کچھ غیر دیانتداری کی باتیں


Loading

دنیا کے سب معاشروں میں جینوئن ادیبوں کے ساتھ ہمیشہ یہ المیہ رہا ہے کہ یا تو معاصر زمانے نے ان کی قدر نہیں کی یا پھر ان کے کام کو چوری سے مطلب اپنے نام سے چھپایا جاتا رہا ہے۔ تاریخ بعد میں اس کی قدر قیمت کس طرح متعین کرتی ہے یہ ادیب کا مسئلہ نہیں۔ ملکی، غیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت، ادبی جلسے، جلوسوں میں اپنی موجودگی، طاقت ور لوگوں کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر ان کی تعریف میں کلمے پڑھنا، ہر وقت دیواروں میں چسپاں اشتہار بنے رہنا، ٹی وی کی سکرین میں بیٹھ کر عام آدمی کا المیہ بیان کرنا اور خود مہنگے درزیوں سے تیار ہو کر نمود و نمائش کروانا، دو چار ٹٹ پونجیوں کو بیٹھا کر ادیبوں کو ادبی قبیلوں سے خارج کرنا، غیر شاعروں کا بستہ بردار بننا، جینوئن ادیبوں کا مسئلہ تھا نا کبھی رہا ہے۔ پریم چند کی طرح ان کا کام تو ادب کی خدمت ہوتا ہے، جس کو وہ پوری جاں فشانی سے انجام دیتے ہیں۔

محمد سلیم الرحمن (میرے مرشد) سے ایک بار ملاقات میں، میں نے پوچھا کہ سر یہ ادیب لوگوں کو مرنے کے بعد ہی کیوں معاشرے کندھوں پر سوار کر لیتے ہیں، دفن بھی نہیں ہونے دیتے اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ بھی اس سارے منظر نامے سے دور ادب میں بہ حیثیت شاعر، افسانہ نگار، تنقید نگار اور تراجم کر کے ایسی خدمت سر انجام دے رہے ہیں کہ شاید ہی ادب اس احسان کو سر سے اتار سکے۔

جواب: انھوں نے کہا یہ صرف ہند و پاک کا المیہ نہیں ہے۔ کتنے غیر ممالک کے شاعر ادیب ہیں۔ جن کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ مثلاً ناول نگار ڈی ایچ لارنس کے ساتھ کیا ہوا، جب زندہ تھا تو فاقوں مرتا تھا۔ بعد میں ہی اس کی دریافت ہوئی ہے۔ ان کے ناول اب بغیر اجازت شائع کیے جا رہے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو کوئی جان رہا ہے یا نہیں، لوگ آپ سے واقف ہیں یا نہیں، کام اہم ہوتا ہے جو زندہ رہتا ہے، رکھتا ہے۔ میں اور میرے جیسے کئی لوگ مر چکے ہیں یا مرنے والے ہیں، مگر کام میں صلاحیت ہو تو حیات جاوداں عطا ہوتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو میں نہیں جانتا اور نا جاننا چاہتا ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ادیبوں نے تو ہر دور میں ایسی زندگی گزاری ہے۔

ان کے جواب نے سارا منظر نامہ روشن تو کر دیا مگر اس قدر تنہا رہ کر اور گوشہ گمنامی میں بیٹھ کر درست معنوں میں ادب کی خدمت انجام دینا ہی ان کی زندگی قرار پائی ہے۔ ہمارے آس پاس ادیبوں کی حق تلفی کوئی نئی بات نہیں۔ لگے ہاتھوں ایک واقعہ بھی سن لیں۔ خورشید کمال عزیز کے والد شیخ عبدالعزیز جو کالونیل دور کے پہلے مسلمان، جو تحقیق کے جدید اصولوں سے واقف تھے۔ یہ واحد محقق تھے جو پاکستان کے حصے میں آئے۔ یہ کھاتے پیتے گھرانے سے تھے۔

بھاٹی چوک میں ان کا گھر بھی تھا اور لندن میں علامہ اقبال اور سر عبدالقادر ان کے پاس رہے بھی تھے۔ بیرسٹر تھے اور اپنے وقت کی پڑھی لکھی شخصیت میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ قیام لندن کے دوران ان کو ہیر سے محبت ہو گئی اور ساری جمع پونجی انھوں نے ہیر کے نام کردی۔ یعنی وہ ہیر وارث شاہ کے متن کو تیار کرنے لگے، اس سلسلے میں ان کا بھاٹی چوک والا گھر بھی بک گیا اور قریب قریب ساری جائیداد بھی متن کی نذر ہو گئی۔ وکالت بھی نہ کی بہرحال متن تیار ہو گیا اور اوریئنٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر محمد باقر نے وہ متن لیا کہ ہم چھاپ دیں گے۔

شیخ صاحب ان نوسرباز کو کہاں جانتے تھے، انھوں نے متن تو شائع کیا مگر اغلاط سے پر اور مصرعے تک بدل دیے گئے۔ شیخ صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیا کر دیا۔ پھر شہر کے کچھ لوگوں کے کہنے پر متن کو درست کر کے چھاپا تو گیا، کچھ لفظ اور جملے درست بھی کیے گئے مگر متن مکمل درست نہ شائع کیا گیا۔ بات یہ تھی کہ بابا مرنے والا ہے، مر جائے بعد میں اپنے نام کے ساتھ شائع کر لوں گا۔ اس طرح کا ہاتھ انھوں نے محمود شیرانی کے ساتھ بھی کیا تھا۔

خیر انھوں نے شیخ صاحب سے لیے قلمی نسخے کشمیر کی یونی ورسٹی کو بیچ دیے۔ ادب جن کے اندر سما جاتا ہے وہ تعصب، غرور اور نفرت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور ادب پڑھنے اور پڑھانے والے نے اپنے محقق کے ساتھ کیسا اچھا سلوک کیا۔ (یہ سب خورشید کمال عزیز نے اپنی انگریزی کتاب جس کو اردو ترجمہ بھی خود کیا ہے۔ ’وہ حوادث آشنا ”کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ جب انھوں نے والد صاحب کا متن دوبارہ خود چھپا تو ڈاکٹر سعید بھٹا کے پاس ہی اس کا دیباچہ لکھنے کے لیے آیا تھا مگر انھوں نے شیخ صاحب کی عظمت میں ان سے کہا کہ آپ ہیر وارث شاہ کے ساتھ اپنے والد پر لکھی کتاب کا ایک باب شامل کر دیں۔ انھوں نے ڈاکٹر سعید بھٹا کے مشورے کو مانا اور آج خورشید کمال عزیز کی مرتب کتاب میں اپنی کتاب کی تلخیص دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں اور بھی دلچسپ واقعات شامل ہیں۔)

ادیب حساس اور شریف النفس انسان ہوتا ہے۔ ان کی بات نہیں کر رہا جو یا تو اپنی کلاس بدلنے گاؤں سے شہر آتے ہیں یا پھر چند بے خیال جملوں کے کندھوں پر بیٹھ کر معراج پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ میں مانتا ہوں ادیب کو شہرت کبھی راس نہیں آتی اور نا ہضم ہوتی ہے، مگر کسی حد تک مخالفت اسے زندہ بھی رکھتی ہے۔ منٹو کو شرابی کہا گیا کہ اجی وہ تو ہر وقت نشے میں غرق رہتا تھا، افسانے لکھتا ہی اس لیے تھا کہ شراب کے لیے پیسے ملتے رہیں۔

میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ایسے افسانے جو انھوں نے عالمی معیار کے لکھے اور بے تامل ان کو عالمی ادب کے سامنے رکھا جا سکتا ہے کس طرح لکھے گئے؟ اتنی بھرپور فلمی، ادبی اور سماجی زندگی جن میں ان کے دوست احباب (فلمی دنیا کے قریبا تمام لوگ منٹو صاحب کو جانتے تھے ) ، شادی اور تین بچوں کا ہونا کس طرح ممکن ہوا۔ منٹو کو مارا گیا ہے ہم قاتل ہیں اس کے، یہ سماج قاتل ہے۔ ہم سب تماش بین ہیں، ڈگڈگی بج رہی، بندر ناچ رہا ہے اور دیکھنے والوں کا رش ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسی کتنی مثالیں ہمارے سماج کو منہ بنا بنا کر دیکھا رہی ہیں۔

زبانیں اور اس میں لکھا گیا ادب کس طرح کسی ایک ادیب کی وجہ سے زندہ و باقی رہتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو تاریخ میں ایک شخص ہی ہوتا ہے جو مرتا نہیں۔ وہ مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ لکھاری کو اپنی زبان سے پیار ہوتا ہے، سچ پوچھیں تو ملک کہ ہر ناگری کو اپنی زبان سے عشق ہونا چاہیے۔ ایسا ہی عشق میں نے ڈاکٹر سعید خاور بھٹا کے اندر دیکھا ہے۔ جب ایک بڑے آدمی نے ان کو بلایا اور کہا کہ یہ پچاس ہزار روپے ہیں اس کاغذ پر سائن کر دو باقی کے پچاس ہزار بعد میں ملیں گئے۔ کام آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ اپنی پنجابی کہانیوں کا اردو ترجمہ کرنا ہے تو انھوں نے کہا ”اگر میں نے بھی اردو لکھنی ہے تو پنجابی کس نے لکھنی ہے۔“ جب راجا پورس کی کہانی (روای کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ سعید بھٹا پہلے آدمی ہیں جنھوں نے راجا پورس کو آن کیا۔ ورنہ ہم تو سکندر اعظم کی بغل سے نکلنے پر تیار ہی نیں تھے۔ پوری سنسکرت میں کہیں بھی راجا پورس کی بہادری اور مزاحمت کا ذکر نہیں) پنجابی زبان میں لکھی اور ہماری نصابیوں کو آئینہ دکھایا۔

ان کے کام کو اورینٹلسٹ بہ طور حوالہ ان کا کام شامل کرتا ہے۔ خاص طور پر ان کا مضمون جو انھوں نے آرسی ٹیمپل پر لکھے ہیں وہ اعلیٰ مرتبے کے ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی شخص ارسطو کی بوطیقا ان سے بہتر پڑھانا جانتا ہو، انڈیا میں شمس الرحمن فاروقی تھے اللہ ان کو غریق رحمت کرے۔ انھوں نے پنجابی ادب کے لیے اپنی زندگی کے قریب قریب 40 سال دریاؤں کے کنارے کنارے بنا راستوں کے خار دار جھاڑیوں میں گزرتے ہوئے اور دامن کو تار تار کروا کر گوٹھ گوٹھ گھوم کر کہانی سنانے والوں سے کہانیاں اکٹھی کیں۔

راوی چناب اور جہلم کے چڑھتے، اترتے پانیوں کے ساتھ سفر کیا، یہ تمام کہانیاں سن سن کر جمع کیں۔ خود ان کا کہنا ہے کہ جہاں کسی گاؤں میں پتہ چلتا کہ کوئی کہانی سنانے والا موجود ہے وہاں پہنچ جاتا اور اس سے کہانی ریکارڈ کرتا۔ انسان کے پاس آخری زندگی کو بہتر گزارنے کے لیے مٹھی بھر دولت ہوتی ہے جو ساری عمر پائی پائی کر کے جمع کرتا ہے انھوں نے یہ بھی پنجابی کہانیاں اکٹھی کرتے ہوئے لٹا دی۔ اس وقت وسائل بھی ایسے نا تھے ایک ہی کیسٹ پر تین تین بار کہانیاں کو ریکارڈ کرنا پڑا۔

اپنی صحت تک کا خیال نا کیا۔ ان کہانیوں کو سن کر پھر ان کو لکھنا اور اکثر مقامات کو دوبارہ درست کرنا وہی جانتے ہیں جو ’میر عالم‘ کے نخرے اٹھنا جانتے ہوں۔ ان کے تمام دوست جانتے تھے کہ جس راستے پر اپنا خون جگر سعید بھٹا صرف کر رہا ہے صدیوں میں کئی ادارے بھی مل کر اس کی معراج تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان کے قریبی دوستوں نے ہاتھ کیا بٹانا تھا ان کے کام پر نظر جما کر بیٹھ گے۔ کبھی ریکارڈنگ کیسٹیں چوری کروائی جانے لگی تو کبھی کہانیوں کو لپی بدل کر عالمی سطح پر نام کمانے کی فکر ہونے لگی۔

ابھی اس کی تازہ مثال مشتاق صوفی نے کمال دین کی کہانیوں کو ان کے نام کو ظاہر کیے اور اجازت لیے بغیر ان کا انگریزی ترجمہ کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ خود انھوں نے کمال دین سے کہانیاں سن کر لکھیں۔ ادب میں اس سے زیادہ بھونڈا اور خطرناک مذاق بھی کہیں ہو سکتا ہے۔ (ذرا ان سے پوچھیں کمال دین کہاں کا رہنے والا تھا گاؤں کا نام ہی بتا دو تو ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔) اور ملک کے سرکاری ادارے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو استعمال کر کے شائع کروایا۔ کیا ہمارے ادبی ادارے اتنے بے خبر ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ کہانیاں کس نے اکٹھی کیں، پہلے کہاں سے چھپی ہیں اور اصل کام کس کا ہے۔ پھر بھی بددیانتی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا کتابی صورت میں آنے سے پہلے یہ کہانیاں رسائل میں شائع ہوئیں جس پر سعید بھٹا کا نام تک غائب کر دیا گیا تھا۔ مشتاق صوفی نے یہ حرکت پہلی بار نہیں کی۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے نمونے پیش کرتے رہتے ہیں۔ (کسی وقت آفتاب حسین اور عابد حسین عابد نے جو ان کے ساتھ کیا وہ قصہ بھی سناؤں گا) ۔

کمال کہانی پہلی بار 2006 ء میں سانجھ پبلی کیشن لاہور سے شائع ہوئی اور چند ہی ماہ کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن نکالنا پڑا۔ کمال دین کے متعلق انھوں نے کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ جب انھوں نے کمال دین سے کہانیاں سنی اور ویسے ہی لکھ لی، تو کچھ ہی دنوں کے بعد کمال دین کا انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹر سعید بھٹا کے علاوہ شاید کوئی پنجابی جاننے اور پڑھنے والا کمال دین سے ملا ہو، پھر مشتاق صوفی نے کیسے ان سے کہانیاں سن لیں اور لکھ بھی دیا کہ میں نے خود سن کر لکھی ہیں؟

لاہور شہر میں یا پاکستان سے باہر کون ہے جو پنجابی ادب سے عشق کے حوالے سے ڈاکٹر سعید بھٹا کو نہیں جانتا۔ یہی لوگ جو ان سے ہاتھ کر رہے ہیں ان کے گہرے اور قریبی دوستوں میں رہے ہیں۔ پنجابی کے علاوہ اردو ادب پڑھنے والے بھی ڈاکٹر سعید بھٹا سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ابھی حال کے ادبی دانش وروں کو ہر وقت ٹی وی کی سکرین پر اٹھتے، جاگتے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے اس بات کو جانتے ہوئی بھی کہ مشتاق صوفی نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے، کوئی بات تک نہیں کہی۔ کیا وہ ڈرتے ہیں کہ حق بات نہ کہیں؟ یا ادیب کی حق تلفی میں ان کا ہاتھ بھی شامل ہے؟ یا پھر وہ ان کے کام سے خائف ہیں کہ کہیں سعید بھٹا زندہ ہی نہ رہ جائے تو انھیں یاد رکھنا چاہیے انٹلیکچوئل دماغ کبھی بھی نہیں مرتا۔ ڈاکٹر سعید بھٹا ہمارا قومی سرمایہ ہے۔ پنجابی ادب کی شناخت ہے۔ اس وقت پنجابی میں کوئی بڑا نام ان سے بڑا دکھا دیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر سعید بھٹا سے پنجابی کی شناخت ہے۔

اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہے۔ میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو کڑوی تو ہیں مگر ان کو نگلنا ہی پڑے گا۔ پہلے دانش ور ہمارے سرمایہ افتخار وجاہت مسعود ہیں جو ڈاکٹر سعید خاور بھٹا کے کلاس فیلو بھی ہیں اور گہرے دوست بھی اور ڈاکٹر سعید بھٹا کی کتاب ”دیس دیاں واراں“ کا انتساب بھی وجاہت مسعود کے نام ہے۔ دوسرے ڈاکٹر ناصر عباس نئیر ہیں جن کے بغیر شاید ہی کوئی ادبی محفل تکمیل پاتی ہو۔ اپنے وچاروں کا پرچار وہ ملک کے کونے کونے میں کر رہے ہیں۔ جس شہر کا خمیر ڈاکٹر سعید بھٹا ہیں اسی شہر سے ڈاکٹر ناصر عباس نئیر ہیں۔ ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی تھی جس پر کچھ گاؤں اور جگہوں کے نام غلط تھے تو ڈاکٹر سعید بھٹا نے اصلاح کی اور وہ تمام مقامات درست کیے۔ پنجاب یونی ورسٹی میں انھوں نے ملازمت کی وہاں کے تمام شعبہ جات والے ڈاکٹر سعید بھٹا کو جانتے ہیں۔ عالمی سطح پر پنجابی کی تنظیمیں ہیں۔ ملک پاکستان میں بھی پنجابی ماں کی بولی دیہاڑ مانتے ہیں۔ اسمبلیوں تک میں پنجابی کا نام سنا اور لیا جاتا ہے۔ بہت سارے ادیبوں کے اپنے مختلف طرز کے چینل ہیں۔ فرحت عباس شاہ روز کسی نا کسی مدرس کی لا اور پھا کر رہا ہوتا ہے۔ غیر شاعروں کو شاعر اور شاعروں کو غیر تخلیق کار بنا رہا ہے، مگر ان سب کی طرف سے خاموشی قابل افسوس ہے۔

اس سے بہتر تو انجمن ترقی پسند مصنفین ہیں جو اپنی مدد آپ نے تحت نوجوانوں کی ذہنی پرورش کر رہی ہے اور کسی حکومتی ذرائع سے فنڈ نہیں لیتی۔ اس نے ”سنجاب“ اور ”چار سیانے“ پر بھرپور سیشن کیا اور خراج تحسین پیش کیا۔ مذکورہ بالا پہلی کتاب مضامین کی اور دوسری کہانیوں کی کتاب ہے۔ پھر اسلام آباد کی نمل یونی ورسٹی سے ڈاکٹر عابد سیال نے ان کی کتب پر پروگرام رکھا۔ ان کے قریبی دوستوں کی طرف سے کوئی قابل مذمت لفظ نہ نکلنا نہ لکھنا ثابت کرتا ہے کہ وہ ظالم کے ساتھ ہیں۔ پر انھوں یاد رکھنا چاہیے ابھی تازہ تازہ ہماری آستینوں پر قاضی عابد کے خون کے چھینٹے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments