اردو کی سماجی لغت ملوکیت، استعمار اور صنفی امتیاز کے تناظر میں


”اردو کی سماجی لغت ملوکیت، استعمار اور صنفی امتیاز کے تناظر میں“ ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی کی تازہ تحقیقی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر صاحب معاصر شعر و ادب کا ایک توانا اور معتبر نام ہیں۔ علم و ادب کے استاد ہونے کے ناتے اپنے طالب علموں کی تعلیم کے ساتھ تربیت ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ آپ طالب علموں کے ساتھ ساتھ سماج میں منفی رویوں کی مذمت اور مثبت اقدار کے فروغ کے سلسلے میں ہمیشہ متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کی حالیہ تصنیف بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو ایک اہم اشاعتی ادارے رنگ ادب پبلی کیشن کراچی سے دیدہ زیب انداز میں شائع ہوئی ہے۔

کتاب کا سرورق بھی خوبصورت اور کتاب کے موضوع کے حوالے سے بھرپور معنویت رکھتا ہے جس میں ایک گورے کو ایک کالے سے برتر اور بلند دکھایا گیا ہے جو ہزار ہا ترقی اور روشن خیالی کے باوجود دنیا بھر کے انسانوں کا عمومی رویہ ہے۔ ابتدا میں علامہ اقبال کا ایک خوبصورت شعر درج ہے جس میں اس طرح کے امتیازات کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے

تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

کتاب کا انتساب ”عروج پانے والے زوال آمادہ افراد کے نام“ ہے اور دیباچہ سے پہلے مساوات انسانی اور احترام آدمیت کے حوالے سے قرآن پاک کی ایک آیت ایک عربی قطعہ اور اس کا اردو ترجمہ درج ہے۔

دنیا میں طاقت کا قانون ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے تحت دنیا کے اکثر ممالک استعماریت اور ملوکیت کو بھگتتے رہے ہیں۔ ان مقتدر حکمرانوں نے اپنی عزت و عظمت کی دھاک بٹھانے کے لیے زبانوں کو بھی ایک ٹول کی طرح استعمال کیا اور مخصوص قسم کے الفاظ، محاورات اور تصورات زبان کے ذریعے عوام الناس میں راسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔

ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند کی بدقسمتی کہ یہ سرزمین بھی طویل عرصہ بادشاہت اور ملوکیت سے برسرپیکار رہی بعد ازاں ایک صدی نوآبادیاتی آقاؤں کو بھگتنا پڑا۔ یہاں کی زبان ( اردو ) کے لسانی ذخیرے میں کئی ایسے الفاظ و محاورات داخل کیے گئے جس سے ان آقاؤں کی عظمت اور شان و شکوہ کا ہالہ قائم و دائم رہ سکے۔ اس لغت میں اس طرح کے امتیازات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مقتدر حلقے کے علاوہ عورت پر مرد کی فوقیت اور معذور پر تندرست کی بالادستی اور تحقیر آمیز رویوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اپنی اپنی زبانوں کے تحقیقی اور تنقیدی مطالعات جاری و ساری ہیں اور وہاں کے اہل دانش اپنی زبان و محاورات سے اس طرح کے الفاظ نکال رہے ہیں جس سے کسی طرح کا کوئی صنفی، سماجی و استعماری امتیاز جھلک رہا ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح کے مطالعات نہیں ہو رہے یا اس زاویے سے نہیں سوچا جا رہا ۔ جو اہل علم و دانش اس طرح کے غیر انسانی امتیازات کی نشاندہی کر رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اس پر سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان پر قدغن لگائی جاتی ہیں یا انہیں چپ کرانے کی کی کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ مقتدر طبقے کی نام نہاد عزت، عظمت اور برتری پر کوئی حرف نہ آئے۔ اس لغت کے دیباچے میں درج ہے :

”اردو کی سماجی لغت کی اشاعت کے سلسلے میں ایک سرکاری ادارے نے حامی بھری اور منظوری کا خط جاری کیا لیکن بعد ازاں ایک مراسلے کے ذریعے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کے ساتھ مسودہ واپس کر دیا۔“

یعنی ہم اور ہمارے ادارے نوآبادیاتی اور صنفی امتیازات کے خاتمے کے لیے خود ہی سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ کسی حد تک اس فضا کو برقرار رکھنے میں سہولت کار ہیں اس لیے وہ نظام حکومت تاحال جاری و ساری ہے جو نو آبادیاتی عہد میں قائم ہوا تھا۔ مابعد نوآبادیاتی عہد بھی اسی دور کا تسلسل ہے۔

اس لغت میں الفاظ کو الف بائی ترتیب سے درج کیا گیا ہے، لفظ ”اخوت“ کی ذیل میں مولف لکھتے ہیں :

”اخوت کا لفظ اخ سے ہے جس کا معنی بھائی ( ماں، باپ، چچا، ماموں یا خالہ کا بیٹا) اخوت کے جتنے بھی معانی (بھائی بندی، بھائی چارہ وغیرہ ) دیے گئے ہیں اس پر غور کیا جائے تو صنفی استحصالیت کا عکس واضح ہے۔ یعنی مراد تو معاشرے کے تمام افراد کے مابین باہمی محبت ہے لیکن اس لفظ کے باطن میں عورت کا وجود نظر نہیں آتا۔ (ص 14 )

اسی طرح ہمارے معاشرے میں جسمانی اعضا کی معذوری کو مختلف الفاظ و محاورات کے ذریعے جس طرح شرمندگی اور حقارت سے جوڑا جاتا ہے وہ اس لغت میں عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔ لفظ ”اندھا“ کی ذیل میں ایک طویل بحث کی گئی ہے۔ بینائی کا نہ ہونا ایک معذوری ہے لیکن ہمارے سماج میں اندھے کا لفظ معرفت سے محروم، بے بصیرت، جاہل، بے علم، احمق کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور اردو میں اندھا بگلا، اندھا بے ایمان، اندھا دوزخی، اندھا ملا ٹوٹی مسیت جیسے محاورات کثرت سے ملتے ہیں۔

لفظ ”حرامی“ کے بارے میں اردو کی سماجی لغت میں درج ہے :

”حرامی: کلمہ دشنام، گالی، چور، سارق، بیسوا پتر، حرام کا جنا، ولد الزنا۔ مذہب، اخلاقیات اور قانون کی رو سے بے نکاح جنسی تعلق ممنوع ہے۔ لیکن ایسے تعلق سے جنم لینے والا وجود کسی طور پر نجس یا حرام قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ویسا ہی معصوم اور پاکیزہ فرد ہے جیسا کہ شرعی تعلق سے جنم لینے والا۔ شرعی لحاظ سے وہ اس گناہ کا ذمہ دار ہرگز نہیں ہے جو اسے وجود میں لانے والے افراد نے کیا۔“ (ص 49)

اسی طرح لفظ ”سرخ رو“ جسے ہمارے سماج میں کامیابی، فتح، عزت، خوشی، احترام کے معنوں میں لیا جاتا ہے اس پر بحث کرتے ہوئے مولف تحریر کرتے ہیں :

” سرخ رو کا لفظی معنی“ سرخ چہرے والا یا سرخ رنگت والا ”فاتح اقوام اور سرخ نسلوں نے سرخ رنگ کو عزت اور وقار کے نشان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور ترکی کے جھنڈوں میں سرخ رنگ غالب ہے۔ حکومتی ایوانوں اور اعلی اداروں کے قیام کے احاطے کو Red Zone قرار دیا جاتا ہے۔ کسی مہمان کا استقبال کرنا ہوتو اس کے راستے میں سرخ قالین بچھایا جاتا ہے۔“

اسی طرح ”سیاہ“ جو غلام اور محکوم قوم کا رنگ ہے اس سے ننگ، شرم، ذلت اور رسوائی جوڑ دی گئی ہے۔ جس طرح انگریزی میں Black سے Black List، Black mail، Black market، Black money اور Black sheepجیسے منفی الفاظ بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح اردو میں بھی لفظ بلیک بہ طور سلینگ استعمال ہوتا ہے۔ سیاہ بطن، سیاہ بخت، سیار رو کی تراکیب اس کی مثال ہیں۔

شیر جیسے خونخوار اور جنگلی جانور کو ہمارے سماج میں بہادر آدمی، جرات مند، دلیر، مرد میدان، مراد لیا جاتا ہے۔ اس لغت کے مولف لکھتے ہیں :

”عہد ملوکیت کی مقتدر طاقتوں نے شیر کی خونخواری اور خوفناک صفات کی بنیاد پر اسے جنگل کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے اپنی حیثیت کو نہ صرف مستحکم کیا بلکہ اپنی ظالمانہ کارروائیوں کا جواز بھی پیدا کیا۔ اردو میں مستعمل عربی لفظ“ ہمت ”کا معنی شیر کی دھاڑ ہے جبکہ انگریزی لفظ Prideکا معنی شیروں کا جتھا۔“

اس کے برعکس ”گدھا“ جو ایک بوجھ لادنے والا، سواری کے کام آنے والا محنت کش جانور ہے جو ہاتھی یا گھوڑے کی طرح امیر طبقات کی بجائے غریب افراد کے زیر استعمال رہتا ہے۔ اسے ہمارے معاشرے میں احمق، بے سلیقہ اور بے وقوف کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جو دراصل غریب طبقات اور محنت کش افراد کی تضحیک ہے۔

”آغا“ سے شروع ہونی والی اس لغت کا اختتام ”ہیجڑا“ پر ہوتا ہے۔ اس لغت میں نسلی، صنفی اور استعماری زاویے سے جس طرح اردو زبان و ادب، ذخیرہ الفاظ اور محاورات و ضرب الامثال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے وہ چشم کشا ہے اور قاری کو دعوت فکر دیتا ہے۔ اس لغت میں اس طرح کی زبان کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جہاں مساوات اور برابری ہو، جہاں تحقیر، رسوائی اور ذلت کو کسی خاص صنف، جسمانی معذوری اور کمزوری کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ جب تک ہماری زبان میں ان الفاظ و تراکیب کی بجائے انسان دوست الفاظ نہیں آئیں گے ہمارے سماج میں بھی انسان دوست رویوں کی نشوونما مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments