جماعت اسلامی کے ایک پڑھے لکھے دانشور کا المیہ!


اگر سرسید کی مخالفت و دشمنی میں فاروقی صاحب انگریزی پڑھنے کو کفر سمجھتے ہیں تو شبلی نعمانی کی الفاروق (اردو) میں ہی پڑھ لیں وہاں ان کی۔۔۔ اقدامی جہاد کی دلیلوں کی رد میں بہت کچھ سامان موجود ہے۔ اقدامی جہاد کو جائز بنانے کے لئے فاروقی صاحب کی دلیلیں ٹھیک وہی الزام ہے جواسلام مخالف مستشرقین اسلامی جہاد پر لگاتے ہیں اور اب سیکیولر و لبرل طبقے کی نفرت میں نوبت یہاں تک آ پہنچی خود جماعت اسلامی کے وابستگان انہی مخالف مستشرقین کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

(د ) آخیر میں ’بعد کے دنوں میں اقدامی جہاد‘ کی تفصیل بھی سن لیں۔ بقول فاروقی صاحب۔ ۔ ۔ اقدامی جہاد کا سلسلہ بعد کے زمانوں میں بھی جاری رہا۔ ۔ ۔ اگر اس سے ان کی مراد بنو امیہ کا زمانہ ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑیگا ’بنو امیہ کا اقدامی جہاد۔ ۔ ۔ عبد اللہ بن زبیرؓ اور امام حسینؓ کے قتل پر اختتام پذیر ہوا۔ یہ دونوں اصحاب رسول ﷺ نام نہاد بنو امیہ کے خلیفہ کے مخالف تھے اور اس پر صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے۔

اگر بعد کے زمانوں کا یہ اقدامی جہاد ہے تو اس پر اور فاروقی صاحب کے فہم تاریخ اسلامی پرصرف انا اللہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ انہیں چاہیے سید مودودیؒ کی‘ خلافت و ملوکیت ’اس نظر اور مولویانہ شقاوت کے بجائے سنجیدگی سے پڑھیں۔ اگر بعد کے زمانوں سے ان کی مراد۔۔۔ محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کی جنگیں ہیں تو یہ موضوع تحقیق طلب ہے اس پر دو رائے ہیں۔ ایک مضبوط رائے یہ بھی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم کی جنگ کسی مسلم لڑکی کو ہند وراجہ سے آزاد کرانے کے بجائے عرب سامراج کو وسعت دینے کے لئے تھی کیونکہ جو حکمراں مدینہ النبی ﷺاور اپنی سلطنت میں مسلم عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام تھے وہ بھلا ہزاروں میل دور جا کر کیسے لوگوں کو انصاف مہیا کر سکتے تھے۔

بقول حافظ ابن کثیرؒ‘ ۔۔۔ ججاج (وہی حجاج جس نے محمد بن قاسم کو لڑکی کی مدد کے لئے روانہ کیا والی کہانی جو ہم بچپن سے پڑھتے چلے آرہے ہیں ) کی افواج نے جب مدینہ کا محاصرہ کیا اور فتح حاصل کی تو سپاہیوں کو کھلی چھٹی دے دی جسے چاہیں لوٹ لیں ’اسی سبب مدینہ میں تیرہ سو خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور وہ اس سے حاملہ ہو گئیں۔ اب خود فیصلہ کریں گھر کے یہ شیر۔ باہر کیا عزتوں کے حفاظت کرتے ہوں گے !

سوئم۔ اجتہاد کی بابت جو کچھ فاروقی صاحب نے ارشاد فرمایا ہے اس پر تبصرے سے پہلے ان کی عبارت پڑھ لیں پھر اس پر گفتگو کریں گے۔ لکھتے ہیں :

”نکہت ستار نے اپنے مضمون میں صرف جہاد پر ہاتھ صاف نہیں کیا انہوں نے اجتہاد کے سلسلے میں بھی غلط بیانیوں کو اختیار کیا ہے۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ 12 ویں صدی میں مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے چار مذاہب یعنی فقہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مکمل ہیں۔ چناں چہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ہماری نظر سے آج تک کسی مستند عالم کی ایسی تحریر یا تقریر نہیں گزری جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔

بلاشبہ ہمارے زمانے میں اجتہاد نہیں ہوا۔ لیکن اجتہاد کے نہ ہونے اور اجتہاد کا دروازہ بند ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں اقبال کا ذکر ضروری ہے۔ اقبال اجتہاد کے علمبردار تھے مگر انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انتشار کی حالت میں اجتہاد سے خرابیوں کا در کھلنے کا اندیشہ ہے۔ چناں چہ آج مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں ان میں اجتہاد خطرے سے خالی نہیں ہے۔“

انکی اس عبارت کا مطلب صاف ہے۔۔۔ آج کے دور میں اجتہاد کرنا خطرے سے خالی نہیں ’اس میں احتیاط برتنا چاہیے! بات بظاہر درست لگتی ہے لیکن اس سوچ کے پیچھے جو فلسفہ ہے وہ کچھ تفصیل چاہتا ہے۔ فقہ اسلامی کی معمولی شد بد رکھنے والا بھی بتا سکتا ہے۔۔۔ ائمہ اربعہ کا اجتہاد یا اختلاف عموماً فقہی مسائل میں رہا ہے مثلاً ظہر کے چار فرائض سے پہلے کتنی سنتیں پڑھنا چاہیے (فرض رکعتوں کی تعداد پر کسی مجتہد کے درمیان کوئی اختلاف نہیں )‘ عشاء کے وتر کتنی رکعتوں پر مشتمل ہیں ’طلاق کتنی دفعہ کہہ دینے سے ہو جاتی ہے‘ بقول ’تبلیغی نصاب‘ کے مولف مولانا ذکریاؒ۔۔۔ صرف دو رکعت نماز میں حنفیہ و شوافع میں دو سوجگہوں پر اختلاف ہے۔ لیکن ان اختلافات سے کوئی کفر لازم نہیں آتا۔

ہمارے خیال میں علامہ اقبالؒ کو فاروقی صاحب بیچ میں ایسے لائے ہیں جیسے مہوش حیات اپنی تصویر کو ٹویٹر یا انسٹا گرام پر اپنے چاہنے والوں کے ساتھ شیئرکرتے ہوئے اقبال کی شاعری کاتڑکا بھی لگا لیتی ہیں۔ اس سے حرام کاموں کی شدت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور کھلی تنقید کرنے والے اقبال کے احترام میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے محترمہ سمعیہ راحیل قاضی صاحبہ نے ان کے غبارے کی ہوا نکال دی۔ فرزند اقبال کہا کرتے تھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ’ابا جان۔ اجتہاد پارلیمنٹ سے کروانے کے قائل تھے۔‘ ہمیں امید ہے اقبالؒ آج ہمارے دور میں ہوتے تو اس سوچ سے توبہ کرتے کیونکہ پوری پارلیمنٹ کو ایک ریاستی اہل کار کنٹرول کر کے من پسند نتائج حاصل کر لیتا ہے۔ خدانخواستہ اجتہاد اگر پارلمینٹ کرے تو آمریت کے ہر عمل پر پارلیمنٹ مذہبی عقیدت کا غلاف بھی چڑھا کر اسے فرض و سنت کا درجہ دے دے گی۔ العیاذ باللہ

مفتی تقی عثمانی نے سالوں پہلے ایک کتاب لکھی تھی۔۔۔ ’تقلید کی شرعی حیثیت‘ ۔۔۔ جس کا خلاصہ ہے ائمہ اربعہ کی تقلید ہی میں کامیابی ہے ورنہ گمراہی۔ اسی طرح دیگر دیوبندی و بریلوی حضرات شدت سے تقلید کے قائل ہیں اور اجتہاد کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ سید مودودیؒ پر جو الزامات لگائے گئے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے تقلید کے راستے کو چھوڑ کر نئی فقہ ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ (حوالہ۔ حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق۔مفتی تقی عثمانی ص 25 ) اس سب کے باوجود نت نئے مسائل سامنے آتے رہے ہیں اور علماء امت۔۔۔ غلط یا صحیح۔۔۔ اس پر مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ مثلاً ٹیسٹ ٹیب بے بی کی پیدائش ’ٹی وی دیکھنا جائز ہے یا نہیں‘ جہاز کے سفر میں نماز کی ادائیگی ’ایک ایسی عورت کو دوبارہ نکاح کی اجازت جس کا شوہر طویل عرصے سے لاپتہ ہو (یاد رہے امام ابوحنیفہؒ کے مطابق ایسی عورت کو اسی سال انتظار کرنا چاہیے پھر نکاح کر لے۔ اگر ہمارے جیسی کوئی عورت امام صاحب کے زمانے میں ہوتی تو ضرور پوچھتی‘ جناب۔۔۔ 80 سال بعد وہ نکاح کرنے کی پوزیشن میں کہاں ہوگی!) شاید یہی وجہ تھی مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اپنے فتاوی میں یہ مدت کم کر کے ڈھائی سال کردی تھی جو قابل ستائش و فہم بھی ہے۔ (حوالہ۔ امداد الفتاوی جلد سوئم و بہشتی زیور)

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments