دو دنیاؤں کے درمیانی پل پر بھیانک حادثے کی کہانی


مادام۔ میرا نام ماہم ہے۔ میں آج کل اردو سیکھ رہی ہوں۔ میری اردو ٹیچر نے مجھے آپ سے متعارف کرایا کہ آپ لکھتی ہیں۔ پردیس میں دیسیوں پر جو گزرتی ہے آپ کا موضوع رہا ہے۔ فیس بک پر آپ کو دیکھا۔ مسینجر پر رابطہ کر رہی ہوں۔ میں بھی اپنی کہانی سنانا اور شائع کرانا چاہتی ہو۔ میں اردو لکھ نہیں سکتی وائس مسیجز بھیجوں گی۔ آپ ٹھیک کر لیں گی نا؟

پورے دو مہینے ماہم کے قسطوں میں وایئس مسیجز ملے۔ کہانی میں تسلسل بھی نہیں تھا۔ میں نے ٹکڑے ترتیب سے جوڑ کر داستان لکھ دی۔ احتیاط کے طور پر نام، مقامات اور کچھ واقعات میں تبدیلی کی ہے جو بہت ضروری تھی۔ کہانی کا درد سنتے ہوئے اور پھر لکھتے ہوئے بھی محسوس ہوا۔

*** ***

گجرات کے نزدیک ایک گاؤں میں ہمارا گھر تھا۔ ابا کی پرچون کی دوکان تھی جو بس گھسٹ گھسٹ کر چلتی تھی۔ ایک بھینس بھی تھی۔ اماں سلائی بھی کر لیتی تھیں۔ بڑی بہنیں گھر کے کاموں میں مدد کرتیں۔ میں کچھ نکمی سی تھی۔ اسکول اور کھیل میں لگی رہتی۔

رعنا باجی امی کی رشتے میں بھانجی لگتی تھیں۔ وہ بیاہ کر ناروے چلی گیں۔ لیکن جب بھی پاکستان آتیں ہم سے ملنے ضرور آتیں۔ چاکلیٹ بھی لاتیں۔ مجھے وہ بہت اچھی لگتی تھیں۔ میں شاید نو یا دس سال کی تھی جب وہ اپنے دونوں بچوں کو لے کر ہم سے ملنے آئیں۔ اماں اور بہنیں ان کی مدارات میں لگ گئیں اور میں نے ان کے بچے سنبھال لیے۔ وہ بہت خوش ہویں۔

” کاش تو میرے ساتھ ناروے چلتی۔ چلے گی؟ میں تجھے خوب پڑھاؤں گی۔ کسی قابل بنا دوں گی۔ “

میں نے خوشی سے سر ہلا دیا۔ ”بس اب ماہم میری ہے خالہ جی۔ میں اسے اپنے ساتھ لے جاوں گی“ اماں نے بھی مسکراتے ہوئے رضامندی دے دی۔ سب نے اسے ایک وقتی جوش سمجھ کر اہمیت نہیں دی لیکن میرے دل و دماغ میں اب ناروے بس چکا تھا۔ رعنا باجی نے ناروے کی اتنی حسین تصویر کھینچی کہ دل مچل ہی گیا۔ سردیوں میں برف، گرمیوں میں سبزہ ہی سبزہ، پہاڑ، دریا، صاف پانی، تازہ ہوا اور اچھے لوگ۔ رعنا باجی نے جاتے ہوئے کئی نوٹ اماں کو پکڑا دیے۔

اگلے سال رعنا باجی پھر آیں اور اپنی بات دہرائی۔ ”خالہ میں نے الیاس سے بات کر لی ہے۔ آپ اس کا پاسپورٹ بنوایں میں اسے اپنے ساتھ ناروے لے جاوں گی“

اب بات ذرا سنجیدہ ہو گئی۔ اور اس پر غور ہونے لگا۔ مجھے ٹھیک سے تو نہیں پتہ کہ سارے معاملات کیسے طے ہوئے بس اتنا علم ہوا کہ میرا اور اماں کا پاسپورٹ بنا۔ رعنا باجی برابر فون پر رابطے میں رہتیں۔ انہوں نے ویزا بھی بھیجوا دیا۔ اگلے برس وہ اپنے میاں الیاس کے ساتھ آیں۔ اور واپسی پر مجھے اور اماں کو ساتھ لے گیں۔ اماں دو مہینے رہیں اور پھر اکیلی واپس لوٹ گیں۔ رعنا باجی اور بھائی الیاس نے اماں سے وعدہ کیا کی وہ ان کی مالی مدد کرتے رہیں گے اور مجھے اعلی تعلیم بھی دلوایں گے۔ اماں مطمین ہو کر چلی گیں۔

مجھے رعنا باجی کے گھر میں بہت مزا آرہا تھا۔ گھر بڑا تھا، کچن تو بہت ہی بڑا اور ماڈرن تھا۔

رعنا باجی صبح اٹھتیں ندا کو اسکول کے لئے تیار کرتیں پھر اسے چھوڑنے جاتیں۔ واپس آ کر وہ اور میں ناشتہ کرتے پھر وہ دوبارہ اپنے کمرے میں چلی جاتیں۔ ان کے میاں جنہیں میں بھا الیاس کہتی تھی اور رعنا باجی بڑے پیار سے انہیں یاسی کہتی تھیں۔ ان کا ایک اسٹور تھا جس میں حلال گوشت، سبزیاں، دال چاول، مصلحے وغیرہ مل جاتے تھے۔ وہ دس بجے اٹھتے۔ نہا دھو کر ناشتہ کرتے اور گیارہ بجے تک کام پر چلے جاتے۔ اس کے بعد میں اور رعنا باجی خوب مزے کرتے۔ ٹی وی پر پاکستانی اور انڈین چینل پرہم گھنٹوں پاکستانی ڈارامے یا بولی وڈ فلمیں دیکھتے۔ کبھی رعنا باجی گاڑی نکالتیں، اسد اور مجھے ساتھ لے کرشاپنگ پر جاتیں۔ انہوں نے میرے لئے نئے کپڑے بھی لئے ۔ جینز، پینٹس، ٹی شرٹس، سویئٹر، جیکٹس اور جوتے بھی۔ میرا ہر دن عید جیسا ہوتا۔ دوپہر کو رعنا باجی ندا کو اسکول سے لاتیں۔ ہم ہلکا سا لنچ کرتے اس کو بعد ہم پھر ٹی وی دیکھتے۔ پھر رات کے کھانے کی تیاری ہوتی۔ بھا الیاس آٹھ بجے تک آ جاتے۔ سب مل کر کھانا کھاتے۔ بھا الیاس نے نیچے بیسمنٹ میں اپنا ایک دفتر سا بنیا ہوا تھا وہاں حساب کتاب کرتے۔ ان کے دوست وغیرہ بھی آتے تو وہیں بیٹھتے۔ وہیں ایک ٹریڈ مل بھی تھی جس پر وہ واک کرتے اور کبھی کبھی رعنا باجی بھی۔ گھر کے سارے سودے بھا الیاس اپنے اسٹور سے لے آتے۔

رعنا باجی ککنگ بہت اچھی کرتیں۔ میں سیکھنے کے شوق میں ان کا ہاتھ بٹاتی رہی۔ کھانا میز پر لگانا پھر سمیٹنا میں شوق سے کرتی۔ رعنا باجی نے مشین میں کپڑے دھونے بھی سکھا دیے۔ میں ماہر ہو گئی۔ کپڑے دھو کر استری کرنا اور الماریوں میں رکھنا اب میں نے اپنے ذمہ لے لیا۔

گھر میں تین بیڈ روم تھے۔ بڑا تو رعنا باجی اور ان کے میاں کا تھا۔ ایک بچوں کا اور ایک مہمانوں کا۔ بچے رعنا باجی کے ساتھ ہی سوتے لیکن میں نے ندا کو اپنے ساتھ سلانا شروع کر دیا۔ اسے کہانیاں اور گانے سناتی۔ اس کے ساتھ کھلیتی اس کا بھی مجھ سے دل لگ گیا۔ ننھا اسد اب بھی ماں کے ساتھ سوتا۔ صبح رعنا باجی جب ندا کو اسکول چھوڑنے جاتیں تو اسد کو میرے حوالے کر جاتیں۔ رعنا باجی پابندی سے اماں کو فون کرتیں، میری بھی بات کراتیں۔ اماں ایک ہی بات دہراتیں ”اسکول شروع کردیا؟ دیکھ دل لگا کر پڑھنا اور کچھ بن جانا“

اسکول کی بات ہوتی تو رعنا باجی کہتیں ”دیکھ ماہم اب اسکول کا سال شروع ہو چکا ہے۔ اب داخلے نہیں ہوتے۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد نیا سال ہو گا تو داخل کرا دیں گے“ مجھے بھی کونسی جلدی تھی اسکول جانے کی۔ میرے دن تو مزے میں گزر رہے تھے۔ مجھے نہ گھر یاد آتا نہ گھر والے۔

چھٹیاں ختم ہونے کو تھیں تو میرے اسکول جانے کا سوال پھر اٹھا۔

” ماہم میں نے یاسی سے بات کی تھی اسکول کے داخلے کی۔ وہ کہتے ہیں کہ تیرے ویزا کا مسئلہ ہے وہ کب کا اکسپایئر ہو گیا ہے۔ “ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔

۔ ”تو اب یہاں غیر قانونی رہ رہی ہے۔ اسکول والے کاغذات منگتے ہیں۔ انہیں اگر بتائیں کہ تیرے پاس یہاں کا ویزا ہی نہیں ہے تو وہ پولیس کو خبر کر دیں گے اور پولیس تجھے واپس پاکستان بھیج دے گی“

میں سہم کر رہ گئی۔ میں کسی صورت واپس جانے نہیں چاہتی تھی۔

” یاسی کوشش کر رہے ہیں سب ٹھیک کرنے کی۔ ایک وکیل بھی کیا ہے۔ تو فکر مت کر۔ بس ذرا صبر کر“

مجھے فکر تھی تو یہ تھی کہ کہیں مجھے واپس نہ بھیج دیا جائے۔ اسکول جاوں یہ نہ جاوں کوئی بات نہیں۔

اور وہ پورا سال بھی گزر گیا۔ میں جب رعنا باجی کے پاس آئی تھی تو بچی تھی۔ مجھے اپنے بڑے ہونا کے آثار نظر آئے تو میں ڈر کر ان کے پاس گئی۔ انہوں نے بتایا اور سمجھایا کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے۔ سنیٹری پیڈ دیا اور اس کا استعمال بھی بتایا۔ اور یہ بھی کہا کہ اب میں بڑی ہو رہی ہوں۔

بھا الیاس رات کا کھانا کھا کر بیسمنٹ میں بنے اپنے دفتر میں چلے جاتے۔ چائے وہ ہمیشہ وہیں منگواتے۔ کبھی رعنا باجی اور کبھی میں انہیں چائے دینے نیچے جاتے۔ ایک رات میں چائے دینے گئی تو انہوں نے مجھ پر نظر ڈالی

” تو تو کافی بڑی ہوگئی ہے“ ان کی ٹٹولنے والی نظریں میں نے اپنے جسم پر محسوس کیں اور اپنے بدن کو سمیٹے جلدی سے اوپر آ گئی اور آیئنے کے سامنے خود کو دیکھتے ہوئے سوچا کیا واقعی میں بڑی ہو گئی ہوں؟

اس کے بعد سے میں ان کے سامنے گلے میں دوپٹہ ڈال کر سینے پر پھیلا دیتی۔ ایک رات چائے دینے گئی تو وہ بولے۔ ”ماہم تو گھر میں بیٹھی بیٹھی موٹی ہو رہی ہے۔ چل اس مشین پر ذرا واک کر۔ تھوڑی ورزش کر“ میں نے واک شروع کردی ان کی نظریں مجھے اپنے جسم پر چبھنے لگیں تو میں گھبرا کر اوپر بھاگی۔

اگلی رات چائے دینے گئی تو بولے ”تو تو بڑی پیاری ہو گئی ہے پر کاش تو تھوڑی سی اور بڑی ہوتی“ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ ”پھر میں تجھے اپنا لیتا۔ تجھے کہیں اور لے جاتا۔ دوسرے گھر میں۔ جہاں صرف میں اور تو ہوتے“ وہ ایک آہ بھر کر بولے۔ میں اور بھی الجھ گئی۔ ”اپنی رعنا باجی کی فکر مت کر وہ یہیں رہے گی آرام سے اپنے بچوں کے ساتھ“ وہ کرسی سے اٹھے اور مجھے گلے لگا لیا

” دیکھ نا مذہب میں اجازت ہے دو تین اور چار کی بھی۔ بس کچھ سال اور۔ ذرا اور بڑی ہو جا۔ “ اب وہ مجھے چوم رہے تھے۔ میں نے بمشکل خود کو ان کی گرفت سے آزاد کیا اور اوپر بھاگ آئی۔

یہ بھا الیاس کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

ایک رات انہوں نے پھر کہا ”ماہم بس جلدی جلدی بڑی ہو جا پھر ہم اپنا گھر بسا لیں گے۔ اور سن اپنی باجی سے کچھ مت کہانا۔ اسے پتہ چلا تو وہ تجھے واپس پاکستان بھیج دے گی۔ میں وقت آنے پر خود اسے بتا دوں گا۔ بس جلدی بڑی ہو جا“ میں واپس جانے کے خیال سے بہت ڈری رہتی تھی۔ جی چاہتا کہ بس جلدی سے بڑی ہو جاوں۔ اب وہ آتے جاتے مجھ سے ٹکراتے، مجھے دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکراتے۔ آنکھوں آنکھوں میں پیغام دیتے۔ میں نے خود کو بہت اہم سمجھنا شروع کر دیا۔ ہلکا سا غرور بھی مجھ میں آگیا۔

انہی دنوں ڈنمارک سے رعنا باجی کی بھابی کا فون آیا کہ ان کے بھائی کو دل کی تکلیف ہو گئی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ دل کے تین والوز بند ہیں اور فوری آپریشن ہو گا۔ رعنا باجی نے ضد کی کہ انہیں جانا ہے۔ ”سب چلتے ہیں یاسی آپ ٹکٹیں کرا لیں“ ”نہیں میں نہیں جا سکتا ابھی“ پھر میں بچے اور ماہم چلے جاتے ہیں۔ ”۔ “ ماہم کے پاس ویزا نہیں ہے۔ اسے جانے نہیں دیں گے اور ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ ”طے یہ ہوا کہ رعنا باجی اسد کو لے کر چلی جایں، ندا ادھر ہی رہے اس کا اسکول بھی ہے۔

” ماہم تو سنبھال لے گی نا سب؟ “ ”میں نے سب سنبھالنے کا وعدہ کر لیا۔ اگلے دن ندا کو اسکول چھوڑنے کے بعد بھا الیاس نے انہیں ایرپورٹ چھوڑا اور اپنے اسٹور چلے گئے۔

مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں گھر کی رانی ہوں اور یہاں اب میرا راج ہے۔ جی بھر کر ٹی وی دیکھا پھر ندا کو اسکول سے لائی۔ اسے کھانا کھلایا۔ وہ اداس ہو رہی تھی اس کا دل بہلایا۔ رات کا کھانا دل لگا کر تیار کیا۔ ندا کی اپنے پاپا سے فون پر بات بھی کرائی۔ رات کو الیاس آئے تو میں نے کھانا لگایا۔ رعنا باجی کا فون آگیا وہ ان سے بات کرتے رہے۔ میں نے ندا کے کپڑے بدلوائے، دانت برش کروائے اور اسے سلانے لیٹ گئی۔ الیاس نیچے جاتے جاتے کہہ گئے ”اسے سلا کر چائے لے کر آ جانا“

میں چائے لے کر پہنچ گئی۔ انہوں نے مجھے بازوں میں بھینچ لیا۔ میں کسمساتی رہی۔ ”آپ رعنا باجی سے کب بات کریں گے؟ “ ”کیسی بات؟ “ ”الگ گھر لینے کی“ ”ارے ابھی نہیں۔ تو ذرا بڑی تو ہو جا۔ ابھی نہیں“ وہ اب میرا جسم ٹٹول رہے تھے۔ میں مزاحمت کرتی رہی۔ ”نا کریں۔ نا کریں“ وہ آگے بڑھتے گئے۔ اور بہت آگے بڑھ گئے۔ اس رات اس بیسمنٹ میں میری چیخیں، سسکیاں منت سماجت سب دیواروں سے ٹکرا کر سر پھوڑتی رہیں۔

میں اپنا زخمی وجود اپنے ہی بازوں میں تھامے اوپر بستر پر گر گئی۔ یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا؟ اور پھر تین راتوں تک یہی ہوتا رہا۔ وہ مجھے یقین دلاتے رہے کہ محبت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اب میں ان کی ہوں۔ مجھے ان کی بات ماننی چاہیے۔

رعنا باجی واپس آ گیں ان کے بھائی کا آپریشن ہو گیا وہ پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ وہ مجھے دیکھ کر بولیں ”تجھے کیا ہوا ہے؟ بیمار ہے کیا؟ “ ”نہیں بس میری کمر میں درد ہے“ انہوں نے مجھے درد کی گولیاں دے دیں۔ اب میں چائے لے کر نیچے جانا نہیں چاہتی تھی۔ رعنا باجی کہتیں تو میں خود کو کسی اور کام میں مصروف کر لیتی۔ لیکن کبھی کبھی جانا پڑتا تھا۔ الیاس کی وہی باتیں۔ ”سب ٹھیک ہو جائے گا بس ذرا اور بڑی ہو جا۔ میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیری باجی کو کچھ پتہ نا چلے۔ “ میں منہ بند کیے رہی۔ کافی دن گزر گئے میں کچھ ٹھیک ہو گئی لیکن میرا دل اب بہت گھبرایا ہوا سا رہتا تھا۔ میری بھوک مر گئی۔ کچھ بھی کھانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ کمزوری ہو گئی۔ دل خراب رہتا۔ پھر ایک دن اچانک رعنا باجی نے پوچھا

” ماہم تو نے کب سے سینٹری پیڈ مجھ سے نہیں مانگے۔ تیرے پاس ہیں کیا؟ “

” نہیں باجی۔ ضرورت ہی نہیں پڑی“

” کیا مطلب؟ کب سے؟ “

” پتہ نہیں تین چار مہینے سے شاید“ رعنا باجی کا رنگ اڑ گیا۔ وہ مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔ ان کی ایک پاکستانی دوست ڈاکٹر تھی وہ مجھے وہاں لے گیں۔ ڈاکٹر نے میرا معائنہ کیا بہت سارے سوال کیے۔ اور پھر پوچھا

” تمہارے ساتھ کس نے یہ کیا ہے۔ ؟ “ میں زمین تکتی رہی۔ کوئی جواب نہ دے سکی تو وہ پھر بولی ”تمہیں پتہ ہے نا کہ تمہارے پیٹ میں بے بی ہے؟ “ پھر ڈاکٹر نے رعنا باجی کو بھی کمرے میں بلا لیا۔ ”اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ سیدھا سیدھا پولیس کیس ہے۔ رپورٹ لکھواؤ جا کر“۔ رعنا باجی کانپ کر رہ گیں۔ اتنی سردی میں بھی ان کے منہ پر پسینہ آگیا۔ جلدی سے مجھے لے کر گاڑی میں بیٹھیں۔ ”بتا یہ کیا ہے؟ کس نے کیا ہے؟ “ ”کسی نے نہیں“ ”اف خدا کسی نے نہیں تو یہ یہ۔ ۔ ۔ یہ کیا ہے؟ “ انہوں نے میرے پیٹ پر اشارہ کیا؟ ”“ مجھے نہیں پتہ ”میں نے سر جھکا لیا۔ انہوں نے اسی وقت اپنے میاں کو فون کیا۔ “ یاسی جلدی گھر آئیں۔ بڑا مسئلہ ہو گیا ہے ”

گھر پہنچے تو ان کے میاں بھی آگئے۔ گھر میں ایک شور مچ گیا۔ ”یاسی ہم برباد ہو گئے۔ یہ کچھ بولتی ہی نہیں۔ اس سے پوچھیں کس کے ساتھ منہ کالا کر کے آئی ہے؟ مجھے پتہ ہے یہ جو چار گھر چھوڑ کر عراقی فیملی رہتی ہے ان کا ایک لڑکا ہے۔ یہ اسے دیکھتی رہتی تھی۔ لیکن یہ سب ہوا کب؟ آپ بولتے کیوں نہیں یاسی؟ اس سے پوچھیں۔ میں اب اسے یہاں نہیں رکھ سکتی۔ اسے واپس بھیجیں“

” کیسے واپس بھیجیں۔ ہم سب مشکل میں پڑ جایں گے“

” اسے پانچواں مہینہ چل رہا ہے۔ میں سمجھ گئی یہ اس وقت ہوا ہوگا جب میں ڈنمارک گئی تھی۔ آپ تو سارا دن اسٹور پر ہوتے ہوں گے یہ تنہائی میں خوب کھل کھیلی۔ بلاتی ہو گی اپنے یار کو یہاں“

میں اس امید میں کھڑی رہی کہ ابھی الیاس بات کھول کر رکھ دیں گے۔ مجھے اپنا سہارا دے دیں گے مگر وہ تو کسی اور ہی فکر میں تھے۔ رعنا باجی چیخ چلا رہی تھیں میں چور بنی کھڑی تھی۔

غضب خدا کا اتنی سی لڑکی اور حرکتیں دیکھو۔ اسے لے جائیں یہاں سے میں اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی ”

” کہاں لے جاوں اسے؟ “ وہ بھی چیخے

” کہیں بھی کسی ہنگامی مرکز میں، کسی شلٹر میں، کسی سڑک پر، کہیں جہنم میں۔ بس یہاں سے جائے“

میں کمرے میں آ گئی، رعنا باجی میرے پیچھے آیں اور ندا کو گود میں اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گیں۔ میں اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں الیاس کمرے میں آئے۔

” سوٹ کیس میں اپنے کپڑے اور ضرورت کی ساری چیزیں رکھ لے۔ فون بھی رکھ لے۔ یہاں سے اب جانا ہے“

میں سوٹ کیس اٹھائے باہر آئی۔ رعنا باجی نے اپنے کمرے میں خود کو بند کرلیا۔ خادا حافظ بھی کہنے نہیں آیں۔

گاڑی میں بیٹھ کر میں نے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ میں چپ رہی اور وہ فون پر کسی سے بات کرتے رہے۔ دل کو تسلی تھی کہ میں تنہا نہیں ہوں۔ وہ میرے ساتھ ہیں۔ گاڑی ایک مکان کے پاس رکی۔

اس مکان میں تین افغان لڑکے پولیس سے چھپ کرغیر قانونی رہ رہے تھے۔ ان میں سے ایک جواد خان بھی تھا۔ جو الیاس کے اسٹور پر کام کرتا تھا۔ وہ کبھی کبھی گھر پر سودا دینے بھی آتا تھا۔ وہ پاکستان میں رہا تھا اس لئے اردو بھی بول لیتا تھا۔ دروازہ اسی نے کھولا۔ مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں بھیج دیا گیا۔ الیاس جواد خان سے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میرے پاس آئے اور کہا

” کسی کو کچھ مت بتانا۔ کچھ دن یہاں رہنا ہو گا۔ اس مصیبت سے تو نجات ملے۔ “ انہوں نے میرے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ اسی وقت میرے اندر پلنے والی جان نے شاید کروٹ لی۔ اور مجھے پہلی بار اس کے وجود کا احساس ہوا۔ پھروہ چلے گئے۔

زمین پر ایک گدا تھا ایک لحاف اور تکیہ۔ میں اتنی تھکی ہوئی تھی کہ ایک دم سو گئی۔ کچھ سوچنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ صبح اٹھی باتھ روم ایک ہی تھا وہاں منہ دھویا۔ باہر نکلی تو جواد خان نے کہا ناشتہ تیار ہے۔ پھر تینوں کام پر چلے گئے اور مجھے تاکید کی کہ اندر ہی رہوں اور دروازہ کسی کے لئے بھی نہ کھولوں۔ میں نے الیاس کو فون پر فون کیے لیکن جواب نہیں ملا۔ شام ڈھلے جواد خان اور الیاس آئے۔ کھانا اور کچھ سودا بھی لائے۔ میں نے الیاس سے پوچھا مجھے کب تک یہاں رہنا ہے تو جواب ملا پتہ نہیں۔ اور ایک بار پھر منہ بند رکھنے کی تاکید۔

دو دن بعد ایک صبح صبح دروازے کی گحنٹی بجی اور ساتھ ہی زور زور سے دراوازہ پیٹا گیا۔ پتہ لگا باہر پولیس آئی ہے۔ تینون لڑکوں کو پکڑ لیا گیا۔ پورے گھر کی تلاشی لی اور آخر میں میرے کمرے میں داخل ہو گئے۔ پولیس کو دیکھ کر میں غش کھا کر گر پڑی۔ جب ہوش آیا تو ہسپتال میں تھی۔

باقی کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کیونکہ وہ تینوں لڑکے افغان تھے تو یہ سمجھ لیا گیا کہ میں بھی افغان ہی ہوں۔ میرے لئے افغان مترجم بلایا گیا لیکن اس نے بتایا کہ اس لڑکی کو نہ پشتو آتی ہے نہ دری۔ مجھ سے سوال پوچھے جاتے رہے لیکن میری وہی چپ تھی۔ پولیس، ڈاکٹرز، چایئلڈ پرٹیکشن افسر کوئی بھی میری چپ نہ توڑ سکے۔ بعد کے واقعات مجھے دوسروں سے پتہ چلے۔ ان افغان لڑکوں کو پولیس نے پکڑا اور ان کے بیان لئے تو جواد خان نے میرے متعلق ساری بات بتا دی اور الیاس کا نام بھی لیا۔ اور پولیس ان تک پہنچ گئی۔ جواد نے یہ بھی بتایا کہ الیاس نے اس سے کہا کہ جا کر پولیس کو کہو کہ یہ لڑکی تمہاری محبوبہ ہے اور تم دونوں افغانستان سے جان بچا کر ناروے پناہ لینے آئے ہو۔

مجھ سے کئی لوگوں نے بات کی اور یقین دلایا کہ وہ سب اور یہاں کا سسٹم میرے ساتھ ہے۔ مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میرے لئے اردو مترجم کا انتظام کیا گیا۔ میں نے خاموشی توڑ دی۔ میرے کئی بیانات ہوئے۔ پولیس، ڈاکٹر اور بچوں کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں کے سامنے میں نے اپنی کہانی کہہ ڈالی۔

الیاس سے پولیس نے پوچھ گچھ کی تو پہلے وہ صاف مکر گئے۔ پھر ماننا ہی پڑا۔ الیاس پر کئی سیریس چارجز لگے۔ کم سن بچی کا ریپ، دھوکا دہی، ہیومن ٹریفکنگ، چایئلڈ لیبر، تشدد، مجھے میرے حق تعلیم سے محروم کرنا، غیر قانونی رہنے والے کو کام پر رکھنا، وغیرہ۔ دکھ مجھے اس بات کا ہوا کہ رعنا باجی پر بھی اپنے شوہر کے ان کاموں میں معاونت اور شرکت کا الزام لگا۔ میں نے اپنے بیان میں رعنا باجی پر کوئی الزام نہیں لگایا اور انہیں کسی بھی بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ لیکن پھر بھی ان پر ہلکے قسم کے چارجز لگے کہ انہون نے مجھے اپنے گھر کے کاموں کے لئے رکھا ہوا تھا اور میرا ویزا ختم ہو جانے کے بعد بھی مجھے اپنے پاس رکھا۔ کیس عدالت میں گیا۔ ریاست نے خود یہ کیس لڑا اور مجھے ایک اضافی مددگار وکیل بھی دیا۔ میرے ساتھ یہ ہوا کہ پہلے مجھے بچوں کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں بھیجا گیا لیکن میری حالت دیکھ کر مجھے ایک دوسرے شہر میں ایک فوسٹر والدین کے سپرد کر دیا گیا۔ دونوں میاں بیوی نے میری بہت خدمت کی اور مجھے بے پیاہ پیار اور توجہ دی۔ مجھے پہلی بار تحفظ کا احساس ہوا۔ میری صحت بہت خراب تھی اور بچہ بھی نارمل رفتار سے بڑھ نہیں رہا تھا۔ میرے گرد ایک نیٹ ورک تھا جس میں میرے فوسٹر والدین، ڈاکٹر، نرسز، چایئلڈ پروٹیکشن کی افیسرز، میرے وکیل اور انسانی ہمدردی والی ایک تنظیم، سوشل ورکراور ماہر نفسیات، شامل تھے۔ میری دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ میری تعلیم کا بندونست بھی کیا گیا۔ مجھے ٹیچر گھر آ کر پڑھاتی۔ کیس عدالت میں گیا۔ الیاس نے پہلے تو ہر الزام سے انکار کیا۔ پھر مان لیا کہ میں ان کی غریب رشتہ دار ہوں اور انہوں نے ہمدردی میں مجھے سہارا دیا ہوا تھا۔ جنسی عمل سے بھی مکر گئے اور یہ کہ بچہ ان کا نہیں ہے۔ ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد بیان بدل دیا اور کہا کہ یہ زبردستی نہیں ہوا تھا اس میں دونوں کی مرضی تھی۔ جس پر جج نے کہا

” بارہ سالہ بچی کی سیکس میں اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ اس پر یا زبردستی کی جاتی ہے یا اسے پھسلایا جاتا ہے“

کیس کا جلد ہی فیصلہ ہو گیا۔ الیاس کو آٹھ سال کی سزا ہوئی۔ رعنا باجی کو چھے مہینے کی۔ الیاس پر جرمانہ بھی لگا۔ میرے مددگار وکیل نے میرے ہرجانے کا کیس بھی لڑا اور یہ کیس بھی ہم جیت گئے۔ الیاس کا اسٹور بک گیا۔ گھر بچوں کی وجہ سے بچا رہا۔ رعنا باجی نے طلاق لے لی۔ ایک دن عدالت میں آمنا سامنا ہو گیا تو وہ رو رو کر معافی مانگتی رہیں۔ میرے وکیل نے بات کرنے سے منع کر دیا ورنہ میں ندا کا حال پوچھ لیتی۔ ۔

میرے گرد جو نیٹ ورک تھا ان کی تشویش یہ تھی کہ میرے بچے کا کیا ہو گا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کروں۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا میں بچے کی پیدائش کے بعد اس لے کر پاکستان جانا چاہوں گی۔ میں اس تصور سے ہی کانپ گئی اور کہہ دیا کہ میں پاکستان گئی تو میرے اپنے ہی مجھے مار ڈالیں گے۔ دوسرا مسلئہ میرا پاسپورٹ، ویزا کا تھا۔ اس میں بھی میری مدد کی گئی اور میرے لئے یہاں کی شہریت کی درخواست دے دی گئی جو بعد میں مل بھی گئی۔ اور بھی بہت باتیں ہوئیں۔ ہر چیز پر غور ہوا۔ سب ہی کا کہنا تھا کہ بچہ پالنا میرے لئے ممکن نہ ہو گا کہ میں خود ابھی بچی ہوں۔ ایک آپشن یہ تھا کہ میں کسی ادارے کو بچہ دے دوں۔ دوسرا آپشن یہ کہ میں اسے کسی بے اولاد جوڑے کو دے دوں۔ میں نے یہ بات مان لی۔ مجھے ایک ایسے جوڑے سے ملایا گیا جو بچہ گود لینا چاہتے تھے۔ بنجامن اور ماریا بہت خوبصورت اور پیارے لوگ تھے۔ ماریا تو مجھے گلے لگا کر رو پڑی اور بار بار میرا شکریہ ادا کرتی رہی۔

موسم خزاں کی ایک بارش میں مجھے اسپتال جانا پڑا۔ ماریا میرے ساتھ تھی۔ آپریشن کرنا پڑا۔ اور میری بیٹی پیدا ہو گئی۔ اس کا وزن بہت کم تھا۔ سانس لینے میں بھی مشکل تھی۔ ماریا نے پوچھا میں کیا نام رکھنا چاہوں گی۔ میں نے کہا یہ حق اب اس کا ہے۔ انہوں نے اس کا نام انگرید رکھا۔ میں تو چار دن بعد ٹھیک ہو گئی لیکن انگرید پورے ایک ماہ انتہائی نگیداشت میں رہی۔ ماریا دن رات بچی کے ساتھ رہی۔ ایک ماہ بعد انگرید اپنے ماما پاپا کے ساتھ ان کے گھر چلی گئی۔ اور میں اپنے ماں باپ کے ساتھ۔ میں پڑھائی میں بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ میرے فوسٹر والدین نے دن رات محنت کی اور کروائی۔ ان کے ساتھ رہ کر میری نارویجین زبان اچھی ہو گئی۔ میرا نام بدل دیا گیا اور اگلے سال میں اسکول داخل ہو گئی۔ میری نفسیاتی تھراپی کئی سال چلتی رہی۔

بنجامن اور ماریا نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انگرید کے بارے میں مجھے باخبر رکھیں گے۔ وہ ہر سال اس کی سالگرہ پر ایک تصویر مجھے بھیجتے۔ میں نے کبھی اس سے ملنے کی خوہش نہیں کی۔ مجھے خوشی تھی کہ وہ ایک محبت بھرے محفوظ ماحول میں پل رہی ہے اور یہ میرے لئے کافی تھا۔ ماریا نے کہا تھا کہ وہ لوگ کبھی انگرید سے یہ بات نہیں چھپایں گے کہ وہ اڈوپٹیڈ ہے۔ اور بڑی ہونے پر اگر وہ اپنی ماں سے ملنا چاہے تو ضرور ملے۔

میں اسکول کے بعد ہائی اسکول میں آئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں نرس بنوں گی۔

میں اٹھارہ سال کی ہوئی تو مجھے عدالت کے فیصلے کے مطابق ہرجانے کی رقم ملی۔ فوسٹر والدین کے مشورے سے میں نے ایک اپارٹمنٹ خرید لیا اور اسے کرائے پر دے دیا اور اپنے والدین کے ساتھ ہی رہتی رہی۔ میری تعلیم ختم ہوئی۔ اب میں چھبیس برس کی ہوں۔ ایک اسپتال میں کام کرتی ہوں اور اپنے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں اور ایک ریلیشن شپ میں ہوں۔ مرد پر اعتماد کرنا اور اس کے نزدیک آنا میرے لئے آسان نہ تھا۔ برسوں کی تھراپی سے یہ ہمت مجھ میں آئی۔ میں اپنی زندگی سے مطمین ہوں۔ انگرید کا خیال آتا ہے اس کے بارے میں سوچتی بھی ہوں لیکن اس سے ملنا نہیں چاہتی جب تک کہ وہ خود نہ چاہے۔

اپنی پچھلی زندگی کا سوچتی ہوں تو ایک خواب سا لگتا ہے۔ دکھ درد بھرا ڈراونا خواب۔ شکر ہے کہ اتنی مصروف رہتی ہوں کہ سوچنے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ آج یہ سب اس لئے دہرا رہی ہوں کہ آج ماریا نے انگرید کی سالگرہ کی تصویریں اور ویڈیو کلپ بھیجیں۔ انگرید تیرہ سال کی ہوگئی۔ یہ وہی عمر ہے جو اس وقت میری تھی جب میں نے اسے جنم دیا۔ میرا لڑکپن تو مسلا گیا۔ لیکن خوش ہوں کہ انگرید اپنا بچپن اور اب لڑکپن خوشیوں میں گذار رہی ہے۔ ماریا نے بڑا سا کیک بنایا تھا۔ اس پر لکھا تھا ویلکم ٹو ٹین ایج ڈیر انگرید۔ کیک پر تیرہ موم بتیاں تھیں۔ انگرید نے ہنستے ہوئے انہیں بجھایا۔ پھر کیک کاٹا اور سب سے پہلے اپنی ماما کو کھلایا۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔

” ویلکم ٹو ٹین ایج ڈیر انگرید اینڈ تھینک یو بنجامن اینڈ ماریا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments