محمد عمر میمن: کچھ یادیں


چار دن کے بعد آصف فرخی کے مشورے کے مطابق میں نے انہیں فون اس یقین کے ساتھ کیا کہ انہیں کتابیں مل چکی ہوں گی۔ ان کا لہجہ خوشگوار نہیں تھا۔ آصف صاحب نے انہیں خبرکر دی تھی کہ کتابیں نکل چکی ہیں اور اب دس دن سے زائد ہوگئے تھے اورانہیں کتابیں نہیں ملی تھیں، انہوں نے شکوہ نہیں کیا لیکن لہجے کی ناخوشگواری میں ناراضگی صاف جھلک رہی تھی۔ یہ میری ان سے پہلی بات چیت تھی مجھے بے حد افسوس ہوا کہ وہ کتابوں کا انتظار کر رہے تھے اورمیں انہیں پڑھنے میں لگا ہوا تھا۔ کسی عالم کے لیے علم سے محرومی سے بڑا صدمہ کیا ہو سکتا ہے۔

کراچی واپسی پر پتہ چلا کہ وہ آصف صاحب پر سخت ناراض ہوئے تھے کہ کتابیں ان تک نہیں پہنچی تھیں، غلطی یقینی طور پر میری تھی اور ڈانٹ آصف صاحب کو پڑ گئی جسے وہ ہنس کربھول گئے۔

اس کے بعد سے یہ ہوا کہ میں جب بھی ان کے لیے کتابیں لایا انہیں فوراً ہی ڈاکخانے کے حوالے کردیتا تھا۔ کئی دفعہ توایسا بھی ہوا کہ امریکا پہنچتے ہی ائرپورٹ سے ہی ان کا بنڈل انہیں بھیج دیا تھا۔ ایک دفعہ تو انہوں نے فون کرکے خاص طور پر شکریہ ادا کیا کیوں کہ ان کی کتابوں کا بنڈل ان کے حساب سے انہیں بہت جلد مل گیا تھا۔ کتابوں سے ان کا لگاؤ اور پڑھنے کی عادت کا اندازہ ان کی باتوں سے ہوتا تھا۔ وہ نہ صرف یہ کہ پڑھتے تھے بلکہ پڑھنے کے بعد بعض معلومات کو بڑی شدت سے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔

کتابوں کے حوالے سے میں کبھی کبھی انہیں فون بھی کرتا تھا جو آہستہ آہستہ سے عادت بن گئی۔ امریکا میں قیام کے دوران ہفتے میں تین چار دفعہ ان سے فون پر طویل باتیں ہوتی تھیں۔ باتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ شکایتوں پرمشتمل ہوتا تھا جوان کے لحاظ سے جائز تھا مگر پاکستان وہندوستان کے حالات کودیکھتے ہوئے سو فیصد درست نہیں تھا۔ وہ امریکا میں رہ کر بعض معاملات میں امریکی رویے کے متقاضی تھے اور امید کرتے تھے کہ پاکستان میں بھی لوگ انہیں امریکی سمجھ کر امریکی انداز سے معاملات نبھائیں گے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تھا تو ان کو شکایت ہوتی تھی، جس کا وہ اظہار کردیتے تھے، کسی لگ لپٹ کے بغیر۔

عمر میمن صاحب نے زندگی امریکا میں گزاری جہاں عام طور پر لوگ وعدے کی پاسداری کرتے ہیں، ذمے داری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ وہ بہت محنتی آدمی تھے، جتنی شدت سے محنت کرتے تھے اتنا ہی ان کا خیال تھا کہ ان کی پذیرائی کی جائے۔ ہمارے سماج اورطریقہ زندگی میں اس قسم کی روایات کم ہیں کہ کسی کی پذیرائی اور انصاف پر مبنی تنقید ان کی زندگی میں ہی کی جائے۔ اچھا کام کرنے والوں کو جن کا کسی خاص حلقے سے رابطہ نہیں ہوتا، تسلیم کرنے میں بڑی مشکل ہوتی ہے، نا جانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میرا جواب سن کر شاہ فضل عباس نے پوچھا کہ مجھے صرف یہ پتہ کرنا ہے کہ کیا وہ بہت زیادہ شدت پسند مسلمان ہیں، طالبان کے حمایتی ہیں اور شریعت کا نظام چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں نے سوال کیا کہ خیریت توہے اس کی ضرورت کیوں پیش آ گئی۔ لیکن جواب یہ ہے کہ اب تک جتنی بات چیت میری ان سے ہوئی ہے اس سے تومیرا اندازہ یہ ہے کہ وہ سیدھے سادے مسلمان ہیں اور یقینی طور پر ان کا شمار کٹر قدامت پسند مسلمانوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مسلمانوں کی تباہی بربادی کا ذمے دار مسلمانوں کو ہی سمجھتے ہیں۔ جتنی بھی باتیں ان سے میری ہوئی ہیں انہوں نے کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف سازش کا ذکر کم از کم مجھ سے نہیں کیا۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچتے اور پریشان ضرور ہوتے ہیں۔

شاہ صاحب نے جواب دیا کہ اصل میں وہ انہیں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں بلانا چاہتے ہیں جس کا ذکر انہوں نے ستیہ پال آنند سے کیا تو وہ کہنے لگے ”یار وہ تو مولوی ہے طالبان کی طرح کا، اسے بلانے کا کیا فائدہ۔ “ میں نے سوچا کہ آپ سے پتہ کروں شاید آپ کوکچھ اندازہ ہو۔ گو کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ان کے مولوی ہونے یا نا ہونے سے ان کے کام کی اہمیت کم یا ختم نہیں ہوتی ہے، میں تو ویسے ہی پتہ کر رہا ہوں، ایک تجسس سا ہے۔

اپنا اندازہ تومیں نے انہیں بتادیا تھا مگر دوسرے دن میں نے عمر میمن صاحب کو فون کیا۔ ابتدائی بات چیت ان کی صحت کے حوالے سے ہوئی پھر میں نے انہیں بتایا کہ واشنگٹن میں کچھ اس طرح کی بات ہوئی ہے اور ستیہ پال آنند کا خیال ہے کہ آپ قدامت پسند مسلمان ہیں، طالبان کے حامی ہیں۔ ہمارے دوست شاہ صاحب اس بارے میں میری رائے پوچھ رہے ہیں تو انہیں کیا کہوں۔

تھوڑی دیر دوسری طرف خاموشی رہی پھر انہوں نے کہا۔ ارے ڈاکٹر صاحب یہ ساری شرارت انتظار حسین کی ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ہوا یہ کہ ایک دفعہ لاہورمیں انہیں ایک صاحب (جن کا نام میں بھول گیا ہوں ) ملے اورانہوں نے فرمائش کی کہ میں انہیں اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسس پڑھنے کے لیے دوں جومیرے پاس اس وقت نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ میں آپ کوامریکا سے بذریعہ ڈاک تو نہیں بھجواؤں گا لیکن کچھ مہینوں میں ہندوستان جاتے ہوئے مجھے واپس آنا ہے تومیں اپنے ساتھ لے کر آؤں گا اورآپ کو دے دوں گا۔

چند ماہ بعد جب میں آیا تو انہیں فون کرکے یہ طے ہوا کہ وہ لاہور میں ایک کتابوں کی دکان پرملیں گے جہاں میں انہیں اپنا تھیسس دے دوں گا۔ اسی دکان پر انتظار صاحب نے بھی آنا تھا جہاں ان سے ملاقات طے تھی۔ عجب اتفاق یہ ہوا کہ وہ صاحب دکان پر نہیں آئے تو میں نے اپنی کتاب جو کھلے ہوئے امریکی لفافے میں تھی کو انتظار صاحب کودیدی کہ وہ ان صاحب کودے دیں جنہیں وہ بھی جانتے تھے۔ پھر بعد میں کراچی آ گیا جہاں سے مجھے ہندوستان جانا تھا۔

لاہورمیں یہ ہوا کہ انتظار صاحب نے متعلقہ صاحب کو دینے سے قبل میرا تھیسس پڑھ ڈالا۔ اس دن کے بعد سے ان کا نہ صرف یہ کہ دوستانہ رویہ ختم ہوگیابلکہ ملنے جلنے اور بات چیت میں بھی غیرمعمولی کھنچاؤ آ گیا۔ عمر میمن صاحب نے کہا ڈاکٹر صاحب بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ پر پی ایچ ڈی کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں ابن تیمیہ کا پرستار بھی ہوں، ان کے خیالات سے متفق ہوں اوران کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے طالبان بن گیا ہوں یا طالبان کا حامی ہوں۔

انہوں نے کافی دکھ سے کہا کہ انتظار صاحب نے نہ صرف یہ کہ مجھے قدامت پسند مسلمان قرار دے دیا بلکہ مجھ سے یہ بھی منسوب کر دیا کہ میں شیعت اورشیعوں کے خلاف ہوں۔ اب آپ ہی بتائیں ڈاکٹر صاحب کہ جن دو آدمیوں کو میں نے انگریزی دنیا میں روشناس کرایا وہ شیعہ تھے۔ میں نے ان کے کام کی وجہ سے انہیں روشناس کرایا ناکہ ان کے اعتقادات کی وجہ سے۔ میرے کام یعنی ابن تیمیہ پر لکھے گئے تھیسس کی بناء پر مجھے قدامت پسند، شدت پسند اور طالبان سمجھا جائے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میرے کام اور مطلب کو نہیں سمجھتے۔ یہ ہے ساری رام کتھا میرے قدامت پسندی کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments