تحریک انصاف کی حماقتیں


مغل بادشاہ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء پڑھی لکھی اور شعر و شاعری سے شغف رکھتی تھی۔ ایک روایت کے مطابق وہ گورنر عاقل خان سے محبت کرتی تھی۔ عاقل خان نوکری چھوڑ کر گھر آ گیا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار محل کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ زیب النساء نے اسے دیکھ لیا۔ تاسف بھرے لہجے میں بولی۔ شنیدم ترک خدمت کرد عاقل خان ز نادانی۔ (سنا ہے کہ عاقل نے نادانی میں ملازمت چھوڑ دی ہے۔ ) اس پر اس نے فوراً جواب دیا۔ چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی ( عقلمند ایسا کام ہی کیوں کرے کہ بعد میں ندامت اٹھانی پڑے ) اس وقت سے یہ جملہ ضرب المثل بن گیا۔

تحریک انصاف کی قیادت کا المیہ، یہی نادانی رہی ہے کہ وہ پہلے فیصلے اور اعلامیے جاری کرتی ہے اور بعد میں اس پر سوچ بچار۔ عمران خان اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں لیکن ان کی پہاڑ جتنی بڑی انا انہیں نیچے نہیں اترنے دے رہی۔ وہ ایک ایسے گرداب میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کا انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ انہیں بار بار موقف بدلنا ”یوٹرن“ لینا پڑتا ہے اگر جذبات سے ہٹ کر معروضی حالات کے تحت اقدامات اٹھائے جاتے تو ان کے لیے حالات بہت مختلف ہوتے۔ تحریک انصاف نے ایک جانب فارم 45 میں تبدیلی سے کامیاب امیدواروں کو ہرانے کا الزام اس شد و مد سے لگایا کہ عالمی سطح پر اس کی گونج سنائی دی۔ جب دوبارہ گنتی شروع ہوئی تو صورتحال الٹ ثابت ہوئی اب مطالبہ دوبارہ گنتی روکنے کا ہے۔ ماضی میں بھی 35 پنکچر کا بیانیہ ثابت نہ ہوسکا تو اسے سیاسی بیان قرار دیا گیا۔

اس سے اعتبار مجروح ہونا فطری امر ہے۔ اسی صورتحال کا خان صاحب اور پی ٹی آئی کو سامنا ہے۔ ایسے کمزور فیصلے کیے گئے جن کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہ تھی پشاور ہائی کورٹ کا متفقہ فیصلہ اس امر پر دال ہے کہ قانونی طور پر کوئی گنجائش ہی باقی نہ تھی جس کے بعد مخصوص نشستوں سے محرومی پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی ہے۔

عمران خان نے ایک طرف کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم فوج کے خلاف نہیں۔ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے، دوسری جانب ان کی جماعت فوج کے خلاف مظاہرے اور آئی ایم ایف کو قرض فراہم نہ کرنے کی مہم جوئی بھی کر رہی ہے۔

پاکستان کا احوال یہ ہے ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“ ۔ قرضوں کی ادائیگی کی لٹکتی تلوار سر پر اور آئی ایم ایف نت نئی شرائط لگاتا ہوا۔ ایک وقت تھا جب بار بار کہا گیا ”خان بیرونی ممالک میں پڑے 200 ارب ڈالر واپس لائیں گے اور قرض خواہوں کے منہ پردے ماریں گے۔ آج یہ کہنے والا“ مفرور ”ہے الٹا اس دور میں 25 ہزار ارب قرضہ لیا گیا جو پاکستان کے کل قرضے کے 80 فیصد کے برابر بنتا ہے۔ لطیفہ یہ کہ اس دور کے وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ یہ قرضہ 80 نہیں، 75 فیصد کے برابر ہے۔

سوال یہ کہ وہ قرضہ گیا کہاں جبکہ نہ نیا پاکستان بنا اور نہ ہی ریاست مدینہ۔ ماضی میں بھی بانی پی ٹی آئی کے حکم پر اس وقت کے خیبرپختونخوا کے وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر قرض کی قسط دینے سے منع کیا اور اب ایک دفعہ پھر جیل میں بیٹھے بانی تحریک نے وہی عمل دہرایا ہے۔ 90 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے والے ملک کی تقدیر تو کیا بدلتے البتہ اسے ڈیفالٹ کے کنارے تک ضرور پہنچا دیا۔ بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کیا دھرا ان کے دورحکومت کا ہے۔

قوم نان جویں کی محتاج ہے اور عمران خان ایک بار پھر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو سری لنکا بنتے دیکھ رہا ہوں۔ مہنگائی بڑھے گی، لوگ سڑکوں پر آئیں گے اور پاکستان سری لنکا بنے گا۔

گویا خان صاحب کی نا امیدی میں امید بھی پنہاں ہے۔ انہوں نے بیک وقت آئی ایم ایف سے قرضہ روکنے اور یورپی یونین سے پاکستانی برآمدات پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کر ڈالا ہے۔ یورپی یونین سے مطالبے کے لیے اپنے دست راست عاطف خان کی ذمہ داری لگائی ہے اور وہ اسے خوب نبھا رہے ہیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ خان جی کے ایک اور ”عقیدت مند“ معید پیرزادہ نے بھارتی حکومت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان سے ”دوستی“ کا حق نبھائیں اور آئی ایم ایف کا قرضہ رکوائیں۔

مودی سے یہ فرمائش بیرسٹر گوہر اور شیر مروت کی بجائے معید پیرزادہ سے کروائی تاکہ کہا جا سکے کہ معید تو ہمارا عہدیدار ہے نہ رکن اسمبلی۔ خان صاحب نے اپنی نا امیدی میں امید کی رمق پیدا کرنے کی کوشش یوں کی ہے کہ اگر یورپی یونین پاکستانی برآمدات پر پابندی لگا دے اور آئی ایم ایف بھی قرضہ روک دے تو ملک دیوالیہ پلس ہو جائے گا اور عوام کی ایسی بری حالت ہو گی کہ سڑکوں پر آنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں رہے گا۔ خان صاحب قوم کو مصروف رکھنے کے گر جانتے ہیں۔ یہی بلنڈرز ان کی سیاست کا محور ہیں۔ آئیے خان جی کے کچھ اور بلنڈرز پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔

1۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا۔
2۔ فرح گوگی، بزدار اور بشری بی بی کی کرپشن کی نشان دھی پر جنرل عاصم منیر کا ”ISI“ سے فوری تبادلہ۔
3۔ ”ISI“ چیف جنرل فیض حمید کے تبادلے سے انکار اور انہیں آرمی چیف بنانے کی منصوبہ بندی۔
4۔ اہم عہدوں پر عثمان بزدار، محمود خان، شہزاد اکبر، شہباز گل جیسے نالائقوں کی تقرریاں۔

5۔ با اعتماد ساتھیوں جہانگیر ترین، عون چوہدری، فوزیہ قصوری، اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہہ الدین، محسن بیگ وغیرہ کو بلاجواز پارٹی سے نکالنا۔

6۔ ڈسکہ ضمنی الیکشن میں دھاندلی پر ، جب چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کے انکوائری حکم پر ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم۔

7۔ تحریک عدم اعتماد آنے پر امریکی سائفر کے پیچھے چھپ کر تحریک پر ووٹنگ کروانے سے انکار۔ جس پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔

8۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری میں رخنہ ڈالنے کے لئے 47 عوامی جلسے۔
9۔ ارکان قومی اسمبلی کے اجتماعی استعفے۔
10۔ توشہ خانے کے تحائف کی خریدوفروخت بشری بی بی کے سپرد کر نا۔
11۔ پنجاب اور کے پی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل۔
12۔ پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی عملی کوششیں۔
13۔ توشہ خانے کے تحائف میں خرد برد۔
15۔ گرفتاری کے خلاف احتجاج کے نام پر 9 مئی کو فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملے۔

16۔ اب تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر، یہ پروپیگنڈا جاری ہے کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے وفد کے پاکستان کے دورے کے دوران ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے مبینہ ڈیل کردی گئی ہے۔ جبکہ دفترخارجہ نے کہا ہے کہ اس نوعیت کی خبریں قطعی طور پر حقائق کے منافی ہیں عالمی توانائی ایجنسی کا کوئی عہدیدار نہ تو اس وقت پاکستان کا دورہ کر رہا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے ساتھ کسی پالیسی بات چیت کا منصوبہ ہے۔

خان صاحب دوسروں پر آرٹیکل 6 لگانے کے درپے ہیں اگر ان کی جماعت تحریک انصاف کی مختصر سی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس پر کئی آرٹیکل 6 لاگو ہوتے ہیں۔ ایسی جھوٹی خبروں کا بازار گرم کرنے والوں پر خان جی کون سا آرٹیکل لگائیں گے؟

کاش وہ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے فیصلے کریں کہ ”باز آید پشیمانی“ سے بچ سکیں۔ اور وہ ملک و قوم اور ان کی سیاست کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments