فرخندہ بخاری کا عشق حقیقی


جب پاکستان ملائیت کی گرفت میں پڑا سسکتا تھا تب فرخندہ بخاری نے اسلام کی حقیقی انقلابی روح کو اپنا سرچشمۂ فیضان ٹھہرایا۔ نتیجہ یہ کہ وہ اور ان کے شوہر نامور شاعر شہرت بخاری کو برسوں دربدر خاک بسر زندان و سلاسل کی اذیتیں سہنا پڑیں۔ فرخندہ بخاری اور شہرت بخاری نے درویش خدا مست کی مانند کذب و ریا کی زندگی کو ٹھکرا دیا اور ہمارے ہاں حق گوئی اور بے باکی کی نادر و نایاب مثال قائم کر دکھائی۔ فرخندہ بخاری نے ”یہ بازی عشق کی بازی ہے“ کے موزوں ترین عنوان سے ہماری قومی تاریخ کے اس تاریک ترین باب کو اپنے جذبہ و عمل سے نور علیٰ نور کر دکھایا ہے۔

اقبال نے کیا خوب کہا تھا : ’دین ملا فی سبیل للٰہ فساد‘ ۔ ہماری قومی زندگی میں جنرل ضیاء الحق کی ملائیت فی سبیل للہ ہرگز نہ تھی، ہوس اقتدار سے پھوٹی اور پروان چڑھی تھی۔ نتیجہ یہ کہ بھٹو شہید کی کابینہ کے بڑے بڑے نامور وزراء تک ڈر کے مارے سہم سمٹ کر گھروں میں چھپ بیٹھے تھے۔ چند ایک علی الاعلان اندھیروں کو ضیا کہنے لگے تھے۔ ایسے میں فرخندہ بخاری کی سی سراسر غیر سیاسی شخصیت کا درسیات سے سیاسیات کے خار زار میں آ نکلنا، ہزار گونا عذاب سہتے رہنا اور پھر جب بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے منصب پر آ بیٹھیں تو عملی سیاست کو خیرباد کہہ دینا ان کے درویش صفت ہونے کا بین ثبوت ہے۔ بے نظیر بھٹو نے انھیں وفاقی کابینہ میں وزارت کی پیش کش کی مگر انھوں نے اس وزارت کو پرکاہ کی سی اہمیت نہ دی اور ترک دنیا کے مسلک کو ترجیح دی۔ کہنے لگیں :

”میں تو صرف اور صرف ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی بچانے کے لیے گھر سے نکلی ہوں۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ بیگم بھٹو نے بہت تعریف کی ماتھا چوما، پاس بٹھایا اور پوچھا تمہارے گھر میں کون کون ہے میں نے بتایا تین بچے ہیں اسکول گوئنگ اور میرے میاں شہرت بخاری پروفیسر ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ کیا بھٹو پر کچھ لکھا ہے؟ میں نے روزنامہ امروز کا ایک پرچہ دکھایا۔ اس میں بھٹو صاحب کی تصویر کے ساتھ شہرت کے شعر چھپے ہوئے تھے۔

یہ اخبار کا کوئی پرانا شمارہ تھا۔ لیکن اس دور میں بھٹو صاحب پر لکھنا بہت بڑی آزمائش تھی بے نظیر بھی باپ کی تصویر دیکھ کر بڑی خوش ہوئی۔ تو یہ تھی اس وقت کی کیفیت کہ تین بچوں کی چالیس سالہ ماں بھٹو کی سیاست میں گھربار اور اولاد تک کو بھول گئی تھی۔ اور شہرت مجھ سے بھی بڑھ کر بھٹو کے شیدائی نکلے۔ ہماری چند عورتوں نے لاہور شہر میں ہل چل مچا دی تھی۔“

مادیت سے روحانیت کی جانب یہ سفر طالب علمی کے زمانے میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ خوش نصیبی سے فرخندہ کو ایک دیندار خاندان کا فیض تربیت حاصل ہوا تھا۔ جمعہ کے روز ان کے والد انھیں اپنے ہمراہ شاہی مسجد لے جایا کرتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ:

”کھچا کھچ بھری مسجد میں نماز تو ہو گئی مگر اس کے بعد لوگ ایک دوسرے کو خوفناک حد تک بھینچنے لگے دہشت زدہ نمازی پھر ایک ایک کر کے گرنے لگے۔ ہم لوگ بہت پریشان تھے اسی اثنا میں رضاکار آ گئے، یہ کبھی خاکسار ہوا کرتے تھے مگر اب مسلم لیگ کے رضاکار بن گئے تھے۔ انھوں نے ہجوم میں پھنسے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا۔ یہی خاکی وردی والے رضاکار ہمیں بھی کاندھوں پر اٹھا کر ہجوم سے بچا کر لائے اور پھر اس بدنصیب روز بہت سے لوگوں کی جانیں بھی گئیں۔ “

نماز جمعہ کے دوران شاہی مسجد کے اندر، اس غنڈہ گردی کے بعد فرخندہ کے والد نے انہیں اپنے ساتھ مسجد لے جانا ترک کر دیا۔ تاریک اندیشی کی اس فضا میں یکایک روشنی کی ایک کرن جگمگا اٹھی۔ یہ کرن زہرہ نگاہ کی شاعری سے پھوٹی تھی۔ پتہ چلا کہ :

” کراچی سے زہرہ نگاہ آئی ہوئی تھیں۔ ایک مشاعرہ میں انہیں بے مثال شہرت مل گئی۔ ہمارے کالج میں یہ بات چلی کہ مشاعرے کے روز پرانی طالبات کے یوم تقریب میں زہرہ نگاہ کو بلایا جائے مگر کون اس اہم کام کو سرانجام دے؟ بہرطور پرنسپل کی طرف سے زہرہ آپا کو دعوت دی گئی۔ مشاعرہ کے روز گراؤنڈ میں لگی قناتوں میں نیلے رنگ کی ساڑھی اور سفید بلاؤز میں لپٹی دبلی پتلی زہرہ نگاہ اپنی تمام خوبصورتی کے ساتھ سٹیج پر آئیں۔ پہلا شعر یعنی مطلع کہا:

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
ہم تمہیں یاد کر کے پچھتائے

ایسی خاموشی۔ سانس ساکت۔ ایسی آواز، ایسا ترنم، اتنی سادگی اور اتنی معصومیت۔ ہم تو گم ہو گئے۔ زہرہ نگاہ اور شاعری کا اس قدر اثر رہا کہ ایف ایس سی کا نتیجہ آیا۔ میں ایف ایس سی میں اتنے نمبر لے چکی تھی کہ میڈیکل کالج میں بآسانی داخلہ مل جاتا مگر نہ جانے کیوں یہ بات ذہن میں راسخ ہو گئی کہ اصل زندگی تو شعر اور آرٹس میں ہے یوں اردو ادب اور شعر نے کھینچ لیا۔ اور وہ جو ڈاکٹر بننے کی خواہش بچپن اور لڑکپن میں تھی وہ نہ جانے کدھر کھو گئی۔ ”

سرا سر غیر سیاسی برقعہ پوش فرخندہ کے ذہنی ارتقاء کا اگلا مرحلہ سقوط ڈھاکہ ہے۔ ہماری قومی زندگی کے اس سانحۂ عظیم نے انھیں سوز وطن سے مالا مال کر دیا۔ وہ سن پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان کی شجاعت پر نازاں چلی آ رہی ہیں مگر پھر ہوا یوں کہ:

”مشرقی پاکستان میں فوج کی کارروائی نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ اس مکمل اندھیرے میں روشنی کا ایک ہی مینار سامنے آیا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ کرچی کرچی ملک کو پھر جوڑنے یعنی بقول فیض“ شیشوں کی مسیحائی کے لیے ”بھٹو جیسی فہم و فراست کی ضرورت تھی اور بھٹو صاحب نے اس مرحلہ پر ایسی زبردست سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور ہندوستان جیسے حریف اور اندرا گاندھی جیسی منتقم مزاج ہندو حاکم سے نوے ہزار جنگی قیدیوں کو عزت و احترام سے واپس لانے اور پاکستانی علاقے واگزار کرنے کا انتہائی مشکل کام کر دکھایا۔ عجیب اتفاق ہے کہ شملہ میں ہونے والے ان انتہائی حساس مذاکرات میں بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی مرحومہ بے نظیر کو ساتھ رکھا۔ کیا باپ اپنی جانشین کو سکھا رہا تھا کہ ہارنے کے باوجود کس طرح مذاکرات کے ذریعے فریق مخالف سے اپنا موقف منوا لیا جاتا ہے؟“

ذوالفقار علی بھٹو کی فہم و فراست کی بدولت ہمارے قومی مقدر کی درخشانی کے یہ آثار فرخندہ کی سی ایک عابدہ و زاہدہ گھریلو خاتون کو انقلاب کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ برقعہ پہنے اپنے رفیق حیات شہرت بخاری کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر بھٹو کی قیادت میں رواں دواں جلوس دیکھنے نکل آتی ہیں۔ پھر جب بھٹو کو اقتدار سے محروم کر کے زندان و سلاسل میں جکڑ کر رکھ دیا جاتا ہے تب وہ برقعہ اتار کر تحریک مزاحمت کی قیادت کرنے لگتی ہیں :

”مقدمہ چل رہا تھا۔ اور بیگم نصرت بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر اسی لاہور میں تن تنہا موجود تھیں۔ اس صورت حال نے ہمیں بے چین کر کے رکھ دیا۔ کیا ہم اس وزیراعظم، عوامی لیڈر اور بہت بڑے دانشور کو جلادوں کے ہاتھوں میں اور ان کے اہل خانہ کو بالکل بے سہار چھوڑ دیں؟ یہ تھا سوال؟ ہمارے محلے میں شہرت کا ایک شاعر ادیب دوست رہا کرتا تھا جو شہرت کے پاس آتا جاتا رہتا تھا۔ آج کل وکالت کر رہا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق میں بھی جایا کرتا، نام اس کا زاہد فارانی تھا۔ اس کی تین بہنیں تھیں، بڑی کی شادی ہو چکی تھی دو چھوٹی بہنیں فریدہ (فریدہ کا انتقال ابھی حال ہی میں ہوا ہے اللہ اسے جوار رحمت عطا کرے۔ آمین ثم آمین) اور سعیدہ کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی کبھی کبھار میرے پاس آ جایا کرتیں۔ ہم تینوں اس زمانے کی سیاست پر بھی باتیں کرتیں اور یہ باتیں بھی ہوئیں کہ پارٹی والے بھٹو صاحب اور ان کے اہل خانہ کے لیے کیوں باہر نہیں نکلتے۔ جو مرد کارکن (عموماً غریب) باہر نکلتے اور نعرے لگاتے ہیں انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں، قید اور جرمانہ کی سزا دی جاتی ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ ایسی صورت میں کیوں نہ ہم عورتیں احتجاج کرنے باہر نکلیں، عورتوں کو اکٹھا کریں، پیپلز پارٹی کی لیڈروں اور اسمبلی کی ارکان وغیرہ سے ملیں۔ فریدہ اور سعیدہ نے فوراً میری تائید کی۔ ہم نے ملاقات کے لیے پروگرام بنانے شروع کیے اور سب سے پہلے ہم پیپلز پارٹی کی شعبہ خواتین کی عہدہ داروں سے ملیں۔ مگر انھوں نے ہماری حوصلہ افزائی تو دور کی بات ہے ہمیں بھی ڈرا دیا۔ وہ تو خود خوف زدہ تھیں۔ غالب والی کیفیت تھی: ’وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے‘ ۔

ہم نے ان سے کہا پیپلز پارٹی کی رکن خواتین کے نام پتے دے دو ہم خود رابطہ کر لیں گے لیکن حیرت کہ ان کے پاس نہ نام پتے نہ کوئی فہرست تھی یا اگر تھی بھی تو دینا ہی نہیں چاہتی تھیں۔ میں کبھی بھی پیپلز پارٹی کی رکن نہیں رہی تھی نہ کبھی ان کے جلسے میں گئی۔ لگتا تھا کہ یہ لوگ بھی کاغذی کارروائی ہی کیا کرتی تھیں۔“

جب حالات نے جنرل محمد ضیاء الحق کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی قیدیوں کو ملک بدر کرنے پر مجبور کر دیا تو اس قافلۂ ستم زدگاں میں فقط ایک خاتون فرخندہ بخاری بھی شامل تھی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ :

”جہاز کے اندر کسی کو کچھ علم نہ تھا کہ ہماری منزل کون سی ہے؟ کئی گھنٹے کے سفر کے بعد بتایا گیا کہ جہاز لیبیا پہنچا مگر انہوں نے اسیروں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور پھر طیارہ شام کے شہر دمشق کی طرف اڑا۔ میں سوچنے لگی کہ کوفیوں نے اہل بیعت کی عورتوں کو اسی ملک شام بھیجا تھا۔ وہ پاک نبی زادیاں اسی ملک، اسی زمین، اسی شہر میں آئی تھیں اور کیسے کیسے ظلم و ستم برداشت کیے تھے۔ یہیں حضرت زینب اور حضرت سکینہ دفن ہیں۔ میں ان کے قدموں کی دھول ان کی سنت پوری کرنے آئی ہوں۔ میں سیدانی تو نہیں مگر سیدانیوں کی ماں ضرور ہوں۔ اگر یزید ان سیدانیوں کو ٹھوکر مار سکتا تھا تو میری تو کوئی ہستی ہی نہیں اور یہ سوچ سوچ کر مجھے تھوڑا سا صبر آ گیا۔ فرمان الٰہی ہے کہ اللہ ہر ایک کی ہمت دیکھ کر اسے غم دیتا ہے۔“

shohrat bokhari

پاکستانی سیاست کے جہنم زار میں اترتے وقت انہیں اس امر کا بخوبی اندازہ تھا کہ ان کا مقدر پھول نہیں انگارے ہیں۔ چنانچہ اپنی نظریاتی استقامت سے پھوٹنے والے رنج و الم کے ہر سانحہ پر انہیں کر بلا کے غازی اور شہید یاد آتے ہیں۔ معرکۂ کربلا کے اسباب و نتائج ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ ع: ’قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے‘ ۔ چنانچہ وہ حسینیت کے جذب و جنوں کے ساتھ یزیدان عصر سے برسرپیکار چلی آ رہی ہیں۔

فرخندہ نے اپنی سرگزشت میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مہر و محبت کی روداد پیش کر کے ان عظیم شخصیات کے حسن فکر و عمل کو بڑے جذب و شوق کے ساتھ آشکار کیا ہے۔ بے نظیر واقعتاً بے نظیر ہیں۔ فرخندہ نازاں ہیں کہ:

”اس خاتون کی ذات میرے لیے ایسی ہے کہ اس پر اور اس کے ساتھ اپنے گزارے ہوئے لمحوں پر میں جتنا بھی فخر کروں وہ کم ہے، وہ ہیں ملک و ملت کی شہید، سارے جہاں کی عورتوں کے لیے باعث فخر محترمہ بے نظیر بھٹو جنہوں نے ساری زندگی یزیدی قوتوں سے لڑتے ہوئے گزاری اور اسی معرکۂ حق و باطل میں سر میدان شہادت پائی نہ صرف خود کو امر کر گئیں بلکہ تاریخ کے اوراق پر ایک شاندار جدوجہد کی کہانی بھی چھوڑ گئیں۔ معرکۂ کرب و بلا کی روایات کو اپناتے ہوئے جس طور بے نظیر نے شہادت قبول کی اس نے میرے ذہن کو ایک ہی جھٹکے میں بیدار کر دیا، قرطاس و قلم کا رشتہ جوش میں آیا اور یوں لگا کہ خود بے نظیر مجھ سے تقاضا کر رہی ہوں بلکہ حکم دے رہی ہوں کہ تمہارے پاس میرے کچھ قیمتی لمحے کچھ یادیں ’امانت ہیں‘ وہ مجھے لوٹا دو ۔“

فرخندہ کی ان یادوں میں سے ایک نادر و نایاب یاد انگلستان میں جلاوطنی کے زمانے کا درج ذیل انتہائی خوش کن واقعہ ہے :

”ایک دن میں جام صادق کے گھر جو North London میں تھا نہیں گئی کہ مجھے ایمنیسٹی جانا تھا، گھر میں شہرت اور میں تھے۔ دوپہر کے بعد مجھے ایمنیسٹی کے کچھ کاغذات پہنچانے جانا تھا۔ دروازہ بجا میں نے کھولا، کیا دیکھتی ہوں کہ بے نظیر اور یاسمین پھول لیے کھڑی ہیں۔ میں مارے خوشی کے پاگل ہو گئی ہکا بکا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ مجھے غالب کا شعر یاد آ رہا تھا:

وہ آئیں ہمارے گھر خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

کوئی دوپہر گیارہ بجے کا ٹائم تھا۔ میں نے جلدی جلدی جوس پیش کیا۔ ابھی شہرت بھی وہاں پر تھے۔ بے نظیر کہنے لگیں کہ تمہارا گلہ دور کرنے آئی ہوں۔ اب تو خوش ہونا میں نے کہا کہ میں تو over the moon ہوں پھر کہا وہ لال دال گھر میں ہے میں نے کہا جی۔ کہا جلدی سے پندرہ منٹ میں دال چاول پکاؤ میں نے دونوں چولہے جلا کر پندرہ منٹ میں دال چاول تیار کیے کھا کر بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ تم بہت اچھا پکا لیتی ہو۔ کچھ کاغذات میرے حوالے کیے۔ گلے ملیں اور ہنستی مسکراتی ہوئی خدا حافظ کہا اور نیچے چلی گئیں۔ ہم دونوں ساتھ نیچے تک گئے یہ دن میرے لیے عید کے دن سے کم نہیں تھا۔ ”

فرخندہ کی یہ خوشی بے نظیر کی محبت بھری انسان دوست شخصیت سے پھوٹی تھی۔ فرخندہ نے اپنے نام بے نظیر کے خطوط سے ان کی شخصیت کو یوں متعارف کرایا ہے :

”بی بی کے خطوط کا انداز بہت خوبصورت تھا۔ شروع میں تاریخ لکھتیں Dear sister Farkhanda Bokhari اور خط کے آخر میں Your sister Benazir Bhutto کبھی کبھار P۔ S بھی لکھا کرتی تھیں۔ لکھائی اتنی خوبصورت کہ موتی پروئے ہوئے ہوں۔ بچے بڑے بوڑھے سب آسانی سے پڑھ سکتے تھے۔ Daughter of the East لکھنے سے پہلے ہی اندازہ ہوتا تھا کہ بی بی کئی کتابیں لکھے گی اور انہوں نے کتابیں لکھیں۔ دراصل بی بی صاحبہ نے اپنے غم کا صحیح استعمال کیا تھا۔ آخری کتاب Reconciliation، Islam، Democracy and the West یہ بی بی صاحبہ کی آخری کتاب ہے۔ یہی ان کا نظریۂ حیات تھا۔“

فرخندہ نے ذوالفقار علی بھٹو پر اپنی تحریر کو ”فرزند اسلام“ کا عنوان بخشا ہے۔ یہاں انھوں نے بھٹو شہید سے اپنی ”بے پناہ جذباتی وابستگی کی عقلی بنیادیں“ پیش کی ہیں۔ اس باب میں بھٹو شہید کے نظریہ و عمل پر تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان کے تناظر میں بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ انھوں نے بھٹو صاحب کے مضامین و مکتوبات اور تقاریر و تصنیف کا بڑی دقت نظر سے جائزہ لیا ہے۔ یہ گویا پاکستان کی مختصر ترین حقیقی تاریخ ہے۔ خود فرخندہ کی اپنی زندگی کے نشیب و فراز ان کے رفیق حیات شہرت بخاری مرحوم کی سوز محبت کی یادوں سے عیاں ہیں۔ خوش نصیبی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے فوراً بعد شہرت اور فرخندہ کے مابین ’تومن شدی من تو شدم‘ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی اور یوں شہرت اپنی زندگی کی آخری سانس تک جذب و جنوں کی گرفت میں رہے۔

فرخندہ نے بھٹو خاندان کی محبت میں پاکستان کی جیلوں میں تین سال تک اذیتیں سہنے کے بعد آٹھ سال جلاوطنی کے عذاب برداشت کیے۔ اپنی شہادت کے بعد بھی بے نظیر فرخندہ کے دل و دماغ میں زندہ و پائندہ ہیں۔ اس کا بین ثبوت ان کی تازہ ترین کتاب ”خواب اور تعبیریں“ ہے۔ یہ کتاب فرخندہ کی شاعری کے ساتھ ساتھ ایک افسانہ ”ماشاء اللہ“ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے پس سرورق پر بے نظیر کے ساتھ فرخندہ کی تصویر بھی ہے اور شہرت بخاری کے ساتھ دور شباب کی ایک تصویر بھی۔ ان تصویروں کے ساتھ ساتھ بے نظیر کا آٹو گراف اور فرخندہ کا یہ قطعہ بھی جلوہ گر ہے :

جمہور کا نعرہ سر کرتی وہ آگے بڑھتی جاتی تھی
جس دھج سے وہ مقتل میں پہنچی بھٹو کی یاد دلاتی تھی
وہ امر ہوئی تاریخوں میں نام اس کا فلک پر روشن ہے
وہ مٹی خود پر نازاں ہے، جس خاک میں اس کا مدفن ہے
کتاب کے اندر ”شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی نذر“ کے زیر عنوان لکھتی ہیں :
کیا اس کی مثل کوئی ہو گا، جس کی نہ کوئی بھی نظیر ہوئی
کیا اس کا بدل کوئی ہو گا جو کربل کی تصویر ہوئی
اے خواب وہ جان کی بازی تھی اور جان کی بازی ہار گئی
ہاں جان کی بازی ہار گئی پر عشق کی بازی تار گئی
شعائر اسلام پر سختی سے کاربند فرخندہ بخاری نے کیا خوب کہا ہے کہ:
میں درویش ہوں، پیر و مرشد ہوں اپنی
مصیبت میں دست دعا ہو گئی ہوں
اس پہ مجھے مولانا حسرت موہانی بے ساختہ یاد آئے :
درویشی و انقلاب مسلک ہے مرا
صوفی مومن ہوں، اشتراکی مسلم
یہ الگ بات کہ فرخندہ اشتراکی کی بجائے مصطفوی ہونے پر نازاں ہیں :
میں سرخرو تھی لشکر کوفہ کے سامنے
میں ہوں، سپاہ شام نہ جانے کدھر گئی

کتاب کی آخری نظم کا عنوان ”بے نظیر بھٹو شہید کے نام خراج عقیدت“ ہے۔ فی الحقیقت اس کتاب میں شامل تمام تر شاعری بے نظیر بھٹو کی سیرت و کردار سے پھوٹی ہے۔ درحقیقت یہ بے نظیر نامہ ہے۔ فرخندہ بخاری کی ہر دو کتابیں شعر و ادب کے آئینے میں ہماری حقیقی قومی تاریخ کا جیتا جاگتا عکس ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جسے ہمارا حکمران طبقہ فراموش کردینے کی سعیٔ لاحاصل میں مصروف چلا آ رہا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments