پائے لاگوں بانو آپا


یادوں کے دریچے وا ہوتے ہیں تو کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ ایک ایسی ہی یاد کا ذکر ہے۔ ایک روز ابا گھر آتے ہی بولے :

”آج ہم سب کو کسی کے گھر جانا ہے۔“

امی نے ہم سب بچوں کو اچھے کپڑے پہنائے اور تیار کیا۔ اس وقت ہم کرشن نگر میں رہتے تھے۔ بس میں سوار ہو کر ہم دور کی ایک بستی ماڈل ٹاؤن کے ایک بڑے سے گھر جا پہنچے۔ یہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے نئے نکور گھر ”داستان سرائے“ کی شاید افتتاحی تقریب تھی، جس میں انہوں نے کچھ دوستوں کو مدعو کر رکھا تھا۔ اتنا بڑا خوبصورت اور شاہانہ گھر دیکھ کر میں تو حیرت زدہ رہ گئی۔ پرتکلف کھانا کھانے کے بعد ہم سب کو پورا گھر گھمایا پھرایا گیا۔ اشفاق صاحب نے ہمیں اپنا ریکارڈنگ سٹوڈیو بھی دکھایا جہاں وہ غالباً اپنے ریڈیو پروگرام ”تلقین شاہ“ کی ریکارڈنگ کیا کرتے تھے۔ میں تو اس بات سے بھی بہت متاثر ہوئی کہ گھر میں ہی سٹوڈیو موجود ہے، واہ کیا بات ہے۔

یہ دو مقبول زمانہ تخلیق کاروں کا آشیانہ تھا، کیا ہی اچھی بات تھی۔ پھر اشفاق صاحب نے اپنا فرنٹ لان دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس میں بلیو گراس لگوائی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں سوچ رہی تھی، یہ گھاس نیلی تو نہیں سبز ہی ہے، تو پھر یہ اسے بلیو گراس کیوں کہہ رہے ہیں؟ بعد میں جا کے علم ہوا کہ اس گھاس کا نام ہی بلیو گراس ہے۔ جب اشفاق صاحب نے بتایا کہ یہ گھاس ڈھاکہ سے جہاز کے ذریعے منگوائی گئی ہے تو بہت سوں نے حیرت کے مارے انگلیاں ہونٹوں میں داب لیں۔ کھانے کے بعد میوزک کا دور چلا، جس میں ہم بہنوں نے امی کے ساتھ مل کر گانے سنائے اور بانو آپا کے بیٹوں نے طبلہ بجایا۔ بانو آپا نے اس روز تنگ پاجامہ پہن رکھا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس دن کے بعد انہوں نے ہم بہنوں کو ہمیشہ بانسریاں کہہ کر پکارا۔

اس کے بعد سے وہاں ہمارا باقاعدہ آنا جانا شروع ہو گیا۔ مفتی جی جب بھی اسلام آباد سے لاہور آتے ان کا قیام ”داستان سرائے“ میں ہی ہوتا اور وہ آتے ہی آواز لگاتے ”مجھے ملنے آؤ۔“ میں اور پروین عاطف بھاگے دوڑے داستان سرائے پہنچ جاتے۔ اس ادبی ٹولے کے ساتھ بیٹھ کر بابوں، پراسرار ہستیوں کے تذکرے سننا بڑا اچھا لگتا، نامعلوم حقیقتوں کو جاننے کا تجسس بڑھتا رہا اور پہلے سے بہت سا سیکھا ہوا علم مسترد ہونے کے عمل سے گزرتا رہا۔

جب میں نئی نئی افسانہ نگار بنی تو سب کی طرح میرے دل میں بھی مقبولیت اور شہرت حاصل کرنے کے بڑے ارمان تھے۔ میری اولین کتاب ”گلابوں والی گلی“ کے افسانے پہلے ہی سے پذیرائی حاصل کر چکے تھے۔ میں اٹھلاتی ہوئی اشفاق صاحب کے پاس گئی اور کتاب کا دیباچہ لکھنے کی درخواست کی جو انہوں خندہ پیشانی سے قبول کر لی۔ انہوں نے چند دنوں بعد ایک حوصلہ افزا قسم کا مضمون لکھ کر میرے حوالے کیا تو میں خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ پھر دو تین روز بعد اچانک اشفاق صاحب کا فون آیا کہ ”کاکی واپس آ“

میں بھاگی بھاگی داستان سرائے پہنچی۔ انہوں نے مضمون کو غور سے پڑھا، ایک پیرا چھوڑ کے سارا کاٹ دیا اور کہا
”میں نے تیری کچھ زیادہ ہی تعریف کر دی تھی۔“

پھر منو بھائی نے کسر پوری کردی اور میری کہانیاں پڑھ کر کھل کھلا کے مجھے ”منٹو کی پٹھی“ کا خطاب دے دیا جو آج بھی میرے لئے ایک اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے۔

بانو آپا اور اشفاق صاحب کی ہماری فیملی سے بہت قربت تھی۔ مفتی جی وہ دھاگہ تھے جس میں اشفاق، بانو، انشا، شہاب، احمد بشیر اور پھر ان کی آل اولاد کے تعلق کی مالا پروئی رہتی تھی۔ پروین عاطف بانو کی مریدنی اور بہت معتقد تھیں۔ اکثر ان کے قدموں میں بیٹھی رہتیں۔ میں بھی ساتھ ہوتی مگر ذرا فاصلے پر رہ کر ان کی تصانیف، طاقت، تحریر و گفتار، عقل و دانش کو دل ہی دل میں سراہتی رہتی۔ میری عقیدت کبھی اس درجے کو نہ پہنچی جس میں صرف اندھا یقین اور اعتماد ہو۔ اس کی وجہ یقیناً یہی رہی ہو گی کہ مجھ میں میرے ابا احمد بشیر کی شخصیت سے مستعار لئے ہوئے شک و شبہ اور رد کرنے والے جذبے سرسراتے رہتے تھے۔

ان خوبصورت ادبی شخصیات کے ساتھ میری بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں مگر آج میں کچھ ایسا لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں جس کے لئے میں کئی برس سوچتی رہی کہ لکھوں یا نہ لکھوں؟ صبر کروں، پی جاؤں یا کہہ ڈالوں؟ پھر سوچا کہ سچ کو ضرور لکھنا چاہیے۔ اک تھوڑا سا گلہ ہے اس ہستی سے، جس کے ادبی قد و قامت کا اک زمانہ گرویدہ اور معتقد ہے۔ ادب کے ہر قاری اور متوالے کی طرح میں بھی بانو آپا کو اپنا استاد اور گرو مانتی ہوں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ عورتوں کے بارے میں جو نظریات رکھتی تھیں وہ میری فکر اور سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے۔

محترمہ بانو قدسیہ اپنی تحریروں میں عورتوں کو سڑک پر بکھری ہوئی ٹافیاں اور کھلا گوشت تک کہہ چکی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مرد معصوم اور عورت اکثر چلتر باز ہوتی ہے۔ اگر مرد عورت کو دیکھ کر للچا جاتا ہے تو اس کی ذمہ دار بھی عورت ہوتی ہے۔ ذاتی ملاقاتوں میں بھی وہ یہی کہتی تھیں کہ ہر خانگی اور خاندانی مسئلے کا حل عورت کے پاس ہی ہوتا ہے۔

ایک بار میں اور میری ایک دوست ان سے ملنے گئیں۔ اس وقت ہم دونوں شدید قسم کے بحران سے گزر رہی تھیں اور ان سے رہنمائی چاہتی تھیں۔ انہوں نے ہماری پوری بات بھی نہ سنی اور نہ ہی جائز شکایات کو خاطر میں لائیں۔ بالکل ہی حتمی انداز میں ہمیں مشورہ دیتے ہوئے بولیں :

”گھریلو زندگی کا دار و مدار صرف اور صرف عورت پر ہوتا ہے۔ مرد تو گھر میں آیا گیا بندہ ہے۔ تم لوگ اس کی ہر بات کو قبولیت بخشو۔ گھر سے باہر کی ہر دلچسپی چھوڑ دو، بس گھر بیٹھ جاؤ اور لب سی لو۔“

مجھے لگا جیسے بانو آپا کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ہر کسی کی ذاتی زندگی منفرد اور الگ ہوتی ہے۔ ہر گھر کی اپنی ہی ایک کہانی ہوتی ہے۔ ہر گھر پر ایک ہی کلیہ لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

تو میں نے کہا:
”گھر بیٹھ جائیں تو باہر کے کام کون کرے گا؟ بل کون دینے جائے گا؟ سودا کون لائے گا؟ بچوں کو سکول سے پک ڈراپ کون کرے گا؟“
بولیں : ”بس کچھ بھی ہو، عورت کو گھر سے باہر قدم نہیں نکالنا چاہیے۔“

شاید انہیں آج کی مڈل کلاس، پڑھی لکھی، باشعور مگر ذہنی طور پر خود مختار عورت کی مشکلات اور شریک حیات سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے آزار کا کوئی ادراک ہی نہ تھا۔ ان کی طرح میں ایک نوازی ہوئی عورت نہ تھی۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی دلچسپی کا کام بھی جاری رکھنا چاہتی تھی مگر یہ ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔

بانو آپا ایک مراعات یافتہ بیوی تھیں۔ خاوند ممد و مددگار، جس سے ان کی وابستگی اور جڑت بے مثال تھی۔ گھر میں رسوئی، ہیلپر، مالی اور دیگر کئی نوکر چاکر تھے جس کی وجہ سے ان کا مسلسل یوں کام کرنا ممکن ہو پایا۔ ذہن زرخیز، مواقع بے شمار اور پذیرائی از حد، سو وہ پھلتی پھولتی چلی گئیں۔ ان کا لکھا ہوا ہر لفظ اردو ادب کی آبرو بنتا چلا گیا مگر ہر عورت کا نصیب ایسا تو نہیں ہوتا۔ مسلسل لکھنے کا جیسا چلن ان کے گھر میں تھا، ہر لکھاری کے ہاں نہیں ہوتا۔ انہوں نے رج کے لکھا اور خوب نام کمایا۔ اتنی ذہین فطین خاتون کو جانے یہ احساس کیوں نہیں تھا کہ غیر موافق ازدواجی حالات کے طوفان گو کہ مرد عورت دونوں کو ہی اپنی جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں مگر زیادہ اذیت عورت کے ہی حصے میں آتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments