورک پلیس پر ہم سے حسد کرتا ہے تو پہلے ہم اس سے بچتے ہیں اگر بچنا ممکن نہ ہو تو ناگواری محسوس کرتے ہیں اور یوں مسلسل اس کے ساتھ رہتے ہوئے اس فرد کے وجود سے نکلتی منفی شعاؤں کے زیر اثر اس شخص کے لئے ہمارے دل میں پہلے نفرت پیدا ہوتی جو رفتہ رفتہ ہمیں بھی اس شخص کے ساتھ حسد میں مبتلا کر دیتی ہے۔

اگلا سوال یہ ہے کہ کیا حسد وراثت میں ملتا ہے؟

نفسیات کی رصدگاہ سے یہ جواب ملتا ہے کہ 29 فی صد یہ ہمیں جینز سے منتقل ہوتا ہے۔ یعنی اگر دونوں والدین یا ایک میں حسد کا جذبہ ہو تو بچوں کو بھی ودیعت ہوتا ہے اور گھر میں والدین میں سے کوئی ایک بھی حسد کے جذبات کا عملی مظاہرہ کرہاً ہو تو یہ رول ماڈل بچوں کے لیے اکتسابی ماڈل بن جاتا ہے اور وہ اسے اپنے اندر سمونا

Internalize
کرنا سیکھ جاتے ہیں۔
اگلا سوال ہے کہ :
کس قسم کے لوگ حسد میں مبتلا ہوتے ہیں؟
جواب ہے کہ وہ لوگ جو اپنے عدم تحفظ اور
Low self esteem
کی وجہ سے اعتماد کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور ہر وقت دوسروں کے ساتھ مقابلہ کی جنگ لڑتے رہتے ہیں۔

یہ بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں تربیتی دور میں روایتی، سماجی گھٹن اور محرومی کا ماحول اس وقت حسد میں تبدیل ہوتا ہے جب فرد کو کھلی فضا میسر آتی ہے تو وہ اپنے ماضی سے شرمندہ ہو کر عدم تحفظ اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے

اور اس بہتر ماحول میں اس کے احساس برتری اور ملکیت کے احساس کو سخت دھچکا لگتا ہے اور وہ ملکیت اور برتری کھو جانے کے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حسد میں وہی لوگ مبتلا رہتے ہیں جو غریب، ان پڑھ اور سماجی رتبے میں کمتر ہیں اور زمانہ بھی ان کو کمتر ہی سمجھتا ہے۔ بلکہ حسد میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جن کو علم، دولت، محبت، سماجی رتبہ ملا ہوتا ہے اور دنیا کی بہت سی نعمتیں ان کی ملکیت ہوتی ہیں مگر بد قسمتی سے اگر وہ حسد کی بیماری میں مبتلا ہیں تو عدم تحفظ اور خوف انہیں اتنا بے چین رکھتا ہے کہ وہ یہ تمام برتریاں دوسرے سے چھین کر اسے کمتر اور نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ وہ آگ انہیں سکون سے محروم رکھتی ہے کیونکہ وہ ہر وقت اپنا مقابلہ دوسروں سے کرتے رہتے ہیں اور اس تاک جھانک میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان سے آگے تو نہیں نکل گیا۔

ایک اور سوال ہے کہ کیا حسد کرنے والا خوش گوار زندگی گزارتا ہے؟

حسد کے مرض میں مبتلا شخص ہر وقت ایک ذہنی کرب سے گزرتا ہے، بے چین رہتا ہے اور شاید اس کے کرب اور درد کو دوسرے نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن حسد کرنے والے کے روئیے اور کردار ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے بھی اس آگ کو محسوس کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس فرد سے دور ہی رہا جائے یوں حاسد تنہا ہو کر مزید اذیت کا شکار ہو سکتا ہے۔ ، لیکن ایسے فرد سے دور ہونا ممکن نہ ہو تو حاسد ایک ایسے ماحول کو قائم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جہاں کی فضا نفسیاتی، جسمانی اور معاشرتی طور پر زہریلی اور غیر صحت مند بن جاتی ہے۔

حاسد تو ذہنی مریض ہوتا ہی ہے اس کے ارد گرد متعلقہ اور غیر متعلقہ لوگ بھی ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ دوسرے افراد بھی غیر محسوس طریقے سے حسد میں مبتلا ہو جائیں۔ یعنی حسد ایک ایسی چھوت کی بیماری ہے جو ماحول کو نفسیاتی طور پر آلودہ بناتی ہے جہاں وائرس ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اور یہیں سے بچے حسد، رقابت، دھونس اور عدم تحفظ اور نفسیاتی امراض کے جراثیم لیتے ہیں اور وہ بھی اس منفی جذبے کو اپنا کر اس آلودگی کو منتقل کرتے ہیں۔

کیا حاسد صرف مادی چیزوں کی ملکیت کے چھن جانے کے خوف میں رہتا ہے یا کچھ اور بھی؟

حاسد کا خوف محض مادی اشیا اور انسانوں کو ملکیت بنانے تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ حاسد اپنے مد مقابل فرد یا افراد کی اخلاقی برتری سے بھی نالاں ہوتا ہے مثلاً اگر کسی محفل میں کسے دوسرے موجود اور غیر موجود شخص کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ ہو رہا ہو تو حاسد بے چینی محسوس کرتا ہے۔ نفسیات کی رصدگاہ کا مشاہدہ ہے کہ وہ یہ جملے نہیں سن سکتا کہ ”فلاں شخص بہت ملنسار ہے، مہمان نواز ہے، نرم خو ہے، انسان دوست ہے یا بہت محنتی ہے اور بہت محبت کرنے والا ہے، اور ہمدرد ہے“ گویا وہ دوسروں کے اچھے اخلاق سے بھی جلتا ہے۔ اور اس موقع پر وہ یا تو موضوع بدل دے گا یا ترکی بہ ترکی۔ اس کے بارے میں من گھڑت برائیا‌ں گنوانا شروع کردے گا۔

کیا حاسد اپنے ساتھ ہونے والے اچھے سلوک سے بھی جلتا ہے؟

جی ہا‌ں اکثر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اگر حاسد کے ساتھ حسن خلق کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ بات بھی اس کے کڑھنے جلنے کا موجب ہو سکتی ہے۔ شاید اس کو اس بات پر بھی عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے میرے اخلاق تو اچھے نہیں ہیں یہ فرد تو مجھ سے سبقت لے گیا۔ ایسے میں وہ بد تمیزی، ناشکری، اور حوصلہ شکنی کرنے والے رویے اختیار کرتا ہے کیونکہ اس کے پاس حسن اخلاق کی پونجی نہیں ہوتی۔

کیا حسد کرنے والا انسان دوست ہوتا ہے؟

ہرگز نہیں۔ کیونکہ حسد کے جذبات انسان کو دوسروں کی ہر خوشی اور سکھ چین چھیننے پر مجبور کرتے ہیں جو کسی طور پر بھی انسان دوستی کا رویہ نہیں۔

حسد کرنے والے افراد کے عمومی ظاہری اور احساساتی روئیے اور کرداری مظاہر کیا کیا ہوتے ہیں؟

1۔ حسد کرنے والا اس وقت خوش ہوتا یا نظر آتا ہے جب دوسرے کسی غم یا مشکل میں ہوتے ہیں۔ اور جب دوسرے خوش ہوتے ہیں حاسد غمگین نظر آتا ہے۔ وہ لاکھ خوش ہونے کی اداکاری کرے وہ ناکام رہتا ہے۔ وہ دوسروں کے جذبات میں خلوص کے ساتھ دیر تک نہیں چل سکتا۔

2۔ حاسد کسی کی کامیابی پر مبارکباد اور تہنیت کے الفاظ استعمال کرنے میں گھٹن محسوس کرتا ہے اور اگر معاشرتی دباؤ کے تحت ایسا کر بھی لے تو یہ دکھاوا بھی دیرپا نہیں ہوتا۔ اس کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ واپس اپنے بسورے ہوئے چہرے کے ساتھ شریک محفل رہتا ہے۔

3۔ حاسد دوسرے افراد کے ترقیاتی کاموں اور ارادوں کو متزلزل کرنے اور کامیابی میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے بظاہر پرخلوص بن کر ایسے مشورے دیتا ہے جن سے کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے مشورے پر لازمی عمل کیا جائے۔ اور کبھی اس سلسلے میں دھونس کے ساتھ زبردستی فیصلے بھی ٹھونستا ہے۔

حسد کرنے والا ہر وقت بہت معمولی باتوں پر بے جا تنقید کرتا ہے۔ بلکہ تنقید کی یہ عادت اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہوتی ہے۔ اس کی تنقید کسی سدھار یا بہتری کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے ہوتی ہے۔

کج بحثی اور کسی معاملے میں بحث کو ذاتیات پر لانا بھی ایک عادت ہوتی ہے۔ وہ کسی بحث میں اگر محسوس کرے کے دوسرا شخص غالب آ رہا ہے تو وہ اس کو ذاتی انا کا مسئلہ بنا کر ہلکے پھلکے خوشگوار ماحول کو میدان جنگ بنا دیتا ہے اور دنوں تک اس کی یاد تازہ رکھتا ہے۔ حتی کہ کوئی متبادل عناد اور جھگڑا جنم لے۔

یعنی حاسد کشیدگی کو جاری رکھتا ہے۔

حاسد عام طور پر بد مزاج اور بد تمیز کہلایا جاتا ہے۔ اس کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے اس کرداری نمونے کو بہ آسانی رول ماڈل کے طور پر اپناتے ہیں۔

حاسد دراصل اپنی اس بیماری سے سیلف سبوتاژ کرتا ہے یعنی اپنی جلن کڑھن کی وجہ سے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لیتا ہے۔ اپنی عادات اور رویوں سے اپنا گھر بار سکون اور خوشیاں کھو بیٹھتا ہے۔ تعصب کی وجہ سے وہ وزڈم کی روشنی سے محروم ہو جاتا ہے

حسد سے معاشرے میں پھیلنے والے برے چلن اور برائیاں عام طور پر کیا ہوتے ہیں؟

حسد کے جذبے سے سب سے زیادہ فائدہ نام نہاد جعلی پیروں نے اٹھایا ہے۔ حسد اور جادو کی کاٹ کے لئے گنڈے تعویز اور سفلی عملیات کے گھناؤنے کاروبار فروغ پا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہماری نفسیاتی رصدگاہ کے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ حسد کے نفسیاتی مرض کی بنیادوں پر چلنے والا یہ مکروہ کاروبار پاکستان کے تعلیم یافتہ، امیر ترین طبقات کے لوگوں کے حسد کو ٹھنڈا کرنے کا بزنس بڑے بڑے شہروں کے پاش علاقوں میں بوم پر چل رہا ہے۔ یعنی اجتماعی طور پر

ماس میڈنیس کی طرح پھیل کر تاریخ کے بلیک ایرا
Black Era of Mass Madness
کی یاد دلاتا ہے۔ یعنی حسد جیسے مجرمانہ خصائل وبا کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب یا مذہبی تعلیم اس مجرمانہ خصلت کی روک تھام میں معاون ثابت ہو سکتی ہے؟

مذہب نے اگرچہ اس مجرمانہ اور غیر صحتمند فطرت انسانی کا ذکر کیا ہے اور اسے شیطانی فطرت، شر اور آگ کے الفاظ استعمال کر کے گناہ قرار دیا ہے۔ اور بہت سے طریقے مثلاً صبر، شکر اور قناعت کی تجاویز سامنے رکھی ہیں۔ لیکن سوال ہے کہ کیا مذہب، مذہبی تعلیم اور مذہبی ادارے دوسرے گناہوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں مثلاً جھوٹ، منافقت، زنا اور لا تعداد دوسرے جرائم؟ جواب یہی ہے کہ نہیں۔ تو یوں لگتا ہے کے حسد کے مرض کا علاج بھی شاید مذہبی تعلیم اور مذہبی ادارے نہ کر سکیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مذہبی اداروں میں نشو نما پانے والی مذہبی عدم برداشت اور عدم رواداری کی بنا پر قتل و غارت نہ ہوتی۔ جو کہ تعصب کا نتیجہ ہے اور تعصب حسد کی بڑھی ہوئی اجتماعی شکل ہے۔

تو سوال ہے کہ حسد اگر نفسیاتی بیماری یا کسی نفسیاتی بیماری کی ہلکی یا شدید علامت ہے تو اس کا علاج کس طرح ممکن ہے؟

حسد کی بیماری کا علاج ممکنہ طور پر صرف نفسیاتی طریقوں پر ہی ہو سکتا ہے۔
اس کو اس ترتیب سے سمجھا جا سکتا ہے۔

پہلے درجے پر کوئی بھی فرد اگر شعور اور چوکس ذہن کا مالک ہو وہ خود اپنی شعوری کاوش سے اس منفی اور غیر صحت مند جذبے کو ختم کر سکتا ہے۔ جوں ہی اس کو خود احساس ہوتا ہے کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہے وہ اس جذبے کو اپنی شخصیت سے نکالنے کی کوشش کر کے رفتہ رفتہ نجات پا لیتا ہے۔ ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جو مشاہدہ باطن میں دلچسپی رکھتے ہیں اور باطن کی روشنی کی تلاش میں ہوتے ہیں اور خود ہی وزڈم کی مدد سے اپنی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے کا ہنر جانتے ہیں اور حسد خواہ انہیں جینیاتی طور پر ورثے میں کیوں نہ ملا ہو اس نا پسندیدہ جذبے سے نجات پا لیتے ہین۔

دوسرے درجے میں فرد کو احساس یا آگہی نہیں ہوتی لیکن والدین، اساتذہ یا تھیراپسٹ اس جذبے کی نشاندہی کر کے اسے راستہ دکھاتے ہیں اور وہ رفتہ رفتہ اس آگہی کے سفر سے ہوتا ہوا منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ کچھ افراد جلدی اور کچھ دیر سے اس بیماری پر قابو پا لیتے ہی‌۔

تیسرے درجے میں اگر فرد اپنی شعوری کاوش کا استعمال نہ کر سکتا ہو تو یہ کام مکمل طور پر نفسیاتی علاج معالجے کا متقاضی ہے۔ فرد کو باقاعدہ نفسیاتی سیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں ماہر نفسیات یا مینٹل ہیلتھ پروفیشنل ہر قدم پر حسد پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے۔ جس میں مندرجہ ذیل چار اقدامات کے ذریعہ کام ہوتا ہے :

Identification
Confrontation
Redirection
Media
یعنی مریض کو اس کے حسد سے آگاہ کیا جاتا ہے
منفی جذبے سے تصادم اور مقابلہ
ری ڈائریکٹ کرنا یا توجہ کسی اور اچھے جذبے کی طرف لے جانا

میڈیا کی مدد جس میں سوشل میڈیا، اخبارات اور لٹریچر کا مطالعہ اور ادب کی تخلیق کی ترغیب اور فنون لطیفہ کے مختلف ذرائع کا استعمال مثلاً موسیقی ڈانس وغیرہ۔

ان میں سب سے۔ کامیاب موسیقی اور ادبی تحریریں ہیں۔ مریض کو لکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ڈائری، خطوط اور فکشن لکھے

چوتھے درجے میں اگر یہ نشاندہی ہو جائے کہ حسد کے جذبات کسی دیگر شدید نفسیاتی امراض کی شدید علامتوں کی حیثیت رکھتے ہیں تو اس مرحلے پر سائیکارٹرسٹ کے ریفرل کی ضرورت ہوتی ہے جہاں سائیکارٹرسٹ کی تجویز کردہ ادویات کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سائیکو تھیراپی بھی معاونت کے طور پر کی جاتی ہے اور اس طرح حسد سے منسلک دیگر نفسیاتی امراض کا علاج کر کے مریض کی شخصیت کے زہر کو نکال کر مریض اور اس کے ماحول کو آلودگی سے پاک کیا جا سکتا ہے

پانچواں درجہ نفسیاتی علاج کا چیلنج ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو پرسنیلٹی ڈس آرڈر کے زمرے میں آنے والے مسائل سے دوچار ہیں۔ جیسے سائیکو پیتھ، نارسزم اور دیگر مجرمانہ خصائل کے امراض۔ یہ وہ نفسیاتی امراض یا مسائل ہیں جن میں حسد کو

Pathological Jealousy

کہا جاتا ہے۔ یہ افراد معاشرے کا ناسور ہوتے ہیں اور نفسیات اور قانون کے لئے چیلنج اور معاشرے کے دیگر لوگوں کے لئے نہایت ایذا رساں۔ یہ اپنی حسد کی فطرت سے دوسروں کو نقصان پہنچا کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنی اس فطرت کا برملا فخریہ اظہار بھی کرتے ہیں اور یہ اپنا حسد ختم۔ جی نہیں کرنا چاہتے۔

انکے لئے بھی ادویات کا استعمال اور دیگر حساس طریقہ ہائے علاج تجویز کیے جاتے ہیں۔ ان کے حسد سے نمٹنا آسان نہیں۔

نفسیات کی رصد گاہوں میں اس حسد کے علاج کے لئے ریسرچ کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ شاید سائنس جلد یا بدیر ایسے طریقے ایجاد کر لے کہ پیدائش سے قبل ہی ایسے ایذا رساں حسد کے جذبات پیدا کرنے والے جینیاتی عوامل کا خاتمہ کر کے معاشرے کو حسد سے پاک معاشرہ بنایا جا سکے۔ سائنس سے امید ہے کہ چیچک کی ویکسین کی طرح کوئی دوا ایجاد ہو جائے۔

نفسیات کی رصد گاہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا بہت ابتدا میں بچوں کو حسد سے بچنے کے طریقے سکھائے جا سکتے ہیں؟

جواب ہے بہت حد تک اس میں کامیابی ہو سکتی ہے مثلا
بچوں کے سامنے والدین اور دیگر افراد کے رول ماڈل حسد سے پاک ہوں۔
بچوں کو رول پلے کے ذریعہ ٹھوس مثالوں کے ذریعہ حسد کو منفی اور ناپسندیدہ رویہ گردانا جائے۔
بچوں کو دھونس، بلی ازم اور چھینا جھپٹی کے منفی کرداروں کے نقصانات رول پلے کے ذریعہ بتائے جائیں۔
بچے کی سیلف اسٹیم یا اعتماد بڑھایا جائے
فنون لطیفہ کی مختلف اقسام مثلاً موسیقی، تخلیق ادب، ڈانس کی ترغیب کا اہتمام کیا جائے۔

ایسے کھلونوں اور کھیلوں سے گریز کیا جائے جن میں جارحیت کا اظہار ہو مثلاً گن ٹوائے اور لڑائی سے متعلقہ کھیل۔

بچے کی ترقیوں اور کا
یا یوں کا مقابلہ دوسرے بچوں سے نہ کیا جائے۔

بچے کو اپنی چیزوں اور نعمتوں پر شکر کرنے اور دوسروں کی بہتر چیزوں پر بھی خوشی کے اظہار کرنے کے الفاظ سکھائیے جائیں۔

تیراکی یعنی سوئمنگ کو بھی حسد کو کم کرنے کے لئے مفید پایا گیا ہے۔

فوک وزڈم کی کہانیاں اور وزڈم سے آشنائی اور ٹھوس مثالوں اور نمونو‌ں سے وزڈم کا تعارف بھی ایک احسن طریقہ ہے۔

بچوں کو ہمدردی، تیمارداری اور شراکت داری کے عملی نمونوں سے انسانی ہمدردی کا جذبہ سکھایا جائے۔ انسانی ہمدردی اور انسان دوستی حسد کا علاج ہے۔

بچوں کو شکریہ کہنے، برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے۔
بچوں کو ڈائری لکھنے اور اس پر اپنے احساسات درج کرنے کو کہا جائے۔

دونوں والدین بچے کے ساتھ مل کر قہقہے لگائیں، مسکرائی اور ہار جیت کے کھیلوں میں سپورٹس مین سپرٹ سکھائی جائے۔

اخلاقیات کے درس میں گناہ ثواب کا تصور ایک تجریدی معمہ ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔ ٹھوس مثالیں اور والدین کے عملی نمونے بہترین ثابت ہو سکتے ہیں۔ یعنی پہلے والدین کو اپنے حسد رقابتوں اور تعصبات پر قابو پانا چاہیے اور ماحول میں محبت، اعتماد، حسن سلوک، رواداری اور برداشت کے عملی نمونے بہت حد تک بچوں میں حسد کے زہریلے جذبات کو ختم یا کم کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments